ہمارا ایمان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالی کے منتخب کردہ بندے تھے ، انہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت کے لئے منتخب کیا تھااوردنیا کی تمام مخلوق میں انبیاء کے بعد سب سے بہتر قرار دیا ہےاور قرآن مجید جیسی با برکت کتاب میںان کی صفات کا تذکرہ کیا نیزتورات و انجیل میں ان کی تعریف بھی کیا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ و َرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا} محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی یہ مثال انجیل میں بھی ہے مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ (الفتح : ۲۹ ) اوراللہ تعالی نے ان سے رضا مندی کا اعلان کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ} اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ۱۰۰)
اور نبی کریم ﷺ نے اس بات کی توضیح بھی کردیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم علی الاطلاق خیر القرون میںسے تھے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی دور کے باشی تھے جس دور کو اللہ کے رسول ﷺ نے سب سے بہتر گردانا ہے جیسا کہ عبد اللہ فرماتے ہیں کہ’’سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ فرمایا میرے دور کے لوگ پھر وہ جو ان سے ملے ہوئے ہو ںگے پھر وہ جو ان سے ملے ہو ئے ہو ںگے ۔ ( صحیح بخاری : ۶۶۵۸ ، صحیح مسلم : ۲۵۳۳، جامع الترمذی : ۳۸۵۹ ، سنن ابن ماجۃ : ۲۳۶۲)
ہمارا ایمان ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل تھے اسی لئے اللہ تعالی نے اپنی محکم کتاب قرآن مجید میںمہاجرین کا تذکرہ انصار سے پہلے کیا ہےجیسا کہ سورۃ التوبۃ کی گزشتہ آیت میں آچکا ہے اور اللہ تعالی نے مہاجرین کی تعریف کرتے ہو ئے فرمایا {لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ} (فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔ (الحشر : ۸)
اور انصار کے سلسلے میں فر مایا {وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے ۔ (الحشر : ۹)
ہمیں معلوم ہے کہ نبیوں کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر پھر عمر پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں، فضیلت میں ان کی وہی ترتیب ہے جو ترتیب خلافت میں ہے ۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دس لوگوں کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی ہے ، اس لئے ہم ان کے حق میں وہی کہیں گے جو اللہ کے رسول نے کہاہے جیسا کہ فرمایا ’’أَبُو بَكْرٍ فِي الجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الجَنَّةِ، وَسَعِيدٌ فِي الجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ فِي الجَنَّةِ‘‘ ابو بکر جنت میں ہیں، عمر جنت میں ہیں،عثمان جنت میں ہیں، علی جنت میں ہیں،طلحہ جنت میں ہیں،زبیر جنت میں ہیں،عبد الرحمن بن عوف جنت میں ہیں،سعدجنت میں ہیں، سعید جنت میں ہیںاورابو عبیدہ بن جراح جنت میں ہیں۔ ( جامع الترمذی : ۳۷۴۷، مسند أحمد : ۱۶۷۵، فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنبل : ۲۷۸، الآحاد والمثاني لإبن أبی عاصم : ۲۳۲)
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل بدر کی طرح کسی اور کی تعریف نہیں کی گئی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ‘‘ اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ اہل بدر کے احوال سے اللہ تعالی پہلے ہی سےواقف ہے اسی لئے اس نے کہا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔ (صحیح بخاری : ۳۰۰۷، صحیح مسلم : ۲۴۹۴، سنن أبی داؤد : ۲۶۵۰، جامع الترمذی : ۳۰۵)
معاذ بن رفاعہ بن رافع الزرقی اپنےوالد سے روایت کرتے ہوئے ( اور ان کے والد بدری صحابی تھے ) فرماتے ہیں کہ ’ ’جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ، قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ المُسْلِمِينَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ المَلاَئِكَةِ ‘‘ جبرائیل نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ لوگوں کے مابین اہل بدر کا کیا مقام ہے؟ فرمایا: وہی سب سے افضل مسلمان ہیں یا اسی طرح کا کوئی کلمہ کہا، (جبرائیل علیہ السلام نے )کہا کہ ان کا بھی وہی درجہ ہےجو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ ( صحیح بخاری : ۳۹۹۲)
اہل بیعت رضوان کے سلسلے میں ہم وہی کہتے ہیںجو اللہ کے رسول ﷺ نے کہا ہے،اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’ ’لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ‘‘ ان لوگوں میں سےجہنم میں کو ئی داخل نہیں ہوگا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کیاتھا۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۶۵۳، جامع الترمذی : ۳۸۶۰ ، جزء أبی الجھم : ۱، مسند أحمد : ۱۴۷۷۸، السنن الکبری للنسا ئی : ۱۱۴۴۴) یہی بیعت ہی ان کے کامیابی کا ذریعہ بنی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے سلسلے میںفرمایا {اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ } جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (الفتح : ۱۰) اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے اہل بیعت سےاپنی رضا مندی کا اعلان کیاہے جیسا کہ فر مایا {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا} یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (الفتح : ۱۸)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آ ل بیت کے بے شمار فضائل اور حقوق بیان کیاہے، اس لئے ان سے محبت کرنا ، ان سے دوستی کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا ہم پرواجب ہے ، ان کے چند حقوق ملاحظہ کریں :۔ اللہ تعالی نے خمس اور مال فئ میں ان کا ایک حصہ مقرر کیا اور نبی کریم ﷺ نےاپنے ساتھ ان پر بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہےجیسا کہ فرمایاکہو ’’اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی آل ابراہیم پر، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پربیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۳۳۷۰، صحیح مسلم : ۴۰۶)
