اللغات المتاحة للكتاب English پښتو اردو

كتاب الرســل والأنبـيــاء -عليهم السلام-

ur

إیمان بالأنبیاء والرسل کا بیان

ملخص الكتاب

ur

خلاصہ کتاب

ونؤمن أن الإيمان بالرسل عليهم السلام هو الركن الرابع من أركان الإيمان بالله تعالى.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ ارکان ایمان کا چوتھا رکن رسولوں پر ایمان لانا ہے ،

ونؤمن أن أساس دعوة الرسل عليهم السلام هو العلم بالله تعالى وبأسمائه وصفاته وأفعاله، وأنهم كلهم بُعِثوا بالتوحيد ودَعَوا إلى عبادة الله وحده وترك عبادة ما سواه، فالأنبياء والمرسلون أكمل الناس توحيدًا وإيمانًا، وهم أعلم الخلق بالخالق سبحانه وتعالى وما يجب له وما يمتنع عليه سبحانه وتعالى.

ur

ہماراایمان ہے کہ رسولوں کے دعوت کی بنیادہی اللہ ، اس کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کاجاننا ہے، انہیں توحید کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور انہوں نے لوگوں کواسی بات کی دعوت دیا کہ اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، تمام انسانوں میں انبیاء و رسل کی دعوت سب سے کامل تھی ، ان کی توحید اوران کا ایمان سب سے مکمل تھا ، تمام مخلوق میں اللہ ،اللہ کے واجب و منع کردہ احکام کو سب سے زیادہ جاننے والے یہی تھے ۔

وكل نبي دعا قومه إلى أصلين عظيمين، هما: عبادة الله وحده، والإيمان باليوم الآخر وما أعد الله فيه من النعيم لأوليائه، والعذاب لأعدائه.

ur

ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو دو عظیم اصول کی طرف بلایا ہے (۱) اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت (۲) ایمان بالیوم الآخر اور ان نعمتوں کی طرف جو اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کے لئے تیار کر رکھا ہے اور اس عذاب کی طرف جو اس نے اپنے دشمنوں کے لئے تیار کر رکھا ہے ۔

ونؤمن أن الأنبياء عليهم السلام متفقون في الأصول الكبرى التي دعوا إليها، فكلهم دعا إلى الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، والإيمان بالقدر خيره وشره، وكلهم دعوا إلى أصول العبادات، كالصلاة، والزكاة، والصيام، والحج، وأصول الأخلاق المحمودة، ونهوا عن أصول الأخلاق المذمومة، فالأنبياء عليهم السلام متفقون في الأصول، أما الشرائع التي دعوا إليها فمختلفة في أحكامها وتفاصيلها.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ بڑے بڑے اصولوں میں تمام انبیاء کا اتفاق ہے اور انہیں اصولوں کی طرف تمام نبیوں نے بلایا ہے، تمام انبیاء کی دعوت میں ایمان باللہ ، ایمان بالملائکہ ، ایمان بالکتب ، ایمان بالرسل ، ایمان بالیوم الآخر اور ایمان بالقدرخیرہ وشرہ شامل تھا ، تمام نبیوں نےاصل عبادات کی دعوت دیا ہے جیسے نماز ، زکوۃ، روزہ اور حج کی طرف تمام نبیوں نے بلایا، اسی طرح تمام نبیوں نےان کاموں کی طرف بھی بلایاہے جن سے انسانیت کا اخلاق سنورتااور اچھا ہوتا ہے اور ان تمام کاموں سے منع کیا ہےجن سے انسانی کیرکٹر اور اخلاق پر سوالیہ نشان لگ جاتا اور انسان عوام کی نگاہ میں مذموم ہوجاتا ہے، اصول میں تمام انبیاء متفق ہیں لیکن شرعی احکام و تفاصیل میں مختلف ہیں ۔

ونؤمن أنه يجب الإيمان بجميع الأنبياء عليهم السلام وتصديقهم في كل ما أخبروا به من الغيب، وطاعتهم فيما أمروا به، والانتهاء عن كل ما نهوا عنه، ومحبتهم وتوقيرهم والاقتداء بهم، والشهادة لهم بأنهم بلَّغوا الرسالة، وأدوا الأمانة، ونصحوا لله ولعباده، وجاهدوا في الله حق جهاده، ويجب على كل أمة العمل بشريعة الرسول الذي أرسل إليها، ويجب على هذه الأمة -أمة محمد صلى الله عليه وسلم- من الجن والإنس العمل بشريعة خاتم الأنبياء والمرسلين محمد صلى الله عليه وسلم؛ لأنه مرسل إلى جميع الثقلين.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا، ان کی بتائی ہو ئی تمام غیبی باتوں کی تصدیق کرنا ، ان کی طرف سے دیئے گئے احکام پر عمل کرنا اور ان کی طرف سے منع کردہ قول و فعل سے رک جانا ، ان سے محبت کرنا ، ان کی عزت اور ان کی اقتدا کرنا واجب ہے ، اسی طرح اس بات کی گواہی دینا بھی واحب ہے کہ انہوں نے پیغام پہونچا دیا ہے ، امانت کی ادائیگی کردی ہے ، اللہ اور اس کے بندوں کے لئےتمام نبیوں نے خیر خواہی کا کام کیا ہے ، جہاد کی طرح اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے ، لہذا جس امت کی طرف جو رسول بھیجا گیا اس امت پر اپنےاس رسول کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے اور امت محمدیہ کے تمام جن و انس پر اللہ کے رسول ﷺ کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے کیوں آپ ﷺ تمام جن و انس کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ۔

