اللغات المتاحة للكتاب English پښتو اردو

بــاب البدعة

ur

بدعت

نعلم أن من البدع ما يضاد أصل الإيمان، ومنها ما يضاد كمال الإيمان، فالبدع الشِّركية والكفرية تضاد أصل الإيمان، أما البدع التي دون الشرك والكفر فتضاد كمال الإيمان.

ur

ہمیں معلوم ہے کہ بعض بدعتیں اصل ایمان کی ضد ہیں اور بعض کمال ایمان کی ضد ہیں اور شرکیہ و کفریہ بدعتیں اصل ایمان کی ضد ہیں اور رہی بات ان بدعتوں کی جو شرک اور کفر کے علاوہ ہیں وہ کمال ایمان کے مخالف ہیں ۔

ونؤمن أن الله قد أكمل لنا الدين، وأتم علينا النعمة، قال الحق جل شأنه: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3]. وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ».   (أخرجه البخاري (2697)، ومسلم (1718)، وأبو داود (4606)، وابن ماجه (14).)

ur

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے دین مکمل کردیا اور ہم پر اپنی نعمتیں تمام کردی ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا} آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المائدۃ : ۳) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ‘‘ جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کو ئی ایسی چیز ایجاد کیا جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۲۶۹۷، صحیح مسلم : ۱۷۱۸، سنن أبی داؤد : ۴۶۰۶، سنن ابن ماجۃ : ۱۴)

ونعلم أن مما يضاد كمال الإيمان البدع في الدين، قال صلى الله عليه وسلم: «وإيَّاكم ومُحْدَثاتِ الأمورِ؛ فإن كُلَّ مُحدَثَةٍ بدْعَةٌ، وكل بدعَةٍ ضَلالةٌ».   (أخرجه أبو داود (4607)، والترمذي (2676)، وابن ماجه (42)، وأحمد (17144)، وابن أبي عاصم في السنة (26)، وابن وضاح في البدع (54).)

ur

کما ل ایمان کے مخالف چیزوں میں سے ایک دین میں بدعتوں کاایجاد کرنا بھی ہےجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘ اپنے آپ کو نئے نئے امور سے بچاؤ کیوں کہ ہر نیا امر بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن أبی داؤد : ۴۶۰۷، جامع الترمذی : ۲۶۷۶، سنن ابن ماجۃ : ۴۲، مسند أحمد : ۱۷۱۴۴، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۲۶، البدع لإبن وضاح : ۵۴)

وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا».   (أخرجه مسلم (2674)، وأبو داود (4609)، والترمذي (2674)، وابن ماجه (206).)

ur

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’ ’مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا‘‘ جو ہدایت کی طرف بلائےگا اس کے لئے اسی کے مثل اجر ہوگا جو اس کی اتباع کرے گا اور ان کے اجر میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی اور جو گمراہی کی طرف بلائےگا اس پر اسی کے مثل گناہ ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا اور ان کے گناہوں میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم : ۲۶۷۴، سنن أبی داؤد : ۴۶۰۹، جامع الترمذی : ۲۶۷۴، سنن إبن ماجۃ : ۲۰۶) 

وبوَّب البخاري رحمه الله في «صحيحه» بابًا، فقال: «باب إثم من دعا إلى ضلالة؛ أو سنَّ سنة سيئة» وأورد فيه قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا -وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: مِنْ دَمِهَا- لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ القَتْلَ أَوَّلًا». (أخرجه البخاري (7321)، ومسلم (1677)، والترمذي (2673)، والنسائي (3985)، وابن ماجه (2616).)

ur

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیاہے ’’بَابُ إِثْمِ مَنْ دَعَا إِلَى ضَلاَلَةٍ، أَوْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً‘‘ اس شخص کے گناہ کا بیان جو کسی گمراہی کی طرف بلائے یا کوئی بری رسم قائم کرے۔ اور اس میں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیاہے ’’لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا - وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ مِنْ دَمِهَا - لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ القَتْلَ أَوَّلًا‘‘ جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا،بعض اوقات سفیان نے اس طرح بیان کیا کہ ”اس کے خون کا“ کیونکہ اسی نے سب سے پہلے ناحق خون کی بری رسم قائم کی۔  ( صحیح بخاری : ۷۳۲۱، صحیح مسلم : ۱۶۷۷، جامع الترمذی : ۲۶۷۳، سنن النسائی : ۳۹۸۵، سنن ابن ماجۃ : ۲۶۱۶)

