اللغات المتاحة للكتاب English پښتو اردو

كتاب الإيمــان بالله

ur

ایمان باللہ کا بیان

ملخص الكتاب

ur

خلاصہ کتاب

ونؤمن بأن الله هو الأول، فليس قبله شيء، وهو الآخر فليس بعده شيء، وعرّفنا بنفسه أنه هو الذي خلق السموات والأرض، وأنه هو المالك الحق للسموات والأرض، وأنه يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل سبحانه وتعالى، وأن هذا الكون المشهود شاهد على أنه هو الموجِد الخالق له وحده ولا خالق معه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی سب سے پہلے ہے ، اس کے پہلے کو ئی چیز نہیں اور اللہ ہی سب سے آخر ہے ، اس کے بعد کو ئی چیز نہیں ، جب ہم اللہ کا تعارف پیش کرتے ہیںتو کہتے ہیں کہ وہی آسمان اور زمین کا خالق ہے ، وہی آسمان اور زمین کا حقیقی مالک ہے ، وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، یہ موجودہ کائنات اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا ئنات کا موجد اور خالق وہی اکیلا اللہ ہے ، اس کے علاوہ کو ئی اور اس کا خالق نہیں ہے ۔

وذكر من آياته الدالة على أنه هو الموجد الخالق لهذا الكون دلائلَ كثيرةً لا يُحاط بها، وأقام الحجة علينا بما نراه في أنفسنا وبما نراه مِنْ حولنا.

ur

اسی لئے وہ نشانیاںبھی ذکر کر دی گئیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کا ئنات کا موجد اور خالق وہی اللہ ہے اور دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے اور اللہ تعالی نےہم پر اسی چیز کے ذریعہ حجت قائم کیا ہے جو ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں ۔

ونؤمن بما آمنت به الأنبياء والمرسلون، ونستيقن بما أتوا به من الأدلة والبراهين الدالة عليه سبحانه وتعالى.

ur

ہمارا ان تمام چیزوں پر ایمان ہے جن پر انبیاءو رسل کاایمان تھا اور اللہ سبحانہ و تعالی کے وجود پر دلالت کرنے والی تمام دلیلوں پر ہمارا یقین ہے ۔

ونؤمن أن الله هو الخالق، ولم يخلق خلقه عبثًا؛ بل كان خلقًا محْكمًا لغاية عظيمة.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کوبھی بے کار پیدا نہیں کیا اور اس کی تخلیق اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عمدہ تخلیق ہے ۔

إلى غير ذلك مما ورد كثيرًا في القرآن الكريم -كما في «سورة الأنعام» و«النحل» وغيرهما- من الدلائل التي لا تحصى، والشواهد التي لا تحصر، وكلها دالة على وجوده وربوبيته، وهي دلائلُ عقليةٌ، وبراهينُ عظيمةٌ، لا يستطيع أحد أن يـأتي بمثلها أو قريب منها، وهي في تنوُّعها مناسبة لجميع الخلق، كافية في إقامة الحجة عليهم، ولو جحد الكافرون، وكره المبطلون، وهل عند الكافر دليل إلا الإنكار والجحود؟!

ur

اس کے علاوہ اللہ تعالی کے وجود اور اس کی ربوبیت پر دلالت کرنے والی اور بھی بہت سے بے شمار دلائل و شواہدقرآن مجید میں موجود ہیں اور یہ ساری دلیلیں عقلی ہیں اور اہم ہیں ،اگر کوئی ان کی طرح یا ان سے ملتی جلتی کوئی اور دلیل لانا چاہے تو نہیں لا سکتا اور یہ ساری چیزیں مخلوق کے موافق ہیں اورسب بطوردلیل کافی ہیں ، گرچہ کافراس کاانکار کریں اورباطل پرست انہیںنا پسند کریں ، در اصل کافروں کے پاس سوائے انکار کے کوئی اوردلیل ہی نہیں ہے ۔

ونؤمن بأن الله واحد في ربوبيته، وبأنه هو الخالق وحده، وهو الذي بدأ الخلق ولم يشاركه فيه أحد، وأن الله يخلق بأمره سبحانه وتعالى، ويخلق سبحانه وتعالى بما يشاء من الأسباب، وأن كل ما سواه مخلوق.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اپنی ربوبیت میں اللہ ایک ہے ، وہی اکیلا خالق ہے ، اسی نے تخلیق کی ابتدا کیا اور اس کی تخلیق میں اس کاکو ئی شریک نہیں ہے ، اللہ تعالی اپنے حکم سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور اسی کے ساتھ حسب منشا اسباب پیدا کرتا ہے ، اس کے علاوہ تمام چیزیں مخلوق ہیں ۔

ونؤمن بأن الله رب كل شيء وخالقه ومدبره، ومالكه، وهو المتصرف فيه، ولا يملك أي مخلوق تدبير أمر نفسه، أو تدبير أمر غيره إلا ما أقدره الله عليه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا رب ، خالق اور مدبرہے ، وہی اس کا خالق اور مالک ہے ، وہی اس میں تصرف کرنے والا ہے ، اس کے حکم اور اس کی تدبیر میں یا اس کے علاوہ کی تدبیر میں کسی کی ملکیت نہیں ہے سوا ئے اس کے جسے اللہ اس پر مقدر کردے ۔

