Applicable Translations English پښتو عربي

نفاق

نفاق اکبر بھی ایمان باللہ کے مخالف ہے اور اسلام کے ظاہر کرنے اور کفر کے چھپانے کا نام نفاق ہے ، نفاق کی بھی دو قسمیں ہیں (۱)نفاق اکبر(۲)نفاق اصغر ، نفاق اکبر اصل ایمان کی ضد ہے اور نفاق اصغر کمال ایمان کی ضد ہے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اصول السنہ میں فر ماتے ہیں ’’والنفاق هُوَ الْكفْر أَن يكفر بِاللَّه و يعبد غَيره وَيظْهر الْإِسْلَام فِي الْعَلَانِيَة مثل الْمُنَافِقين الَّذين كَانُوا على عهد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم‘‘  نفاق ہی کفر ہے یعنی اللہ کے ساتھ کفر کرنے ، اس کے علاوہ کی عبادت کرنے اوراعلانیہ طور پر اسلام کا اظہار کرنے کا نام ہے جیسے اللہ کے رسول ﷺ کے عہد میں منافقین کیا کرتے تھے ۔ (أصول السنۃ : ۵۵) اور نفاق اکبر کے ارتکاب سے انسان ملت کے دائرے سے خارج ہو جائے گا ۔

شہادت الہی کی بنیاد پر ہم گواہی دیتے ہیں کہ منافقین اپنے ایمانی دعوی میں جھوٹے ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا {وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ۭوَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ}اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیںاور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔ (التوبۃ : ۱۰۷ ) اور ایک اور جگہ فرمایا {وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ} اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں ۔ (المنافقون : ۱)

اللہ تعالی منافقوں کا کوئی فدیہ اور توبہ قبول نہیں کرتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (۵۳) کہہ دیجئے کہ تم خوشی یاناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا، یقیناً تم فاسق لوگ ہو(۵۳) وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ (۵۴ )} کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں (۵۴) ۔ (التوبۃ : ۵۳-۵۴)

اگر نفاق ہی پر منافق کی موت آجائے تواس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا} منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے ۔ (النساء : ۱۴۵) اور ایک جگہ فر مایا {وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ} اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اورکافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لئے دائمی عذاب ہے۔ (التوبۃ : ۶۸)

ہمیں معلوم ہے کہ نفاق اکبر حق سے بغض اور کراہت کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقوں کے احوال پر گفتگو کرتے ہو ئے فرمایا {ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (۲۸) یہ اس بنا پر کہ یہ وہ راہ چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کر دیا اور انہوں نے اس کی رضا مندی کو برا جانا، تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے(۲۸) أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (۲۹) کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ﻇاہر نہ کرے گا؟(۲۹) وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ (۳۰)} (اے نبی ! )اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہرے سے ہی پہچان لیتا، اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا، تمہارے سب کام اللہ کو معلوم ہیں(۳۰) ۔ (محمد : ۲۸-۳۰)

نفاق وہ برائی ہے جو اسلام و اہل اسلام کی شکست و ریخت پر خوشی کاسبب ہے ، کسی کو اسلام کی مدد کرتے ہو ئے دیکھ کرمنافقین کو افسوس ہوتا ہے ، اللہ تعالی نے منافقوں کے دلوں کا حال بیان کرتے ہو ئے فرمایا {اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۚ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ} آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو کہتے ہیں ہم نے اپنا معاملہ پہلے سے درست کرلیا تھا، مگر وہ تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں ۔ (التوبۃ : ۵۰)

نفاق وہ برائی ہے کہ ایمان لانے کے بعدبھی کفر اور قوانین شرعیہ کی قبولیت سے اعراض کا سبب بن جاتا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا {وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (۴۷) اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان ﻻئے اور فرماں بردار ہوئے، پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے،یہ ایمان والے ہیں [ہی] نہیں(۴۷) وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (۴۸)} جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منھ موڑنے والی بن جاتی ہے(۴۸)۔ (النور : ۴۷ -۴۸)

اسی نفاق کی وجہ سے انسان اللہ سے بد ظن ہوجاتا ہے حتی کہ وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ اللہ اپنے نبی اور دین کی مدد ہر گز نہیں کرے گا جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا} اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا ۔ (الأحزاب : ۱۲)

نفاق حق اور اہل حق کے ساتھ مذاق ، تحقیر اور استہزاء کا سبب ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (۶۴) منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگارہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ تم مذاق اڑاتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ﻇظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو(۶۴) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (۶۵)} اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟(۶۵) ۔ (التوبۃ: ۶۴-۶۵)

اسی نفاق کی وجہ سے مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ ۭ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ} جولوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ (التوبۃ : ۷۹)

اوراہل ایمان کو ریاکار اور دھوکے باز کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ } وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ (البقرۃ: ۹) اور فر مایا {اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا} بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں ۔ (النساء : ۱۴۲) اور نبی کریم ﷺ نے فر مایا ’’تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا، لَا يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا‘‘ یہ منافق کی نمازہے کہ وہ بیٹھ کرسورج کا انتظار کرتا ہے پھر جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اس میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ ( صحیح مسلم : ۶۲۲، سنن أبی داؤد : ۴۱۳، جامع الترمذی : ۱۶۰ ، سنن النسا ئی : ۵۱۱)

اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’ ’ وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ‘‘ اور ہم اپنے تئیں ایسا دیکھتے تھے کہ جماعت سے غیر حاضر نہیں ہوتا تھا مگر منافق جس کا نفاق کھلا ہوتا تھا ۔ ( صحیح مسلم : ۶۵۴، سنن أبی داؤد : ۵۵۰، سنن النسائی : ۸۴۹، سنن ابن ماجۃ : ۷۷۷)

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، قَالَ: فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ..... إِلی أَنْ قَالَ: ثُمَّ يَلْقَى الثَّالِثَ، فَيَقُولُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ آمَنْتُ بِكَ، وَبِكِتَابِكَ، وَ بِرُسُلِكَ، وَصَلَّيْتُ، وَصُمْتُ، وَتَصَدَّقْتُ، وَيُثْنِي بِخَيْرٍ مَا اسْتَطَاعَ، فَيَقُولُ: هَاهُنَا إِذًا، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ: مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ؟ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ: انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَلَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ وَذَلِكَ الَّذِي يَسْخَطُ اللهُ عَلَيْهِ‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم اپنے رب کے دیدار میں تکلیف نہیں اٹھا ؤ گے مگریہ کہ جس طرح ان میں سے کسی ایک کے دیدار میںتکلیف اٹھا تے ہو ، پھر وہ بندے پر القاءکرے گا تو وہ کہے گا:....... یہاں تک کہ اس نے کہا: پھر تیسرے بندے پر القاءکرے گا تواس سے بھی وہ اسی طرح کہے گاتو وہ کہے گا: اے میرےرب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز اداکی، روزہ رکھا، صدقہ دیا ، وہ اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گاتو(اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: تب یہیں (دیکھ تیرا جھوٹ کھل جاتا ہے) (نبی ﷺ) نے فرمایا: پھراسے کہا جا ئے گا اب ہم تیرے اوپر اپناگواہ کھڑا کرتے ہیں، وہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ران ، اس کی ہڈیوں اور اس کے گوشت سے کہا جا ئے گابولوتو اس کے ران ، اس کے گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے بارے میںبو لیں گی اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اس کا عذر باقی نہ رہے، اسی کی ذات کی گواہی سے اور یہی منافق ہو گا اور اسی پر اللہ ناراض ہوگا۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۶۸)

اوراللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ اور مومنوں کو منافقوں سے جہاد کا حکم دیا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۷۳) اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے، جو نہایت بدترین جگہ ہے (۷۳) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۷۴)} یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حالانکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے،یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول ﴿ﷺ نے دولت مند کردیا، اگر یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے، اور اگر منھ موڑے رہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا(۷۴)۔ (التوبۃ : ۷۳-۷۴)

ہمیں معلوم ہے کہ نفاق اصغر کے ارتکاب سے کو ئی ملت کے دائرے سے خارج نہیں ہوگا ، نہ اس کاعمل برباد ہوگا ، نہ اس کا مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہے گا ، نفاق کی کئی شاخیں ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ‘‘ چار عادتیں جس کے اندر پا ئی گئیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس کسی میں ان میں سےکوئی ایک عادت ہو تواس میں نفاق کی ایک عادت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے (۱)جب اسے امین بنایا جائے تووہ خیانت کرے(۲) اور بات کرے توجھوٹ بولے (۳)اور جب معاہدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب (کسی سے) لڑائی کرے توفسق و فجور بکے ۔ ( صحیح بخاری : ۳۴، صحیح مسلم : ۵۸ ، سنن أبی داؤد : ۴۶۸۸، جامع الترمذی : ۲۶۳۲، سنن النسا ئی : ۵۰۲۰)

اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’ ’المُؤْمِنُ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ: كَالأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَ رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَالمُؤْمِنُ الَّذِي لاَ يَقْرَأُ القُرْآنَ، وَيَعْمَلُ بِهِ: كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ: كَالرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي لاَ يَقْرَأُ القُرْآنَ: كَالحَنْظَلَةِ، طَعْمُهَا مُرٌّ - أَوْ خَبِيثٌ - وَرِيحُهَا مُرٌّ ‘‘ وہ مومن جو قرآن مجید پڑھتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہےوہ اس میٹھے لیموں کی طرح ہے جس کا مزا بھی پاکیزہ ہوتا ہےاور خوشبو بھی پاکیزہ ہوتی ہے اور وہ مومن جو قرآن تو نہیںپڑھتا لیکن اس پر عمل کرتا ہے وہ اس کھجور کی طرح ہے جس کا مزہ تو پاکیزہ ہوتاہے لیکن اس کے پاس خوشبو نہیں ہوتی ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن توپڑھتا ہےاس ریحان کی طرح ہے جس کی خوشبو تو پاکیزہ ہوتاہے لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن کے پھل کی سی ہے جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے (راوی کو شک ہے) کہ لفظ (مر( ہے یا (خبيث)اور اس کی بو بھی کڑوا ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری : ۵۰۵۹، صحیح مسلم : ۷۹۷، جامع الترمذی : ۲۸۶۵، سنن النسا ئی : ۵۰۳۸ ، سنن ابن ماجۃ : ۲۱۴)