اور ان کی بعض فضیلتیں اللہ تعالی کے اس فرمان میں ملاحظہ کریں {يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(۳۲) اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (۳۲) وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَايُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا(۳۳)} اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو ! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے (۳۳) ۔ (الأحزاب : ۳۲-۳۳) اور فر مایا {اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ} پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ۔ (الأحزاب : ۶)
اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’ ’خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ:{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}‘‘ اللہ کے رسول ﷺ صبح نکلے اس حال میں کہ ان پر اونٹ کے کجاوہ کی سی کالے بالوں کی نقش و نگار کی ہوئی ایک چادرتھی ، اتنے میں حسن بن علی آئےتو انہوں نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا، پھر حسین آئےتو ان کو بھی اندر کر لیا پھر سیدہ فاطمہ آئیںتو ان کو بھی اندر کر لیا، پھر علی آئےتو ان کو بھی اندر کر لیا اس کےبعد فرمایا{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا }(الأحزاب: ۳۳) اللہ تو تم اہل بیت سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں پاک کرنا چاہتاہے۔ ( صحیح مسلم : ۲۴۲۴)
اور واثلہ بن أسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ہے ’’إِنَّ اللهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ‘‘ اللہ نے اسماعیل کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور کنانہ سے قریش کو چنا اور قریش سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم سے مجھے چنا ۔ (صحیح مسلم : ۲۲۷۶)
اور زید بن أرقم فرماتے ہیں کہ’’قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘ ایک دن اللہ کے رسول ﷺ ہمارے مابین بحیثیت خطیب کھڑے ہو ئے اس پانی کے ساتھ جسے مکہ اور مدینہ میں خم کہا جاتا ہے تو اللہ کی حمد وثنا بیان کیا اور وعظ و نصیحت کیا پھر کہا اما بعد : خبر دار اے لوگو ! میں بھی انسان ہوں ، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے تو میں اسے جواب دوں اور میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، ان میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب ہے جس میں نور اورہدایت ہے لہذا تم سب اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اس پر جم جا ؤ تو انہوں نے اللہ کی کتاب پر ابھارا اور اس کی ترغیب دیا پھر کہا اور میرے گھر والے، میں تمہیں اپنے گھر والوں کے سلسلے میں اللہ کا واسطہ دے رہا ہوں۔ (صحیح مسلم : ۲۴۰۸)
اللہ کے رسول ﷺ کے قرابت داروں کا حق اور ان کی فضیلت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آگاہ تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نےتو علی رضی اللہ عنہ سےیہاں تک کہہ دیا تھا ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ کے رسول ﷺ کے قرابت دار میرے نزدیک زیادہ محبوب ہیں اس بات سے کہ میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کروں ۔ ( صحیح مسلم : ۱۷۵۹ )
اور اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ کرام کو سب و شتم کرنےاور گالی دینےسے منع کرتے ہو ئے فرمایا ’’ لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَ كُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ‘‘ میرے صحابہ کو گالی نہ دو ، اگر تم میں کا کوئی احد کے مثل سونا خرچ کردے تو بھی ان کے ایک مدیا آدھا مد کو نہیں پہنچے گا ۔ (صحیح بخاری : ۳۶۷۳، صحیح مسلم : ۲۵۴۱، سنن أبی داؤد : ۴۶۵۸، جامع الترمذی : ۳۸۶۱) اور انصار سے محبت کرنےکو ایمان کی علامت اور ان سے بغض کرنے کو نفاق کی ایک نشانی قرار دیاہےجیسا کہ فر مایا ’ ’آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ ‘‘ انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار سے بغض نفاق کی نشانی ہے ۔ (صحیح بخاری : ۱۷ ، صحیح مسلم : ۷۴، سنن النسائی : ۵۰۱۹)
اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل فر ماتے ہیں کہ ’ ’لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ‘‘ ان میں سے کسی آدمی کا اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ کسی ایسی چیز میں حاضر ہونا جس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہوجا ئے تم میں سے کسی کے عمر بھر عمل کر نےسے بہتر ہےگر چہ اسے نوح کی عمر عطا کر دی جا ئے ۔ (سنن أبی داؤد : ۴۶۵۰)