ونؤمن بأنه هو المالك الحق، وما سواه مملوك، وكل مَلِكٍ فملكه باطل أو مؤقت زائل.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ وہی حقیقی مالک ہے ، اس کے علاوہ سب مملوک ہیں ، اس کے علاوہ ہر بادشاہ کی ملکیت باطل ہے یا مؤقت اور زائل ہونے والی ہے ۔

ونؤمن أن الله هو المحيي المميت وحده سبحانه، وأنه هو الذي خلق الموت والحياة، وأنه هو الذي يتوفى الأنفس.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اکیلا اللہ ہی زندہ کرنے اور مارنے والا ہے ، اسی نے موت و حیات کو پیدا کیا ، اور وہی لوگوں کو موت سے دوچار کرتا ہے ۔

ونؤمن أنه هو الرزاق ذو القوة المتين، فلا رازق غيره، ولا كافي سواه. ونؤمن بأنه سبحانه قد أحاط بكل شيء علمًا، فلا يعزب عن علمه صغير أو كبير، وأنه سبحانه وتعالى عالم الغيب والشهادة.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ وہی رزاق اور ذو القوۃ المتین ہے ، اس کے علاوہ کو ئی روزی رساں نہیں ہے اور نہ اس کے علاوہ کو ئی کفایت کرنے والا ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے علمی اعتبار سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے ، چھوٹی ہو یا بڑی ہر چیز کا جاننے والا ہے ، وہی غیب اور شہادت کا جاننے والا ہے ۔

ونؤمن بأنه تعالى قد قهر كل شيء عزة وحكمًا.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ وہ عزت اور حکم کے اعتبار سے ہر چیز پر غالب ہے ۔

ونؤمن بأن الرب جل شأنه له الخلق والأمر، فلا رب سواه، ولا مشرِّع غيره، فهو الذي خلق الخلق، وشرع الشرائع، وفرض الفرائض، وبيَّن الدين، وهو المالك لهم، وهو القادر وحده على حسابهم وجزائهم.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جل شانہ ہی کے لئے پیدا کرنا اور حکم دینا ہے ، اس کے علاوہ کو ئی رب نہیں ہے ، اس کے علاوہ شریعت سازی کا حق دارکوئی نہیں ہے ، وہی شریعت سازی کرتا ہے ، فرائض سے روشنا س کراتا ہے ، دین کی وضاحت کرتا ہے ، وہی اللہ ساری مخلوق کا خالق ہے ، اسی نے ان کے لئے احکام مرتب کیا ہے، وہی ان کا مالک ہے اور وہی اکیلا ان کے حساب و کتاب پر قادر اور مستحق ہے ۔

ونؤمن بأن الرب جل شأنه خالق العباد، وخالق أفعالهم.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی بندوں کا بھی خالق ہے اور بندوںکے افعال کا بھی خالق ہے ۔

ونؤمن أن الإيمان بربوبية الله فقط لا يكفي الإنسان لأن يكون مؤمنًا، وهذا الإيمان لا يدخل صاحبه الجنة؛ لأنه لم يؤمن أن الله هو المعبود الحق، وألا يعبد إلا الله وحده.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ مومن ہونے کے لئے انسان کا صرف توحید ربوبیت پر ایمان لے آنا کافی نہیں ہے ، توحید ربوبیت صرف جنت میں داخلہ نہیں دلا سکتابلکہ اللہ کے حقیقی معبودہونے پر ایمان لانا ضروری ہے یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جا ئے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جا ئے ۔

ونؤمن بأن الله واحد في ألوهيته، وأنه لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأنه هو الحق، وأن ما يدعون من دونه الباطل. وهذا الأمر العظيم هو الذي من أجله أنزل الله الكتب، وأرسل الرسل، وخلق الجنة والنار، وأجمعت عليه جماهير علماء الأمة، ودلت عليه الفطرة، وشهدت له العقول السليمة. ونعلم علم اليقين أن أساس دعوة الأنبياء لأقوامهم هي: دعوتهم لعبادة الله وحده، وترك عبادة ما سواه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اپنی الوہیت میں بھی یکتا اور اکیلا ہے ، اس کے سوا کو ئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس کا کو ئی شریک نہیں ، وہی حق ہے ، اس کے علاوہ جسے لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہے ، یہ بہت بڑا امر ہے اور اسی لئے اللہ تعالی نے کتابیں نا زل کیا ، رسولوں کو مبعوث کیا ، جنت اور جہنم پیدا کیا ، اس پر تمام جمہور علماء کا اتفاق ہے اور فطرت سلیمہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ، عقل سلیمہ نے اسی کی گواہی دیا ہے ، ہمیں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ معلوم ہے کہ تمام انبیاء کے دعوت کی بنیاد یہی توحید ہوا کرتی تھی ، سارے نبیوں نے اپنی امت کو یہی دعوت دیا کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سو ا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔

والعبادة الحقة هي ما كانت لله رب العالمين، موافقة لهدي سيد المرسلين؛ لأن عبادة كل معبود سواه باطلة.

ur

اور یہ بات یاد رہے کہ وہی عبادت حقیقی عبادت ہوگی جو اللہ رب العالمین کے لئے ہو اور جو نبی اکرم ﷺ کی سنت کے موافق ہو کیوں کہ اللہ کے علاوہ ہر معبود کی عبادت باطل ہے ۔