وكل الأنبياء والرسل عليهم السلام جاؤوا لإخراج الناس من ظلمات الكفر والشرك والجهل، وإن كانوا في عزٍّ من الدنيا وسلطان وقوة وبأس وحرث ومصانعَ.

ur

تمام انبیاء و رسل عوام کو تاریکی ، کفر ، شرک اور جہالت سےنکالنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے گرچہ وہ دنیا میں با عزت رہنے والے ہوں ، باد شاہ ہوں ، طاقت ور ہوںاور کارخانے کے مالک ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر وہ غلط راستے پر ہیں تو انہیں صحیح راستے پر لا نا انبیاء کی ذمہ داری تھی ۔

ونؤمن أن الله أرسلهم مبشرين ومنذرين؛ لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے انہیں خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کرمبعوث کیاہےتاکہ وہ رسولوں کے بعد اللہ تعالی پر لوگوں کے لئے حجت ہو جا ئیں ۔

ونؤمن أن الله قد أرسل في كل أمة رسولًا. فمن علمنا اسمه منهم وجب الإيمان به، ومن لم نعلم اسمه منهم نؤمن به إجمالًا. فالإيمان بجميع الأنبياء والمرسلين عليهم السلام واجب على كل مسلم ومسلمة، ومن كفر بنبي واحد فقد كفر بجميع الأنبياء عليهم السلام.

ur

ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ، بنا بریں ہمیں جس نبی کا نام معلوم ہے ہم اس نبی پر ضرور ایمان لا ئیں اور جس کا نام نہیں معلوم ہے اس پربھی اجمالا ایمان لانا واجب ہے ۔ گویاتمام انبیاء و رسل پر ایمان لانا تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے ، کسی نے کسی ایک نبی کا انکار کردیاتو گویا اس نے سارے نبیوں کا انکار کیا ۔

ونؤمن أن الله يرسل رسله إلى من شاء من عباده وَفْق ما تقتضيه حكمته، فلا معقب لحكمه، يفعل ما يشاء ويختار.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی حکمت و مصلحت کے اعتبار سے اپنےرسولوں کو اپنے بندوں میں سے جس کی طرف چاہتا ہے بھیجتا ہے، حکم الہی کا تعاقب کرنے والا کو ئی نہیں ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرنا ہے ۔

ونؤمن أن النبوة مِنَّة إلهية، ورحمة ربانية يهبها الله لمن شاء من عباده، فالله يصطفي من الملائكة رسلًا ومن الناس.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ نبوت من جانب اللہ احسان ہے ، اللہ کی رحمت ہے ،اس لئے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نبوت عطا کرتا ہے ، جس پر چاہتا ہے رحمت کا نزول کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ فرشتو ںاور عوام الناس دونوں میں سے رسول منتخب کرتا ہے ۔

والأنبياء والرسل عليهم السلام فيما بينهم متفاضلون، وأفضلهم أولو العزم، وأفضل أولي العزم الخليلان: إبراهيم، ومحمد عليهما السلام، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن التفضيل بين الأنبياء إذا كان على سبيل الحمية والعصبية أو التنقص، وكما اتخذ الله إبراهيم ومحمدًا عليهما السلام خليلين، فقد اختار الله موسى  عليه السلام  واصطفاه على الناس برسالاته وبتكليمه، وكان نبينا محمد صلى الله عليه وسلم قد نال شرف مرتبة الخُلَّة، وشرف أن كلمه ربه من وراء حجاب ليلة أسري به صلى الله عليه وسلم، فيكون نبينا محمد صلى الله عليه وسلم قد نال شرف الخلة، وشرف التكليم.

ur

انبیاء و رسل میں ہر ایک کا درجہ برابر نہیں ہے ، بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے ، او لو العزم میں سب سے افضل دونوں خلیل یعنی ابراہیم اور محمدﷺ ہیں ، اللہ کے رسول ﷺنے انبیاء کے درمیان تفاضل یعنی کسی کو کسی پر فضیلت دینے سے منع کیا ہے جب یہ فضیلت حمیت ، عصبیت اور تنقیص کے طور پر ہو کیوں کہ اللہ تعالی نے جب ابراہیم اور محمد ﷺ کو خلیل بنایا تو موسی علیہ السلام کو اپنی رسالت اور اپنی بات کے ذریعہ لوگوں پر منتخب کیا اور ہمارے نبی ﷺ کو اللہ سے دوستی کا شرف حاصل ہے، چونکہ اللہ تعالی نے اسراء کی رات پردے کے پیچھے سے اپنے رب سے کلام کیا تھا بنا بریں ہمارے نبی ﷺ کو دوستی کا بھی شرف حاصل ہوا اور اللہ تعالی سے کلام کی بھی توفیق ملی ۔

ونؤمن أن الأنبياء أفضل البشر، ولا يبلغ أحد مرتبة النبي، لا وليٌّ ولا غيره، ولا يجوز تفضيل أحد من البشر على أحد من الأنبياء، وليست النبوة كسبًا، ولا ينالها العبد بالاجتهاد بالطاعة، ولا بتزكية النفس والمجاهدة وتطهير القلب وتنقيته وتهذيب السلوك.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء سب سے افضل انسان ہیں ، ان کے مقام و مرتبہ کوکو ئی نہیں پہونچ سکتا ، نہ کوئی ولی پا سکتا ہے اور نہ کو ئی دوسرا انسان ، اس لئے کسی انسان کو کسی نبی پر فوقیت دینا جا ئز نہیں ہے ، نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے ،نہ اطاعت و اجتہاد سے اسے حاصل کی جا سکتی ہے ، نہ نفس کا تزکیہ کر کےحاصل کی جا سکتی ہے نہ مجاہدہ اورمحنت و مشقت کرکے ، نہ دل کو صاف کر کے اور نہ اپنے آپ کو سنوار کرکے اسے پا یا جا سکتا ہے ۔

