ہمیں معلوم ہے کہ ایمان باللہ کا ضد شرک باللہ ہے اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں (۱)شرک اصغر(۲)شرک اکبر ، شرک باللہ اصل ایمان اورشرک اصغر کمال ایمان کے مخالف ہے ، شرک اکبر سب سے بڑا ظلم ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ } اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ (لقمان : ۱۳) شرک اکبر تمام اعمال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ }یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا ۔ (الزمر : ۶۵) ایک اور مقام پر فرمایا {ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔ (الأنعام : ۸۸)
شرک اکبر کا مرتکب اگر بغیر توبہ کئے مرجا ئے تو اللہ اسے معاف نہیں کرے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا }یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا ۔ (النساء : ۴۸) مشرک بغیر توبہ کے مر جا ئے تو اس پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گاجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ}یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (المائدۃ : ۷۲)
اور جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ’’أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْمُوجِبَتَانِ؟ فَقَالَ: ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہاکہ اے اللہ کے رسول ! دوواجب چیزیں کون سی ہیں ؟ تو (آپ ﷺ نے ) فر مایا : مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ‘‘ جو مرجا ئے اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو مر جا ئے اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا تھا وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ (صحیح مسلم : ۹۳)
اللہ تعالی نے شرک کو باطل قرار دیا اور مشرکین کو شرک سے منع کیا ہے اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور شریک بنانے کا نقصان بھی بتا دیا ہےکہ وہ نہ نفع پہونچا سکتے ہیں اور نہ نقصان سے دو چار کرسکتے ہیں ،ان شرکاء کے تئیں اللہ نےکہیں یہ کہا کہ وہ سن ہی نہیں سکتے اور اگر سن بھی لئے توان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتےجیسا کہ فرمایا {وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (۱۳) یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا(۱۳) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ } اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر [بالفرض] سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔ (فاطر : ۱۳-۱۴) مذکورہ آیت سے پتہ چلا کہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اورنہ کو ئی ان کی پکار کو سن سکتا ہے ، بروز قیامت وہ اپنے شرک کا انکار کریں گے ۔
اور اللہ نے کہیں یہ حقیقت بیان کیا کہ یہ نفع و نقصان اور موت و حیات تک کے مالک نہیں ہیں جیسا کہ فرمایا {وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا}ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں ۔ (الفرقان : ۳) ایک اور جگہ فرمایا {قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ (۷۲) آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں؟ (۷۲) أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ (۷۳)} یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں (۷۳)۔ (الشعراء : ۷۲-۷۳)
اور کہیں یہ کہا کہ اللہ کے علاوہ جن معبودان باطلہ کی عبادت کی جاتی ہے وہ اس انسان سے بھی کمزور ہیں جو ان کی عبادت کرتا ہے کیوں کہ یہ نہ چل سکتے ہیں ، نہ پکڑ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں ،امام طبری رحمہ اللہ فر ماتے ہیں گویا ’’خَالِيَةٌ مِنْ كُلِّ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ الَّتِي بِهَا يُوصَّلُ إِلَى اجْتِلَابِ النَّفْعِ وَدَفْعِ الضُّرِّ؟‘‘ یہ معبودان باطلہ ہر اس چیز سے خالی ہیں جن کے ذریعہ حصول نفع اور تکلیف کے ازالے تک پہونچا جاتا ہے ۔ ( تفسیر الطبری : ۱۳؍ ۳۲۲) اللہ نے فرمایا {أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ}کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوںیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔ (الأعراف : ۱۹۵)
بسا اوقات اللہ تعالی نے ان معبودان باطلہ کی کمزوری سے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ فرمایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ} لوگو ! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو ! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔ (الحج : ۷۳) ایک جگہ اور فر مایا {وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ} اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ (الأعراف : ۱۹۷)
کبھی کبھاراللہ تعالی نے ان پر فقر و قلت کا حکم لگایا ہے کہ وہ آسمان اور زمین میںموجود اشیاءمیں ذرہ برابر چیز کے مالک نہیں ہیں اور انہیں جس اعتبار سے شریک ٹھہرا یا جاتا ہے اس کے حساب سے بھی کسی چیز میں ان کی ملکیت نہیں ہے اور ان میں سے اللہ تعالی کا کوئی مددگاربھی نہیں ہے اور نہ اس کے سامنے ان میں سے کوئی سفارش کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (۲۲) کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے [سب] کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے(۲۲) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ } شفاعت [سفارش] بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے۔ (سبأ:۲۲-۲۳)
اور اللہ تعالی نے کہیں کہیںیہ بھی واضح کیردیاہے کہ عقلی و شرعی ہر اعتبار سے اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کا ہونا ممنوع ، محال اور باطل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ} اگر ان دونوں ( آسمان و زمین) میں اللہ کے علاوہ کو ئی اور معبود ہوتا تو دونوں درہم برہم ہوجا تے پس اللہ ، عرش کے رب کی ذات پاک ہےان تمام باتوں سے جو وہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ (الأنبیاء : ۲۲) ایک اور مقام پر فرمایا {قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا} اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔ (الإسراء : ۴۲) ایک اور جگہ فرمایا {مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ } نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے۔ (المؤمنون : ۹۱)
ہمیں معلوم ہے کہ شرک اکبر کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :۔
۱۔پہلایہ کہ اللہ کی ربوبیت ، خلقت ، ملکیت ، رزق اور تدبیر میں اس کا شریک بنایا جا ئے جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے شرک کی بابت فر مایا {أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ}کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے۔ (الرعد : ۱۶) اور اگر کسی نے تخلیق الہی میں کسی کو شریک بنایاتو اللہ تعالی نے اس کی نکیر کیا اور بتایا کہ یہ مخلوق ہے خالق نہیں جیسا کہ فرمایا {هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ} یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ (کچھ نہیں) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ (لقمان : ۱۱) اور بتایا کہ پیدا کرنے اور حکم دینے میں وہی یکتا اور اکیلا ہے جیسا کہ فرمایا {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ } بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا، وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الأعراف : ۵۴)