وهذا الركن الركين والأساس المتين من دين الله - وهو إثبات الألوهية لله وحده ونفي العبادة عما سواه- هو قطب رَحَا الدين، وعماد دعوة المرسلين، ومعناها: إفراد الخالق بأعمال الخلق.

ur

یعنی تنہا اللہ کے لئے الوہیت کو ثابت کرنا اور اس کے علاوہ کی عبادت کا انکار کرنا ہی دین الہی کی مضبوط بنیاد اور رکن رکین ہے، یہی دین کا محور و مرکز اور دعوت انبیاء کی اساس ہے یعنی مخلوق کے تمام اعمال کا خالق اکیلا اللہ ہے ۔

وفي القرآن كثيرًا ما يحتجُّ الله على العباد بآيات ربوبيته التي تستلزم عبادته وحده، سبحانه وتعالى.

ur

قرآن مجید میں توحید ربوبیت پر دلالت کرنے والی بہت ساری آیتیںجنہیں اللہ بندوں پر بطور دلیل پیش کرتا ہےوہ اللہ واحدکی عبادت یعنی توحید الوہیت کوبھی مستلزم ہیں ۔

ونؤمن بأن الخالق لهذه الآيات الكونية الكبرى هو وحده سبحانه، وكما أنه ليس معه خالق فلا ينبغي أن يُعْبد غيره.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ واحد ہی کائنات کی تمام بڑی بڑی نشانیوں کا خالق ہےاورجب اس کے علا وہ کوئی اور خالق نہیں ہے تو اس کے علاوہ کوئی اور عبادت کے لائق بھی نہیں ہے ۔

وقد نوَّع الله في الأدلة التي نصبها شواهدَ على ألوهيته تنويعًا تقوم به الحجة، وتتضح به المحجة؛ لئلا يكون للناس على الله حجة.

ur

اللہ تعالی نے توحید الوہیت کے سلسلے میں ساری دلیلیں مختلف انداز میں پیش کیا ہے تاکہ ان پر حجت قائم کیا جا سکے اور ان پر حجت تمام ہو سکے اور اس لئے بھی کہ لوگوں کے لئے اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے ۔

والإقرار لله بالألوهية، مع الشهادة للرسول صلى الله عليه وسلم بالرسالة هو الذي جعله الله حدًّا في عصمة الدماء، وحفظ الأنفس.

ur

توحید الوہیت کا اقرار اور نبی ﷺکے رسالت کی گواہی پر ہی جان و مال اور عزت کی حفاظت ہے ۔

ولا بد مع الإيمان بالله من الكفر بالطاغوت، والبراءة من الشرك وأهله.

ur

اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ طاغوت ،شرک اوراہل شرک کا انکار بھی ضروری ہے

وهذا الإيمان لا يكفي أن يكون في القلب، بل لا بد أن ينطق به اللسان، ولا يتحقق الإيمان حتى تعمل به الجوارح، ويتفاوت الإيمان في القلب زيادة ونقصًا.

ur

اور ایمان کا دل میں ہونا کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے اس کااقرار کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے کیوں عمل بالأرکان کے بغیر ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوگا ، دل میں موجود ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے ۔

وهذا الإيمان لا بد أن يكون العبد فيه مخلصًا لله رب العالمين، وأن يكون مستيقنًا غير شاكٍّ، وأن يكون إيمانه عن علم وإخلاص وقبول، واستسلام وانقياد وصدق في قوله وفعله واعتقاده، مع الحب لهذا الدين، ومَنْ شرعه، ومَنْ جاء به، ومَنْ دان به.

ur

ایمان کے سلسلےمیں بندے کا اللہ رب العالمین کے لئے مخلص ہونا ضروری ہےیعنی بندے کو پورا یقین ہو، کسی بھی قسم کاکوئی شبہ نہ ہو ، اس کا ایمان علم ، اخلاص ، قبول ،فرماں برداری ، انقیاد اور قولی و فعلی ہر اعتبار سے سچائی پر مشتمل ہو ، ساتھ ساتھ اس دین سے، اس دین کے قوانین سے، اس دین کے لانے والے اور اس دین کی اتباع کرنے والے سے محبت ہو ۔

وكما بيَّن الله حقيقة الإيمان ومقتضاه وأركانه وشرائطه، فقد نقض شُبَه المشركين المعاندين، وبين أن ليس لهم حجة في شركهم؛ لأن هؤلاء الأنداد مخلوقون مُدَبَّرون لا يخلقون شيئًا، ولا يملكون مثقال ذرة في السموات ولا في الأرض.

ur

جس طرح اللہ تعالی نے ایمان کی حقیقت ، اس کا تقاضا اور اس کے ارکان اور شروط کی وضاحت کردیاہے اسی طرح مشرکین کے شبہے کا ازالہ بھی کردیا ہے اوربتا دیا ہےکہ ان کے پاس ان کے شرکیہ اعمال میں کوئی حجت نہیں ہے کیوں کہ یہ جنہیں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ سب مخلوق ہیں ،وہ کچھ پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں ، وہ آسمان اور زمین میں ذرہ برابر کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں ۔