ونؤمن أن الله لم يرسل إلا رجالًا، ونعلم أن الرسل والأنبياء عليهم السلام بشر كبقية البشر، وهم أكمل البشر في أديانهم وعقولهم وأخلاقهم، لكنهم يوحى إليهم، وهم معصومون فيما يبلغونه عن أمر الله، وإذا اجتهد النبي فيما لم يوح إليه فيه شيء ولم يصب، فإن الله لا يقره على اجتهاده، بل يتنزل عليه الوحي لتسديده.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے صرف مردوںکومنصب رسالت سے سر فراز کیا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ تمام انبیاء و رسل بقیہ انسانوں کی طرح انسان ہیں لیکن اپنے دین ، اپنے اخلا ق اور اپنے عقل میں تمام انسانوں میں سب سے کامل ہیں ،وہ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے لیکن ان کی طرف وحی کی جاتی تھی ، وہ ان تمام کاموں میں معصوم ہیں جس کی وہ بحکم الہی تبلیغ کرتے ہیں ، اگر اللہ کے رسول ﷺ نے کسی ایسےمسئلے میں اجتہاد کیا جس کی بابت وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور آپ سے اس مسئلے میں غلطی ہوگئی تو اللہ تعالی نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کی اصلاح کیا نہ کہ ان کے اس غلط اجتہاد کو باقی رکھا ۔

والرسل والأنبياء عليهم السلام لا يملكون لأنفسهم نفعًا ولا ضرًَّا، مع أن لهم المنزلة العالية، والدرجة الرفيعة، والمقام المحمود في الدنيا والآخرة، وإذا كانوا لا يملكون لأنفسهم نفعًا ولا ضرًّا فلا يملكون لغيرهم من باب الأولى، وإذا كانوا لا يملكون لأنفسهم ولا لغيرهم -حال حياتهم- نفعًا ولا ضرًّا فهم إذًا من باب الأولى لا يملكون لغيرهم نفعًا ولا ضرًّا، بعد وفاتهم.

ur

انبیاء و رسل کو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں تھا جب کہ دنیا و آخرت میں ان کا مقام بہت بلند اور ان کا درجہ بہت اونچا تھا ، انہیں بہتر مقام عطا کیا گیا تھا تو جب وہ خود اپنے ہی نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے تو غیروں کو بدرجہ اولی نفع و نقصان نہیں پہونچا سکتے اور جب وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تھے تو وفات کے بعد تو بدرجہ اولی نفع و نقصان کا اختیار انہیں حاصل نہیں ہوگا ۔

ولا يعلمون الغيب إلا على قدر ما أطلعهم الله عليه وأذن لهم فيه.

ur

انہیں غیب کی صرف وہی باتیں معلوم تھیں جن سے اللہ تعالی نے انہیں مطلع کیا تھا اور جن کی بابت اللہ تعالی نے انہیں بتایا تھا ،

والأنبياء والمرسلون عليهم السلام يعبدون الله خوفًا وطمعًا، ويبتغون إليه الوسيلة ويتقربون إليه سبحانه وتعالى.

ur

انبیاء صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اللہ کی عبادت میں خوف و طمع ہوا کرتا تھا ، وہ اسی سے وسیلہ مانگتے اور اسی کا تقرب حاصل کرتے تھے ۔

ونؤمن أن الأنبياء والمرسلين عليهم السلام يتعرضون لما يتعرض له البشر من البلاء والمرض، ويصيبهم الحزن والموت، وأنهم لهم أزواج وذريةٌ، وأنهم يأكلون الطعام ويمشون في الأسواق، ونعلم أن المسيح  عليه السلام  رفعه الله حيًّا لما أراد قومه قتله.

ur

ہماراایمان ہے کہ انبیاء ان تمام تکالیف اور مرض میں مبتلا ہوتے تھے جن میں ایک انسان ہوتا ہے ، انہیں بھی غمی لا حق ہوتی تھی اور موت سے وہ بھی دوچار ہوتے تھے ، ان کے پاس بھی بیوی بچے تھے ، یہ بھی کھانا کھاتے اور بازار جاتے تھے ، ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب عیسی علیہ السلام کو ان کی قوم نے انہیں قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیاہے ۔

ونشهد أنهم قد نصحوا للخلق، وأدوا الأمانة، وبلغوا رسالات ربهم، ولا يضرهم أن الأتباع لم يستجيبوا، ولا أن الملأ استكبروا عليهم.

ur

ہم گواہی دیتے ہیں کہ انبیاء پوری مخلوق کے خیر خواہ تھے ، انہوں نےمن جانب اللہ امانت کی ادائیگی کردی ہے اور اپنے رب کا پیغام سب کو بتادیاہے ، اگران امت میں سے کسی نے ان کی دعوت کا انکار کیایا قوم کےکسی بڑے شخص نےان کی دعوت سے اعراض کیا تو انہیں اس کا کوئی نقصان نہیں پہونچے گا ۔

ونؤمن أن الله قد آتى كل نبي من الآيات والحجج ما على مثلها يؤمن البشر.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نےانبیاء و رسل کو وہی نشانیاں عطا کیا جو انسانی عقل کے موافق ہیں اور جن پر ایک انسان ایمان لا سکتا ہے ،

