اللغات المتاحة للكتاب English پښتو اردو

كتاب العبادة

ur

عبادتوں کا بیان

ملخص الكتاب

ur

خلاصہ کتاب

نؤمن بأن الله خلق الخلق ليعبدوه، والعبادة التي أمر الله بها هي الحنيفية، وهي ملة إبراهيم  عليه السلام ، وهي التي أمر الله بها جميع الثقلين. والعبادة أنواع كثيرة، ولا يجوز صرف شيء منها لغير الله تعالى. ومن أنواعها: الدعاء، والتوكل، والخشية، والخوف، والرجاء، والاستعاذة، والذبح، والاستعانة، والاستغاثة.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور احکام الہی کی بجا آوری کو عبادت کہا جاتا ہے ، اسی کا نام حنیفیت اور ملت ابراہیمی ہے اور اللہ تعالی نے تمام انس و جن کو اسی کا حکم دیا ہے ، عبادت کی بے شمار قسمیں ہیں ، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا جائز نہیں ہے ، عبادت کی چند اقسام یہ ہیں : دعا ء، توکل ، خشیت ، خوف ، رجاء ، استعاذہ ، ذبح ، استعانت اور استغاثہ ۔

ونؤمن بأن الله خلق الخلق ليعبدوه، ونعلم أن أول أمر ورد في القرآن هو الأمر بعبادة الله وحده دون ما سواه، وكل نبي قال لقومه: {اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ} [الأعراف: 65].

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ساری مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہےاور قرآن میں سب سے پہلا حکم یہی وارد ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، ہر نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دیاکہ {اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ} اللہ کی عبادت کرو کیوں کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ (الأعراف : ۶۵)

ونعلم أن العبادة لا تكون مقبولة حتى تكون خالصة لله رب العالمين، موافقة لهدى سيد المرسلين صلى الله عليه وسلم.

ur

ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کی قبولیت کا انحصار دو شرطوں پر موقوف ہے (۱)عبادت خالص اللہ ہی کے لئے ہو (۲) اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے طریقے پر ہو ۔

ويجب أن يكون المقصود بالعبادة هو الله وحده لا شريك له، وحذّر سبحانه وتعالى من الشرك كله كبيره وصغيره، فمن عمل عملًا خالصًا لكنه غير موافق لهدي الرسول صلى الله عليه وسلم؛ فعمله مردود عليه، ومن عمل عملًا موافقًا لهدي الرسول صلى الله عليه وسلم لكنه غير خالص لله؛ فهو مردود عليه.

ur

اورعبادت سے مقصود صرف اللہ وحدہ لا شریک کی ذات وابستہ ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے شرک کی تمام اقسام (شرک اصغر وشرک اکبر ) سے ڈرایا ہے ، اگر کوئی نیک عمل کرتا ہے لیکن وہ رسول ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر ہے تو اس کا عمل مردود ہے ۔

ونعلم أن أصول العبادة ثلاثة هي: كمال الحب، وكمال الرجاء، وكمال الخوف، وأن الأنبياء والمرسلين فازوا من ذلك بأوفر الحظ والنصيب.

ur

ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کے تین اصول ہیں : (۱)کمال محبت (۲) کمال رجاء (۳)کمال خوف ۔

وأعظم ما يرجوه المؤمنون هو رؤية وجه الله الكريم، ورؤية الله هي أعلى نعيم أهل الجنة، بل هي زيادة نعيم على نعيمهم، وإذا دخل أهل الجنةِ الجنةَ، زاد الله المؤمنين كرامة وإحسانًا إلى إحسانه إليهم تفضلًا منه وجودًا بإذنه لهم بالنظر إليه، وأعظم ما يخافه أهل الإيمان هو حرمانهم من هذا النعيم الذي خص به أولياءه من المؤمنين، وحرم منه أعداءه، وحجب جميع أعدائه عن النظر إليه من المشركين واليهود والنصارى والمجوس والمنافقين.

ur

انبیاء ورسل کی کامیابی کا اصل سبب یہی ہے کہ انہوں نے عبادت الہی ہی کوپوری طرح سے اپنا مشغلہ بنایا ، اللہ تعالی کی خوب عبادت کی ، بروز قیامت سب سے بڑی چیز جس کی امید تمام مومنوںکو ہوگی وہ اللہ تعالی کی رؤیت ہوگی ،اللہ تعالی کی رؤیت ہی جنتیوں کی سب سے اعلی نعمت ہوگی بلکہ یہ تمام نعمتوں پر ایک اضافی نعمت ہوگی ، جب جنتی جنت میں داخل کر دیئے جا ئیں گےتواللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اپنے دیدار کی اجازت مرحمت فرما کر اہل ایمان کے ساتھ مزید احسان اور عزت افزا ئی کا معاملہ فرما ئے گا،چونکہ صرف اپنے مومن دوستوں کو اللہ تعالی نے اس نعمت کے ساتھ خاص کیا ہے اس لئے تمام مومنوں کو اس بات کا سب سے زیادہ خوف ہوتاہے کہ کہیں ہمیں اس نعمت سے محروم نہ کردیاجائے ، دشمنان الہی اس سے محروم رہیں گے، تمام دشمنوں جیسے مشرکین ، یہود و نصاری ، مجوس اور منافقین سے اللہ تعالی پردہ کرلے گابنا بریں وہ اللہ کا دیدار نہیں کر سکیں گے ۔