وبين الحق أن هؤلاء الأنداد المعبودين من دون الله لا يسمعون دعاء من دعاهم، ولو سمعوا ما استجابوا لهم، ويوم القيامة يكفرون بشركهم، ويتبرؤون منهم.

ur

اللہ تعالی نے واضـح کردیا ہے کہ یہ شرکاء جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے وہ کسی پکارنے والے کی پکار نہیں سن سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے ، بروز قیامت یہ شرکاء ان کے شرک کا انکار اور ان سے برأت کا اظہار کریں گے ۔

كما بين الحق أن هؤلاء الأنداد المعبودين من دون الله لا ينفعون ولا يضرون، فكيف يُعْبدون من دون الله؟!

ur

اسی طرح اللہ تعالی نےیہ بھی واضـح کردیا ہے کہ یہ شرکاء جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے وہ نفع و نقصان سے دو چارنہیں کر سکتے ہیں تو جب ان معبودان باطلہ کی یہ کیفیت ہے تو وہ اللہ کے علاوہ عبادت کے لا ئق کیسے ہو ئے ؟

وأبطل الله عبادة الملائكة، وبين أنهم -مع أنهم مقربون لله- لا يشفعون إلا من بعد إذنه، فإذا كانت هذه حال الملائكة، فكيف يُعْبدون من دون الله؟!

ur

اللہ تعالی نے فرشتوں کی عبادت کو باطل قرار دے کر یہ بتا دیا کہ اللہ کے اتنا قریب ہونے کے باوجود فرشتے بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکتے ، توجب فرشتوں کی یہ حالت ہے تو جن کی عبادت اللہ کے علاوہ کی جاتی ہےوہ عبادت کے لا ئق کیسے ہو ں گے ؟

والأنبياء والمرسلون عليهم السلام -مع علو مقامهم في الدنيا والآخرة- لا يملكون لأنفسهم نفعًا ولا ضرًّا، فكيف بمن دونهم؟!

ur

اسی طرح انبیاء و رسل بھی جن کا مقام دنیا و آخرت میں کافی بلند ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو وہ شخص کیسے ہوگا جو ان سے بھی مرتبہ میں کم ہے ؟

ونؤمن بأن الله واحد في صفاته ونعوت كماله وجلاله سبحانه وتعالى، وأن الله سبحانه وتعالى له الأسماء الحسنى والصفات العلى، تشهد له بذلك العقول الكاملة، وتسلم له بذلك الفِطَر السليمة، وأجمع على ذلك علماء أمة الإسلام، بل كل الرسالات الإلهية جاءت ببيان صفات الله وأسمائه وأفعاله سبحانه وتعالى، وعاب الله آلهة المشركين بأنها لا تسمع ولا تبصر.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اپنی صفات و کمالات اور اپنی جلالت میں یکتا اور اکیلا ہے ، اللہ تعالی ہی کے لئے اچھے اچھے نام اور بہترین صفات ہیں ، عقل کاملہ اس بات پر شاہد اور فطرت سلیمہ اسے قبول کرتی ہےاور تمام علماء امت کااس بات پر اجماع بھی ہے بلکہ ہر پیغام الہی میں اللہ کے صفات ، أسماء اور اس کے افعال کی جھلک موجود ہے ، اللہ تعالی نے مشرکین کے بنے بنا ئے معبودوں کی عیب جو ئی کرتے ہو ئے فرمایا کہ وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں ۔

ونؤمن أنه كما وصف نفسه، وكما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم، فهو سبحانه وتعالى ليس كمثله شيء وهو السميع البصير، فنثبت لله ما أثبته لنفسه أو أثبته له رسوله صلى الله عليه وسلم، وننفي عنه ما نفاه عن نفسه، أو نفاه عنه رسوله صلى الله عليه وسلم، من غير تعطيل ولا تمثيل، ولا تكييف ولا تحريف.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اسی طرح ہے جس طرح اس نےاور اس کے رسول نے بیان کیا ہےبلکہ بندوں کے بیان سے اللہ کی ذات کہیں زیادہ فائق و برتر ہے ، اس کے مثل کو ئی چیز نہیں ہے ، وہ سننے اور دیکھنے والا ہے ، اس لئے ہم اللہ کےلئے وہی ثابت کرتے ہیں جو اس نے اپنے تئیںاور اس کے رسول ﷺ نے اس کے تئیں بیان کیا اور بلا تعطیل ، بلا تمثیل ، بلا تکییف ، اور بلا تحریف ہم ان تمام کا انکار کرتے ہیں جن کا انکار خود اللہ نےاپنے تئیں اور اس کے رسول نےاس کے تئیں کیا ہے ۔

ونعلم علم اليقين أن ربنا متصف بصفاته قبل أن يَخْلق الخلق، وأنه على غاية الكمال والجلال والجمال منذ الأزل إلى الأبد؛ إذ هو الأول والآخر، فهو أول ليس قبله شيء، وآخر ليس بعده شيء، فهو الأول بأسمائه وصفاته كمالًا ومجدًا، وهو الآخر بأسمائه وصفاته كمالًا ومجدًا.