ونؤمن أن الله ما بعث نبيًّا، إلا ومعه آية تدل على صدقه، سواء علمناها أو لم نعلمها، وقد ذكر الله لنا جملة منها في القرآن الكريم. ونعلم -أيضًا- أن هناك آياتٍ كثيرةً أيَّد الله بها رسله السابقين، ولم يذكرها الله لنا، وتارة يذكر الله الآيات البينات، وتارة يذكر السلطان، ونعلم أن الآيات والحجج التي أيَّد الله بها رسله وأنبياءه عليهم السلام كثيرة جدًّا.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر نبی کو کوئی نہ کو ئی ایسی نشانی عطا کیا تھاجو اس کی صداقت پر دلیل تھی، ہم اسے جانیں یا نہ جا نیں اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالی نے ہر نبی کو کوئی نہ کو ئی ایسی نشانی عطا کیا ہےجو ان کی صداقت و امانت کی دلیل ہے ، ان میں سے چند کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کردیا ہے ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت ساری آیتو ںمیں اللہ تعالی نے گزشتہ تمام انبیاء کی تائید کیا ہے یہ اور بات ہے کہ ان کا تذکرہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے نہیں کیا ہے ، گاہے بگاہے اللہ تعالی نے واضح نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے اور کبھی کبھار صرف دلیلوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے ،

وأعظمُ الأدلة الدالة على صدقهم هي ما يدعون إليه من التوحيد المستقر في الفطر الذي تشهد العقول على حسنه، وما جاؤوا به من العلم النافع والعمل الصالح والهدى ودين الحق والميزان. وشهادة الله لرسله أنهم على الحق، وأن ما جاؤوا به هو الحق. ومن أعظم آياتهم الوحي الذي يتنزل عليهم من الله، وأعظمُ الوحي هو القرآن العظيم آية نبينا محمد صلى الله عليه وسلم، وهذا الوحي لا يمكن أن يأتي البشر بمثله؛ لأنه كلام الله ووحيه، ولما فيه من الأنباء الغيبية، ولما فيه من الهدى والنور والرحمة والحكمة.

ur

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جن آیات و دلائل میں اللہ تعالی نے انبیاء کا ذکر کیاہے اس کی تعداد بہت زیادہ ہے ، ان کے صداقت کی سب سے بڑی دلیل ان کی دعوت یعنی توحید اور ان کا لا یا ہواپیغا م ہے جیسے علم نافع ، عمل صالح، ہدایت ، دین حق ، اور میزان ہے ، فطرت نے بھی اس کا اقرار کیا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی صحیح سالم عقلوں نے بھی دیا ہےاوراللہ تعالی بھی اس بات پر گواہ ہے کہ تمام انبیاء حق پر تھے اور ان کا لایا ہواپیغام بھی بر حق تھا ۔ ان کی تمام بڑی نشانیوں میں سے ایک ان پر من جانب اللہ نازل ہونے والی وحی ہے اور سب سے بڑی وحی قرآن مجید ہے اور یہی نبی آخر الزماں ﷺ کی سب سے بڑی نشانی ہے، اس وحی کے مثل کو ئی انسان لا ہی نہیں سکتا کیوں کہ یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے ، اس میں غیبی خبریں ہیں ، اس میں ہدایت ، نور ، رحمت اور حکمت کا سامان ہے اوراس

ومما أيَّد الله به رسله عليهم السلام البراهين العقلية التي يمدهم الله بها، فتبهت الكافر، وتزهق باطله.

ur

کی واضح دلائل اور نشانیوں میں سے وہ عقلی دلیلیں بھی جن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے تو کافر ہکا بکا و باطل پست ہو جاتا ہے ۔

ومن أعظم آياتهم إخبارهم بالغيوب التي يأذن الله لهم في الإخبار عنها. ومنها: نجاة الأنبياء السابقين عليهم السلام ونجاة أتباعهم من مكر أعدائهم، وهلاك المعاندين المستكبرين، وتذكير الله للمدعوين بما فعل بالسابقين، وأن سنة الله ماضية. ومنها: كمال خصالهم، وحُسْن أخلاقهم وأفعالهم وسيرتهم، وصدق أقوالهم مما يمتنع معه عليهم الكذب. ومنها: التواتر العظيم في نقل آيات الأنبياء، وما جاؤوا به من العلم والهدى ودين الحق، مما يستحيل معه أن يتواطؤوا على نقل الكذب. ومنها: أنهم لا يطلبون أجرًا على رسالاتهم، ولا يبتغون ملكًا. ومنها: أنه لا يوجد من قدح في نبوة الأنبياء إلا جاهل لم ينظر فيما جاؤوا به من الدين والعلم والهدى، أو معاند مستكبر.

ur

ان کی تمام بڑی بڑی نشانیوں میں سے ان غیبی خبروں کا بتانا بھی ہے جو اللہ تعالی نے انہیں بتا یا تھا اور دوسروں کو بتانے کی اجازت دیا تھا، ان نشانیوں میں سے ایک گزشتہ نبیوں اور ان کے پیرو کاروں کو دشمنان اسلام کے چنگل سے نجات دلانا اور مغرور اشخاص کو ہلاک کرنا بھی ہے ، گزشتہ اقوام کے ساتھ جو بھی اللہ تعالی نے کیا وہ سب بعد کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے ، اللہ کی سنت گزر چکی ہے ، اسی طرح ان تمام نشانیوں میں سےایک ان کا بہترین عادات و اطوار، بہترین اخلاق ، افعال اور سیرت کا حامل ہونا ، ان کی باتوں کا سچ ہونا اورجھوٹ سے پاک ہونا ہے ۔ اسی طرح ان کی ایک بڑی نشانی انبیاء کو دی گئی نشانیاں ، ان کے لائے ہوئے علوم ، ہدایت اور دین حق کو تواتر کے ساتھ نقل کرنا ہے یہ ان نشانیوں میں سے ہیں کہ جن پر جھوٹ بولنا محال ہے ۔ اسی طرح ان کی تمام بڑی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رسالت پر اجرت نہیں طلب کرتے تھے ، انہیں بادشاہت کی خواہش نہیں تھی، انبیاء کی نبوت پر جاہل ہی قدح کرے گا ، جس نے انبیاء کی لا ئی چیزوں جیسے دین ، علم ، ہدایت میں غور نہیں کیا ہوگایا متکبر ہی ان کی نبوت کا انکارکرےگا جودشمنی سے سر شار ہوگا ۔