۲۔دوسرایہ کہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرناجب کہ اس کی ذات اس سے پاک اور بلند و بالا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ} یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے، اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔ (التوبۃ : ۳۰) ایک اور آیت میں فرمایا {وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ} اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان بتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ (الأنعام : ۱۰۰) ایک اور جگہ فرمایا {وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (۱۵) } اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے(۱۵) أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَکیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا؟ (الزخرف : ۱۵-۱۶)
۳۔تیسرا یہ کہ ستاروں پر ایمان لانا اور ان کی عبادت کرنا جیسا کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے ستاروں کی عبادت کے سلسلے میں احتجاج کیا جیسا کہ فرمایا {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (۷۵) اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم [علیہ السلام] کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں (۷۵) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (۷۶) پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (۷۶) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (۷۷) پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا (۷۷) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (۷۸) پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (۷۸) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۷۹) میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (۷۹) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (۸۰) اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا، آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے معاملہ میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔ (۸۰) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۸۱) } اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو(۸۱)۔ (الأنعام : ۷۵-۸۱)
اسی طرح ستاروں سے پانی طلب کرنا اور ستاروں کو روزی رساں سمجھنا بھی شرک ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔ (الواقعۃ : ۸۲) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’مُطِرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ شَاكِرٌ وَمِنْهُمْ كَافِرٌ، قَالُوا: هَذِهِ رَحْمَةُ اللهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَقَدْ صَدَقَ نَوْءُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:{فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ} [الواقعة: ۷۵]، حَتَّى بَلَغَ: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} [الواقعة: ۸۲]‘‘ نبی ﷺ کے زمانے میں لوگوں پر پانی برسا تو نبی ﷺ نے فرمایا:لوگوں میں سے بعض لوگوں نے شاکر ہو کر اور بعض نے کافر ہو کرصبح کیا تو (جنہوں نے شکر پر صبح کی انہوں نے) کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ فلاں نوء فلاں نوء سچ ہوئےتو یہ آیت نازل ہو ئی {فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ} تا{وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ } [الواقعة: ۸۲]تک۔ ( صحیح مسلم : ۷۳، تفسیر الطبری : ۲۳؍ ۱۵۴)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، لَا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ، وَ الْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ‘‘ میری امت میں جاہلیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں لوگ نہیں چھوڑیں گے(۱) حسب پر فخر کرنا(۲) کسی کے نسب پر طعن کرنا(۳) تاروں سے پانی طلب کرنا(۴) نوحہ کرنا۔ ( صحیح مسلم : ۹۳۴، سنن ابن ماجۃ : ۱۵۸۱)
اور زید بن خالد الجہنی سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ’’صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: اللہ کے رسول ﷺنے ہمیں حدیبیہ میں اس آسمانی بارش پر صبح کی نماز پڑھائی جو رات میں ہو ئی تھی،جب نماز سے فارغ ہوئے تولوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں، تو (آپ ﷺ نے )فر مایا: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ‘‘ کہ (تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ) میرے بندوں میں سےکچھ مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کئے اور کچھ میرے منکر ہوکر،رہی بات اس کی جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ ان ان تاروں کی وجہ ہوئی وہ میرا منکر اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے۔ ( صحیح بخاری : ۸۴۶، صحیح مسلم : ۷۱، سنن أبی داؤد : ۳۹۰۶، سنن النسا ئی : ۱۵۲۵)
۴۔ اللہ کے اسماء و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا بھی شرک ہے جیسے وہ شخص جو اللہ کے علاوہ کو عالم الغیب تسلیم کرتا ہے ، اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیا {قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ} آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتے ہیں سو کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الأنعام : ۵۰) ایک اور جگہ فر مایا { إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ}یقینا غیب اللہ ہی کے لئے ہے ۔ (یونس : ۲۰) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا’’مَنْ أَتَى كَاهِنًا- قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِهِ ،فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ ثُمَّ اتَّفَقَا -أَوْ أَتَى امْرَأَةً، قَالَ مُسَدَّدٌ: امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً، قَالَ مُسَدَّدٌ: امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘ جو کسی کاہن کے پاس آئے پھر جو وہ کہے اس کی تصدیق کرے، یا حائضہ عورت کے پاس آئے یا اپنی عورت کے پاس اس کی پچھلی شرمگاہ میں آئے تو وہ ان چیزوں سے بری ہو گیا جو محمد ﷺپر نازل کی گئیں ہیں۔ (سنن أبی داؤد : ۳۹۰۴، جامع الترمذی : ۱۳۵، سنن ابن ماجۃ : ۶۳۹ ، الصلاة لفضل ابن دکین : ۱۵، مسند اسحاق بن راہویۃ : ۴۸۲، مسند أحمد : ۹۵۳۶) کوئی ایسا نام جو صرف اللہ کے شایان شان ہو، اللہ کے علاوہ کسی اور کے شایان شان نہ ہوتو اس نام کا اپنے یا اپنے علاوہ کسی اور کے لئے منتخب کرنا صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس پر شدید وعید آئی ہے جیسے اللہ یا رحمن ، اللہ تعالی نےفر مایا { وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں انہیں کے ذریعہ اسے پکارو اور انہیں چھوڑو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں عنقریب وہ بد لہ دیئے جا ئیں گے اس چیز کا جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ (الأعراف : ۱۸۰) ایک اور جگہ فر مایا { اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى }اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اسی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ۔ (طہ : ۸) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَخْنَى الأَسْمَاءِ يَوْمَ القِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاَكِ‘‘قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس شخص کا ہو گا جس نے اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھا ہوگا۔ (صحیح بخاری : ۶۲۰۵، صحیح مسلم : ۲۱۴۳، سنن أبی داؤد : ۴۹۶۱، جامع الترمذی : ۲۸۳۷)
ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وَكَانَ سُفْيَان بن عُيَيْنَة يُفَسر قَوْله: ملك الْأَمْلَاك قَالَ: هُوَ مثل قَوْلهم: شاهان شاه أَي أَنه ملك الْمُلُوك وَقَالَ غير سُفْيَان: بل هُوَ أَن يتسمى الرجل بأسماء اللَّه كَقَوْلِه: الرَّحْمَن والجبار والعزيز قَالَ: فَالله هُوَ ملك الْأَمْلَاك لَا يجوز أَن تسمى بِهَذَا الِاسْم غَيره‘‘سفیان بن عیینہ نے ’’ملك الْأَمْلَاك‘‘ کی تفسیر کرتے ہو ئے فرمایاکہ جیسے وہ ایک لفظ استعمال کرتے ہیں شہنشاہ تو اس کا وہی معنی ہے کہ وہ ملک الملوک ہےاور سفیان کے علاوہ لوگوں نے کہاکہ بلکہ وہ اللہ کے نام پر آدمی کا نام رکھنا ہے جیسے الرحمن ، الجبار ، العزیز ، پھر فرماتے ہیں کہ اللہ ہی ’’ ملك الْأَمْلَاك ‘‘ ہے، کسی اور کے لئے یہ نام رکھنا جائز نہیں ہے ۔ (غریب الدیث للقاسم بن سلام : ۲؍ ۱۸)
۵۔ مخلوق میں سے کسی کے تئیں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ کمال الہی سے متصف ہےیا وہ ہر چیز پر قادر ہےشرک ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ}اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ ۔ (الإخلاص : ۴) اور فر مایا {رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا} آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے ؟ (مریم : ۶۵) اور اللہ تعالی نے اپنے کمال قدرت کی بابت فرمایا {إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}یقینااللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (البقرۃ : ۱۴۸) ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا }اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرا دے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ بڑے علم والا، بڑی قدرت والا ہے ۔ (فاطر : ۴۴) اللہ تعالی نے تمام عبادت گزاروںاور تمام معبودان باطلہ کی کمزوری وعاجزی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوبُ} لوگو ! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو ! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیںبلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے، وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔ ۔ (الحج : ۷۳)
۶۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود سمجھنا جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تھا،اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا {وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً ۚ اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ} اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے ؟ بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ (الأنعام : ۷۴) اسی طرح اصحاب کہف جو اللہ وحدہ لا شریک کی خا طر اپنی قوم سے الگ ہو گئے تھے چوں کہ ان کی قوم نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تھا، انہیں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا {هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۭ لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۢ بَيِّنٍ ۭ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا} یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں، ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے اللہ پر جھوٹ افترا باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے۔ (الکھف : ۱۵) اسی طرح موسی علیہ السلام کی قوم جنہوں نے اپنے نبی سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ مشرکین کی طرح ان کے لئے بھی ایک معبود بنا دیں، اللہ تعالی نے انہیں کے بارے میں فر مایا {وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَامُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (۱۳۸) اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا، پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے (۱۳۸) إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۳۹)} یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے۔ (الأعراف : ۱۳۸-۱۳۹) اور اللہ کے علاوہ ہر معبود کی عبادت باطل ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۢ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ }نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے۔ (المؤمنون : ۹۱)
۷۔ جو عبادتیں اللہ کے لئے خاص ہیں وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک عبادت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف پھیردیناجیسا کہ اللہ تعالی نے مشرکین کے احوال و کوائف پر گفتگو کرتے ہو ئے فرمایا {وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ} اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔ (الأنعام : ۱۳۶) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَ شِرْكَهُ‘‘ میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوںجس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ اس میں میرے ساتھ اس نے میرے علاوہ کسی اورکو شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (صحیح مسلم : ۲۹۸۵)
۸۔ قربت حاصل کرنے کے لئے اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے ذبح کرنا جیسے قربت حاصل کرنے کے لئےبتوں اورمردوں کے لئے ذبح کرنا ،چونکہ ذبح صرف اللہ کے لئے ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا {قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ} آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ۔ (الأنعام : ۱۶۲) اور فر مایا {إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی بےبس کردیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ۱۱۵) ابو طفیل فرماتے ہیں کہ ہم نے ابو طالب سے کہا کہ ہمیں ایسی بات بتائیے کہ جسے اللہ کے رسول ﷺ نے آپ سے چپکے چپکے کہا ہو تو انہوں نے فر مایا ’’مَا أَسَرَّ إِلَيَّ شَيْئًا كَتَمَهُ النَّاسَ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ‘‘ مجھ سے انہوں نے چپکے چپکے ایسا کچھ نہیں کہا ہے جسے لوگوں سے چھپایا ہولیکن میں نے انہیں کہتے ہو ئے سنا ہےکہ اللہ نے اس پر لعنت کیا ہے جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ۔ (صحیح مسلم : ۱۹۷۸) چوں کہ یہ امر بہت عظیم ہے اسی لئے غیر اللہ کے لئے ذبح تو در کنار اللہ کے رسول ﷺ نے اس مقام پر ذبح کرنے سے منع کیا ہے جہاں غیر اللہ کے لئےذبح کیا جارہا ہو جیسا کہ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَ لَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ‘‘ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میںایک اونٹ ذبح کرے گا تو وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہاکہ میں نے بوانہ میںایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبیﷺ نے فرمایا: کیاوہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟لوگوں نے کہا: نہیں،(پھر) فرمایا: کیاان کے عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی؟لوگوں نے کہا: نہیں، تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو (اور جان لو کہ ) اللہ کے معصیت میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں ہے۔ ( سنن أبی داؤد : ۳۳۱۳)