ur

ہمیں یقینی طورپر یہ معلوم ہے کہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی اللہ ان تمام صفات سے متصف تھا ، وہ اجل سے ابد تک انتہا ئی درجے کے کمال ، جلال اور جمال پر فائز ہے ، وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، اس کے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور نہ اس کے بعد ہی کوئی چیز ہے ، اسماء و صفات میں کمال اور بزرگی کو پہونچنے والا وہی سب سے پہلی اور آخری ذات ہے ۔

ونؤمن أن من صفات الله صفاتٍ ملازمةً لذاته، كالحياة، والعلم، والسمع، والبصر، واليد، والأصابع، وأن من صفاته صفاتٍ متعلقةً بمشيئته، كالغضب، والرضى، والنزول.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات کا تعلق اس کی ذات سے ہے جیسے حیات(زندگی) ، علم(جاننا)، سمع (سننا ) ، بصر (دیکھنا ) ، ید (ہاتھ ) ، قبضہ (پکڑنا) اور أصابع ( انگلیاں ) اور بعض کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے جیسے غضب (غصہ ) ، رضا (خوشنودی ) اور نزول (اترنا ) ۔

ونؤمن أنه الفعال لما يريد، فهو يفعل متى شاء ما يشاء كيفما يشاء، يعز من يشاء، ويذل من يشاء، لا راد لأمره، ولا معقب على قضائه وحكمه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ فعال لما یرید ہے ، وہ جو چاہے ، جب چاہے ، جیسا چاہے کر سکتا ہے ، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کردے ، اس کے حکم کو کو ئی ٹالنے والا نہیں ، اس کے قضاء اور اس کے حکم پر کو ئی تعاقب نہیں کر سکتا۔

ونؤمن أن صفات الله منها ما ورد مطلقًا، فنصف الله به على إطلاقه، كالسمع، والحياة، والبصر، وغيرها، ومنها ما ورد مقيدًا، فيبقى على تقييده، كوصفه سبحانه بأنه يمكر بأعدائه إذا مكروا، وينسى أعداءه إذا نسوه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات مطلق وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہم انہیں ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں جیسے وہ وارد ہو ئے ہیں جیسے سمع ، حیات اور بصروغیرہ ، اور بعض مقید وارد ہو ئے ہیں اور جو مقید وارد ہو ئے ہیں وہ اسی قید کے ساتھ باقی رہتے ہیں جیسے اللہ تعالی کی ایک صفت یہ ہے کہ جب اس کے دشمن اس کے ساتھ مکر کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ مکر کرتا ہےاور جب اس کے دشمن اسے بھول جاتے ہیں تو وہ بھی انہیں بھلا دیتا ہے ۔

ومن صفاته سبحانه وتعالى: العلم، والسمع، والبصر، والحياة، والقيومية، والكلام، وهو موصوف بالكلام قبل أن يَخْلق الخلق ويكلمهم، وكلام ربنا متعلق بمشيئته، فمتى شاء تكلم. وقد ورد الخبر عن صفة الكلام لله في القرآن على أوجه متعددة، فورد أنه يكلم عباده، ويناجي وينادي من شاء منهم، ويكلم الخلائق يوم القيامة، وتسمع الخلائق يوم القيامة كلام الله.

ur

اللہ تعالی کی چند صفات یہ ہیں : علم ، سمع ، حیات ، بصر ، قیومیت اور کلام ، اللہ تعالی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی سے صفت کلام (بات کرنا)سے متصف تھا ، وہ پہلے ہی سے لوگوں سے کلام کرتا تھا اور اللہ تعالی کے کلام کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے ، وہ جب چاہتاہے بات کرتا ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالی کی صفت کلام کے حوالے سے کئی اعتبار سے کئی خبریں وارد ہو ئی ہیں اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے ، ان کی سر گوشی کرتا ہے ، ان میں سے جسے چاہتا ہے پکارتا ہے ، بروز قیامت بھی تمام مخلوق سے بات کرےگا ،تمام مخلوق اللہ کی بات سنے گی ۔

ونؤمن أن الله سبحانه وتعالى قد احتجب عن خلقه بحجاب من نور، فلا يرونه في الدنيا، وإن كان بعض أنبيائه سمعوا كلامه لما كلمهم من وراء حجاب، كما كلم موسى  عليه السلام .

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے خود کو اپنی مخلوق سے نور کےحجاب میں چھپا لیا ہے ، اس لئے دنیا میں اسے کو ئی نہیں دیکھ سکتا ، بعض نبیوں نے اس کی بات کو سنا ہے کیوں کہ اس نے ان نبیوں سے پردے کے پیچھے سے بات کیا ہے جیسا کہ موسی علیہ ا لسلام نے بات کیا ۔

وكلام ربنا يوصف بأن بعضه أحدث من بعض، وبعضه أفضل من بعض.

ur

اللہ تعالی کی بعض بات بعض کے مقابلے نئی اور بعض بعض سے افضل ہوتی ہے ۔

ومن كلامه: القرآنُ، وكلُّ الكتب الإلهية المنزلة على رسله، كصحف إبراهيم وموسى عليهما السلام، والتوراة، والإنجيل، والزبور - كلها كلام الله، وكلها تكلم الله بها، وسمعها جبريل منه بلا واسطة، وجبريل تنزّل بها على أنبياء الله ورسله عليهم السلام. وتميزت التوراة بأن الله أنزلها مكتوبة في الألواح- وكلام الله وكلماته غير مخلوقة، وكلام الله غير خلقه، ألا ترى أنه فصل بين الخلق والأمر، ونفرق بين كلمات الله الكونية، وكلماته الشرعية.

