ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنی صفات و کمالات اور اپنی جلالت میں یکتا اور اکیلا ہے، اسی کے لئے اچھے اچھے نام اور اعلی صفات ہیں ، عقل کاملہ اسی بات پر شاہد ہےاور فطرت سلیمہ اسے قبول کرتی ہے ، تمام علماء امت کااس بات پر اجماع ہے بلکہ اللہ کےوہ پیغامات جن میں اللہ تعالی کے اسماء و صفات اور افعال کا بیان ہے،اسی پر دلالت کرتے ہیں ، اللہ تعالی نے بتوں کی عبادت کرنے والےمشرکوں کی عیب جو ئی کیا ہےکیوںکہ وہ انہیں کی طرح ایک مخلوق ہیںبلکہ ان سے بھی ناقص اور کم تر ہیں، یہ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں،نہ ان کے پاس پاؤں ہے کہ اس سے چلیں اورنہ ہاتھ ہے کہ اس سے پکڑسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(۱۹۴) واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو (۱۹۴) أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ(۱۹۵)} کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیںیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لوپھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو (۱۹۵) ۔ (الأعراف : ۹۴- ۹۵) ایک اور مقام پر فرمایا {وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا اتَّخَذُوهُ وَ كَانُوا ظَالِمِينَ}اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا ۔ (الأعراف : ۱۴۸)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اسی طرح ہے جس طرح اس نےاور اس کے رسول نے بیان کیا ہےبلکہ بندوں کے بیان سے اللہ کی ذات کہیں زیادہ فائق و برتر ہے ، اس کے مثل کو ئی چیز نہیں ہے ، وہ سننے اور دیکھنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ} اس کے جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے ۔ (الشوری : ۱۱) اس لئے ہم اللہ کےلئے وہی ثابت کرتے ہیں جو اس نے اپنے تئیںیا اس کے رسول ﷺ نے اس کے تئیں ثابت کیا اوربلا تعطیل ، بلا تمثیل ، بلا تکییف اور بلا تحریف ہم ان تمام کا انکار کرتے ہیں جن کا انکار خود اللہ نے یا اللہ کے رسولﷺ نے کیا ہے ۔ ہمیں بالیقین یہ معلوم ہے کہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی سےاللہ تعالی ان تمام صفات سے متصف ہے، وہ اجل سے ابد تک انتہا ئی درجے کے کمال ، جلال اور جمال پر فائز ہےاور رہے گا ، وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، اس کے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور نہ اس کے بعد ہی کوئی چیز ہے ، اسماء و صفات میں کمال اور بزرگی کو پہونچنے والا سب سے پہلااور سب سے آخروہی ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی طرح کوئی بھی مخلوق علمی اعتبار سے ساری چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتا ہے اورنہ لوگوں کی نگاہیں اسے پا سکتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا}جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ (طہ : ۱۱۰) اور فر مایا {لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے ۔ (الأنعام : ۱۰۳) اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الواجب علينا أن ننتهي في صفات الله حيث انتهى في صفته أو حيث انتهى رسوله صلى الله عليه و سلم ولا نزيل اللفظ عما تعرفه العرب وتضعه عليه ونمسك عما سوى ذلك‘‘ ہم پر واجب ہے کہ ہم اللہ کی صفات کی انتہا وہیں پر کریں جہاں پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کیا ہے اور ہم لفظ کو اس مقا م سے زائل نہیں کریں گے جو عرب کے یہاں معروف ہے اور جیسا اسے اہل عرب استعمال کرتے ہیں اوراس کے علاوہ ہم تمام سے رک جا ئیں گے ۔ ( الاختلاف في اللفظ والرد على الجهمية و المشبهةلإبن قتیبۃ : ص: ۴۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات کا تعلق اس کی ذات سے ہے جیسے الحیات(زندہ رہنا ) ،العلم(جاننا)،السمع (سننا ) ، البصر (دیکھنا ) ، الید (ہاتھ ) ، القبضہ (پکڑنا ) اور الأصابع ( انگلیاں ) اور بعض کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے جیسے الغضب (غصہ ) ، الرضا (خوشنودی ) ، النزول (اترنا ) ۔ اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اللہ فعال لما یرید ہے ، وہ جو چاہے ، جب چاہے ، جیسا چاہے کر سکتا ہے ، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کردے ،نہ اس کے حکم کو کو ئی ٹالنے والا ہے اورنہ اس کے قضاء اور اس کے حکم پر کو ئی تعاقب کرنے والا نہیں ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات مطلق وارد ہو ئی ہیں اس لئے ہم انہیں ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں جیسے وہ وارد ہو ئی ہیں جیسے سمع ، حیات اور بصروغیرہ ، اور بعض مقید وارد ہو ئی ہیں اور جو مقید وارد ہو ئی ہیں وہ اسی قید کے ساتھ باقی رکھتے ہیں جیسے اللہ تعالی کی ایک صفت یہ ہے کہ جب اس کے دشمن اس کے ساتھ مکر کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ مکر کرتا ہےاور جب اس کے دشمن اسے بھول جاتے ہیں تو وہ بھی انہیں بھلا دیتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی بعض صفات ایک ہی طریقے پر وارد ہو ئی ہیں جیسے صفت حیات ، صفت قیومیت ، صفت عظمت ، یہ تمام صفتیںقرآن و حدیث میں ایک ہی طرز پر وارد ہو ئی ہیں اور بعض صفتیں کئی طرز پر وارد ہو ئی ہیں جیسے صفت کلام ، صفت علو ، صفت ید اور مومنوں کاجنت میں جانااور قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار کرنا۔ اور ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ جب کسی صفت کے بارے میں متعدد طرق سے خبر وارد ہو تو ہم اس صفت کو ثابت کرنے کے لئے ایک سے زائد طریق سے خبر کو بیان کریں، اور جب خبر ایک ہی طریق سے وارد ہو تو ہم ایک یا دو دلیل پر اکتفا کریں جس اِس صفت یا اُس کا ذکر ہو۔
اللہ تعالی کی ایک صفت العلم(جاننا ) اورایک صفت السمع (سننا )ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے، وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ (الأنبیاء : ۴)
اور اللہ تعالی کی ایک صفت البصر(دیکھنا) ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}اللہ ہی سننے اور دیکھنے والا ہے ۔ (غافر : ۲۰) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو انس سلیم بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے ہو ئے سنا {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا} اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ (النساء : ۵۸) فر ماتے ہیں کہ’’رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ، وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: قَالَ الْمُقْرِئُ: يَعْنِي: إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ‘‘ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے (یعنی شہادت کی انگلی کو)، ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا، ابن یونس کہتے ہیں: (عبداللہ بن یزید) مقری فر ماتے ہیں: یعنی’’إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ‘‘ پر انگلی رکھتے تھے۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۷۲۸ ، جزء فيه قراءات النبي صلى الله عليه وسلم لأبی حفص بن عمر : ۳۳، التوحید لإبن خزیمۃ : ۴۹ ، التفسیر لإبن أبی حاتم : ۵۵۲۴)
اللہ کی ایک صفت العین(آنکھ ) ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي}اور تاکہ تمہاری تربیت میری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ (طہ : ۳۹) ایک اور مقام پر فرمایا {وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا}تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے، بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ (الطور : ۴۸ ) اور فرمایا { وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا}ا اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر ۔ (ھود : ۳۷ ) اور فرمایا {تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا}تجو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی ۔ (القمر : ۱۴) اور نا فع عبد اللہ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس دجال کا تذکرہ کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللَّهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْكُمْ، إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ - وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى عَيْنِهِ - وَإِنَّ المَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ العَيْنِ اليُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ‘‘ اللہ تم پر مخفی نہیں ہے اور اللہ اندھا نہیں ہے (اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کیا ) اور مسیح دجال داہنی آنکھ کا اندھا ہے جیسے اس کی آنکھ پر انگور کا ایک اٹھا ہوا دانہ ہو ۔ (صحیح بخاری : ۷۴۰۷، صحیح مسلم : ۱۶۹ ، سنن أبی داؤد : ۴۷۵۷، جامع الترمذی : ۲۲۴۱)
اللہ کی ایک صفت الحیاۃ(زندگی) اور القیومیۃ (قائم رہنا)ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ۔ ( آل عمران : ۲)
اللہ کی ایک صفت الکلام (بات کرنا ) بھی ہے اللہ تمام مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہی سےاس صفت سے متصف ہے ، وہ پہلے ہی سے لوگوں سے کلام کرتا ہے، اللہ تعالی کے کلام کا تعلق اس کی مشیئت پر موقوف ہے ، وہ جب چاہےگا بات کرےگا ، قرآن مجید میں اللہ تعالی کی صفت کلام کے حوالے سےتمام خبریں کئی اعتبار سے کئی وارد ہو ئی ہیں، اللہ کا یأمر کہہ کر اپنے بارے میں خبر دینا در اصل اس کا کلام ہے ، یہ حکم کلام الہی پر دلالت کرتا ہے {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (النحل : ۹۰) اسی طرح اللہ تعالی کا قال یا یقول کہہ کر اپنے بارے میںخبر دینابھی اللہ کا کلام ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ}جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔ (آل عمران : ۵۵) اسی طرح جن خبروں کا انتساب اللہ کی طرف ہے ان میں بھی اللہ رب العالمین کی صفت کلام کا ثبوت ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ}وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟ کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ۔ (التحریم : ۳)
