ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیاہےجیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ‘‘فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ (صحیح مسلم :۲۹۹۶) اوراللہ تعالی نے انہیںمخصوص ہیئت و کیفیت پربنایا ہےلیکن یہ نہ سمجھنا کہ فقط روح یا طاقت و قوت ہی کا نام ملا ئکہ ہے بلکہ یہ غیبی مخلوق اورتربیت یافتہ بندے ہیں ، انہیں اللہ تعالی نے اپنی عبادت اور فر ماں برداری کے لئے پیدا کیا ہے، وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیںاور اللہ تعالی کی عبادت کرنے میں ذرہ برابرکوتاہی نہیں کرتے ،
ان کی عبادتوں میںتسبیح ، سجدے ، خوف اور ڈر وغیرہ شامل ہیں ، اللہ تعالی فرماتا ہیں {لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں۔ (التحریم :۶) اور یہ بھی فر مایا {وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ}یقیناً آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے۔ (النحل :۴۹) اور فر مایا {وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ}اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا۔ (الزمر :۷۵) اور نہ صرف یہ کہ یہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں بلکہ عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ {يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ}اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ (النحل :۵۰)
فرشتوں کی عبادت کا ایک حصہ اللہ کے لئے دوستی کرنا اور اللہ ہی کے لئے محبت کرنا بھی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الأَرْضِ‘‘ جب اللہ بندے سے محبت کرتا ہے تواللہ جبرئیل سے کہتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے لہدا تم بھی اس سے محبت کرو تو جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر جبرئیل آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے لہذا تم سب اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کے لئے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۲۰۹، صحیح مسلم :۲۶۳۷، جامع الترمذی : ۳۱۶۱) فرشتے اللہ تعالی ہی کے لئے دشمنی کرتے ہیں اور اللہ ہی کے لئے بغض رکھتے ہیں ، اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں غیرت کا اظہار کرتے ہیں،جو اللہ کی نظرمیں ملعون ہے اس پر فرشتے بھی لعنت بھیجتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ }یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مرجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (البقرۃ :۱۶۱) اوراللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں پر فرشتوں کو بھی غیرت آتی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ تَمَاثِيلُ أَوْ تَصَاوِيرُ ‘‘ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویریں ہوتی ہیں ۔ (صحیح مسلم :۲۱۱۲)
فرشتوں کو اللہ تعالی نے ایسی ہیئت میں بنایا ہے کہ ان کی حقیقت وہی جانتا ہے، اس کے علاوہ کو ئی نہیں جان سکتاہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ‘‘ مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں اس کے کان کی لو سے اس کے کاندھے تک کا فاصلہ سات سو برس (کی مسافت کے برابر) ہے ۔ (سنن أبی داؤد : ۴۷۲۷ ، مشیخۃ إبن طہمان :۲۱، معجم الأوسط للطبرانی : ۱۷۰۹ ، العظمة لأبِي الشيخ : ۳۱۳)
ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے پر بنایا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ}اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو [ابتداء] آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر [قاصد] بنانے والا ہے، مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے ۔ (الفاطر :۱) اور عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ‘‘ یقینا محمد ﷺ نے جبرئیل کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے پاس چھ سو پر تھے ۔ (صحیح بخاری :۴۸۵۷ ، صحیح مسلم : ۱۷۴، جامع الترمذی : ۳۲۷۷) ان کے پاس بھی دل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ } یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔ (سبأ :۲۳)
اور اللہ تعالی نے انہیں انبیاء و رسل کے پاس کسی کی بھی انسان کی شکل میںآنے کی اجا زت دیا ہے اسی لئے فرشتے لوط اورابراہیم علیہما السلام کے پاس ان جان اور نا آشنامہمانوں کی شکل میںآئے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ (۲۴) کیا تجھے ابراہیم [علیہ السلام] کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟ (۲۴) إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ (۲۵)} وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا [اور کہا یہ تو] اجنبی لوگ ہیں(۲۵) ۔ (الذاریات :۲۴-۲۵) اور فر مایا {وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ } جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے ۔ (ھود :۷۷) اسی طرح جبرئیل علیہ السلام جب مریم علیہا السلام کے پاس آئے تو اول وہلہ میں وہ بھی انہیں نہ پہچان سکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کا قصہ بیان کرتے ہو ئے فرمایا {فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (۱۷) پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح [جبرائیل علیہ السلام] کو بھیجا پس وہ اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ﻇاہر ہوا (۱۷) قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا (۱۸) قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ } یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو کچھ بھی اللہ سے ڈرنے والا ہے (۱۸) اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں۔ (مریم : ۱۷-۱۹) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا کہ ’’ وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صُورَةِ دِحْيَةَ‘‘ جبرئیل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس دحیہ کی صورت میں آتے تھے ۔ ( مسند أحمد :۵۸۵۷، تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي:۳۷۲، الإبانة الكبرى لابن بطة: ۸۳۱)