ur

اللہ کے کلام میں قرآن اور ہر وہ کتاب شامل ہے جو من جانب اللہ رسولوں پر نازل ہو ئی ہیںجیسے صحف ابراہیم ، صحف موسی ، تورات ، انجیل اور زبور ، یہ سب اللہ کا کلام ہیں اور تمام کے ذریعہ اللہ نے بات کیا ہے ، اسے جبرئیل علیہ السلام نے بلا واسطہ اللہ سے سنا اور یہی لے کرجبرئیل علیہ السلام تمام انبیاء ورسل علیہم السلام پر نازل ہو ئےالبتہ دیگر کتابوں کے مقابلے تورات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے تختیوں پر لکھا ہوا نازل کیا ، اللہ کا کلام اور اس کے کلمات مخلوق نہیں ہیں ، کلام الہی کی تخلیق نہیں ہو ئی ہے ، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ خلق اور امر کے درمیان فصل ہے ، ہم اللہ کے شرعی اور کونی کلام کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔

ومن صفاته سبحانه وتعالى: العزة، والقهر، والجبروت، والملكوت، والكبرياء، والعظمة، والإرادة، والمشيئة، والقدرة، والرحمة، فهذه الرحمة صفة من صفاته، وهي مضافة إلى الله إضافة الصفة إلى الموصوف.

ur

اوراللہ کی بعض صفات یہ ہیں :العزۃ (عزت) ،القہر( قہر) ،الجبروت( جبروت) ، الملکوت( ملکوت) ،الکبریاء(کبریاء)،العظمۃ( عظمت ) ، الإرادۃ( ارادہ) ،ا لمشیئۃ( مشیئت)، القدرۃ (قدرت )اورالرحمۃ( رحمت )۔ رحمت بھی اللہ کی ایک صفت ہے ، اسی لئے اس کی اضافت اللہ کی طرف کی گئی ہےاورچونکہ اللہ موصوف ہے ، گویا یہ اضافۃ الصفۃ إلی الموصوف ہے ۔

ومن صفاته: العلو، وهو علو القهر، وعلو القدر، وعلو الذات، فالثلاثة كلها صفته دالة على كماله، وقد دل القرآن العظيم والسنة النبوية الشريفة والعقل والفطرة على العلو بأوجه متعددة، بل الأدلة الدالة على أن الله في العلو أنواع كثيرة، وتحت كل نوع أفراد كثيرة لا تحصى.

ur

اللہ تعالی کی ایک صفت العلو(بلند ہونا) بھی ہےیعنی اللہ تعالی اپنے ہر کام میں ،ہر صفات میں اور اپنی ذات میں بلند و بالا ہے ،مثلا اللہ تعالی قہار ہے تو وہ اپنی اس صفت قہر میں بلند وبالاہے ، اللہ قادر ہے تو وہ اپنی اس صفت قدرت میں بلند وبالاہے، اسی طرح وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی بلند وبالاہے اور یہ تمام صفتیں اللہ تعالی کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، قرآن مجید ،سنت نبوی ﷺ، عقل اور فطرت نے کئی اعتبار سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بلند ہے بلکہ اللہ تعالی کے بلند وبالا ہونے پر دلالت کرنے والی دلیلوں کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں اورپھر ہرقسم کی نا قابل شمار قسمیں ہیں ۔

ومن صفاته سبحانه وتعالى: الاستواء على العرش وقد ذكره الله في سبعة مواضع من كتابه.

ur

اللہ تعالی کی ایک صفت الإستواء علی العرش یعنی عرش پر مستوی ہونا بھی ہے اور اس صفت کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سات مقام پر کیا ہے

ومن صفاته سبحانه: المحبة. ومن صفاته: الرضى. ومن صفاته: كراهيته لأعدائه؛ ذلك لأنهم كرهوا رضوانه، وكرهوا ما أنزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم.

ur

اسی طرح اللہ تعالی کی ایک صفت المحبۃ یعنی محبت کرنا اور ایک صفت الرضا ءیعنی خوش ہونا اور ایک صفت کراھیتہ لأعداء یعنی دشمنوں کو نا پسند کرنا بھی ہےکیوںکہ انہوں نےاللہ کے رسول ﷺ پر نازل کردہ احکام اورخوشنودئ الہی کو نا پسندکیا ۔

ومن صفاته: الغضب على أعدائه والمقت: وهو مقته للكافرين.

ur

اللہ کی ایک صفت الغضب علی أعدائہ والمقت یعنی دشمنوں پر غصہ اور ناراض ہونا بھی ہے کیوں کہ کافروں سے وہ ناراض ہے ۔

ومن صفاته: مكره بأعدائه الذين يمكرون بأوليائه. ومنها: الأسف، وهو أشد الغضب. ومن صفاته: مخادعة من يخادعه، فالله يخادع المنافقين الذين يخادعونه. ومن صفاته جل وعلا، أنه يستهزئ بمن يهزأ به، سبحانه وتعالى.