اسی طرح جودعائیں و مناجات اللہ کی طرف منسوب ہیں وہ بھی اللہ تعالی کی صفت کلام پر دلالت کرتی ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا} ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے آواز کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا ۔ (مریم : ۵۲) اسی طرح قرآن مجید میں جو قول یا جو کلام اللہ تعالی کی طرف منسوب ہے وہ اللہ تعالی کی صفت کلام ہی پر دلیل ہے اور اس طرح کی دلیلیں قرآن مجید میں بے شمارہیں ، انہیں میںسے اللہ تعالی کا فرشتوں سے کلام کرنا بھی ہے جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً } اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ (البقرۃ : ۳۰) اور آدم علیہ السلام نے بھی گفتگو کیا {وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا} اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو ۔ (البقرۃ : ۳۵) اور موسی علیہ السلام نے بھی بات کیا {قَالَ يَامُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي} ارشاد ہوا اے موسیٰ ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے ۔ (الأعراف : ۱۴۴)
اللہ رب العالمین کے کلام کی ایک شکل ندا یعنی پکارنا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو پکارا {وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَاإِبْرَاهِيمُ}تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ۔ (الصآفات : ۱۰۴) اسی طرح اللہ تعالی کے کلام کی ایک شکل سر گوشی کرنا بھی ہے جیسا کہ اس نے موسی علیہ السلام کی سر گوشی کیا {وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا} ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے آواز کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا۔ (مریم : ۵۲) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس{وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا} کے بارے میں فرماتے ہیں ’’حَتَّى سَمِعَ صَرِيفَ الْقَلَمِ‘‘ حتی کہ اس نے قلم کی آواز کو سنا ۔ ( مصنف إبن أبی شیبۃ : ۳۲۵۰۶، الزہد لہنا د : بن السری ۱۴۹ ، السنۃ لعبد اللہ بن أحمد : ۱۲۳۱، التفسیر للطبری : ۱۵؍ ۵۵۹، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ۳۴۷۲) اور سدی رحمہ اللہ {وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا} کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ أُدْخِلَ فِي السماء فَكُلِّمَ ‘‘ انہیں آسمان میں داخل کردیا گیا تو ان سے بات کی گئی ۔ (تفسیر إبن کثیر : ۵؍ ۲۳۸، الدر المنثورفی التفسیر بالماثور : ۵؍ ۵۱۵) اور اللہ کی بات فرشتے سنتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے{حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے ۔ (سبأ : ۲۳) اور مسروق عبد اللہ سے روایت کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ ’’إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالْوَحْيِ، سَمِعَ أَهْلُ السَّمَاءِ لِلسَّمَاءِ صَلْصَلَةً كَجَرِّ السِّلْسِلَةِ عَلَى الصَّفَا، فَيُصْعَقُونَ، فَلَا يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ جِبْرِيلُ، حَتَّى إِذَا جَاءَهُمْ جِبْرِيلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ ،قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَا جِبْرِيلُ مَاذَا قَالَ رَبُّكَ ؟ فَيَقُولُ: الْحَقَّ، فَيَقُولُونَ: الْحَقَّ، الْحَقَّ‘‘ اللہ جب وحی کے ذریعہ کلام کرتا ہے تو آسمان والے آسمان کی ایک ایسی آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہوپھر وہ بیہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں،یہاں تک کہ جب جبرائیل ان کے پاس آجاتے ہیں تو ان کے دلوں سے( بے ہوشی) زائل کر دی جاتی ہے(مسروق )فر ماتے ہیں کہ پھر وہ کہتے ہیں: اے جبرائیل! تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: حق (فرمایا) تو وہ سب کہتے ہیں حق (فرمایا) حق (فرمایا)۔ (سنن أبی داؤد : ۴۷۳۸، الرد علی الجہمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی : ۱۵۸، السنۃ لعبد اللہ بن أحمد : ۵۳۶، تعظیم قدر الصلاۃ لمحمد بن نصر : ۲۱۷)
بروز قیامت اللہ تعالی تمام مخلوق سے بات کرےگاجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، وَلاَ حِجَابٌ يَحْجُبُهُ‘‘ تم میں کاکوئی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رب اس سے کلام کرےگا اس حال میں کہ اس کے اور اس (بندے) کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا اور نہ کوئی حجاب ہو گا جو اسے چھپائے رکھے۔ ( صحیح بخاری : ۷۴۴۳، صحیح مسلم : ۱۰۱۶ ، جامع الترمذی : ۲۴۱۵، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۵)
اورتمام مخلوق اس کی بات سنے گی جیسا کہ عبد اللہ بن انیس فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ’’يَحْشُرُ اللَّهُ العِبَادَ، فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ: أَنَا المَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ‘‘ اللہ بندوں کو جمع کرکے انہیں ایسی آواز میں پکارے گا کہ اسے دور سے ایسے ہی سنیں گے جیسے قریب سے سنتے ہیں : میں بادشاہ ہوں ، میں ہی بدلہ دینے والا ہوں۔ (صحیح بخاری معلقا : ۹؍ ۱۴۱، الأدب المفرد : ۹۷۰ ، خلق أفعال العباد : ۹۰ ، مسند أحمد : ۱۶۰۴۲ )
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے خود کو اپنی مخلوق سےچھپا لیا ہے ، اس لئے دنیا میں اسے کو ئی نہیں دیکھ سکتا ، وہ جس سے چاہے یعنی نبیوں اور فرشتوں سےپردے کے پیچھے سے بات کرسکتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ } ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے۔ (الشوری : ۵۱)
اور ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ‘‘ ہمارے درمیان اللہ کے رسول ﷺ پانچ باتیں لے کر کھڑے ہو ئے اور کہا اللہ عزوجل نہ سوتا ہے اور نہ اس کے لئے سونا مناسب ہے ، وہ ترازو کو اوپر اور نیچے کرتا ہے ، رات کا عمل دن کے عمل کے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل کے پہلے اس کے پاس پیش کیا جاتا ہے ، اس کا حجاب نور ہے ، اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی روشنی اسے وہاں تک جلا دے گی جہاں تک اس کی نگاہ پہونچتی ہےیعنی ساری مخلوق کو ۔ ( صحیح مسلم : ۱۷۹ ، سنن النسا ئی : ۹۱۲)
اور اللہ رب العالمین کا ہر کلام نیا ہوتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے {مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ } ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں ۔ (الأنبیاء: ۲) اللہ تعالی کا بعض کلام بعض کے مقابلے نیا اور افضل ہوتا ہے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’أَنَّ رَجُلًا سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، وَكَأَنَّ الرَّجُلَ يَتَقَالُّهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ القُرْآنِ‘‘ ایک آدمی نے ایک آدمی کو قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھتے ہو ئے سنا، وہ اسے بار بار پڑھ رہا تھا جب صبح ہو ئی تو وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور اس کا تذکرہ کیا گویا وہ شخص اسے کم سمجھ رہا تھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۵۰۱۳، سنن أبی داؤد : ۱۴۶۱، سنن النسا ئی : ۹۹۵)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ: فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ‘‘ ایک دن جبرئیل نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اوپر سے ایک زور دارآواز سنی تواپنا سر اٹھایاتو( جبرئیل علیہ السلام نے) کہا کہ یہ آسمان کاایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے (اس سے پہلے)وہ کھبی نہیں کھولا گیاتھا مگر آج ہی کے دن ،پھر اس سے ایک فرشتہ اترا تو( جبرئیل علیہ السلام نے) کہا کہ یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے وہ (اس سے پہلے)کبھی نہیں اترا سوائے آج کےاور اس نے سلام کیا اور کہا خوشخبری ہودو ایسےنورکی جو تمہیں عطا کی گئی ہیں اور تم سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطا کی گئی ہیں(۱) سورۂ فاتحہ ہے اور (۲) دوسرے سورۂ بقرہ کا خاتمہ،تم نہیں پڑھو گے ان دونوں میں سے کوئی ایک حرف مگر تمہیں وہ دیا جا ئے گا ۔ ( صحیح مسلم : ۸۰۶، سنن النسا ئی : ۹۱۲)
قرآن اور ہر وہ کتاب اللہ کا کلام ہے جو من جانب اللہ رسولوں پر نازل ہو ئی ہیںجیسے صحف ابراہیم ، صحف موسی ، تورات ، انجیل اور زبور ، یہ سب اللہ کا کلام ہیں ، اور سب کے ذریعہ اللہ نے بات کیا ہے ، انہیں جبرئیل علیہ السلام نے بلا واسطہ اللہ سے سناہے اور یہی لے کر انبیاء ورسل علیہم السلام پر نازل ہو ئےالبتہ ، دیگر کتابوں کے مقابلے تورات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے تختیوں پر لکھا ہوا نازل کیاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (۱۹۳) اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے (۱۹۳) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۱۹۴)} آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کردینے والوں میں سے ہوجائیں ( ۱۹۴) ۔ (الشعراء: ۱۹۳-۱۹۴) اور فرمایا {فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ } سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ ۔ (الأعراف :۱۵۸) اور اللہ کا کلام اور اس کے کلمات مخلوق نہیں ہیں بلکہ مخلوق کے علاوہ ہیں ،اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے کلمات سے استعاذہ طلب کیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ‘‘ جو کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے پھر کہے ’’ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہونچا سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے اس مقام سے کوچ نہ کر جا ئے ۔ ( صحیح مسلم : ۲۸۰۷، جامع الترمذی : ۳۴۳۷، سنن ابن ماجۃ : ۳۵۴۷) اگر اللہ کا کلام مخلوق ہوتا تو اللہ کے نبی ﷺ اس کے ذریعہ استعاذہ نہیں کرتے، گویا اللہ کا کلام مخلوق نہیں ہے ،کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اپنے قوم اور اپنی مخلوق کے درمیان فصل قائم کیا ہے جیسا کہ فر مایا{أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ} یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا ۔(الأعراف : ۵۴) اللہ تعالی کے اس کلام{أَلَا لَهُ الْخَلْقُ } میں ہر مخلوق داخل ہے ، اب اس کے بعد جو ذکر کیا وہ مخلوق نہیں ہے جیسا کہ فرمایا {وَالْأَمْرُ}اور اس کا حکم ہی اس کا قول ہے اور اللہ تبارک و تعالی کا قول مخلوق نہیں ہو سکتا ہے ۔ ( الرد علی الجہمیۃ للإمام أحمد : ص : ۲۲۴)