والوسيلة هي التقرب إلى الله بكل ما يرضيه من واجب أو مستحب. (وتأتي الوسيلة بمعنى آخر -أيضًا- وهو المذكور في قوله صلى الله عليه وسلم: «سلوا الله لي الوسيلة».)

ur

وسیلہ : ہر وہ کام جسکے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہو، جس سےاللہ راضی ہو خواہ وہ واجب ہو یا مستحب وسیلہ کہلاتا ہے ،حالانکہ وسیلہ دوسرے معنی میں بھی آیا ہے جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان’’سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ‘‘ میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو ۔(صحیح مسلم :۳۸۴)

ونؤمن بأن الله أمر عباده بالدعاء، ووعدهم بالإجابة، ونعلم أن التوسل إلى الله يكون بأسمائه الحسنى وصفاته العلى؛ ولهذا كانت دعوات الأنبياء والمرسلين أكثر ما تكون بالتوسل بأسماء الله الحسنى. ومن مواطن الدعاء أدبار الصلوات، وفي الثلث الأخير من الليل، وعند الفطر من الصوم، وفي الطواف، وعلى الصفا والمروة، وفي عرفات ومزدلفة، وبعد رمي الجمرات.

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندو ںکو دعا کا حکم دیاہے اور ان سے قبولیت کا وعدہ کیاہے ، ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کے أسما ئے حسنی اور صفات علیاکے ذریعہ اللہ کا وسیلہ طلب کیا جاتا ہے، انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اکثر و بیشتر اسما ئے حسنی وسیلہ سے دعا کرتے تھے ، دعا کے بعض مقامات یہ ہیں: نماز کے بعد دعا کرنا ، ماہ رمضان میں افطار کے وقت دعا کرنا ، دوران طواف دعا کرنا ، صفا و مروہ پر دعا کرنا ، مقام عرفہ و مزدلفہ میں دعا کرنا اور رمی جمار کے بعد دعا کرنا وغیرہ ۔

كما يكون التوسل بالإيمان بالله، يكون التوسل إلى الله بالعمل الصالح بأنواع العبادات. ويكون التوسل إلى الله بذكر الحال، وإظهار الافتقار إلى الله، وأن العبد محتاج إلى عون الله ورحمته. ويكون التوسل بأن يطلب المسلم من الرجل الصالح الحي الحاضر أن يدعو له، كما طلب إخوة يوسف من أبيهم أن يستغفر لهم، وعَدَلَ الصحابة رضي الله عنهم عن الاستسقاء والتوسل بالرسول صلى الله عليه وسلم بعد وفاته إلى التوسل بالعباس رضي الله عنه؛ لأنهم يعلمون أن هذا من التوسل المشروع.

ur

جس طرح ایمان باللہ کے ذریعہ اللہ کاوسیلہ پکڑا جاتا ہے اسی طرح عمل صالح یعنی تمام عبادتوں کے ذریعہ بھی اللہ کا وسیلہ پکڑا جاتا ہے۔ اوراپنی کمزوریوں، اپنی حالتوں اور اللہ کے سامنے اپنی فقیری کا اظہار کرکےاللہ کا وسیلہ پکڑا جاتا ہے کیوں کہ بندہ اللہ کی رحمت و مدد کا محتاج ہے۔ اورکسی ایسے مسلمان سے بھی وسیلہ پکڑا جاسکتا ہے جو نیک ہو، زندہ ہو اور حاضرہو جیسا کہ یوسف کے بھا ئیوں نے اپنے باپ سے مغفرت طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا ، اسی طرح جب اللہ کے رسول ﷺ وفات پا گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے استسقاء کے مسئلے میں آپ سے اعراض کیا اور عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پکڑاکیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہی وسیلہ مشروع ہے ۔

ولا يجوز التوسـل بغير ما شرع الله؛ فقد كان أهل الجاهلية يتقربون إلى الله بالتوسل إليه بأوثانهم وآلهتهم.

ur

غیر مشروع طریقے سےوسیلہ پکڑنا ناجا ئز اور حرام ہے ، دور جاہلیت میں لوگ بتوں اور مورتیو ں کے ذریعہ اللہ کا وسیلہ پکڑتے تھےجب کہ یہ غیر مشروع وسیلہ ہے اسی لئے اسے نا جا ئز اور حرام گردانا گیاہے ۔