ہمیں معلوم ہے کہ ایمان باللہ کی ضد کفر باللہ ہے اور کفر کی دو قسمیں ہیں (۱)کفراکبر(۲) کفراصغر ، کفر اکبر اصل ایمان کے مخالف ہے ، اور کفر اصغر کمال ایمان کے مخالف ہے ، کفر اکبر کے ارتکاب سے انسان دائرئہ ملت سے خارج ہوجاتا ہے اور ایسےکافر کی توبہ اور فدیہ اللہ تعالی قبول نہیں کرتا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ} جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ (آل عمران : ۸۵) اور فر مایا {اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ} ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے گو فدیے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، یہی لوگ ہیں جن کے لئے تکلیف دینے والا عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں۔ (آل عمران : ۹۱) ایک اور مقام پر فرمایا {وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ} اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کیے جائیں گے۔ (البقرۃ : ۴۸ ) کفر اکبرکے ارتکاب سےانسانوں کے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ} منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔ (المائدۃ : ۵) اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما{وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ}کے سلسلےمیں فرماتے ہیںکہ ’’أَخْبَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَنَّ الْإِيمَانَ هُوَ الْعُرْوَةُ الْوثْقَى، وَأَنَّهُ لَا يَقْبَلُ عَمَلًا إِلَّا بِهِ، وَلَا تُحَرَّمُ الْجَنَّةُ إِلَّا عَلَى مَنْ تَرَكَهُ‘‘ اللہ سبحانہ نے فرمایا کہ ایمان مضبوط رسی کا نام ہے ، اس کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے اور جس نے اسے ترک کردیا اس پر جنت حرام ہے ۔ ( تفسیر الطبری : ۳؍ ۱۱۳، و ۹؍ ۵۹۳، تفسیر ابن أبی حاتم : ۱۳۰۷، لیکن یہ بات انہ دونوں نے{فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا} [البقرة: ۱۳۷] کے سلسلے میں فر مایا ہے )
اور کافر ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا جیسا کہ فرمان الہی ہے {اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيْقًا (۱۶۸) اِلَّا طَرِيْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭوَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا(۱۶۹) } جن لوگوں نے کفر کیا اور ﻇظلم کیا، انہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا اور نہ انہیں کوئی راہ دکھائے گا (۱۶۸) بجز جہنم کی راہ کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، اور یہ اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے (۱۶۹) ۔ (النساء : ۱۶۸- ۱۶۹ )
ہمیں معلوم ہے کہ کفر اکبر کی کئی قسمیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اس کی وضاحت کیا ہے اور بتادیا ہے کہ کافروں کا کفر کبھی کبھی انکاری ہوا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا {قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ} ہ ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ (الأنعام : ۳۳) ایک اور مقام پر فرمایا {وَمَا يَجْــحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ}اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔ (لقمان : ۳۲) ایک اور جگہ فرمایا {وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ} انہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔ (النمل : ۱۴ )
اور کبھی کبھی حق سے روگردانی کے طور پر ہوا کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے کافروں کے امام ابلیس کے بارے میں فرمایا {وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ} اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا ۔ (البقرۃ : ۳۴) اور نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سلسلے میں کہا {وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا} میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لئے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور پھر بڑا تکبر کیا ۔ (نوح : ۷)
کبھی کبھار کفربطور تکذیب ہوتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے سابقہ امتوںکے بارے میں فرمایا {كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۚ فَاَخَذَھُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ وَاللّٰهُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ} جیسا آل فرعون کا حال ہوا اور ان کا جو ان سے پہلے تھے انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ان کے گناہوں پر پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے ۔ (آل عمران : ۱۱) اور فر مایا {بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُكَذِّبُوْنَ}بلکہ کافر جھٹلا رہے ہیں ۔ (الإنشقاق : ۲۲) اور یہ بات یاد رہے کہ یہ تکذیب چاہے زبانی ہویاچاہےدلی ،دو نوں برابر ہیں ، دونوں کے درمیان کو ئی فرق نہیں ہے جیسا کہ منافقوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فر مایا {اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا ۙ وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ } کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں۔ (الحشر : ۱۱) ایک اور مقام پر فر مایا {اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ} تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں۔ (المافقون : ۱)