۹۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے نذر ماننا چونکہ نذر ایک عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کے لئے جا ئز ہے ، اسے کسی اور کی طرف پھیرنا حرام اور نا جا ئز ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے ان مومنوں کی تعریف کیا ہے جو اپنا نذر پورا کرتے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا } جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے ۔ (الإنسان : ۷) اور فر مایا {وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ} تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو، اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (البقرۃ : ۲۷۰) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ‘‘ جس نے اطاعت الہی کی نذر مانی وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نا فرمانی کی نذر مانی تو وہ اس کی نا فر مانی نہ کرے ۔ (صحیح بخاری : ۶۶۹۶، سنن أبی داؤد : ۳۲۸۹، جامع الترمذی : ۱۵۲۶، سنن النسا ئی : ۳۸۰۶، سنن ابن ماجۃ : ۲۱۲۶)
۱۰۔ غیر اللہ سے استعاذہ کرنا جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَبِيتُ أَحَدُهُمْ بِالْوَادِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَيَقُولُ: أَعُوذُ بِعَزِيزِ هَذَا الْوَادِي، فَزَادَهُمْ ذَلِكَ إِثْمًا‘‘ لوگوں میں سے ایک شخص دور جا ہلیت میں وادی میں رات گزارتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ میں ا س وادی کے عزیز کی پناہ چاہتا ہوں تو وہ ان کے گناہ میں اضافہ کرتا تھا ۔ (تفسیر الطبری : ۲۳؍ ۳۲۲) اور اللہ تعالی نے دور جا ہلیت کے احوال و کوائف کا تذکرہ کرتے ہو ئے فرمایا {وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا} بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ (الجن : ۶) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا کہ جو کسی مقام یا گھر میںقدم رنجہ ہو تو یہ کہے ’’أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ‘‘ میںپناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی، اس کی برائی سےجو اس نے پیدا کیا، اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سےکوچ کرجائے۔ (صحیح مسلم : ۲۷۰۸، جامع الترمذی: ۳۴۳۷، سنن ابن ماجۃ : ۳۵۴۷)
۱۱۔ غیر اللہ سے استغاثہ اور استعانت کرنا یا غیر اللہ کو پکارنا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ (الجن : ۱۸) اور فر مایا { إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ} اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (با لفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے شریک اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔ (فاطر : ۱۴) اور اللہ تعالی نے واضح طور پر کہا کہ مشرکین کو جب تکلیف پہونچتی ہے تو اللہ سے استغاثہ کرتے ہیں پھر جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو وہ شرک کی طرف لوٹ آتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ } پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ (العنکبوت : ۶۵) اور فر مایا {وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ } اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا ؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بیخبر ہوں ۔ (الأحقاف : ۵) اور اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہی محتاجوں کی مدد کرتا اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ} بےکس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کردیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے ؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو ۔ (النمل: ۶۲)
۱۲۔(شرک الطاعۃ لغیر اللہ ) غیر اللہ کی اطاعت کا شرک : اللہ تعالی نے اہل کتاب کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے اپنے علماء کو رب بنا لیا تھا ، وہی ان کے لئے شریعت اور قانون بناتے اور ان پر اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے ۔ (التوبۃ : ۳۱) اور فر مایا { أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ} کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیںہیں ۔ (الشوری : ۲۱) اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنے او پر ایمان لانے اور اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے اور بتادیا ہے کہ شیطان تمہیں طاغوت کو فیصل بنانے کاحکم دیتا ہےجیسا کہ فر مایا {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْأُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا}کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو آپ کی طرف اور آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے ،وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ کے لئے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں اس کے انکار کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں لے کر چلا جائے۔ (النساء : ۶۰) عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} [التوبة: ۳۱]، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَ لَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ‘‘میں نبی ﷺکے پاس آیااس حال میں کہ میرے گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، توانہوں نے فرمایا: اےعدی! اپنے سے یہ بت دور کردو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت پڑھتے ہوئے سنا{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے، فرمایا: وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ لوگ ان کے لئےکسی چیز کو حلال کر دیتے تو وہ اسے حلال سمجھ لیتے تھے اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام سمجھ لیتے تھے ۔ ( جامع الترمذی : ۳۰۹۵، الطبقات ابن سعد : ۶؍ ۲۱۹، تفسیر ابن أبی حاتم : ۱۰۰۵۷، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۷؍ ۹۲؍ ۲۱۸)
۱۳۔ نماز ، رکوع ، سجدہ اور طواف میں شرک، اصلا یہ اور ان کے علاوہ دیگر عبادتیں اللہ کے لئے خاص ہیں ، یہ ساری عبادتیں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کے لئے انجام دینا صحیح نہیں ہے ، اللہ تعالی نے اپنے خلیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ طواف ، اعتکاف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے اس کا گھر پاک کردیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ} جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کا طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا ۔ (الحج : ۲۶) اور حکم دیا کہ صرف اللہ سبحانہ وتعالی کا سجدہ کریں جیسا کہ فر مایا {لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ}تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے ۔ (فصلت : ۳۷) اللہ کی عبادت سے صرف متکبر ہی روگردانی کرے گاجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قَالَ يَاإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ} اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس ! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے ؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔ (ص: ۷۵) کیوں کہ اللہ تعالی نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ساری مخلوق اللہ ہی کے لئے سجدہ ریز ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا {وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ} یقیناً آسمان و زمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے۔ (النحل : ۴۹) اور اس خبر میں بھی اس بات کی دلیل موجود ہے کہ جعفر جب نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے تو بو لے ’’أَنَا خَطِيبُكُمُ الْيَوْمَ فَاتَّبَعُوهُ حَتَّى دَخَلُوا عَلَى النَّجَاشِيِّ فَلَمْ يَسْجُدُوا لَهُ فَقَالَ: مَالَكُمْ لَا تَسْجُدُونَ لِلْمَلِكِ؟ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا نَبِيَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ إِلَّا لِلَّهِ‘‘آج کے دن میں تمہارا خطیب ہوں لہذا تم سب اس کی اتباع کرو یہاں تک کہ وہ لوگ نجاشی پر داخل ہو ئے تو انہوں نے اس کا سجدہ نہیں کیا تو اس نے کہا تمہیں کیا ہوگیا کہ تم نے بادشاہ کے لئے سجدہ نہیں کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ عزوجل نے ہماری طرف اپنے نبی ﷺ کو مبعوث کیا تو انہوں نے ہمیں صرف اللہ کے سجدہ کا حکم دیا ۔ ( مسند أبی داؤد: الطیالسی : ۳۴۴، سنن سعيد بن منصور: ۲۴۸۱، مسند أحمد : ۴۴۰۰، جزء لوین : ۴، أحکام القرآن للطحاوی : ۴۱۸)
۱۴۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام سے ہٹ کر کسی اور قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنا ، اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاکم تسلیم کرلینا، جو اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام سے ہٹ کر کسی اور قانون کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اس کا حکم بیان کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ}اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں ۔ (المائدۃ : ۴۴) اور فر مایا {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ}اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں ۔ (المائدۃ : ۴۵) اور فر مایا {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ}اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں۔ (المائدۃ : ۴۷) یہ اس لئے کہ تمام کا تمام حکم اللہ ہی کے لئے ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ} یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الأعراف : ۵۴) اور فر مایا {وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے، یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا، تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے ۔ (النحل : ۳۵)
اہل کتاب نے اپنے علماء کو رب بنا لیا تھا، وہی ان کے لئے قانون بناتے تھے،انہیں کی بابت تو اللہ تعالی نے فرمایا {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے ۔ (التوبۃ : ۳۱) ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا { أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ} کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیںہیں ۔ (الشوری : ۲۱) عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} [التوبة: ۳۱]، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَ لَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ‘‘میں نبی ﷺکے پاس آیااس حال میں کہ میرے گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، توانہوں نے فرمایا: اےعدی! اپنے سے یہ بت دور کردو، میں نے آپ کو سورۃ برأۃ کی آیت پڑھتے ہوئے سنا{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے، فرمایا: وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ ان کے لئےکسی چیز کو حلال کر دیتے تو وہ اسے حلال سمجھ لیتے اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ اسے حرام سمجھ لیتے تھے ۔ ( جامع الترمذی : ۳۰۹۵، الطبقات ابن سعد : ۶؍ ۲۱۹، تفسیر ابن أبی حاتم : ۱۰۰۵۷، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۷؍ ۹۲؍ ۲۱۸)
اس سلسلے میں اہل کتاب ان مشرکین کے مشابہ تھے جن کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے ۔ (النحل : ۳۵)
اور فر مایا {فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا } سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ (النساء: ۶۵) اور فر مایا { أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ} ک کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیںہیں ۔ (الشوری : ۲۱) اور فر مایا {اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ} ک کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے ۔ (المائدۃ : ۵۰)
۱۵۔ (شرک المحبۃ ) محبت کا شرک یعنی آدمی کسی مخلوق سے ایسی محبت کرے جس میں خشوع و خضوع اور تعظیم ہو،یہ شرک ہے کیوں کہ مشرکین بتوں سے اسی طرح محبت کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کی حقیقت بیان کرتے ہو ئے فرمایا {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ}بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیںجیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے۔ (البقرۃ : ۱۶۵) عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ.....‘‘ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ فر مایا : آپ اللہ کا شریک بنا ئیں جب کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۴۴۷۷، صحیح مسلم : ۸۶، سنن أبی داؤد : ۲۳۱۰، جامع الترمذی: ۳۱۸۲، سنن النسائی : ۴۰۱۳)
۱۶۔ (شرک الخوف والخشیۃ ) خوف و خشیت کا شرک یعنی ایک انسان کسی مخلوق سے ایسا خوف کھائے یا اس سے ایسا ڈرے کہ جس میں خشوع و خضوع اور تعظیم ہو یعنی اس سے اس لئے ڈرے کہ وہ کہیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کردے یاوہ خیر کا کو ئی راستہ بند نہ کردے ، اس قدر اس سے خوف کھا ئے کہ اس کی وجہ سے واجبات تک ترک کردے یا اس کےڈر کی وجہ سے اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے کسی حرام کام کا ارتکاب کر بیٹھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو ۔ (آل عمران : ۱۷۵) مشرکوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے معبود انہیں نفع و نقصان پہونچاتے ہیں ، اسی لئے انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ان کے معبودوں نے اللہ کے نبی ہود علیہ السلام کو تکلیف پہونچایا ہے جیسا کہ ان لوگوں نے کہا {إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ}بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو ۔ (ھود : ۵۴) مذکورہ آیت کی تفسیر میں مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’{إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ} قَالَ:أَصَابَتْكَ الْأَوْثَانُ بِجُنُونٍ‘‘ بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے ، فر مایا کہ تمہیں بتوں نے جنون میں مبتلا کردیا ہے ۔ (تفسیر الطبری : ۱۵؍ ۳۶۱) اور اللہ تعالی نے ملت حنیفیہ اپنانے والے کے بارے میں فرمایا {وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا} اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی ۔ (الأنعام : ۸۱)