وعن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ»، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُود، وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: «فَمَنْ» ؟!.   (أخرجه البخاري (3456)، ومسلم (2669).)

ur

اور ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل ﷺ نے فرمایا ’’لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى قَالَ: فَمَنْ‘‘ تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گو کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے؟ ( صحیح بخاری : ۳۴۵۶، صحیح مسلم : ۲۶۶۹)

ونعلم أن الله نهى عن التفرق والاختلاف، فقال جل شأنه وتقدست أسماؤه: {وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم} [آل عمران: 105]، وقال عز من قائل: {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم} [النور: 63].

ur

ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اختلاف و انتشار سے منع کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ} تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (آل عمران : ۱۰۵) اور فر مایا {فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ } سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔ (النور : ۶۳)

ونعلم أن من البدع تعظيم القبور والبناء عليها -وهذا قد يكون سببًا إلى الشرك. ومن البدع أيضًا تصوير الصالحين رجاء الاقتداء بهم بعد مماتهم، قال صلى الله عليه وسلم: «... أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ». (أخرجه مسلم (532).)

ur

ہمیں معلوم ہے کہ قبروں کی تعظیم کرنا اور اس پر عمارت بنا نا بدعت ہے (کیوں کہ کبھی کبھار یہ شرک تک پہونچ جاتا ہے ) اسی طرح صالحین کے مرنے کے بعد ان کی اقتدا کرنے کے لئے ان کی تصویر بنانا بھی بدعت ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ‘‘ خبردار !تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اور اپنی (قوم کے ) نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیتے تھے ، خبر دار! تم قبروں کو مسجد نہ بناؤ میں تم کو اس بات سے منع کرتا ہوں۔ ( صحیح مسلم : ۵۳۲)

وعن عائشة رضي الله عنها: أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: «إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ». (أخرجه البخاري (427)، ومسلم (528)، والنسائي (704).)

ur

اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھاتھا، اس میں تصویریں تھیں، ان دونوں نےنبیﷺ سے اس کا ذکر کیاتو( نبی ﷺ )نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناکر اس میں یہی تصویر یں بنا دیتے ،پس یہ لوگ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن مخلوق میں سب سےبرے ہوں گے۔ ( صحیح بخاری : ۴۲۷ ، صحیح مسلم : ۵۲۸ ، سنن النسائی : ۷۰۴)

وأمر النبي صلى الله عليه وسلم بطمس التماثيل، وتسوية القبور، فعن أبى الهياج الأسدي قال: «قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أبي طَالِبٍ رضي الله عنه: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟ أَلَّا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ». (أخرجه مسلم (969)، وأبو داود (3218)، والترمذي (1049)، والنسائي (2031).)

ur

نبی کریم ﷺ نے تصویریں مٹا نے اور قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ابو الہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ’’قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ‘‘ مجھے علی بن ابی طالب نے کہا کہ کیا میں تجھے اس پر نہ بھیج دو ں جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے بھیجا تھا ؟ یہ کہ تو کو ئی اسٹیچو نہ چھوڑے مگر یہ کہ تو اسے مٹا دےاورکوئی بلند قبر نہ چھوڑے مگر یہ کہ تو اسے برابر کردے ۔ ( صحیح مسلم : ۹۶۹، سنن أبی داؤد : ۳۲۱۸، جامع الترمذی : ۱۰۴۹، سنن النسائی : ۲۰۳۱)

ونعلم أن من البدع المنكرة الاحتفالات البدعية، ومشاركة الكفار أعيادهم، فعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ، وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: «مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟» قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ».   (أخرجه أبو داود (1134)، والنسائي (1556)، وإسـماعيل بن جعفر في حديث علي ابن حجر (62)، وأحمد (12827)، وعبد بن حميد (1392).)