ہمارے نزدیک اللہ کےمذکورہ کونی کلمات کے درمیان فر ق ہے جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان {وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَ أُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ} اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔ (الأنعام : ۳۴) اور اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی {قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا}کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا، گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں۔ (الکھف : ۱۰۹) اور اسی طرح اللہ کا شرعی کلام بھی وارد ہےجیسا کہ فرمان الہی ہے {وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ } آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ (الأنعام : ۱۱۵) اور اللہ کا یہ فرمان بھی { وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ}جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا۔ (البقرۃ : ۱۲۴)
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’ ’فَلَا يُنْكِرُ كَلَامَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا مَنْ يُرِيدُ إِبْطَالَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَيْفَ يَعْجِزُ عَنِ الْكَلَامِ مَنْ عَلَّمَ الْعِبَادَ الْكَلَامَ، وَأَنْطَقَ الْأَنَامَ؟‘‘اللہ عزوجل کے کلام کا انکار وہی کرے گا جو اللہ عزوجل کی نازل کردہ چیزوں کو جھٹلا نا چاہے گا ، بات کرنے سے وہ ذات کیسے عاجز ہو سکتی ہے جس نے بندوں کو بات کرنااور ساری مخلوق کو بو لنا سکھایا ۔ ( الرد علی الجہمیۃ للدارمی : ص: ۱۵۵)
اللہ کی ایک صفت العزۃ (عزت)بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ}پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں ۔ (الصآفات : ۱۸۰) ایک اور جگہ فرمایا {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا}جو عزت چاہتا ہے تو تمام عزت اللہ ہی کے لئے ہے ۔ (فاطر : ۱۰)
اسی طرح اللہ کی ایک صفتالقہر( قہر)بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ} اور بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت نہیں ۔ (ص: ۶۵)
اسی طرح الجبروت( جبروت) ، الملکوت( ملکوت) ،الکبریاء(کبریاء)،العظمۃ( عظمت )بھی اللہ کی صفات میں سے ہیں ، نبی ﷺ دوران رکوع کہتے تھے ’’سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ‘‘ طاقت والے ، غیب کے جاننےوالے ، عزت نفس والے اور عظمت والے کی ذات پاک ہے ۔ (سنن أبی داؤد : ۸۷۳، سنن النسائی : ۱۰۴۹، مسند أحمد : ۲۳۹۸۰، الشمائل للترمذی : ۳۱۴، مسند البزار : ۲۷۵۰) اور ایک اور جگہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ’ ’الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ‘‘ کبریائی میری چادر اور عظمت میری ازارہے لہذا جس نے ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھینا تو اسے میں جہنم میں ڈال دو ںگا ۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۰۹۰، سنن ابن ماجۃ : ۴۱۷۴، مسند الحمیدی : ۱۱۸۳، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۷۱۱۱، مسند أحمد : ۷۳۸۲)
اسی طرح الإرادۃ( ارادہ)اورا لمشیئۃ( مشیئت)بھی اللہ کی صفات میں سے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔ (البقرۃ : ۱۸۵) اور فر مایا {وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ}اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ (الأنفال : ۷ ) اور فرمایا {وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ} اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ۔ (التکویر : ۲۹)
اسی طرح اللہ کی ایک صفتالقدرۃ (قدرت )بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ وَ هُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ} اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور ان میں جانداروں کا پھیلانا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے انہیں جمع کر دے ۔ (الشوری : ۲۹) اور فر مایا {إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (البقرۃ : ۲۰)
اسی طرح اللہ کی ایک صفتالرحمۃ( رحمت )بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ}میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہو ئے ہے ۔ (الأعراف : ۱۵۶) اور فر مایا {كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ}تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے ۔ (الأنعام : ۵۴) گویا رحمت بھی اللہ کی ایک صفت ہے اور اس کی اضافت بھی اللہ کی طرف کی گئی ہے یعنی یہ اضافۃ الصفۃ الی الموصوف ہے ، قرآن و احادیث میں بھی صفت رحمت کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے یعنی مخلوق کی اضافت خالق کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا} اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں۔ (الفرقان : ۴۸) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ’ ’إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَهَا مِائَةَ رَحْمَةٍ‘‘ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سو حصے کئے۔ (صحیح بخاری : ۶۴۶۹، صحیح مسلم : ۲۷۵۲، جامع الترمذی : ۳۵۴۱، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۹۳) گویا رحمت مخلوق ہے اور اس کی اضافت اللہ کی طرف کی گئی ہے یعنی مخلوق کی اضافت خالق کی طرف کی گئی ہے ۔
اسی طرح اللہ کی ایک صفت العلو (بلند ہونا ) ہے یعنی اللہ تعالی اپنے ہر کام ،اپنی ہر صفات اور ذات میں بلند و بالا ہے ،مثلا اللہ تعالی قہار ہے تو وہ اپنی اس صفت قہر میں بلند وبالاہے ، اللہ قادر ہے تو وہ اپنی اس صفت قدرت میں بلند وبالاہے، اسی طرح وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی بلند وبالاہے اور یہ تینوں صفتیں اللہ تعالی کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیںہے ، قرآن مجید ،سنت نبوی ﷺ، عقل اور فطرت نے بھی کئی اعتبار سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بلند ہے، اللہ یا اللہ کے رسول ﷺکی بتا ئی تمام خبریں بلندو بالا ہیں اور دونوں اللہ کی بلندی پر دلالت کرتی ہیں ، اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے ناز ل ہونے والی تمام خبریں جیسے وحی کا نزول اور نازل ہونے والا حکم جو بروز قیامت فیصلے کے لئے آئے گا اور وہ حکم جو ہر رات ، یوم عرفہ کی شام میں نازل ہوتا ہے اور فرشتوں کا نزول یہ سب اللہ تعالی کے بلند ہونے پر دلالت کرتے ہیں ، اسی طرح ہر وہ خبر جس میں آیا ہے کہ اللہ آسمان میں ہے یا آسمان کے او پر ہے یا وہ عرش کے او پر ہے یا وہ عرش پر مستوی ہے ، وہ سب خبریںاس کے بلند ہونے پر دلا لت کرتی ہیں ،اسی طرح ہر وہ خبر جس میں اللہ کے چڑھنے کی بات آئی ہے یا اس سے ملتے جلتے کلمات کا استعمال ہواہے تو وہ بھی اللہ کے بلند ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے:۔
’’أن الملائکۃ تخاف ربہا من فوقہا‘‘فرشتے اپنے رب سے اس کے او پر سے ڈرتے ہیں ۔ یا ’’أنہا تعرج إلیہ‘‘ وہ اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ یا ’’أن الأعمال ترفع إلیہ‘‘أعمال اس تک پہونچائے جا تے ہیں ۔ یا ’’أنہ یصعد إلیہ‘‘وہ اس کی طرف چڑھتا ہے ۔ یا ’’ أن اللہ رفع عیسی علیہ السلام‘‘اللہ نے عیسی علیہ السلام کو اٹھا لیا ۔ یا ’’أسری بنبینا محمد ﷺ ‘‘ہمارے نبی محمد ﷺ کو راتوں رات لے جایا گیا ۔ یا ’’ عرج بہ إلی السماء‘‘ انہیں آسمان تک لے جایا گیا ۔ یہ سارے جملے اللہ کے بلندہونے پر دلالت کرتے ہیںبلکہ اللہ کے بلند وبالا ہونے پر دلالت کرنے والی دلیلوں کی بے شمار قسمیں ہیں پھر ہرقسم کی کئی قسمیں ہیںجن کا شمار تکلیف سے خالی نہیں ہے ۔
ان دلیلوں میں سے چند یہ ہیں :۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے {لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ} آسمان اور ز مین کی ساری چیزیں اسی کے لئے ہیں اوروہ بلند و بالا اور عظمت والا ہے۔ (الشوری : ۴) ایک جگہ اور فرمایا {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} ی یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہے بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے۔ (الحج : ۶۲) اور فرمایا {إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ} تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ۔ (فاطر : ۱۰) اور فرمایا {وَهَذَاكِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو ۔ (الأنعام : ۱۵۵) اور فرمایا {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}یقینا ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سب سمجھ جا ؤ ۔ (یوسف : ۲) اور فرمایا {يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ (النحل : ۵۰ ) اور فرمایا {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ}میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔ (آل عمران : ۵۵) اور فرمایا {تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ}ف جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ۔ (المعارج : ۴) اور فرمایا {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا} اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔ (الطلاق : ۱۲) اور فرمایا {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا}بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے ۔ (النساء : ۱۵۸) اور فرمایا {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔ (الإ سراء : ۱)