ومن أعظم آياتهم ما يكون برهانًا حسيًّا تراه العيون، وتسلم له العقول، كغرق قوم نوح، وناقة صالح، وتحدي هود أن يكيده قومه أجمعون، ونجاة إبراهيم من النار، وآيات موسى، ومنها: العصا، والجراد، والقمل، والضفادع، والدم، والطوفان، وغرق فرعون وقومه، وآيات داود  عليه السلام  كتسبيح الجبال وإلانة الحديد، وآيات سليمان  عليه السلام  وتسخير الريح والجن له، ومعرفته منطق الطير، وآيات المسيح  عليه السلام  كشفاء الأبرص والأكمه والأعمى، وإحياء الموتى، وأنه كان يعمل من الطين كهيئة الطير فينفخ فيه بإذن الله فيكون طيرًا، وآيات نبينا محمد صلى الله عليه وسلم، وهي كثيرة لا تحصى إلا بالكلفة، كانشقاق القمر، والإسراء والمعراج، وتكثير الطعام، وحديث الدواب، وتسبيح الحصى، وحنين الجذع، ونصر الله له على أعدائه.

ur

ان کے نبوت کی تمام بڑی دلیلوں میں سے ایک حسی دلیلوں کا ہونا بھی ہے جسے تمام آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور عقلیں انہیں قبول کر رہی ہیں جیسے نوح علیہ السلام کی قوم کا غرق ہونا ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی ،ابراہیم علیہ السلام کا آگ سے بچنا ، ہود علیہ السلام کا اپنی قوم سے یہ چیلنج کرنا کہ تم سب مل کر چال چلو ،اور موسی علیہ السلام کی نشانیاں جیسے لا ٹھی ، ٹڈی ، جوں ، مینڈھک ، خون ، طوفان اور فرعون اور اس کی قوم کا غرق ہو نا،اور داؤد علیہ السلام کی نشانیاں جیسے پہاڑوں کا تسبیح پڑھنا اور لو ہے کا نرم کرنا اور سلیمان علیہ السلام کی نشانیاں جیسے ہواؤں اور جنوں کا ان کے لئے مسخر کرنا ، پرندوں کی بو لی سے انہیں آشنا کرنا اور عیسی مسیح علیہ السلام کی نشانیاں جیسے گونگوں، بہروں اور اندھوں کو شفا عطا کرنا ، مردو ںکو زندہ کرنا ، اسی طرح عیسی علیہ السلام مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونکتے تو وہ باذن اللہ پرندہ ہو جاتا تھا ، اور ہمارے نبی ﷺ کی نشانیاں تو بے شمار ہیں ، آپ کی نشانیوں کا شمار کرنا بڑا مشکل ہے جیسے چاند کا پھٹنا ، اسراء و معراج ، اناج کا زیادہ ہو جانا ، چوپا ئے کا بات کرنا ، کنکری کا تسبیح پڑھنا ، تنےکا رونا اور اللہ کا آپ ﷺکے دشمنوں کے خلاف مدد کرنا ۔

ومن آيات الأنبياء: حال النبي الداعي إلى الحق؛ فإن الناس يميزون بين الداعي إلى الحق الصادق في قوله، والدَّعيِّ الكاذب في قوله...إلى غير ذلك من الآيات.

ur

انبیاء کی نشانیوں میں سےایک نشانی حق کی طرف بلا نے والے نبی کی حالت بھی ہے کیوں کہ لوگ سچے اور جھوٹے داعی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں وغیرہ ۔

وآيات الأنبياء كلها اندثرت عدا القرآن العظيم، وسنة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم فهما باقيان؛ لأنهما وحي تكفل الله بحفظه، وفيهما أعظم الدلائل والبراهين على صدق الرسالة، وصدق الرسول صلى الله عليه وسلم.

ur

قرآن مجید اور حضرت محمد ﷺ کی سنت کے علاوہ تمام نشانیاں معدوم ہو گئیں ، یہی دو نشانیاں باقی ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے ان کے حفاظت کی ذمہ داری لیا ہے ، ان میں ا للہ کے رسول ﷺ کی صداقت اور آپ کی سچی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔

ونؤمن أن الله يؤيد رسله عليهم السلام بما تقتضيه حكمته من الآيات والبراهين الكونية والشرعية، فيهدي الله من شاء بفضله، ويضل من شاء بعدله، ولكن المعاند لا تزيده الآيات إلا عنادًا واستكبارًا.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی تا ئید اس چیز سے کرتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے جیسے کو نی و شرعی آیات اوردلا ئل و براہین ، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کردیتا ہے لیکن دشمنوں کے دلوں پر کسی بھی آیت یا دلیل کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کی دشمنی و کبرو غرور میں اضافہ ہوتا ہے ۔

ونؤمن أن الله لو أراد لهدى الناس جميعًا.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اگر چاہے تو تمام لوگ ہدایت پا جا ئیں ۔