ur

ایسے جشن کا مناناجس کا اسلام میں کو ئی تصور ہی نہ ہواور کفار و مشرکین کی عیدوں میں شریک ہونا منکرات اور بدعات و خرافات میں سےہے جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ’’قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ‘‘ اللہ کے رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ایسےہیں جن میں وہ کھیلتے ہیں تو انہوں نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ تو ان لوگوں نے کہا: دور جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے تھے، تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما یا ہے(۱)عید الاضحی کا دن (۲)اور عید الفطر کا دن۔ ( سنن أبی داؤد : ۱۱۳۴، سنن النسا ئی : ۱۵۵۶، مسند أحمد : ۱۲۸۲۷، المنتخب من مسند عبد بن حميد: ۱۳۹۲)

وقال جل ثناؤه: {لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلاَ يُنَازِعُنَّكَ فِي الأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُّسْتَقِيم} [الحج: 67]. وعن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله تعالى: {لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ}: «يَقُولُ: عِيدًا»، (تفسير الطبري (18/679)، وابن أبي حاتم في التفسير (14718).) وقال صلى الله عليه وسلم: «إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا». (أخرجه البخاري (952)، ومسلم (892)، وأبو داود (1593)، وابن ماجه (1898).)

ur

اور اللہ تعالی فر ماتا ہے {لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ } ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے، جسے وہ بجا لانے والے ہیںپس انھیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے، آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں ۔ (الحج : ۶۷) عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان {لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ}کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ یہاں’’مَنْسَكًا ‘‘ کے معنی ’’ عيدا ‘‘ یعنی عیدکے ہے ۔ (تفسیر الطبری : ۱۸؍ ۶۷۹، تفسیر ابن أبی حاتم : ۱۴۷۱۸) اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا‘‘ یقینا ہر قوم کی عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ ( صحیح بخاری : ۹۵۲، صحیح مسلم : ۸۹۲، سنن أبی داؤد : ۱۵۹۳، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۹۸)

ونعلم أن من البدع المنكرة طلب البركة مما لم يجعله الله سببًا مباركًا، وقد يكون وسيلة إلى الشرك، فعن أبي واقد الليثي رضي الله عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمَّا خَرَجَ إِلَى حُنَيْنٍ مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِكِينَ يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ، يُعَلِّقُونَ عَلَيْهَا أَسْلِحَتَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «سُبْحَانَ اللَّهِ! هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى: {اجْعَل لَّنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ} [الأعراف: 138] وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ». (أخرجه الترمذي (2180)، ومعمر في الجامع (20763)، وعبدالرزاق في التفسير (931)، وابن أبي شيبة (38530).)

ur

اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے جسے برکت کا سبب نہیں بنایا ہے اس سے برکت طلب کرنا بدعت ہےکیوں کہ ان سےبرکت طلب کرنا کبھی کبھی شرک اکبر ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی وہ شرک کا وسیلہ بن جاتا ہے جیسا کہ ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ ’’ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَمَّا خَرَجَ إِلَى حُنَيْنٍ مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِكِينَ يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ يُعَلِّقُونَ عَلَيْهَا أَسْلِحَتَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:سُبْحَانَ اللَّهِ هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى {اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ} [الأعراف: ۱۳۸] وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‘‘ جب اللہ کے رسول ﷺ حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت سے ہوا جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، اس پر وہ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ،تو ان (صحابہ ) لوگوں نے کہا :اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط بنا دیجئیے جیسا کہ ان کے لئے ایک ذات انواط ہےتو نبیﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ کی قوم نے کہا تھا کہ {اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ}ہمارے لیے بھی ایک الہ بنا دیجئے جیسا کہ ان (مشرکوں)کے لیےالہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضروراپنے سے پہلے کی امتوں کی پیروی کرو گے۔ ( جامع الترمذی : ۲۱۸۰، جامع معمر بن راشد : ۲۰۷۶۳، تفسیر عبد الرزاق : ۹۳۱، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۸۵۳۰)