دور جاہلیت میں لوگ اتنا خوف کھاتے تھے کہ جنوں کے سرداروں کی پناہ طلب کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا} بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ (الجن : ۶)
اور فر مایا {فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً } پپھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ (النساء : ۷۷) اللہ تعالی نے اس بات کی بھی وضـاحت کردیا ہے کہ اس سے صرف اس کے اولیاء ہی ڈرتے ہیں جیساکہ فرمایا {الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَ لَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ۭوَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا} یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے، اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ (الأحزاب : ۳۹) اور یہ بھی فر مایا {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ} اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں۔ (التوبۃ : ۱۸) جادو گروں نے ایمان لاتے ہی خوف الہی کو فرعون اور اس کی پکڑ کے خوف پر ترجیح دیا جیسا کہ فرمان الہی ہے {قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (۷۲) انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنے آچکیں اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو تو جو کچھ کرنے وہ ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیوی زندگی میں ہی ہے (۷۲) إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (۷۳)} ہم [اس امید سے ] اپنے پروردگار پرایمان ﻻئے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور [خاص کر] جادوگری [کا گناہ،] جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے، اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے (۷۳)۔ (طہ : ۷۲-۷۳)
۱۷ ۔ ( شرک الرجاء ) امید کا شرک یعنی جس پر صرف اللہ قادر ہو اس کی امید اللہ کے علاوہ کسی زند ہ حاضر یا غائب انسان سے لگانا یا کسی مردے سے تکلیف دور کرنے ، ضرورت پوری کرنے اور قیامت کے دن شفاعت کرنے کی امید رکھنا ، مشرکین کو اپنے معبودوں سے یہی امید تھی جیسا کہ اللہ تعالی نے مشرکین کے اپنے معبودوں کی عبادت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا {مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى } ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ [بزرگ] اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔ (الزمر : ۳) اور فر مایا {إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ} اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (با لفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گےبلکہ قیامت کے دن تمہارے شریک اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔ (فاطر : ۱۴) اور یہ واضح کردیاکہ یہ شرکاء کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں جیسا کہ فرمایا {قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَى بَيِّنَتٍ مِنْهُ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا} آپ کہئے ! کہ تم اپنے قرار داد شریکوں کا حال تو بتاؤ جن کو تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہویعنی مجھے یہ بتلاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سا (جز) بنایا ہے یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس کی دلیل پر قائم ہوںبلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے آتے ہیں ۔ (فاطر : ۴۰) اور یہ بھی واضح کردیا کہ بروز قیامت ان کے اتباع کو کہا جا ئے گا {وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ} کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ وہ بلائیں گے لیکن انھیں وہ جواب تک نہ دیں گے اور سب عذاب دیکھ لیں گے کاش یہ لوگ ہدایت پالیتے۔ (القصص: ۶۴) اسی طرح مشرکین کے اپنے معبودوں کو پکارنے پر قرآن مجید میںجتنی دلیلیں آئی ہیں وہ سب شرک الرجاءپر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ} یہ یقینی امر ہے کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے نہ آخرت میں اور یہ بھی (یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً ) اہل دوزخ ہیں۔ (غافر : ۴۳) یعنی اگر وہ یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ ان کا جواب دیں گےتو قوم فرعون کے مومن اس کا انکار نہیں کرتے ۔
۱۸۔ جادو کرنا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ}سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا تھا، وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے ،جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نہ نفع پہنچا سکے، اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔ ۔ (البقرۃ : ۱۰۲) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ ‘‘ ہلاک کرنے والےسات گناہوں سے بچو،لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں؟ فرمایا (۱)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (۲)جادو کرنا (۳)اس نفس کو نا حق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے (۴)سود کھانا (۵)یتیم کا مال کھانا (۶) لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (۷) پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔ ( صحیح بخاری : ۲۷۶۶، صحیح مسلم : ۸۹ ، سنن أبی داؤد : ۲۸۷۴، سنن النسائی : ۳۶۷۱)
اور عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اور یہ بات انہوں نے بجالہ سے سنا ہے وہ عمرو بن اوس اور ابو الشعثاء سے بیان کررہے تھے کہ’ ’كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ إِذْ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ: اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ....‘‘ میں احنف بن قیس کے چچاا بن معاویہ کے جز ء کا کاتب تھاکہ ہمارے پاس عمر کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (اس میں لکھا تھا کہ)ہر جادوگر کو قتل کر دو۔ ( سنن أبی داؤد : ۳۰۴۳، مصنف عبد الرزاق الصنعانی : ۹۹۷۲، سنن سعيد بن منصور: ۲۱۸۰، مسند أحمد : ۱۶۵۷)
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فر مایا ’’مَنْ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ‘‘جس نے علم نجوم کا کوئی حصہ اخذ کیا تو اس نے جادو کا ایک حصہ اخذ کیا، وہ جتنا اضافہ کرے گا اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ ( سنن ٓبی داؤد : ۳۹۰۵، سنن ابن ماجۃ : ۳۷۲۶، مصنف ابن أبی شیبۃ ئ ۲۶۱۵۹، مسند أحمد : ۲۰۰۰، المنتخب من مسند عبد بن حميد: ۷۱۴)
۱۹۔ کہانت اور عرافہ بھی شرک اکبر ہے کیوں کہ جو شخص یہ پیشہ اپناتا ہے وہ اصلاعلم غیب کا دعوی کرتا ہے اور علم غیب کے سلسلے میں اللہ تعالی فر ماتا ہے {عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (۲۶) وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (۲۶) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (۲۷)} سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے(۲۷) ۔ (الجن : ۲۶-۲۷) اور صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً‘‘ جو کسی عراف (کاہن ) کے پاس آیا اور اس سے کو ئی چیز پوچھا تو چالیس رات اس کی کو ئی نماز قبول نہیں کی جا ئے گی ۔ (صحیح مسلم : ۲۲۳۰)