ونؤمن أن دلائل الأنبياء والآيات التي جاؤوا بها والبراهين التي أمدهم الله بها يستحيل أن يأتي بها مدَّعٍ للنبوة، أو ساحر أو كاذب؛ لأن الله قضى ألا ينصر المبطل بدليل صحيح، ولا يصدّق الكاذب ببرهان صادق؛ لأنه الحكيم في شرعه وأمره، وحكمة الله وسنته الجارية تمنع ذلك.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء کی تمام دلیلیں اور ان کی لا ئی ہوئی نشانیاں جن کے ذریعہ اللہ تعالی نے ان کی مدد کیا ان تمام کا کسی بھی نبوت کے دعویدار ، جا دوگر اور جھوٹے کے لئے لانا نا ممکن ہے کیوں کہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ وہ صحیح دلیلوں کے ذریعہ کسی باطل پرست کی مدد اور سچی دلیلوں کے ذریعہ وہ کسی جھوٹے شخص کی تصدیق نہیں کرے گا کیوں کہ اللہ تعالی اپنی شریعت اوراپنے امور میں حکیم ہے اور اللہ تعالی کی حکمت اور اس کی سنت جاریہ اس سے منع کرتی ہے ۔

ونؤمن أن نبينا محمد بن عبدالله هو رسول رب العالمين، وهو خاتم الأنبياء والمرسلين، وهو سيد ولد آدم، وهو خليل رب العالمين.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ ہی اللہ کے رسول ہیں ، وہی خاتم الأنبیاء والمرسلین ہیں ، وہی ابن آدم کے سردار ہیں ، وہی اللہ رب العالمین کے خلیل ہیں ،

ونعلم أنه أوتي من الآيات ما لم يُؤْتَ مثلَه أحدٌ من الرسل عليهم السلام وأعظم آياته القرآن الكريم، وأول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فَلَقِ الصبح، وأول ما أنزل عليه منه صدر «سورة العلق»، وأنزل عليه بعدها «المدثر»، ثم حمي الوحي وتتابع، وأنه مكث في مكة ثلاثة عشر عامًا يدعو إلى التوحيد، وأقام بالمدينة عشر سنوات يبين شرائع الله، ويدعو إلى دينه، ويجاهد في سبيله، حتى توفاه الله عن ثلاث وستين سنة صلى الله عليه وسلم - بأبي هو وأمي.

ur

ہمیں معلوم کہ آپ ﷺ کی طرح کسی بھی رسول کو نشانی نہیں دی گئی ، آپ ﷺ کی سب سے بڑی نشانی قرآن مجید ہے ، وحی کی ابتدا سب سے پہلےبحالت نیند رؤیت صالحہ سے کی گئی ہے ، آپ ﷺ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی سفیدی کے مانند نمودار ہو جاتا اور سب پہلے سورۃ العلق کی ابتدا ئی آیات نازل ہو ئیں پھر سورۃ المدثر نازل ہو ئی ہے ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے وحی کا نزول ہوتے رہا ،دعوت توحید کے لئے آپ ﷺ مکہ میں تیرہ سال رہے اور شریعت الہیہ کی وضاحت، دعوت دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مدینہ میں دس سال مقیم رہے تاآنکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ترسٹھ سال کی عمر میں وفات سے دو چار کیا ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔

ونعلم أن من أعظم آياته بعد القرآن العظيم الإسراء والمعراج. ومن آياته صلى الله عليه وسلم انشقاق القمر، وخصه الله بخصائص كثيرة، وهذه الخصائص ذكرها العلماء في ثنايا مصنفاتهم تارة، وتارة يفردون لها مصنفاتٍ مستقلةً.

ur

ہمیں یہ معلوم ہے کہ قرآن مجید کے بعد آپ ﷺ کی سب سے بڑی نشانی اسراء و معراج ہے، آپ ﷺ کی نشانیوں میں سے چاند کا دو ٹکڑے ہونا بھی ہے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بے شمار خصوصیات سے سرفراز کیا ، ان تمام خصوصیات کوبہت سے علماء نے اپنی تصنیفات میں جگہ دیا ہے اور کچھ علماء نے تو اس پر مستقل کتاب ہی لکھ ڈالا ہے ۔

ونؤمن أنه يجب على كل أحد من الجن والإنس الإيمان به، وتصديقه فيما أخبر، وطاعته فيما أمر.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ جن و انس میں سے ہر ایک کو آپ ﷺ پر ایمان لانا ، آپ ﷺ کی لا ئی خبروں کی تصدیق کرنا ، آپ ﷺ کےحکموں پر عمل کرنا واجب ہے۔

ونؤمن بأنه يجب ألا يعبد الله إلا بما شرع. وقد حذر الحق من مخالفة أمره صلى الله عليه وسلم، وأمر الحق بتوقيره ومحبته، وأنه يجب أن يكون الرسول صلى الله عليه وسلم أحبَّ إلى المرء من نفسه ووالده وولده والناس أجمعين.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اسی سے کریں جو اس نے مشروع کیا ہے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی مخالفت سے منع کیا اور آپ ﷺ کی توقیر ، عزت ، احترام اور محبت کا حکم دیاہےاور یہ کہا ہےکہ ہر انسان کے نزدیک آپ ﷺ کا اس کی جان ، اس کے والد ، اس کے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہونا ضروری ہے ۔

ونؤمن أن الله قرن ذكر نبينا محمد صلى الله عليه وسلم بذكره سبحانه في الشهادتين وفي الأذان، وقد استفاض ذكره صلى الله عليه وسلم في الكتب الإلهية السابقة، وفي القرآن العظيم، وصنف أئمة الإسلام المصنفات المتنوعة في بيان سنته، وسيرته، وشمائله، وأخلاقه، وغزواته.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ کئی مقام پر اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد ﷺ کا ذکر اپنے ساتھ کیا جیسے شہادتین میں ، اذان میں اورآپ ﷺ کا ذکر اس سے پہلے سابقہ کتب الہیہ اور قرآن مجید میں بھی آچکا ہے ، اس کے علاوہ آپ ﷺ کی سنت ، سیرت ، شمائل ، اخلاق اور غزوات پر أئمہ اسلام نے بے شمارکتابیں تصنیف کیا ہے ۔