کفرکبھی کبھاربطور ظن اور شک ہوا کرتاہے اور جب بطور شک ہوتا ہے توانسان احکام الہی، بعث بعد الممات اور اللہ تعالی سے ملاقات کے سلسلے میں بھی شک کرنے لگتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے جنتیوں کی بابت فر مایاکہ وہ کہیں گے {وّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا} اور نہ میں قیامت کو قائم ہونے والی خیال کرتا ہوں اور اگر (بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میں (اس لوٹنے کی جگہ) اس سے بھی زیادہ بہتر پاؤں گا۔ (الکھف : ۳۶) تو اس مومن ساتھی سےکہے گا {قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا} اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس (معبود) سے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیاپھر نطفے سے پھر تجھے پورا آدمی بنادیا ۔ (الکھف : ۳۷)
اسی طرح کفر گاہے بگاہے استہزاء اور تحقیر کے طور پر ہوا کرتا ہے جیسا کہ اللہ عز وجل نے کافروں کی بابت فر مایا {وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ} اور واقع آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔ (الأنعام : ۱۰) اور قوم نوح اور ان کے مسخراپن کے سلسلے میں فر مایا {وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ ۣ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ ۭقَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ} وہ (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرے وہ ان کا مذاق اڑاتے وہ کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو۔ (ھود : ۳۸ )
اور کبھی کبھارکفر اللہ کے راستے سے اعراض کرنے کے لئے ہوا کرتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے کافروں کے اعراض کے سلسلے میں فر مایا {اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۚ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ} کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں، ان سے کہہ دو ۔ لاؤ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (الأنبیاء : ۲۴) ایک اور مقام پر فر مایا {مَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ } ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لئے پیدا کیا ہے اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں۔ (الأحقاف : ۳)
اور کبھی کبھارکفر حق سے بغض و عناد کی وجہ سے ہواکرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَرِهُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ} یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کردیئے۔ (محمد : ۹)
ہمیں معلوم ہے کہ کفر اکبر کے علاوہ کفر کی اوربھی قسمیںہیں اور یہی کفر اصغر ہے ، یہ کفر اصل ایمان کے مخالف نہیں ہےلیکن کمال ایمان کے منافی ضرور ہے ، کفر اصغر کا مرتکب ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا اور نہ اس کے ارتکاب سے تمام اعمال برباد ہو ں گے اور اس کی بہت ساری قسمیں ہیں ۔
نبی کریم ﷺ کا یہ فر مان اسی کفر اصغر ہی پر دلالت کرتا ہے ’’سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ‘‘مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتال کرنا کفر ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۴۸، صحیح مسلم : ۶۴، جامع الترمذی : ۱۹۸۳ ، سنن النسا ئی : ۴۱۰۸، سنن ابن ماجۃ : ۶۹) اسی طرح یہ فرمان بھی ’ ’اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفْرٌ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ‘‘ لوگوں میں دو باتیں موجود ہیں اور وہ کفر ہیں (۱) نسب میں طعنہ کرنا (۲)میت پر نوحہ کرنا۔ (صحیح مسلم : ۶۷) اور یہ فرمان بھی ’’لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘‘ تم میرے بعد کافر نہ ہو جا ؤ کہ تم میں کا بعض بعض کی گردن مارے ۔ (صحیح بخاری : ۱۲۱، صحیح مسلم : ۶۵، سنن النسا ئی : ۴۱۳۱، سنن ابن ماجۃ : ۳۹۴۲)
کفر اصغر کا مرتکب دائرئہ ملت سے خارج نہیں ہوگا اور نہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گاکیوں کہ اللہ تعالی نے قتال کرنے والے مومنوں کو بھی بھا ئی بھائی کہا ہے گویا قتال اور لڑائی کرنے کے باوجود انہیں اہل ایمان اور مومن سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا}اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ (الحجرات : ۹) دیکھئے یہاں اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو بھا ئی بھا ئی کہا ہے جب کہ وہ سب آپس میں قتال کررہے ہوتے تھے ، یہ حدیث اور اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث کا سیاق بیان کرنے کے بعد امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فر ماتے ہیں ’’وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي جَاءَتْ : ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ هَذَا عَلَى التَّغْلِيظِ , نَرْوِيهَا كَمَا جَاءَتْ وَلَا نُفَسِّرُهَا، وَنَحْوُهُ مِنَ الْأَحَادِيثِ مِمَّا قَدْ صَحَّ وَحُفِظَ فَإِنَّا نُسَلِّمُ لَهُ وَإِنْ لَمْ يُعْلَمْ تَفْسِيرُهَا , وَلَا يُتَكَلَّمُ فِيهِ وَلَا يُجَادَلُ فِيهِ وَلَا تُفَسَّرُ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ إِلَّا بٍمِثْلِ مَا جَاءَتْ‘‘ ان مذکورہ احادیث میں جو یہ آیا ہے کہ تین چیزیں جس کے اندر پا ئی گئیں وہ منافق ہے تو یہ بطور تغلیظ ہے یعنی سختی کے طورپر کہا گیا ہے ، جس طرح یہ روایتیں آئی ہیں اسی طرح ہم انہیں روایت کردیتے ہیں لیکن اس کی تفسیرنہیں کرتے اور اس کے علاوہ اس جیسی دیگر روایات بھی جو صحیح اور محفوظ ہیں انہیں ہم تسلیم کرتے ہیں گرچہ اس کی تفسیر نا معلوم ہو ، اس کے سلسلے میں کلام اور کسی قسم کی کوئی بحث نہیں کی جاسکتی ہے کیوں کہ ان احادیث کی تفسیر اسی کے مثل آئی ہو ئی احادیث سے کی جاتی ہے ۔ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: ۱؍ ۱۷۵)