اور اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’ لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ، كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ: غَلَبَتْ، أَوْ قَالَ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ‘‘ جب اللہ ساری مخلوق پیدا کر چکا تو اس نے اپنے پاس ایک کتاب لکھا میری رحمت میرے غصے پر غالب آگئی یا سبقت کر گئی تو وہ اس کے پاس عرش کے اوپر ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۷۵۵۳، صحیح مسلم : ۲۷۵۱، جامع الترمذی : ۳۵۴۳، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۹) اور معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ: إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ:فَلَا تَأْتِهِمْ ،قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ - قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ - قَالَ قُلْتُ :وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ:كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ، قَالَ: وَكَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ، آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ: ائْتِنِي بِهَا، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا: أَيْنَ اللهُ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ‘‘ایک دن میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھاکہ قوم کے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا’’يَرْحَمُكَ اللَّه‘‘ تو لوگوں نے مجھے گھورکر دیکھاتو میں نے کہا کاش مجھ پر میری ماں رو چکی ہوتی (یعنی میں مر جاتا) کیا بات ہے کہ تم لوگ مجھے ( اس طرح سے) دیکھ رہے ہو ،تو وہ لوگ اپنے ہاتھ رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھے خاموش کررہے ہیںتو میں چپ ہوگیا ، جب اللہ کے رسولﷺ نماز پڑھ چکے تو(آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ) میں نے ان سے بہتر ان سے پہلے کوئی معلم نہیں دیکھااور نہ ان کے بعد، اللہ کی قسم!انہوں نے مجھے نہ جھڑکا، نہ مارا، نہ گالی دی، بلکہ فرمایا نماز میں لوگوںکا بات کرنا درست نہیںہیں، یہ تسبیح، تکبیر اور قرآن پڑھنے کے لئے ہےیا جیسا بھی اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرا جاہلیت کا زمانہ ابھی نیا ہے، (اب) اللہ نے اسلام نصیب کیا، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں، فرمایا: تو ان کے پاس مت جا، ( میں نےپھر) کہا: بعض ہم میں سے کچھ لوگ بد شگونی لیتے ہیں،(آپ نے) فرمایا یہ ان کے دلوں کی بات ہے تو کسی کام سے ان کو نہ روکے یا وہ تم کو نہ روکے،( پھر میں نے )کہا: ہم میں سے بعض لوگ لکیریں کھینچتے ہیں،( آپ نے )فرمایا: ایک پیغمبر بھی لکیریں کھینچاکرتے تھے ،اس لئے جس کی لکیر موافق کر جائےتووہ درست ہے، ( معاویہ رضی اللہ عنہ نے ) کہاکہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کے نام ہے) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی، ایک دن میںاچانک وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلاگیا ہے،آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے جیسے لوگوںکو غصہ آتا ہے،میں نے اس کو ایک طمانچہ ماردیا پھر میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ پر اسے بہت بڑا قرار دیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟( آپ نے )فرمایا: اس کو میرے پاس لے کر آؤ ، تو میں اسےان کے پاس لے آکریا،توآپ نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان پر، آپ نے فرمایا: میں کون ہوں؟اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں ، تب آپ( ﷺ) نے فرمایا: تو اس کو آزاد کر دے یہ مؤمنہ ہے۔ ( صحیح مسلم : ۵۳۷ ، سنن أبی داؤد : ۹۳۰ ، سنن النسا ئی : ۱۲۱۸)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ‘‘ تمہارے درمیان کچھ فرشتے رات میں اور کچھ فرشتے دن میں آتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں اکٹھا ہوتے ہیں پھر تمہارے پاس رات گزارنے والے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں تووہ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انہیں بحالت نماز چھوڑااور ہم آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ( صحیح بخاری : ۵۵۵، صحیح مسلم : ۶۳۲، سنن النسا ئی : ۴۸۵) اور ابو رزین عقیلی فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول !’’أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟ قَالَ:كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ، وَخَلَقَ عَرْشَهُ عَلَى المَاءِ‘‘اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟( آپ نے) فرمایا: ” عماء‘‘( اگر بالمد ہو تو اس کے معنی ’’سحاب‘‘ اور ’’رقیق‘‘ (بدلی) کے ہیں، اور اگر بالقصر ہو تو اس کے معنی ’’لاشیٔ‘‘ کے ہوتے ہیں)میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ ہی اس کے اوپرہوا تھی اور اس نے اپنا عرش پانی پر بنایاہے۔ (جامع الترمذی : ۳۱۰۹، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۲، مسند الطیالسی :۱۱۸۹ ، مسند أحمد : ۱۶۱۸۸، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۶۲۵) یہ اور ان کے علاوہ اوربھی بہت سی آیات و احادیث ہیں جو اللہ تعالی کےصفت علو یعنی اس کے بلند ہونے پر دلا لت کرتی ہیں ۔
اور اس صفت علو پر بے شمار دلیلیں ہیں اور علماء اسلام کااس کے اثبات پر اجماع بھی ہےنیز اسے عقل اور فطرت سلیمہ نےبھی تسلیم کیا ہے ، حافظ ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ، وَجَمِيعِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى عَرْشِهِ، فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ، وَعِلْمُهُ مُحِيطٌ بِجَمِيعِ خَلْقِهِ‘‘ مسلمانوں میں تمام صحابہ و تابعین اور مومنوں میں تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ تبار ک و تعالی ساتوں آسمانوں کے او پراپنی مخلوق سے الگ اپنے عرش پر موجودہے ، اس کا علم اس کی تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہو ئے ہے ۔ ( الإنابۃ الکبری لإبن بطۃ : ۷؍ ۱۳۶)
اور امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن مبارک سے جب پوچھا گیا کہ ہم اپنے رب کے بارے میں کیسے جا نیں ؟ تو آپ نے فرمایا ’’بِأَنَّهُ فَوْقَ الْعَرْشِ، فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عَلَى الْعَرْشِ، بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ‘‘ وہ عرش کے اوپرہے اور ساتوں آسمانوں کے او پر عرش پر ہے اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ ( الرد علی الجہمیۃ للدارمی : ص: ۹۸)
اللہ تعالی کی ایک صفت الإستواء علی العرش یعنی عرش پر مستوی ہونا بھی ہے اور اس کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سات مقام پر کیا ہےجن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ} بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں،یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الأعراف : ۵۴) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ، كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ: غَلَبَتْ، أَوْ قَالَ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ‘‘ جب اللہ ساری مخلوق پیدا کر چکا تو اس نے اپنے پاس ایک کتاب لکھا میری رحمت میرے غصے پر غالب آگئی یا سبقت کر گئی تو وہ اس کے پاس عرش کے اوپر ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۷۵۵۳، صحیح مسلم : ۲۷۵۱، جامع الترمذی : ۳۵۴۳، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۹) اور ابن عیینہ سے روایت کرتے ہو ئے لالکا ئی نےفرمایا کہ’’سُئِلَ رَبِيعَةُ عَنْ قَوْلِهِ {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} كَيْفَ اسْتَوَى؟ قَالَ: الِاسْتِوَاءُ غَيْرُ مَجْهُوَلٍ وَالْكَيْفُ غَيْرُ مَعْقُولٍ , وَمِنَ اللَّهِ الرِّسَالَةُ وَعَلَى الرَّسُولِ الْبَلَاغُ , وَعَلَيْنَا التَّصْدِيقُ‘‘ ربیعہ سے اللہ تعالی کے اس فرمان {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} کے سلسلے میں سوال کیا گیا کہ وہ کیسے مستوی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ استواء نا معلوم ہے اور اس کی کیفیت نا قابل فہم ہے ، بس یہ اللہ کا پیغام ہے اور اسے رسول پر پہونچانے کی اور ہم پراس کی تصدیق کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ ( شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: ۳؍ ۴۴۲، العرش للذہبی : ۲؍ ۲۱۳) اور اسی طرح کا قول امام دار الہجرہ امام لالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہےجیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا’’الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة‘‘ استواء معلوم ہے ، اس کی کیفیت نا معلوم ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے سلسلے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔( العلو للذہبی : ۱؍ ۱۱۷)