ونؤمن أن الله أرسله إلى الخلق كافة، فهو رسول الله إلى الثقلين: الجن والإنس، وصرف الله إليه نفرًا من الجن يستمعون إليه؛ ليكونوا منذرين مَنْ وراءهم من قومهم، ولتقوم الحجة عليهم، وأخذ الله الميثاق على كل نبي من الأنبياء والمرسلين عليهم السلام: لئن بُعث محمد صلى الله عليه وسلم وهو حي ليؤمنن به.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو پوری مخلوق کے لئے مبعوث کیا ، آپﷺ جن و انس دونوں کے رسول تھے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی باتیں سننے کے لئے جنوں کی ایک جماعت آپ ﷺ کی طرف بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرانے والے ہو جا ئیں اور ان پرحجت تمام ہو جا ئے ، اللہ تعالی نے ہر نبی سے وعدہ لیا تھا کہ اگر محمد ﷺ کی بعثت کے وقت کو ئی زندہ رہا تو وہ ان پر ضرور ایمان لا ئے گا ۔

ونؤمن أن الأنبياء بشرت به أقوامها، ووردت صفاته صلى الله عليه وسلم وصفات أصحابه رضي الله عنهم في التوراة والإنجيل، وبشَّر به المسيح  عليه السلام  -على وجه الخصوص- بني إسرائيل، وكان بنو إسرائيل يعرفونه كما يعرفون أبناءهم. ومن علامات نبوته صلى الله عليه وسلم التي كانت معروفة عند أهل الكتاب خاتم النبوة على كتفه الشريف.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو بشارت دیا ، تورات و انجیل میں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تمام صفات وارد ہیں ، اسی کے ذریعہ خصوصی طور سے عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بشارت دیا ، بنی اسرائیل انہیں اپنے لڑکوں کی طرح جانتے تھے ، اہل کتاب کے نزدیک آپ ﷺ کی معروف نشانی آپ ﷺ کے کندھے پر مہر تھی ۔

ونؤمن بعموم رسالته صلى الله عليه وسلم ولذا أرسل الكتب إلى الملوك والرؤساء يدعوهم إلى عبادة الله وحده، والإيمان برسالته صلى الله عليه وسلم وتصديقه.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے عبادت کی طرف بلانے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے و تصدیق کرنے کے لئے نبی ﷺ نےرؤسا اور ملوک کو خط لکھا ،

ونؤمن أن الله زوى لنبينا صلى الله عليه وسلم الأرض، فرأى منها ما سيبلغه ملك أمته منها.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کے لئےپوری زمین سمیٹ دیا تو آپ نے وہ تمام علاقے دیکھا جہاں تک امت محمدیہ کی حکومت پہونچے گی ،

ومن أدلة عموم رسالته صلى الله عليه وسلم أن نصارى نجران نكلوا عن مباهلته، وقبلوا أداء الجزية إليه وهم صاغرون؛ لعلمهم أنه نبي.

ur

آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نجران کے نصاری نے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھ کر مباہلہ سے گریز کیا اور جزیہ کی ادائیگی قبول کر لی کیوں کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ نبی ہیں ،

ومن أدلة عموم رسالته صلى الله عليه وسلم إسلام كثير من أحبار اليهـود ورهبان النصارى، بل الآلاف المؤلفة من أهل الكتاب. ومن أدلة عموم رسالته صلى الله عليه وسلم أنه غزا الروم، وأمر أصحابه بجهاد الفرس والروم من بعده.

ur

آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی کہ یہود و نصاری کے بیشتر علماء بلکہ اہل کتاب کے ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا ، آپ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے روم سے غزوہ کیا اور صحابہ کرام کو اس کے بعد فارس اور روم سے غزوہ کا حکم دیا ،

ومن أدلة عموم رسالته صلى الله عليه وسلم أنه وعد سراقة بأنه سيلبس سواري كسري، فلبسهما في خلافة عمر رضي الله عنه.

ur

آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ نے سراقہ سے وعدہ کیا کہ عنقریب وہ کسری کے کنگن پہنے گا اور اس نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پہنا۔

ونعلم علم اليقين أن الله اقتضت حكمته أن يهدي من يشاء بفضله، وأن يضل من يشاء بعدله، كما اقتضت حكمته أن يكون لكل نبي عدو، وأن يكون بين هؤلاء الأعداء تواصٍ على الباطل وتوافق في مقالاتهم، فمقالة الملأ في كل أمة متماثلة: فتارة يقولون: إنه ساحر أو كاهن أو كاذب، وتارة ينكرون أن يكون أتاهم بآية، وتارة يزعمون أنه يفتري الكذب على الله، وتارة يصفونه بالجنون، وحاشا رسل الله عليهم السلام - وهم أكمل الناس عقولًا وأزكاهم قلوبًا. وتارة يستعظمون ما يدعوهم إليه من الدعوة إلى عبادة الله وحده، وتارة يردون على النبي دعوته؛ لأنه بشر مثلهم، وتارة يطالبونهم بأمور ليست في قدرة الخلق -ولكنه الاستكبار والعناد- فقد طالبوا نبينا محمدًا صلى الله عليه وسلم بأن يفجر من الأرض ينبوعًا، أو يكون له جنة، أو يسقط السماء عليهم كسفًا، أو يأتيهم بالله والملائكة، أو يكون للنبي بيت من زخرف، أو يرقى في السماء، وينزل عليهم كتابًا. وتارة يطالبون النبي بأن يأتيهم بما يعدهم به، وتارة يصدون عن سبيل الله ويقولون لأتباعهم: لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه. وتارة يقابلون الرسول بالتكذيب، أو يتهمون الرسول صلى الله عليه وسلم بأن إنما يُعَلِّمُه بشر، وليس الذي يأتيه وحيًا من الله.

