ونؤمن أن الكرسي هو أعظم المخلوقات بعد العرش، قال الله تعالى مبيِّنًا عظمته: {وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ} [البقرة: 255].
ہمارا ایمان ہے کہ عرش کے بعد سب سے بڑی مخلوق کرسی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں وضاحت کے ساتھ فرمایا {وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ} اس کی کرسی آسمان اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے ۔(البقرۃ :۲۵۵)
والكرسي بين يـدي العرش، وهو موضع القدمين، فقد قال ابن عباس رضي الله عنهما في تفسير هـذه الآية: «الكرسيُّ موضع القدمينِ، والعرشُ لا يُقدّرُ أحدٌ قدرهُ». (أخرجه الدارقطني في الصفات (36) مرفوعًا وموقوفًا. وأخرجه عثمان بن سعيد الدارمي في الرد على بشر المريسي (84، 89)، وعبدالله ابن أحمد في السنة (586)، وابن خزيمة في التوحيد (154)، وأبو الشيخ في العظمة (216، 217).) وقال صلى الله عليه وسلم: «ما السموات السبع في الكرسي إلا كحلقة ملقاة بأرض فلاة، وفضل العرش على الكرسي كفضل تلك الفلاة على تلك الحلقة». (أخرجه ابن حبان (361)، وفي المجروحين (3/ 130)، والطبراني في الكبير (1651)، وفي المكارم (1)، والآجري في الأربعين (40)، وأبو الشيخ في العظمة (259)، وأبو نعيم في الحلية (1/18 و 166 - 168)، والبيهقي في الأسماء (ص: 510 - 511)، وفي الشعب (4325 و 7668)، وابن عبدالبر في التمهيد (9/199). وهو حديث طويل، وحديثنا هنا جملة منه، والحديث له طرق كثيرة لكنها ضعيفة لا تصح، وقد ذكر العقيلي بعض هذه الطرق وأشار إلى ضعفها، وذكرها أيضًا ابن عدي وقال: «هذا حديث منكر من هذا الطريق عن ابن جريج عن عطاء عن عبيد بن عمير عن أبي ذر، وهذا الحديث ليس له من الطرق إلا من رواية أبي إدريس الخولاني والقاسم ابن محمد عن أبي ذر والثالث حديث ابن جريج وهذا أنكر الروايات»، لكن هذا الحديث مشهور، ولم يرو غيره مرفوعًا في الكرسي، ولهذا أوردناه مع ضعفه ونكارته.)
اور کرسی عرش کے سامنے ہےاور وہ اللہ کے دونوں قدموں کی جگہ ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرمایا ’’الْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ، وَ لَا يَقْدِرُ قَدْرَ الْعَرْشِ شَيْءٌ‘‘ کرسی اللہ کے دونو ں قدم رکھنے کی جگہ ہے اور کوئی چیز عرش کے برابر نہیں ہو سکتی ۔ (الصفات للدارقطنی :۳۶، الرد علی بشر المریسی لعثمان بن زید الدارمی :۸۴، ۸۹، السنۃ لعبد اللہ بن أحمد :۵۸۶، التوحید لإبن خزیمۃ :۱۵۴، العظمۃ لأبی الشیخ : ۲۱۶، ۲۱۷) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ مَا السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ مَعَ الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ بِأَرْضٍ فَلَاةٍ وَفَضْلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفَلَاةِ عَلَى الْحَلْقَةِ‘‘ کرسی کے سامنے ساتوںآسمان کی حیثیت آسمان چٹیل میدان میں پڑے ہوئے کڑے کی طرح ہے اور کرسی پر عرش کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چٹیل میدا ن کی فضیلت کڑے پر ہے ۔ (صحیح ابن حبان :۳۶۱، المجروحین لإبن حبان :۳۱۳۰، معجم الکبیر للطبرانی :۱۶۵۱، المکارم :۱، الأربعین للآجری :۴۰ ، العظمۃ لأبی الشیخ ۲۵۹ ، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم : ۱۱۸، ۱۶۶-۱۶۸، الأسماء والصفات للبیہقی :۸۶۲، ۵۱۰-۵۱۱، شعب الإیمان :۴۳۲۵، ۷۶۶۸، التمہید لإبن عبد البر:۹؍۱۹۹،اور یہ حدیث لمبی ہے اور ہماری حدیث مختصر ہے اور حدیث کے کئی طرق ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے بلکہ سب ضعیف ہیں )
كما أخرج البيهقي عن العباس بن محمد قال: سمعت أبا عبيد يقول: «هذه الأحاديث التي يقول فيها: ضحك ربنا من قنوط عباده وقرب غِيَرِهِ، وإن جهنم لا تمتلئ حتى يضع ربك قدمه فيها، والكرسي موضع القدمين، وهذه الأحاديث في الرواية هي عندنا حق، حملها بعضهم عن بعض، غير أنَّا إذا سُئلْنا عن تفسيرها لا نفسرها، وما أدركنا أحدًا يفسرها». (الأسماء والصفات، للبيهقي (2/ 198).)
اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے عباس بن محمد سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ابو عبید کو کہتے ہو ئے سنا ’’هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي يَقُولُ فِيهَا: ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غِيَرِهِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رَبُّكَ قَدَمَهُ فِيهَا، وَالْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي الرِّوَايَةِ هِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ، حَمَلَهَا الثِّقَاتُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ، غَيْرَ أَنَّا إِذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِيرِهَا لَا نُفَسِّرُهَا وَمَا أَدْرَكْنَا أَحَدًا يُفَسِّرُهَا‘‘ ہمارا رب اپنے بندوں کے مایوس ہونے اور اغیار کے قریب ہونےپر ہنستا ہے اور جہنم نہیں بھر سکتی ہے حتی کہ آپ کا رب اس میں اپنا قدم رکھ دے اور کرسی رب کے دونوں قدموں کی جگہ ہے ، یہی روایت ہمارے نزدیک حق ہے ، اسے بعض ثقہ راویوں نے بعض سے روایت کیا ہےلیکن اگر کو ئی ہم سے اس کی تفسیر پوچھتا ہے تو نہیں بتاتے کیوں کہ ہم نے کسی کو اس کی تفسیر کرتے ہو ئے نہیں پایا ۔ (الأسماء والصفات للبیہقی :۷۶۰)