اسی طرح اللہ تعالی کی ایک صفت المحبۃ ( محبت کرنا) ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی ۔ (المائدۃ : ۵۴) اور امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ فَجَمَعَ بَيْنَ الْحُبَّيْنِ: حُبِّ الْخَالِقِ وَحُبِّ الْمَخْلُوقِ، مُتَقَارِنَيْنِ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَ مَا يُحِبُّ وَمَا لَا يُحِبُّ، لِيَعْلَمَ خَلْقُهُ أَنَّهُمَا مُتَضَادَّانِ غَيْرُ مُتَّفِقَيْنِ، فَقَالَ: {لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْل} (النساء : ۱۴۸) ، وَ {إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِين}(الأنعام : ۱۴۱)‘‘اس نے دو محبتوںخالق کی محبت اور مخلوق کی محبت کو جمع کردیاہے اور دونوں باہم جڑے ہوئے ہیں پھر محبت کرنے والے اور نہ کرنے والے کے درمیان فرق کردیا ہےتاکہ اس کی مخلوق کی جان لے کہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ، ایک نہیں ہیں ، اسی لئے فرمایا {لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْل} برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ پسند نہیں فرماتا ہے اور فرمایا {إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِين} وہ حد سے تجاوز کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے ۔ (نقض الدارمی : ۲؍ ۸۶۵)
اور فر مایا {إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ} اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ : ۲۲۲) اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا ’’لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ‘‘ کل میں جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر فتح کیا جا ئے گا ، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول ا س سے محبت کرتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری : ۳۰۰۹ ، صحیح مسلم : ۲۴۰۶، سنن أبی داؤد : ۳۶۶۱) ایک اور حدیث میں فرمایا ’ ’لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘ تم میں سے کو ئی مومن نہیں ہو سکتاتاآنکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اس کے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جا ؤ ں۔ ( صحیح بخاری : ۱۵، صحیح مسلم : ۴۴، سنن النسا ئی : ۵۰۱۳، سنن ابن ماجۃ : ۶۷ )
اور اللہ کی ایک صفت الرضا ء( خوش ہونا)ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ}اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے ۔ (التوبۃ : ۱۰۰) اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’ ’فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ: میں نے ایک رات اللہ کے رسول ﷺ کو بستر سے غائب پایا تو میں نے انہیں تلاش کیا تو اچانک میرا ہاتھ ان کے دونوں قدموں کے نیچے واقع ہوا اور وہ مسجد میں تھے اور وہ دونوں کھڑے تھے اور(آپ ﷺ) کہہ رہے تھے: ’’اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ‘‘ اے میرے اللہ! پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیرے غصہ سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مجھے تیری تعریف کرنے کی طاقت نہیں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی تعریف کی۔ ( صحیح مسلم : ۴۸۶، سنن أبی داؤد : ۸۷۹ ، جامع الترمذی : ۳۴۹۳، سنن النسا ئی : ۱۶۹ ، سنن ابن ماجۃ : ۳۸۴۱)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت کراھیۃ لأعداء (دشمنوں کو نا پسند کرنا) ہے ، یہ اس لئے کہ انہوں نےاللہ کے رسول ﷺ پر نازل کردہ احکام اور خوشنودئ الہی کو نا پسندکیاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ} یہ اس بنا پر کہ یہ وہ راہ چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کردیا اور انہوں نے اس کی رضامندی کو برا جانا، تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیئے۔ (محمد : ۲۸) اور فرمایا {وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ}لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کیساتھ بیٹھے رہو۔ (التوبۃ : ۴۶) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ایک روایت میں اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا ’’إِذَا أَحَبَّ عَبْدِي لِقَائِي أَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَإِذَا كَرِهَ لِقَائِي كَرِهْتُ لِقَاءَهُ‘‘ جب میرا بندہ میری ملاقات سے محبت کرتا ہے تو میںبھی اس کی ملاقات سے محبت کرتا ہوں اور جب وہ میری ملاقات کو نا پسند کرتا ہے تو میں بھی اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری : ۷۵۰۴، سنن النسا ئی : ۱۸۳۵)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت الغضب علی أعدائہ ( دشمنوں سے غصہ ہونا) ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ}اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی ۔ ( الفتح : ۶) اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ اللہ کا غصہ اس شخص پر سخت ہوگیا جسے نبی ﷺ نے اللہ کی راہ میں قتل کیا اور اللہ کا غصہ اس قوم پر سخت ہوگیا جنہوں نے نبی ﷺ کا چہرہ لہو لہان کردیا ۔ (صحیح بخاری : ۴۰۷۴)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت المقت( ناراض ہونا) ہے ، اللہ کافروں سے نا راض ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ}بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے۔ ( غافر : ۱۰)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت مکرہ بأعداءہ الذی یمکرون بأولیائہ ہے( اس کا اپنے ان دشمنوں کے ساتھ چال چلنا ہے جولوگ اس کے اولیاء کے ساتھ چال چلتے ہیںیعنی اللہ ان کی چالبازیوں کا انہیں جواب دیتا ہے) جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۰) انہوں نے مکر (خفیہ تدبیر) کیا اور ہم نے بھی اور وہ اسے سمجھتے ہی نہ تھے ( ۵۰ ) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَا هُمْ وَ قَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (۵۱)} (اب) دیکھ لے ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کردیا۔ ( النمل : ۵۰-۵۱)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت الأسف( افسوس کرنا) ہے کیوں کہ وہ سخت غصہ والابھی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ } پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا۔ (الزخرف : ۵۵) قتادہ اور سدی فرماتے ہیں کہ {فَلَمَّا آسَفُونَا } کا معنی ہے ’’أغضبونا‘‘ انہوں نے ہمیں غصہ دلایا ۔ ( تفسیر الطبری : ۲۱؍ ۶۲۲)
اسی طرح اللہ اس کی ایک صفت مخادعۃ من یخادعہ ( دھوکہ دینے والوں کو دھوکہ دینا ) ہے، گویا اللہ ان منافقوں کو دھوکہ دیتا ہے جو اسے دھوکہ دیتے ہیں(یعنی ان کی چالبازیوں کا اللہ انہیں بدلہ دیتا ہے)جیسا کہ فرمان الہی ہے {يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ} وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیںلیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ (البقرۃ : ۹) اور فرمایا {إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ}بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے۔ (النساء : ۱۴۲)
اور اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیاہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو ایسے ہی بھلا دے گا جیسے انہوں نے اس کی ملاقات کو بھلا دیا جیسا کہ فرمایا {الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا}جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا سو ہم (بھی) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وہ اس دن کوبھول گئے۔ ( الأعراف : ۵۱)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت اس شخص کے ساتھ استہزاء کرنا بھی ہے جو اس کے ساتھ استہزاء کرتا ہے(یعنی سرکشی کرنے والوں کو ان کی سر کشی میں بڑھا دینا ) جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ يَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ } اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ۱۵) اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ يسخر بهم للنقمة منهم‘‘ وہ ان سے ناراضگی کی وجہ سے ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہے ۔ ( تفسیر الطبری : ۱؍ ۳۴، التفسیر لإبن أبی حاتم : ۱۴۳)
اللہ تعالی کی ایک صفتالضحک (ہنسنا )ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ يَدْخُلاَنِ الجَنَّةَ‘‘ اللہ ان دونوں آدمیوں پر ہنستا ہے جن میں کا ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے لیکن پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہو تے ہیں ۔ ( صحیح بخاری : ۲۸۲۶، صحیح مسلم : ۱۸۹۰، سنن النسا ئی : ۳۱۶۶، سنن ابن ماجۃ : ۱۹۱) اور بروز قیامت اللہ تعالی کے دیدار کے سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے جس میں جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والوں کا ذکر کیا گیا ، اسی میں ہے کہ ’’فَيَقُولُ اللَّهُ: وَيْحَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ العُهُودَ وَالمِيثَاقَ، أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لاَ تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَضْحَكُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ.....‘‘ پھر اللہ کہے گا کہ ابن آدم ! تجھ پر افسوس ہے تجھے کس چیز نے دھو کے میں ڈال دیا ، کیا تونے عہد و میثاق نہیں لیا تھا کہ اپنی دی ہو ئی چیزوں کے علاوہ تو کچھ نہ پوچھنا ؟ تو وہ کہے گا اے رب ! تو مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بد بخت شخص نہ بناتو اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا پھر اسے جنت میں داخلے کی اجازت دے دے گا ۔ ( صحیح بخاری : ۸۰۶)
امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’إِذَا سُئِلْتُمْ: هَلْ يَضْحَكُ رَبُّنَا؟ فَقُولُوا: كَذَلِكَ سَمِعْنَا‘‘ جب تم سے پوچھا جا ئے کہ کیا ہمارا رب ہنستا ہے ؟ تو کہہ دو کہ اسی طرح ہم نے سنا ہے ۔ ( شرح إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۳؍ ۴۷۷)
