٭تمام فرشتوں پر ہمارا ایمان ہے کیوں کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ ارکان ایمان کا دوسرا رکن ایما ن بالملا ئکہ یعنی فرشتوں پر ایمان لا ناہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ}رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ (البقرۃ : ۲۸۵) اور فر مایا {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَ النَّبِيِّينَ} ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔ (البقرۃ : ۱۷۷) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولُ اللهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: اللہ کے رسول ﷺایک دن لوگوں کے لئے ظاہر ہو ئےتو ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول !ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ‘‘ کہ تو اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، ا س کی ملاقات پر ، اس کے رسولوں پر ایمان لا ئے اور تو دوسری بعثت پر بھی ایمان لا ئے ( یہی ایمان ہے ) (صحیح بخاری :۴۷۷۷، صحیح مسلم :۹ ، سنن ابن ماجۃ : ۶۴)
امام بیہقی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں ’’وَالْإِيمَانُ بِالْمَلَائِكَةِ يَنْتَظِمُ مَعَانِيَ أَحَدُهَا: التَّصْدِيقُ بِوُجُودِهِمْ. وَالْآخَرُ: إِنْزَالُهُمْ مَنَازِلَهُمْ، وَإِثْبَاتُ أَنَّهُمْ عِبَادُ اللهِ، وَخَلْقُهُ كَالْإِنْسِ، وَالْجِنِّ مَأْمُورُونَ مُكَلَّفُونَ لَا يَقْدِرُونَ إِلَّا عَلَى مَا قَدِّرُهُمُ اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ، وَالْمَوْتُ عَلَيْهِمْ جَائِزٌ، وَلَكِنَّ اللهَ تَعَالَى جَعَلَ لَهُمْ أَمَدًا بَعِيدًا، فَلَا يَتَوَفَّاهُمْ حَتَّى يَبْلُغُوهُ، وَلَا يُوصَفُونَ بِشَيْءٍ يُؤَدِّي وَصْفَهُمْ بِهِ إِلَى إِشْرَاكِهِمْ بِاللهِ تَعَالَى جَدُّهُ، وَلَا يَدَّعُونَ آلِهَة كَمَا ادَّعَتْهُمُ الْأَوَائِلُ. ایمان بالملائکہ کئی معانی کو شامل ہے (۱)ان کے وجود کو تسلیم کرنا (۲)انہیں ان کے مقام ہی پر رکھنا اور یہ تسلیم کرنا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ، انہیں بھی انسانوں کی طرح پیدا کیا گیا ہے اور جن بھی مامور اور مکلف ہیں ، یہ وہی کر سکتے ہیں جس کی اللہ نے انہیں طاقت دی ہے ،موت ان پر بھی آئے گی لیکن اللہ تعالی نے انہیں لمبی مدت عطا کیا ہے ، انہیں موت نہیں آئے گی تا آنکہ وہ اس عمر کو پہونچ جا ئیں ، یہ ایسی صفات سے متصف نہیں ہیں جو انہیں شرک باللہ تک لے جا ئے ، یہ معبود ہونے کا دعوی نہیں کرتے جیسا کہ ان کے پچھلوں نے دعوی کیا۔ (اور وہ لوگ اوائل کہہ کے فلاسفہ کو مراد لیتے ہیں۔) (۳)یہ اعتراف کیا جا ئے کہ ان میں بھی اللہ کے قاصد ہیں اور اللہ انہیں جس انسان کی طرف چاہتا ہے بھیجتا ہے اور بسا اوقات ان میں سے بعض کو اللہ انہیں میں سے بعـض کی طرف بھیجتا ہے ، اس بات کا اعتراف کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں سے بعض عرش کو اٹھا ئے ہو ئے ہیں ، بعض صف بصف ہیں ، بعض جنت کے پہرے دار ہیں اور بعض جہنم کے داروغہ ہیں ، ان میں سے بعض اعمال کو لکھنے والے ہیں اور ان میں سے بعض بادل کو ہانکتے ہیں ، قرآن مجید میں ان تمام پر یا ان میں سے اکثر پر گفتگو وارد ہو ئی ہے ۔ (شعب الإیمان :۱؍۲۹۶)
گویا امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہاں ایمان بالملائکہ کے تین معانی کاذکر کیا ہے ۔
(۴)لیکن ایک چوتھا معنی یہ بھی ہے کہ فرشتوں پر مجمل و مفصل ہر اعتبار سےایمان لانا واجب ہے لہذا ہم مجمل طور پرتمام فرشتوں کے وجود پر ایمان لاتے ہیں اورمفصل طور پر ہم ان فرشتوں پر بھی ایمان لاتے ہیں جن کا نام ، جن کی صفات اورجن کے اعمال ہم جانتے ہیں اور جن کا ذکر کتاب و سنت میں واردہوا ہے ۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ جتنے فرشتوں کی تعداد ، صفات اور اعمال سے اللہ تعالی نے ہمیں بہرہ ور کیا ہے ان کی تعداد ان فرشتوں کے بنسبت کم ہے جن کے احوال و کوا ئف ، تعداد ، صفات اور اعمال سے ہم بے خبر ہیںلیکن ہم تمام پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جیسا اللہ اور اس کے رسول کو مطلوب ہے ، ہمیں ان کی کیفیت سے کو ئی سرو کار نہیں ، ہم انہیں عقل کی کسوٹی پر نہیں جانچتے ، ان پر اپنی رائے قائم نہیں کرتے ، اس چیز کی بے جا تاویل میں نہیں پڑتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جو مطلوب ہے اس پرہم آمنا و صدقنا و سلمناکہتے ہیں ۔