ابو ہریرہ اور حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ’’مَنْ أَتَى كَاهِنًا، أَوْ عَرَّافًا، فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘ جو کسی کا ہن یا عراف کے پاس آیا اور اس کی کہی ہو ئی باتوں کی تصدیق کیا تو اس نے محمد پر نازل کردہ (احکام ) کا انکار کیا ۔ ( مسند أحمد : ۹۵۳۶ ، سنن أبی داؤد : ۳۹۰۴، جامع الترمذی : ۱۳۵، سنن ابن ماجۃ : ۶۳۹ ، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۱۷۰۷۷، مسند اسحاق بن راہویۃ : ۴۸۲، مسند أحمد : ۹۲۹۰ )
ہمیں معلوم ہے کہ شرک اصغر کے ارتکاب سے کوئی ملت کے دائرے سے خارج نہیں ہوجاتا اور نہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا اور نہ اس کے اعمال برباد ہوں گے اور اس کی بہت ساری قسمیں ہیں ، جن میں سے چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل سطور میں آرہا ہے :۔
۱۔ بدشگونی ، بدشگونی کیا ؟ جو آپ کو کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ} پ سو جب خوشحالی آجاتی تو کہتے یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی تھا اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو (موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے یاد رکھو ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (الأعراف : ۱۳۱) ایک اور جگہ فرمایا {قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ ۭ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ} ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ، کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔ (یس : ۱۹) اور اللہ کے نبی ﷺ نے فر مایا ’’لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ‘‘(کو ئی بیماری )متعدی نہیں ہوتی ،نہ ( کسی چیز میں ) نحوست ہے ، الو منحوس نہیں ہےاورماہ صفر بھی منحوس نہیں ہے۔ (صحیح بخاری : ۵۷۰۷، صحیح مسلم : ۲۲۲۰، سنن أبی داؤد: ۳۹۱۱)
اور عروہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ’’ذُكِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: نبی ﷺ کے پاس طیرہ (بدشگونی) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلَا تَرُدُّ مُسْلِمًا، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ‘‘ اس کی سب سے اچھی قسم نیک فال ہے اوروہ کسی مسلمان کونہیں روکتا ، اس لئے جب تم میں کا کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناگوار ہو تو وہ یہ کہے’’اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ‘‘اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں پہنچاتا اور تیرے سواکوئی تکلیفوں کو دور نہیںکر سکتا ، طاقت و قوت تیری ہی توفیق سے ہے۔ ( سنن أبی داؤد : ۳۹۱۹، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۶۹۲۰، الأدب لإبن أبی شیبۃ : ۱۶۲، السنۃ لأبی بکر بن خلال : ۱۴۰۵)
اور عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’ ’مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ مِنْ حَاجَةٍ، فَقَدْ أَشْرَكَ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنْ يَقُولَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ‘‘ جسے بدشگونی نے کسی ضرورت سے روک دیا اس نے شرک کیا لوگو ں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس کا کفارہ کیا ہے ؟ فر مایا : ان میں سے ایک کہے ’’ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ‘‘ اے اللہ تیرے خیر کے سوا کوئی خیر نہیں ہے ، تیرے شگون کے علاوہ کو ئی شگون نہیں ہے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔ ( الجامع لإبن وہب : ۶۵۸، مسند أحمد : ۷۰۴۵، اور الفاظ اسی کتاب کے ہیں ، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۴۶۲۲، عمل الیوم والیلۃ : ۲۹۲)
۲۔ تعویذ کا لٹکانا جیسا کہ ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَسُولًا أَنْ: لاَ يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ ‘‘ وہ ایک سفر میں اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ تھے،عبداللہ نے کہا کہ میرا خیال ہےکہ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے تو اللہ کے رسول ﷺ نے ایک قاصد( یہ اعلان کرنے کے لیے )بھیجا کہ کسی اونٹ کے گردن میں تانت کا گنڈا ہوتو وہ باقی نہ رہے یا گنڈا (ہار) ہو تو اسے کاٹ دیا جا ئے۔ ( صحیح بخاری : ۳۰۰۵، صحیح مسلم : ۲۱۱۵، سنن أبی داؤد : ۲۵۵۲)
اور عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سناہےکہ ’’إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ‘‘جھاڑ پھونک، تعویذ اور تولہ(ایک قسم کا جادو ہے جسے دھاگہ یا کاغذ میں عورت مرد کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے) شرک ہے ۔ ( سنن أبی داؤد : ۳۸۸۳، سنن ابن ماجۃ : ۳۵۳۰، الجامع لمعمر بن أبي عمرو راشد الأزدي :۲۰۳۴۳، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۳۹۲۴، مسند أحمد : ۳۶۱۵)
ایک اور مقام پر اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ‘‘ جو کو ئی چیز لٹکایا وہ اسی کے حوالے کردیا جا ئے گا ۔ (جامع الترمذی : ۲۰۲۷، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۳۹۲۳، مسند ابن أبی شیبۃ : ۷۸۶، مسند أحمد : ۱۸۷۸۱)
۳۔ ریا کاری و دکھاوا : جب کسی کا دل ریاکاری و دکھاوا سے بھر جاتا ہے تو وہ عمل صالح بغیر نیت ، بغیر ایمان اور بغیر خشیت الہی کےکرتا ہے اور یہ شخص خالص منافق ہے ، اس کا عمل برباد ، مردود اور غیر مقبول ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا}تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (الکھف : ۱۱۰) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَ شِرْكَهُ‘‘ میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوںجس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کو شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (صحیح مسلم : ۲۹۸۵)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ‘‘لوگوں میں سب سے پہلےبروز قیامت جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شہید ہوگا ، اسے لا یا جا ئے گا تو وہ اسے اپنی نعمتیں بتلا دے گا وہ پہچان لے گا( اللہ ) پوچھے گا: تو نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ وہ بولے گا: میںتیری راہ میں لڑا ئی کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا،( اللہ) کہے گا: تو نے جھوٹ کہا تو اس لئے لڑائی کیا تھاتاکہ توبہادر کہا جا ئے اور تجھے بہادر کہا گیا، پھر حکم دیا جا ئے گا تواسے چہرے کے بل گھسیٹا جا ئے گاحتی کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جا ئے گا اور ایک اورشخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھایا ہوگا اور قرآن پڑھاہوگا،اسے لا یا جا ئے گااور اسے وہ(اللہ )اپنی نعمتیں یاد دلا ئے گا تو وہ اسے پہچان لے گا،تب کہے گاکہ تو نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم حاصل کیا اور سکھایا اور تیرے لئےقرآن پڑھا،(اللہ ) فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے اس لیے علم حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جا ئے اور قرآن اس لیے پڑھا تھا تاکہ تو قاری کہا جا ئےاور کہا گیاپھر حکم دیا جا ئے گا تواسے چہرے کے بل گھسیٹا جا ئے گاحتی کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جا ئے گا اور ایک ایساشخص ہو گا جس پر اللہ نے مال نچھاور کیا ہوگا اور اسے ہر طرح کا مال دیا ہوگا ، اسے لایا جائے گاتو ( اللہ ) اسے اپنی نعمتیں دکھلائے گاتو وہ پہچان لے گا( اللہ ) پوچھے گا: تو نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے کوئی ایسی راہ نہیں چھوڑی جس میں خرچ کرنا تو پسند کرتا ہے مگر یہ کہ اس میں میں نے تیرے لئے خرچ کیا ،( اللہ )فرمائے گا: تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے خرچ کیا تھا تاکہ سخی کہا جا ئے اور تو کہا گیا،پھر حکم دیا جا ئے گا تواسے چہرے کے بل گھسیٹا جا ئے گاحتی کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جا ئے گا۔ ( صحیح مسلم : ۱۹۰۵، جامع الترمذی : ۲۳۸۲، سنن النسا ئی : ۳۱۳۷)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ ، وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللَّهُ بِهِ‘‘جوسناتا ہے اللہ اسے بھی سنا ئے گا اور جو ریا کاری کرتا ہے اللہ اس کے ساتھ بھی ریاکاری کرے گا ۔ ( صحیح بخاری : ۶۴۹۹، صحیح مسلم : ۲۹۸۷، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۰۷)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ، سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ سَامِعَ خَلْقِهِ، وَحَقَّرَهُ وَصَغَّرَهُ‘‘ جو اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ ریا کاری کرے گا اللہ اپنے مخلوق کے سامنے اس کے ساتھ ریاکاری کرے گا ،اس کی تحقیر کرے گا اور اسے نیچا کرکے دکھا ئے گا ۔ ( الزھد لإبن المبارک : ۱۴۱، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۶۴۴۸، الزھد لھناد بن السری : ۸۷۲، مسند أحمد : ۶۵۰۹، الزھد للإمام أحمد بن حنبل : ۲۳۸)
اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا القِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘ایک شخص نبی ﷺکے پاس آیا اورکہا کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں لڑائی کیا ہے ؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے قتال کرتا ہےاور کوئی غیرت کی وجہ سے قتال کرتا ہے تو انہوں نے اس کی طرف اپنا سر اٹھایا، فر ماتے ہیں کہ انہوں نے اپنا سر نہیں اٹھایا مگریہ کہ وہ کھڑاتھا، اور فرمایا جواعلاء کلمۃ اللہ کے لیے لڑےوہی اللہ عزوجل کی راہ میں (لڑتا) ہے۔ ( صحیح بخاری : ۱۲۳، صحیح مسلم : ۱۹۰۴، سنن أبی داؤد: ۲۵۱۷، جامع الترمذی : ۱۶۴۶، سنن النسا ئی : ۳۱۳۶، سنن إبن ماجۃ : ۲۷۸۳)
ایسے عمل کو اللہ کے رسول ﷺ نے شرک السرائر کا نام دیاہے جیسا کہ فرمایا ’’إِيَّاكُمْ وَشِرْكَ السَّرَائِرِ، قَالُوا: وَمَا شِرْكُ السَّرَائِرِ؟ قَالَ: أَنْ يَقُومَ أَحَدُكُمْ يُزَيِّنُ صَلَاتَهُ جَاهِدًا لِيَنْظُرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَذَلِكَ شِرْكُ السَّرَائِرِ‘‘اپنے آپ کو شرک السرائر سے بچاؤ ، لوگوں نے کہا کہ شرک السرائر کیا ہے ؟ فرمایا تم میں کا ایک شخص اپنی نماز خوب مزین کرے تاکہ لوگ اس کی طرف دیکھیں یہی شرک السرائر ہے ۔ ( مصنف ابن أبی شیبۃ : ۸۴۰۳، صحیح ابن خزیمۃ : ۹۳۷، المعجم الکبیر للطبرانی : ۴۳۰۱، السنن الکبری للبیہقی : ۳۶۲۹، شعب الإیمان للبیہقی : ۲۸۷۲)
اور واضح کیا کہ ریاکاری بہت ہی مخفی گناہ ہے ، نبی کریمﷺ کو اپنی امت پر اسی ریاکاری ہی کا خوف سب سے زیادہ تھا حتی کہ فتنہ دجال سے بھی زیادہ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ؟ قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، فَقَالَ: الشِّرْكُ الْخَفِيُّ، أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلِّي، فَيُزَيِّنُ صَلَاتَهُ، لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ‘‘ کیا تمہیں نہ بتا دوں اس چیز کی بابت جس سے میں تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف کھاتا ہوں ؟ (صحابی رسول ) فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا کیوں نہیں ؟ تو (آپ ﷺ نے ) فر مایا شرک خفی یعنی آدمی نماز پڑھے تو اسے دیکھنے والے آدمی کے لئے مزین کرے ۔ ( سنن ابن ماجۃ : ۴۲۰۴، مسند أحمد : ۱۱۲۵۲، الفتن لحنبل بن اسحاق : ۳۰ ، تہذیب الآثار مسند عمر : ۱۱۱۷)
۴۔کسی عمل کے ذریعہ دنیا کمانا بھی شرک اصغرہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ} جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ (الشوری : ۲۰) اور فر مایا {مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ} جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ (ھود : ۱۵) البتہ یہ گناہ شرک اکبر بھی ہوسکتا ہے اور شرک اصغر بھی ہوسکتا ہے، نیت کے اعتبارسے اس پرحکم لگے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا}جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا ۔ (الإسراء : ۱۸)
اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلذِّكْرِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ‘‘ ایک آدمی نبی ﷺکے پاس آیا تو اس نے کہاکہ ایک آدمی غنیمت حاصل کرنے کے لئے جہاد کرتا ہے ، ایک آدمی شہرت کے لئے جہاد کرتا ہے اور ایک آدمی اس لئے جہاد کرتا ہے تاکہ اس کی اہمیت سمجھی جا ئے تو کون اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے ؟ (آپ ﷺ نے ) فر مایا جو کلمہ الہی کی بلندی کے لئے جہاد کرتا ہے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۸۱۰ ، صحیح مسلم : ۱۹۰۴، سنن أبی داؤد : ۲۵۱۷، سنن النسا ئی : ۳۱۳۶) اعمال کے ذریعہ دنیا کمانے والے پر اللہ کے رسول ﷺنے بد دعا کیا ہےجیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَالدِّرْهَمِ، وَالقَطِيفَةِ، وَالخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وَإِنْ لَمْ يُعْطَ لَمْ يَرْضَ‘‘دینار و درہم اور چادر و کمبل کا بندہ ہلاک ہوگیا ، اگر اسے دیا جا ئے تو خوش ہوتا ہے اور نہ دیا جا ئے تو نا خوش ہوتا ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۲۸۸۶، سنن ابن ماجۃ : ۴۱۳۵)
۵۔ اسی طرح آدمی کا یہ کہنا کہ ’’ جو اللہ چاہے اور تو چاہے ‘‘ یا اس سے ملتے جلتے جملے کہنا بھی شرک اصغر ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ’’أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَاءَ اللَّهُ، وَشِئْتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَجَعَلْتَنِي وَاللَّهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا کہ جو اللہ چاہے اور تو چاہے تو اسے نبی ﷺ نے کہا کیا تونے مجھے اور اللہ کو برابر کردیا (ایسا نہ کہو ) بلکہ (کہو ) جو اکیلا اللہ چاہے ۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۷۲۲۷، مسند أحمد : ۱۸۳۹، الأدب المفرد : ۷۸۳،الصمت لإبن أبی الدنیا : ۳۴۲، أمالي الباغندي: ۳۶) اسی طرح انسان کا یہ کہنا کہ’’ یہ اللہ اور تیری طرف سے ہے‘‘ یا’’ یہ کہنا کہ اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا ‘‘ بھی اسی شرک اصغر کے قبیل سے ہے ۔
۶۔ غیر اللہ کی قسم کھانا : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَلاَ مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلاَ يَحْلِفْ إِلَّا بِاللَّهِ، فَكَانَتْ قُرَيْشٌ تَحْلِفُ بِآبَائِهَا، فَقَالَ: لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ‘‘خبر دار جو قسم کھانا چاہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم نہ کھا ئے ، قریش اپنے آباء کی قسم کھاتے تھے تو (آپ نے ) فر مایا اپنے آباء کی قسم نہ کھا ؤ ۔ (صحیح بخاری : ۳۸۳۶، صحیح مسلم : ۱۶۴۶، سنن النسا ئی : ۳۷۶۴) اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ‘‘جس نے غیر اللہ کی قسم کھایا اس نے کفر کیایا شرک کیا ۔ (جامع الترمذی : ۱۵۳۵، مسند أحمد : ۶۰۷۲، مستخرج أبي عوانة: ۵۹۶۷، المستدرك على الصحيحين للحاکم : ۷۸۱۴)