حافظ ابن بطہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الإبانۃ میں باب باندھا ہے’’بَابُ الْإِيمَانِ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَضْحَكُ‘‘ اس بات پر ایمان کا بیان کہ اللہ عزوجل ہنستا ہے ۔ پھر اسی بات کے تحت فر مایا کہ ’’اعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ أَنَّ مِنْ صِفَاتِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَهْلِ الْحَقِّ تَصْدِيقَ الْآثَارِ الصَّحِيحَةِ، وَتَلَقِّيَهَا بِالْقَبُولِ، وَتَرْكَ الِاعْتِرَاضِ عَلَيْهَا بِالْقِيَاسِ وَمُوَاضَعَةِ الْقَوْلِ بِالْآرَاءِ وَالْأَهْوَاءِ، فَإِنَّ الْإِيمَانَ تَصْدِيقٌ، وَالْمُؤْمِنَ هُوَ الْمُصَدِّقُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [النساء: ۶۵]، فَمِنْ عَلَامَاتِ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يَصِفُوا اللَّهَ بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ، وَبِمَا وَصَفَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا نَقَلَتْهُ الْعُلَمَاءُ، وَرَوَاهُ الثِّقَاتُ مِنْ أَهْلِ النَّقْلِ، الَّذِينَ هُمُ الْحُجَّةُ فِيمَا رَوَوْهُ مِنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالسُّنَنِ وَالْآثَارِ، وَلَا يُقَالُ فِيمَا صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ؟ وَلَا لِمَ؟ بَلْ يَتَّبِعُونَ وَلَا يَبْتَدِعُونَ، وَيُسَلِّمُونَ، وَلَا يُعَارِضُونَ، وَيَتَيَقَّنُونَ وَلَا يَشْكُونَ وَلَا يَرْتَابُونَ، فَكَانَ مِمَّا صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَوَاهُ أَهْلُ الْعَدَالَةِ، وَمَنْ يَلْزَمُ الْمُؤْمِنِينَ قَبُولُ رِوَايَتِهِ وَتَرْكُ مُخَالَفَتِهِ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَضْحَكُ فَلَا يُنْكِرُ ذَلِكَ، وَلَا يَجْحَدُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ مَذْمُومُ الْحَالِ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ‘‘ جان لو اور اللہ تم پر رحم فرما ئے حق والے مومنوں کی صفات میں سے آثار صحیحہ کا تصدیق کرنا، اسے قبول کرنا ، بذیعہ عقل اس پر اعتراض نہ کرنا اور اپنے آراء وخواہشات پر چلنے سے بچنا ہےکیوں کہ ایمان تصدیق کا نام ہے اور مومن تصدیق کرنےوالے کو کہتے ہیں ، اللہ عزوجل فرماتا {فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} آپ کے رب کی قسم و ہ لوگ مومن نہیں ہو سکتےیہاں تک کہ لوگ آپسی اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر وہ آپ کے کئے گئے فیصلے سے اپنے نفس میں کوئی تکلیف محسوس نہ کریں بلکہ اسے تسلیم کرلیں۔ [النساء: ۶۵] مومنوں کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی وہی صفت بیان کریں جو اس نے اپنے لئے بیان کیا ہے اور جو اللہ کے رسول ﷺ نے بیان کیا ہے اور انہیں میں سے جو علماء نے نقل کیا اور قابل اعتماد نقل کرنے والوں نے اسے روایت کیا ہےیعنی جو لوگ ان مرویات یعنی حلال و حرام اور سنن و آثار میں حجت ہیں، اللہ کے رسول ﷺ سے جو ثابت ہے اس میں وہ کیوں اور کیسے نہیں کہتے بلکہ اس کی اتباع کرتے ہیں، بدعت نہیں ایجاد کرتے ہیں ،اسے تسلیم کرتے ہیں لیکن اعراض نہیں کرتے ، وہ یقین کرتے ہیں لیکن شک نہیں کرتے کیوں کہ نبی ﷺ سے جو ثابت ہے اسے عادل علماء نے روایت کیا ہے ، اسی لئےان کی روایات کا قبول کرنا اور اس کی مخالفت سے بچنا مومنوں پر لازم ہے، یقینا اللہ تعالی ہنستا ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس کا انکار وہی کرے گا جو علماء کے نزدیک قابل مذمت اور بدعتی ہے ۔ ( الإبانۃ الکبری : ۷؍ ۹۱)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت المجئ یعنی آنا بھی ہے کیوں کہ بروز قیامت لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئےوہ آئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ۭ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ } کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں ۔ (الأنعام : ۱۵۸) اور فرمایا {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا}اور آپ کا رب آئے گا اس حال میں کہ فرشتے صف بصف کھڑے ہو ںگے ۔ (الفجر : ۲۲) اور فرمایا {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ} کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹا ئے جاتے ہیں۔ (البقرۃ : ۲۱۰) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ، اللہ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو کہے گا جو جس کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہو جائے ، اور حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول تک بیان فرمائی: وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُو هَا فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَافَیَتْبَعُوْنَہ‘‘ اور یہ امت باقی رہ جا ئے اس حال میں کہ ان میں منافقین بھی ہوں گے ، و ہ کہیں گے یہی ہماری جگہ ہے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ جا ئے گا اور جب ہمارا رب ہمارے پاس آجا ئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے تو اللہ ان کے پاس آئے گا اور کہے گا میں تمہارا رب ہوں تو وہ لوگ بھی کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے اور اس کے پیچھے ہو جا ئیں گے ۔ (صحیح بخاری : ۱۸۲، صحیح مسلم : ۱۸۲، سنن أبی داؤد : ۴۷۳۰، جامع الترمذی : ۲۵۵۴، سنن ابن ماجۃ: ۱۸۷)
اور ابو العالیہ سے اللہ تعالی کے اس فرمان کے تعلق سے مروی ہے: {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ} کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔ (البقرۃ : ۲۱۰) وہ فرماتے ہیں: فرشتے بدلی کے سایے میں آئیں گے اور اللہ عزوجل جہاں سے چاہے گا آئے گا ۔ ( الأسماء و الصفات للبیہقی : ۲؍ ۳۷۰)
اللہ کی ایک صفت آسمان دنیا پر نازل ہونا بھی ہے اوریہ نزول حقیقی ہے اور اس کے نزول کی کیفیت اس کے جلال اور عظمت کے اعتبار سے ہوگی، دیگر مخلوق کی طرح اس کا نزول نہیں ہوگا بلکہ یہ صفت بھی ان تمام صفات کی طرح ہے جن پر ہم ایمان لاتے ہیں اور جنہیں ہم جانتے ہیں لیکن اس کی کیفیت سے نا واقف ہیں اور ہم اسے رد بھی نہیں کر سکتےبلکہ ہم اس پراسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسا کہ ہمیں صادق و مصدوق رسول نے بتایا ہے جیسا کہ فرمایا ’ ’إِذَا مَضَى شَطْرُ اللَّيْلِ، أَوْ ثُلُثَاهُ، يَنْزِلُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: هَلْ مِنْ سَائِلٍ يُعْطَى؟ هَلْ مِنْ دَاعٍ يُسْتَجَابُ لَهُ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ يُغْفَرُ لَهُ؟ حَتَّى يَنْفَجِرَ الصُّبْحُ‘‘جب رات کا آدھا یا تہا ئی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہےاور کہتا ہے کیا کوئی مانگنے والا ہے جسے دیا جا ئے ؟ کیا کوئی پکارنے والا ہے جس کی قبول کی جا ئے ؟ کیا کو ئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے ؟ یہاں تک صبح صادق ہو جاتی ہے ۔ ( صحیح مسلم : ۷۵۸)
امام الأئمہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ التوحید ‘‘ میں یہ باب باندھا ہے ’’بَابُ ذِكْرِ أَخْبَارٍ ثَابِتَةِ السِّنْدِ صَحِيحَةِ الْقَوَامِ رَوَاهَا عُلَمَاءُ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نُزُولِ الرَّبِّ جَلَّ وَعَلَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ، نَشْهَدُ شَهَادَةَ مُقِرٍّ بِلِسَانِهِ، مُصَدِّقٍ بِقَلْبِهِ ، مُسْتَيْقِنٍ بِمَا فِي هَذِهِ الْأَخْبَارِ مِنْ ذِكْرِ نُزُولِ الرَّبِّ مِنْ غَيْرِ أَنْ نَصِفَ الْكَيْفِيَّةَ، لِأَنَّ نَبِيَّنَا الْمُصْطَفَى لَمْ يَصِفْ لَنَا كَيْفِيَّةَ نُزُولِ خَالِقِنَا إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، أَعْلَمَنَا أَنَّهُ يَنْزِلُ وَاللَّهُ جَلَّ وَعَلَا لَمْ يَتْرُكْ، وَلَا نَبِيُّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَيَانَ مَا بِالْمُسْلِمِينَ الْحَاجَةُ إِلَيْهِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ فَنَحْنُ قَائِلُونَ مُصَدِّقُونَ بِمَا فِي هَذِهِ الْأَخْبَارِ مِنْ ذِكْرِ النُّزُولِ غَيْرِ مُتَكَلِّفِينَ الْقَوْلَ بِصِفَتِهِ أَوْ بِصِفَةِ الْكَيْفِيَّةِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَصِفْ لَنَا كَيْفِيَّةَ النُّزُولِ‘‘صحیح اور مضبوط سند سے ثابت خبروں کا بیان جسے علماء حجاز اور علماء عراق نے نبی ﷺ سے اللہ تعالی کے ہر رات میں آسمان دنیا پر نازل ہونے کے سلسلے میں روایت کیا ہے ، ہم اپنی زبان سےاقرار کرتے ہو ئے، دل سے تصدیق کرتے ہو ئے اور ان خبروں پر یقین کرتے ہو ئے گواہی دیتے ہیں کہ کسی کیفیت کو بیان کئے بغیر اللہ تعالی کے نزول کا ذکر آیا ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے ہمارے لئے اللہ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کی کوئی کیفیت نہیں بیان کیا ہے ، اس نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اللہ جل و علا نازل ہوتا ہے ، اس نے چھوڑا نہیں ہے اور نہ نبی علیہ السلام نے اس چیز کا بیان چھوڑا ہے جو مسلمانوں کی ضرورت ہے ، یعنی دینی احکام و مسائل ، ہم ان خبروں میں آئی ہوئی تمام باتوں یعنی نزول کا ذکر کااقرار اور تصدیق کرتے ہیں، کیفیت بیان کئےبغیر یا اس صفت پر کچھ کہےبغیرکیوں کہ نبی ﷺ نے ہمارے سامنے کیفیت نزول کی صفت بیان نہیں کیا ہے ۔ ( التوحید لإبن خزیمۃ : ۱؍۲۸۹)
