ہمیں معلوم ہے کہ حاکم وقت کے احکام کاسننا اور انہیں بجا لانا ہر مسلمان کے لیے واجب ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول(ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ ( النساء: ۵۹ ) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌّ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ‘‘ (حاکم وقت کے احکام کا) سننا اور ان کی اطاعت کرنا (ہر مسلمان کے لیے) واجب ہے، جب تک کہ گناہ کا حکم نہ دیا جائے، اگر گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ (ان کی بات )سننا چاہئے اور نہ ان کی اطاعت کرنی چاہئے۔ ( صحیح بخاری : ۲۹۵۵، صحیح مسلم : ۱۸۳۹)
اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’بَايَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَ الْمَكْرَهِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَيْنَمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ‘‘ ہم نے پریشانی و آسانی ، خوشی و نا خوشی کے عالم میں سننے اور بات ماننے کی، اپنے او پر ترجیح دینے کی ، با لیاقت شخص کی سرداری پر جھگڑا نہ کرنے کی،ہر مقام پر حق بات کہنےکی اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت گر کے ملامت سے نہ ڈرنے کی اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت کی ہے۔ ( صحیح بخاری : ۷۰۵۵، صحیح مسلم :۱۷۰۹)
امام أبو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وَنُقِيمُ فَرْضَ الْجِهَادِ وَالْحَجِّ مَعَ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِي كُلِّ دَهْرٍ وَزَمَانٍ. وَلَا نَرَى الْخُرُوجَ عَلَى الْأَئِمَّةِ وَلَا الْقِتَالَ فِي الْفِتْنَةِ , وَنَسْمَعُ وَنُطِيعُ لِمَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَمْرَنَا وَلَا نَنْزِعُ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ , وَنَتَّبِعُ السُّنَّةَ وَالْجَمَاعَةَ‘‘ ہم فتنے کے وقت حاکم وقت کے ساتھ ہر وقت اور ہر زمانے میں جہاد اور حج کریں گے ، ہم أئمہ وقت کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور نہ ان سے قتال کریں گے ، ہم اس شخص کی سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے جسے اللہ نے ہمارے امر کا ذمہ داربنایا ہے ، ہم (ان کی ) اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچیں گے اور ہم اہل سنت و الجماعت کی اطاعت کریں گے ۔ ( شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة للإمام اللالکائی : ۱؍ ۱۷۵)
لیکن یہ بات یاد رہے کہ صرف حلال اور بھلے کاموں میں حاکم وقت کی اطاعت کرنا واجب ہے ، رہی بات حرام کاموں کی یا ان کاموں کی جن کے انجام دینے میں اللہ تعالی کی نا فرمانی ہورہی ہو تو اس میں حاکم وقت کی اطاعت نہیں کی جا ئے گی کیوں کہ وہ حرام اور نا جا ئز ہے جیسا کہ اس بات پر دلالت کرنے والی روایت ابھی گزری ہے، جس میں للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌّ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ‘‘ (حاکم وقت کے احکام کا) سننا اور ان کی اطاعت کرنا (ہر مسلمان کے لیے) واجب ہے، جب تک کہ گناہ کا حکم نہ دیا جائے، اگر گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر نہ اسے سننا چاہئے اور نہ ان کی اطاعت کرنی چاہئے۔ ( صحیح بخاری : ۲۹۵۵، صحیح مسلم : ۱۸۳۹) اور ایک اور روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ‘‘ نا فرمانی میں اطاعت نہیں ہے ، اطاعت بھلا ئی میں ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۷۲۵۷، صحیح مسلم : ۱۸۴۰)
امام ابو ابراہیم المزنی رحمہ اللہ نے فرمایا ’’وَالطَّاعَة لأولي الْأَمر فِيمَا كَانَ عِنْد الله عز وَجل مرضيا وَاجْتنَاب مَا كَانَ عِنْد الله مسخطا وَترك الْخُرُوج عِنْد تعديهم وجورهم وَالتَّوْبَة إِلَى الله عز وَجل كَيْمَا يعْطف بهم على رعيتهم‘‘حاکم وقت کی اطاعت ان کاموں میں ہے جن سے اللہ راضی ہوتا ہے ، ان کاموں سے بچنے میں ہے جن سے اللہ نا راض ہوتا ہے، ان کے ظلم و تعدی پر بغاوت نہ کرنے میں ہے اور اللہ سے توبہ کرنے میں ہے تاکہ و ہ اپنی رعایا پر شفقت کریں۔ ( شرح السنۃ للمزنی : ص: ۸۴)