ur

اللہ کی ایک صفت مکرہ بأعداءہ الذی یمکرون بأولیائہ یعنی ان دشمنوں کے ساتھ مکرکرنا ہے جو اس کے اولیاء کے ساتھ مکر کرتے ہیں (یعنی اس کا اپنے ان دشمنوں کے ساتھ چال چلنا ہے جولوگ اس کے اولیاء کے ساتھ چال چلتے ہیںیعنی اللہ ان کی چالبازیوں کا انہیں جواب دیتا ہے) اللہ کی ایک صفت الأسف یعنی افسوس کرنا یعنی اس کاشدید غصہ ہونابھی ہے ۔ اس کی ایک صفت مخادعۃ من یخادعہ یعنی دھوکہ دینے والوں کو دھوکہ دینا بھی ہے، گویا اللہ ان منافقوں کوبھی دھوکہ دیتا ہے جو اسے دھوکہ دیتے ہیں (یعنی ان کی چالبازیوں کا اللہ انہیں بدلہ دیتا ہے)۔ اسی طرح اللہ کی ایک صفت اس شخص کے ساتھ استہزاء کرنا بھی ہے جو اس کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں ۔

ومن صفاته: الضحك، والعَجَب، والمجيء والإتيان يوم القيامة لفصل القضاء بين الناس.

ur

اللہ تعالی کی تمام صفات میں الضحک (ہنسنا ) العجب (تعجب کرنا ) اور المجئ (آنا ) بھی ہے کیوں کہ بروز قیامت وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے آئے گا ۔

ونؤمن بصفة النزول، وأن ربنا ينزل إلى السماء الدنيا نزولًا حقيقًّا يليق بجلاله وعظمته، وهو ليس كنزول المخلوقين، بل هو كسائر صفاته التي نؤمن بها، ونعلمها، ولا نتمحل في تكييفها، أو نتكلف في ردها؛ بل نؤمن بها كما أخبرنا بها رسولنا الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم.

ur

ہم اس کی صفت نزول پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی حقیقی معنوں میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول کی کیفیت اس کے جلال اور عظمت کے اعتبار سے ہوتی ہے ، دیگر مخلوق کی طرح اللہ کا نزول نہیں ہوتا ہے بلکہ ان تمام صفات کے اعتبار سے ہوتا ہےجن پر ہم ایمان لاتے ہیں ، جنہیں ہم جانتے ہیں لیکن اس کی کیفیت سے نا واقف ہیں بلکہ ہم اس پراسی طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح ہمیں صادق و مصدوق رسول نے بتایا ہے ۔

ونؤمن بصفة المعية لله رب العالمين، وأن الله مع خلقه. وهذه المعية نوعان: معية خاصة، وهذه تكون لأولياء الله ورسله عليهم السلام، ومقتضاها النصر والتأييد، ومعية عامة مع الخلق كلهم، مؤمنهم وكافرهم، ومقتضاها: العلم، والإحاطة، والقدرة، والسلطان.

ur

ہم اللہ رب العالمین کی صفت معیت پر ایمان لاتے ہیں اس طرح سے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے ،اللہ تعالی کے اس معیت کی دو قسمیں ہیں (۱) معیت خاصہ ، یہ اللہ کے أولیاء اور رسولوں کے لئے ہوگااور اس کا تقاضا ان کی نصرت و تائید ہے (۲) معیت عامۃ : یہ معیت تمام لوگوں کے ساتھ ہے ، اس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، اس معیت کا تقاضا علم ، احاطہ ، قدرت اور سلطنت ہے ۔

وهذه المعية لا توجب حلولًا ولا اختلاطًا، ولا تنافي علوَّ الله تعالى؛ لأن معناها بإجماع أهل العلم: العلم والإحاطة؛ أي: أن الله تعالى معنا بعلمه وإحاطته وقدرته.

ur

یہ معیت حلول اور اختلاط کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی علو الہی کے منافی ہے کیوں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کامعنی العلم والإحاطۃ (جاننا ، احاطہ کرنا) ہے یعنی اللہ تعالی اپنے علم ، احاطہ اور قدرت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے ۔

ونثبت لله وجهًا يليق بجلاله وعظمته، ويدًا تليق بجلاله وكماله، وقد ورد الخبر عنها في القرآن والسنة على أوجه متعددة، فقد ورد ذكر اليد مثناة، وأن الله يقبضها ويبسطها، وأن الرب يطوي بها السموات، والأرض في قبضته سبحانه وتعالى، وأن اليد موصوفة بأنها ذات أصابع. وكل ذلك يثبت أن اليد التي ورد وصفها في القرآن والسنة يد حقيقية تليق بجلاله، لا نتكلف في تأويلها، أو تشبيهها، أو تحريف الآيات والأحاديث الدالة عليها. ومن صفاته: صفة الأصابع.