ur

ہمیں پورا یقین ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کر دیتا ہے جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا تھاکہ ہر نبی کے دشمن ہوں اور ان تمام دشمنوں کے درمیان باطل پر اتفاق اور ان کی باتوں میں موافقت ہو،اسی لئے ہر امت میں رؤسا کی بات متماثل اور برابر ہوا کرتی تھی ، کبھی وہ سب آپ ﷺ کو جادو گر کہتے تو کبھی کاہن یا جھوٹا سے تعبیر کرتے ،کبھی آپ ﷺ کے پاس آئی ہو ئی آیتوں کا انکار کرتے توکبھی کہتے کہ آپ ﷺ نے اللہ پر بہتان باندھا ہے اورکبھی آپ ﷺ کو پاگل بھی کہتے حالانکہ اللہ کے تمام رسولوں کی عقل بین الناس سب سے کامل تھی ، ان کا دل سب سے زیادہ پاک تھا ، کبھی کبھی آپ ﷺ کی دعوت یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی تمجید کرتے تو کبھی اس کی تردید کرتے کیوں کہ آپ ﷺ ان کی طرح انسان تھے ، گاہے بگاہے کبرو غرور اور عناد کی بنیاد پر وہ نبی ﷺ سے ایسا مطالبہ کرلیتے کہ وہ کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتاتھا ، کہتے کہ محمد ﷺ زمین سے چشمہ نکا ل دیں ، ان کےلئےایک باغ میسر ہو جا ئے ، ان پر موسلا دھار بارش کا نزول ہو ، آپ ﷺ ان کے پاس اللہ اور فرشتوں کو لے آئیں ، نبی ﷺ کے لئے سونے کا ایک گھر ہو جا ئے ، وہ آسمان میں چڑھ جا ئیں ، ان پر کتابوں کا نزول ہو اور کبھی کبھی کہتے کہ نبی ﷺ نے جس چیز کا ان سے وعدہ کیا ہے وہ ان تک لے کر آئیں ، کبھی وہ انہیں اللہ کی راہ سے روکتے اور اپنے اتباع و پیرو کاروں کو کہتے کہ قرآن نہ سنو بلکہ اس میں بے ہودہ گوئی کرو ، کبھی وہ رسول کی تکذیب کرتے تو کبھی آپ ﷺ پرالزام لگاتےکہ وہ ایک انسان ہیں ، انہیں نبی نہیں بلکہ ایک انسان سکھا رہا ہے ، وہ باتیں من جانب اللہ وحی نہیں ہیں بلکہ اس انسان کی باتیں ہیں ۔

وقد ينصرفون عن الرسول؛ لأن الذين اتبعوه هم الضعفاء، وتارة يسخرون ويستهزئون من الرسل، وتارة يخادعون الرسول، ويطمعون في مداهنته لهم أو الركون إليهم، وتارة بالتعيير بما يعلم المعاند أنه كاذب في قوله، كما في تعيير فرعون لموسى بالكفر.

ur

کبھی کبھی وہ رسول سے اعراض کرتے تھےکیوں کہ ان کی اتباع کرنے والے کمزور ہوا کرتے تھےتوکبھی وہ رسولوں کا مذاق اڑاتے اور ان کے ساتھ مسخراپن کرتے ، کبھی وہ رسول کودھوکہ دیتے کبھی کبھی وہ ان سے مصالحت کرنا اور ان کی طرف مائل ہو نا چاہتے۔ اور کبھی کبھی دشمن ایسی چیز سے نبی کو موصوف کرتا جس کو وہ جانتا ہے کہ وہ اس میں جھوٹا ہے جیسا کہ فرعون نے موسی علیہ السلام کو کفر سے تعبیر کیا ۔

وتارة يهدد الملأ النبي بالإخراج من الأرض، وحاصر كفار قريش نبينا محمدًا صلى الله عليه وسلم ومن معه وبني هاشم في الشِّعْب ثلاث سنين، وأخرجوه من بلده صلى الله عليه وسلم. وحاول قوم إبراهيم  عليه السلام  إحراقه بالنار، فنجاه الله سبحانه وتعالى، وحاول بنو إسرائيل قتل الأنبياء، بل قتلوا منهم مَنْ قتلوا...

ur

کبھی رؤسائے قوم نبیوں کو اپنی سر زمین سے نکالنے کی دھمکی دیتے ، کفار قریش نے نبی ﷺ ، ان کے ساتھیوں اور بنی ہاشم کا شعب أبی طالب میں تین سال تک محاصرہ کر رکھا تھا اور نبی ﷺ کو انہیں کے شہر سے انہوں نے نکال دیا ، ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے انہیں آگ میں جلانے کی کوشش کیا تو اللہ تعالی نے انہیں بچا لیا ، بنی اسرائیل نے سارے نبیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے بہت سے نبیوں کو توقتل کر دیا لیکن کچھ بچ گئے ۔

هذا هو دَيْدَنُ المستكبرين مع المرسلين، وهذه سنة جارية يتبعها الملأ في كل أمة مع المصلحين.

ur

رؤسائے قوم نے نبیوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا اور بعد کے ادوار میں ہر مصلح کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا، ہر ایک کے ساتھ یہ سنت جاری رہی ۔