فرشتے کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں کیوں کہ انہیں کسی چیز کی خواہش نہیں ہوتی ہے ، اسی لئے جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے توانہوں نے ان کے پاس کھانا پیش کیا لیکن وہ نہیں کھا ئے جیسااللہ تعالی نے ان حقیقت کی وضاحت بایں الفاظ کیا ہے { فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (۲۶) پھر [چپ چاپ جلدی جلدی] اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے [کا گوشت] ﻻئے (۲۶) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (۲۷) اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں (۲۷) فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ (۲۸) } پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوفزدہ ہوگئے انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے۔ اور انہوں نے اس [حضرت ابراہیم] کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔ (الذاریات: ۲۶-۲۸) فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ‘‘ کیا میں ایسے آدمی سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم :۲۴۰۱)
جن چیزوں سے عام انسان تکلیف محسوس کرتا ہے ان سے فرشتے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ، الثُّومِ - وقَالَ مَرَّةً: مَنْ أَكَلَ الْبَصَلَ وَالثُّومَ وَالْكُرَّاثَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ بَنُو آدَمَ‘‘ جو یہ درخت یعنی لہسن کھا ئے اور ایک بار کہا جو پیاز ، لہسن اور گند،نا کھا ئےوہ ہماری مسجد سے قریب نہ ہو کیوں کہ فرشتے بھی اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری :۸۵۴، صحیح مسلم :۵۶۴ ،اور اس کے الفاظ صحیح مسلم ہی کے ہیں ، سنن أبی داؤد: ۳۸۲۲، جامع الترمذی :۱۸۰۶، سنن النسائی :۷۰۷، سنن ابن ماجۃ : ۳۳۶۵ )
اللہ نے انہیں اتنی طاقت عطا کیا ہے کہ انسانی فکر وہاں تک پہونچ ہی نہیں سکتی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ}جو قوت والا ہے عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ (التکویر :۲۰) اور ایک اور مقام پر فرمایا {عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ }جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔ (التحریم :۶) ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگا ئیے کہ اللہ تعالی کے حکم پر ایک ہی فرشتےنے قوم لوط کی تمام بستیوں کو پلٹ دیا تھا(وہ کل سات بستیاں تھیں ) جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ} پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر زبر کردیا اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ (ھود :۸۲)
فرشتے بے شمار ہیں ، ان کی تعداد لا محدود ہے ، ان کی صحیح تعداد وہی جانتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ فَرُفِعَ لِي البَيْتُ المَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا البَيْتُ المَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ ‘‘ میرے لئے بیت معمور کو بلند کیا گیا تو میں نے جبرئیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ بیت معمور ہے ، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں ، جب وہ وہاں سے نکل جا تے ہیں تو دو بارہ اس کی طرف واپس نہیں ہو تے ۔ (صحیح بخاری : ۳۲۰۷، صحیح مسلم :۱۶۴، جامع الترمذی : ۳۳۴۶، سنن النسائی : ۴۴۸)
اور ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ أَطَّتِ السَّمَاءُ، وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ.....‘‘بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہےہو اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سن رہے ہو ،آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق دیا گیا ہے، (اس لیے کہ) اس میں چار انگلیوںکے برابر جگہ نہیں ہے مگر ایک فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے لئےسجدے میں رکھے ہوئے ہے۔ (جامع الترمذی :۲۳۱۲، سنن ابن ماجۃ : ۴۱۹۰ ، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۷۰۴۴، مسند أحمد : ۲۱۵۱۶، مسند البزار : ۳۹۲۴، ۳۹۲۵)
اور دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے ’’يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا‘‘ جہنم کو اس دن لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کے ستر ہزار لگام ہو ںگے اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔ ( صحیح مسلم :۲۸۴۲، جامع الترمذی : ۲۵۷۳)
مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، تو اللہ تعالی نے ان کی تکذیب کرتے ہو ئے فرما یا: {أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ } یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا ۔ (الصافات :۱۵۰ ) اور اس قول کے ذریعہ بھی ان کی تردید کیا {أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا}کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیں؟ بےشک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو ۔ ( الإسراء : ۴۰)