ur

ہم اللہ کے لئے اسی چہرے کو مانتے ہیں جو اس کے جلال اور عظمت کو مناسب ہے ، ہم اس کے لئے ہاتھ اسی طرح مانتے ہیں جو اس کے جلال و کمال کو مناسب ہے ، اس سلسلے میں قرآن اور احادیث میں کئی اعتبار سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں ، اللہ کے لئےدو ہاتھ کا ہوناثابت ہے ،اللہ کبھی اس کی مٹھی بنالیتا ہےاور کبھی بچھادیتا ہے ، اللہ تعالی اسی ہاتھ میں آسمان اور زمین کو لے لے گا اور اسی ہاتھ سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کے پاس انگلیاں بھی ہیں ، قرآن و سنت میں ہاتھ کے حوالے سے جتنی دلیلیں آئی ہیں سب میں حقیقی ہاتھ کی طرف اشارہ ہے لیکن اس کا ہاتھ اسی کے جلال کے اعتبار سے ہوگا ، ہم اس پر دلالت کرنے والی آیات و احادیث کی تحریف ، تاویل اور تشبیہ کے مکلف نہیں ہیں یعنی ہم ان آیات و احادیث کی تاویل نہیں کر سکتے ،اس کے ہاتھوں کو کسی کے مشابہ نہیں قرار دے سکتے ، اور اس پر دلالت کرنے والی آیتوں اور حدیثوں میں تحریف نہیں کر سکتے ۔ اس کی تمام صفتوں میں سے ایک انگلیوں کا ہونابھی ہے ۔

ونؤمن برؤية المؤمنين لربهم يوم القيامة، وهذا مما دل عليه الكتاب، وتواترت به الأخبار عن رسولنا صلى الله عليه وسلم فيما بشَّر به المؤمنين أنهم يرون ربهم عِيانًا يوم القيامة.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کو دیدار الہی نصیب ہوگا ، قرآن واحادیث میں اس سلسلے میں کئی دلیلیں وارد ہو ئی ہیں ، بے شمار حدیثوں میں اللہ کے رسول ﷺ نے مومنوں کو یہ بشارت سنایا ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کواللہ کا حقیقی دیدار نصیب ہوگا، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔

وكما وصف نفسه بصفات الكمال والجمال والجلال والعزة والكبرياء، فقد نفى عن نفسه صفات النقص، وليس النفي في الصفات هو الأصل في القرآن والسنة؛ لأن الأصل هو إثبات الصفات، والقرآن والسنة مملوءان ببيان صفات الله عز وجل كما ينبغي لجلاله وعظمته وكماله، والرب سبحانه وتعالى إذا نفى عن نفسه صفة فإنما ينفيها؛ لبيان الكمال في ضدها، أو لأن البشر نسبوا النقص إلى ذي العزة والكمال، فينفي الرب النقص المنسوب إليه.

ur

اللہ تعالی نے جس طرح اپنے آپ کو صفت کمال ، صفت جلال ، صفت جمال ، صفت عزت اور صفت کبریاء سے متصف بتایاہے اسی طرح اس نےاپنے آپ کو ان تمام صفات سے عاری و خالی بتایا ہے جن میں نقص ہوتا ہے ، قرآن و سنت میں اصل یہی ہے، صفات میں نفی نہیں ہےکیوں کہ اصلاصفات کا ثابت کرنا ہے اور صفات الہیہ کے بیان سے قرآن و سنت بھرے پڑے ہیں اور وہی صفتیں بیان کی گئیں ہیں جو اس کے جلال ، اس کی عظمت اور اس کے کمال کو مناسب ہیں ، اگر وہ اپنے آپ سے کسی صفت کا انکار کر دے تو اس کے برعکس یعنی کمال صفت کو ثابت کرنے کے لئے اس کا انکار کر تاہےکیوں کہ اگر کو ئی انسان اللہ کی طرف نقائص کو منسوب کرے گا تو اللہ اپنی طرف منسوب کی ہو ئی نقص کا انکار کرے گا ۔

ونؤمن أن الله سبحانه وتعالى له الأسماء الحسنى، وأن أسماءه قد بلغت الغاية في الحسن، فلا أحسن منها، وكل اسم يشتق لله منه صفة، وأسماؤه لا حصر لها.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ، اور انتہا ئی درجے کےحسن کو اس کے نام پہونچے ہو ئے ہیں یعنی اس سے بہتر کوئی نام نہیں ہے، اللہ کی ہر صفت اس کےنام سے مشتق ہے ، اس کے ناموں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔

وحذرنا ربنا من الإلحاد في أسمائه، أو إنكارها، أو جحود معانيها، أو تعطيلها.

ur

اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں الحاد کرنے ، ان کایا ان کے معانی کا انکار کرنے سےیا انہیں معطل کرنے سےڈرایاہے ۔

وما ورد في القرآن والسنة من أسماء الله وصفاته أعظم من أن يحيط به كتاب، ونحن نؤمن بهذه الأسماء والصفات على مراد ربنا، وعلى مراد رسولنا صلى الله عليه وسلم، ونعلم أن حقائقها لا يعلم بها البشر، ولا يحيطون بها، ولا تبلغها أفهامهم، ولا نتكلف في تأويلها.

ur

قرآن و احادیث میںاللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی ایک کتاب میں یکجا کرنا نا ممکن ہے ، ہم اس کے اسماءو صفات پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جو رب العالمین کی مراد ہے ، رسول گرامی ﷺ کی مراد ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت کوئی بھی نہیں جان سکتا ، نہ اس کا احاطہ کر سکتا ہے ، نہ عقل وہاں تک پہونچ سکتی ہے اور نہ ہم اس کی تاویل کر سکتے ہیں ۔