اور حافظ ابن بطہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإبانۃ‘‘ میں باب باندھا ہے’’بَابُ الْإِيمَانِ وَالتَّصْدِيقِ بِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا مِنْ غَيْرِ زَوَالٍ وَلَا كَيْفٍ. ثم قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: اس بات پر ایمان اور تصدیق کا بیان کہ اللہ تعالی بغیر کسی زوال اور بلا کسی کیفیت کے ہر رات میں آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ، شیخ الإسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ طَاعَةَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَبُولَ مَا قَالَهُ وَجَاءَ بِهِ، وَالْإِيمَانَ بِكُلِّ مَا صَحَّتْ بِهِ عَنْهُ الْأَخْبَارُ، وَالتَّسْلِيمَ لِذَلِكَ بِتَرْكِ الِاعْتِرَاضِ فِيهَا وَضَرْبِ الْأَمْثَالِ وَالْمَقَايِيسِ إِلَى قَوْلِ: لِمَ , وَلَا كَيْفَ؟ وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: جان لو اللہ تم پر رحم فرما ئے اللہ نے اپنے مومن بندوں پر اپنے رسول ﷺ کی اطاعت اور ان کی کہی اور لا ئی ہو ئی باتوں کا قبول کرنا ، ہر اس بات پر ایمان لانا جس کے سلسلے میں خبریں صحیح ہیں انہیں اعتراض اور مثال بیان کئے بغیر اور کیوں اور کیسے کہےبغیر تسلیم کرنا فرض قرار دیا ہے ، نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي، فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ‘‘اللہ تبارک و تعالی آسمان دنیا کی طرف ہر رات ناز ل ہوتا ہے اور تہا ئی رات کے آخر تک باقی رہتا ہے اور کہتا ہے کہ کون مجھے پکارے گا کہ میں اس کی قبول کرو ؟ کون مجھ سے مانگے گا کہ میں اسے دو ؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کرو ں۔ وَ فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ سَنَذْكُرُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِتَمَامِهِ، رَوَاهُ الْأَئِمَّةُ الْمُحَدِّثُونَ الثِّقَاتُ، وَالْمُثْبِتُونَ وَالْفُقَهَاءُ الْوَرِعُونَ، الَّذِينَ نَقَلُوا إِلَيْنَا شَرِيعَةَ الْإِسْلَامِ وَدَعَائِمَهُ مِثْلَ الصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّيَامِ، وَالْحَجِّ، وَالْجِهَادِ، وَمَا يَتْلُو ذَلِكَ مِنْ سَائِرِ الْأَحْكَامِ مِنَ النِّكَاحِ، وَالطَّلَاقِ، وَالْبُيُوعِ، وَ الْحَلَالِ، وَالْحَرَامِ‘‘ ایک لمبی حدیث ہے ان شاء اللہ اسے ہم پورا ذکر کریں گے ، اسے ان أئمہ اور محدثین نے روایت کیا ہے جو ثقہ ، مثبت ، فقیہ اور پرہیز گار تھے اور وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہم تک اسلامی قوانین اور اس کے اسباب کو منتقل کیا جیسے نماز ، زکوۃ ، روزہ ، حج اور جہاد اور ان کے علاوہ شرعی احکام جیسے نکاح ، طلاق ، بیوع اور حلال و حرام تک سے ہمیں آگا ہ کیا ہے۔ (الإبانۃ الکبری : ۷؍ ۲۰۱) ( حدیث کا حوالہ: صحیح بخاری : ۱۱۴۵، صحیح مسلم : ۷۵۸ ، سنن أبی داؤد : ۱۳۱۵، جامع الترمذی : ۴۴۶، سنن ابن ماجۃ : ۱۳۶۶)
ہم اللہ رب العالمین کی صفت معیت پربھی ایمان لاتے ہیں اس طرح سے کہ وہ اپنے علم ، اپنے احاطہ اور اپنے مشیئت کے ساتھ ہےاپنی مخلوق کے ساتھ ہے ، اللہ تعالی کی اس صفت پر کتاب و سنت میں بے شمار دلیلیں موجودہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ}کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے،تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ (المجادلۃ : ۷)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’اِرْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ‘‘ اپنے آپ پر رحم کرو کیوں کہ تم کسی بہرے یا کسی غائب کونہیں پکار رہے ہو تم ایسے کو پکار رہے ہو جو سننے والا اور قریب ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۴۲۰۵، صحیح مسلم : ۲۷۰۴، سنن أبی داؤد : ۱۵۲۶، جامع الترمذی : ۳۴۶۱)
معیت الہیہ کی دو قسمیں ہیں
(۱) معیت خاصہ ، یہ اللہ کے أولیاء اور رسولوں کے لئے ہوگا، اس کا تقاضا نصر و تائید ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى}فرمایا کہ تم دونوں نہ ڈرو ، میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری سنتا اور تمہیں دیکھتا ہوں ۔ (طہ : ۴۶)
(۲) معیت عامۃ : یعنی اللہ تعالی تمام لوگوں کے ساتھ ہے ، اس میں مومن و کافر سب شامل ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ} جہاں بھی تم ہوگے وہ تمہارے ساتھ ہوگا ۔ (الحدید : ۴) لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہ معیت علم ، احاطہ ، قدرت اور سلطنت کے اعتبار سے ہوگی ۔
اللہ کی یہ صفت معیت علو الہی کے منافی نہیںہے کیوں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ العلم والإحاطۃ کا معنی ہے کہ اللہ اپنے علم ، احاطہ اور قدرت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے ۔
اسی طرح اللہ کی ایک صفت (العجب) یعنی تعجب کرنا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’ ’عَجِبَ اللَّهُ مِنْ قَوْمٍ يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ فِي السَّلاَسِلِ‘‘ اللہ کو ایسی قوم پر تعجب ہوگا جو پابند سلاسل ہو کر جنت میں جا ئے گی ۔ ( صحیح بخاری : ۳۰۱۰، سنن أبی داؤد : ۲۶۷۷) اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ہے ’ ’يَعْجَبُ رَبُّكُمْ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةٍ بِجَبَلٍ، يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ، وَيُصَلِّي، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ، وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ، يَخَافُ مِنِّي، قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ‘‘تمہارا رب بکری کے اس چرواہے پر تعجب کرتا ہے(یعنی اس سے خوش ہوتا ہے) جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔ ( سنن أبی داؤد: ۱۲۰۳، سنن النسا ئی : ۶۶۶، مسند أحمد : ۱۷۳۱۲، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۵۸۴، مسند الرویانی : ۲۳۲)
ہمارا ایمان ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کو دیدار الہی نصیب ہوگا ، قرآن و احادیث میں اس پر کئی دلیلیں وارد ہو ئی ہیں ، بے شمار حدیثوں میں اللہ کے رسول ﷺ نے مومنوں کو یہ بشارت سنایا ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کواللہ کا حقیقی دیدار نصیب ہوگا، وہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور یہ بات یاد رہے کہ جنت کی تمام نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے بڑی نعمت ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (۲۲) اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے( ۲۲) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۲۳)} اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے (۲۳)۔ (القیامۃ : ۲۲-۲۳) ایک اور مقام پر فرمایا {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ}جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی ۔ (یونس : ۲۶) ایک اور جگہ فرمایا {كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ }ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے ۔ (المطففین : ۱۵ ) امام مالک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ’’يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ هَلْ يَرَى الْمُؤْمِنُونَ رَبَّهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: لَوْ لَمْ يَرَ الْمُؤْمِنُونَ رَبَّهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَمْ يُعَيِّرِ اللَّهُ الْكُفَّارَ بِالْحِجَابِ , فَقَالَ: اے ابو عبد اللہ! کیا قیامت کے دن مومن اپنے رب کودیکھ سکیں گے ؟تو آپ نے فر مایا اگر مومن بروز قیامت اپنے رب کا دیدار نہیں کرسکیں گے تو کافروں کے لئے اللہ اپنا حجاب نہیں کھولے گا پھر یہی آیت پڑھا: {كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ}ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے ۔ ( شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۲؍ ۴۶۸)
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ: هَلْ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ إِذَا كَانَتْ صَحْوًا؟، قُلْنَا: لاَ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لاَ تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَئِذٍ، إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: يُنَادِي مُنَادٍ: لِيَذْهَبْ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَذْهَبُ أَصْحَابُ الصَّلِيبِ مَعَ صَلِيبِهِمْ، وَأَصْحَابُ الأَوْثَانِ مَعَ أَوْثَانِهِمْ، وَأَصْحَابُ كُلِّ آلِهَةٍ مَعَ آلِهَتِهِمْ، حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ، مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، وَغُبَّرَاتٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، ثُمَّ يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ تُعْرَضُ كَأَنَّهَا سَرَابٌ، فَيُقَالُ لِلْيَهُودِ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ ، لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ وَلاَ وَلَدٌ، فَمَا تُرِيدُونَ؟ قَالُوا: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ، ثُمَّ يُقَالُ لِلنَّصَارَى: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ فَيَقُولُونَ: كُنَّا نَعْبُدُ المَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ، لَمْ يَكُنْ لِلَّهِ صَاحِبَةٌ، وَلاَ وَلَدٌ، فَمَا تُرِيدُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نُرِيدُ أَنْ تَسْقِيَنَا، فَيُقَالُ: اشْرَبُوا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي جَهَنَّمَ، حَتَّى يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا يَحْبِسُكُمْ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ؟ فَيَقُولُونَ: فَارَقْنَاهُمْ، وَنَحْنُ أَحْوَجُ مِنَّا إِلَيْهِ اليَوْمَ، وَإِنَّا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي: لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، وَإِنَّمَا نَنْتَظِرُ رَبَّنَا، قَالَ: فَيَأْتِيهِمُ الجَبَّارُ فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَلاَ يُكَلِّمُهُ إِلَّا الأَنْبِيَاءُ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ تَعْرِفُونَهُ؟ فَيَقُولُونَ: السَّاقُ، فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ، فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ‘‘ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ !کیا ہم اپنے رب کو بروز قیامت دیکھیں گے ؟ فرمایا کیا تم سب سورج اور چاند کو دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو جب کہ وہ صاف ہو ؟ ہم نے کہا نہیں ، فرمایا تم سب اس دن اپنے رب کی کا دیدار کرنے میں بھی تکلیف محسوس نہیں کرو گے جس طرح ان دونوں کے دیدار میں تم سب تکلیف محسوس نہیں کرتے ، پھر کہا کہ ایک منادی پکارے گا تاکہ سب لوگ اس کے پاس چلے جا ئیں جس کی وہ عبادت کرتے تھے ، بنا بریں اصحاب صلیب اپنے صلیب کے ساتھ چلے جا ئیں گے ، اہل بت اپنے بتوں کے ساتھ چلے جا ئیں گے اور ہر معبود والا اپنے معبود کے ساتھ چلا جا ئے گا یہاں تک کہ اللہ کی عبادت کرنے والے چاہے نیک ہوں یا بد باقی رہ جا ئیں گے اور اہل کتاب میں سے بھی کچھ لوگ باقی رہ جا ئیں گے پھر ان کے پاس جہنم کو لاکر پیش کر دیاجا ئے گا جو ریت کی مانند چمک رہی ہوگی ، یہودیوں کو کہا جا ئے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے ، تو انہیں کہا جا ئے گا کہ تم سب جھوٹ بول رہے ہو کیوں کہ اللہ کے پاس نہ بیوی تھی اور نہ بیٹے ، تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیںسیراب کرے، تو کہا جا ئے گا پیو پھر وہ سب جہنم میں گرا دیئے جا ئیں گے پھر نصاری کو کہا جا ئے گا تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے ہم اللہ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے تو انہیں کہا جا ئے گا کہ تم سب جھوٹ بول رہے ہو کیوں کہ اللہ کے پاس نہ بیوی تھی اور نہ بیٹے ، تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیںسیراب کرے، تو کہا جا ئے گا پیو پھر وہ سب جہنم میں گرا دیئے جا ئیں گے، یہاں تک کہ اللہ کی عبادت کرنے والے چاہے نیک ہوں یا بد باقی رہ جا ئیں گےتو انہیں کہا جا ئے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے جدا ہو گئے تھے جب کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لیے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک منادی کو سنا جو کہہ رہا تھا کہ ہر قوم اس کے ساتھ ملحق ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں،بیان کیا کہ پھر جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں اور اس سے صرف انبیاء بات کر پا ئیں گے پھر پوچھے گا: کیا تمہارے درمیان اور اس کے درمیان کوئی ایسی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟وہ کہیں گے : پنڈلی تو وہ اپنی پنڈلی کھول دے گااور سارے مومن اس کے لئے سجدے میں گر پڑیں گے ۔ ( صحیح بخاری : ۷۴۳۹، صحیح مسلم : ۱۸۳)
اور فرمایا ’ ’إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ‘‘ عنقریب تم سب اپنے رب کو دیکھو گے جیسا کہ تم اس چاند کو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی زحمت بھی نہیں ہوگی ۔ (صحیح بخاری : ۵۵۴، صحیح مسلم : ۶۳۳، سنن أبی داؤد : ۴۷۲۹ ، جامع الترمذی : ۲۵۵۱، سنن ابن ماجۃ : ۱۷۷)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’ ’أَنَّ النَّاسَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ: هَلْ تُمَارُونَ فِي القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ، قَالُوا: لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ تُمَارُونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ، قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ، يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّمْسَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ القَمَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَدْعُوهُمْ فَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘‘ لوگ کہیں گےکہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم بروز قیامت اپنے رب کو دیکھ پا ئیں گے ؟ فر مایا کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو ئے جب کہ اس کے اوپر بدلی نہ ہو ، لوگ کہیں گے نہیں اے اللہ کے رسول ! تب کہیں گے : کیا تم سب سورج کے دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو جب کہ اس کے او پر بدلی نہ ہو ، لوگ کہیں گے : نہیں فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ، لوگوں کو قیامت کے دن جمع کیا جا ئے گا ، تو وہ(اللہ ) کہے گا : جو جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہو جا ئے تو ان میں سے سورج کی عبادت کرنے والا سورج کے پیچھے ہو جا ئے گا اور چاند کی عبادت کرنے والا چاند کے پیچھے ہو جا ئے گا ، طاغوت کی عبادت کرنے والا طاغوت کے پیچھے ہو جا ئے گا ، یہ امت باقی رہ جائے گی جس میں منافقین بھی ہوں گے تو اللہ ان کے پاس آئے گا اور کہے گا میں تمہارا رب ہوں تو وہ لوگ کہیں گے یہی ہماری جگہ ہے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ ئے گا اور جب ہمارا رب ہمارے پاس آ ئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے ، ان کے پاس اللہ آ ئے گا اور کہے گا میں تمہارا رب ہوں تو لوگ کہیں گے تو ہمارا رب ہے اور وہ لوگوں کو پکا رے گا تو پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھ دیاجائے گا اور میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول میںہوں گا، اس دن رسولوں کے علاوہ کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اوراس دن رسول کہیں گے: اے اللہ! مجھے محفوظ رکھ! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھ۔ ( صحیح بخاری : ۸۰۶، صحیح مسلم : ۱۸۲، سنن أبی داؤد : ۴۷۳۰، جامع التر مذی : ۲۵۵۴، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۷)
رؤیت الہی کی ساری روایات متواتر ہیں اور اللہ تعالی کا جو یہ فرمان ہے{قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي}فرمایا !کہ اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر تم کو دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ۔ (الأعراف : ۱۴۳) اس میں عدم رؤیت کا ثبوت نہیں ہے ، اس میں دنیوی رؤیت کا انکار ہے اور یہ بعینہ اس جواب کی طرح ہے جو آپ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کے ایک سوال پر دیا تھا ، ابو ذر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺسے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا تھا کہ ’’نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ‘‘ وہ ایک نور ہے ، اسے میں کہاں دیکھ سکتا ہو ں ۔ ( صحیح مسلم : ۱۸۷، جامع الترمذی : ۳۲۸۲) گویا اسراء کی رات آپ ﷺ نےاللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا تھا ، اسراء کی رات کے سلسلے میں وارد ہو نے والی آیات میں سے ایک یہ ہے {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔ (الإ سراء : ۱) دیکھئے اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، اگر دیکھا ہوتا تو اللہ تعالی اپنے نبی ﷺ پربطور احسان اس کا تذکرہ کرتا ۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے {لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ }اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے ۔ ( الأنعام : ۱۰۳) یہ آیت بھی رؤیت کی نفی پر دلا لت نہیں کرتی ہے کیوں کہ ادراک کا معنی رؤیت پر زیادتی ہے اور اس سے پہلے جو آیتیں توحید اور اولاد کی نفی کے سلسلے میں آئی ہیں ان میں آخرت کی خبریں نہیں تسلیم کی جا سکتی ہیں جب تک کہ انہیں رؤیت سے نہ جوڑ دیا جا ئے ۔
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’فَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا وَأَكْثَرُ مِنْهَا قَدْ رُوِّيَتْ فِي الرُّؤْيَةِ، عَلَى تَصْدِيقَهَا وَالْإِيمَانِ بِهَا أَدْرَكْنَا أَهْلَ الْفِقْهِ وَ الْبَصَرِ مِنْ مَشَايِخِنَا، وَلَمْ يَزَلِ الْمُسْلِمُونَ قَدِيمًا وَحَدِيثًا يَرْوُونَهَا وَيُؤْمِنُونَ بِهَا، لَا يَسْتَنْكِرُونَهَا وَلَا يُنْكِرُونَهَا، وَمَنْ أَنْكَرَهَا مِنْ أَهْلِ الزَّيْغِ نَسَبُوهُ إِلَى الضَّلَالِ، بَلْ كَانَ مِنْ أَكْبَرِ رَجَائِهِمْ، وَأَجْزَلِ ثَوَابِ اللَّهِ فِي أَنْفُسِهِمُ النَّظَرُ إِلَى وَجْهِ خَالِقِهِمْ، حَتَّى مَا يَعْدِلُونَ بِهِ شَيْئًا مِنْ نَعِيمِ الْجَنَّةِ ‘‘یہ تمام احادیث بلکہ رؤیت کے سلسلے میں ان سے بھی زیادہ روایات مروی ہیں ، ان کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے ، ہم نے اپنےبا بصیرت مشائخ با بصیرت اور سمجھ دار علماء کو اسی پر پایا ہے اور قدیم و جدید مسلمانوں نے اسی کو روایت کیا ہے اور اسی پر ایمان لا ئے ہیں، وہ نہ اس کی مذمت کرتے ہیں اور نہ اس کا انکار ہی کرتے ہیں ، زیغ و ضلال میں سے جس نے اس کا انکار کیا لوگوں نے اسے گمراہی کی طرف منسوب کر دیا بلکہ یہی ان کی سب سے بڑی امید تھی اور ان کے دل میں اپنے خالق کا چہرہ دیکھ لینا ہی سب سے بڑا ثواب تھا یہاں تک کہ وہ جنت کی نعمتوں کو بھی اس کے برابر نہیں سمجھتے ہیں۔ ( الرد علی الجہمیۃ : ص: ۱۲۲)
اور امام المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وَأَمَّا الصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِي رُؤْيَةِ الْمُؤْمِنِينَ رَبَّهَمْ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهُوَ دِينُنَا الَّذِي نَدِينُ الِلَّهَ بِهِ، وَأَدْرَكْنَا عَلَيْهِ أَهْلَ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، فَهُوَ: أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَرَوْنَهُ عَلَى مَا صَحَّتْ بِهِ الْأَخْبَارُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘ رہی بات مومنوں کے لئے بروز قیامت اپنے رب کودیداد کرنے کی تو یہ ہمارا دین ہے جس کے ذریعہ ہم اللہ کو پہچانتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں ، ہم اہل السنہ والجماعہ کو اسی پر پاتے ہیں ، گویا اہل جنت اسے اسی طرح دیکھیں گے جیسا اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے ۔ ( صریح السنۃ للطبری : ص: ۲۰)
اور امام ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’وَإِنَّمَا أَرَادُوا بِجَحْدِ رُؤْيَتِهِ إِبْطَالَ رُبُوبِيَّتِهِ، لِأَنَّهُمْ مَتَّى أَقَرُّوا بِرُؤْيَتِهِ أَقَرُّوا بِرُبُوبِيَّتِهِ؛ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ ثَوَابَ مَنْ صَدَّقَ بِهِ بِالْغَيْبِ إِيمَانًا أَنْ يَرَاهُ هَذَا عِيَانًا‘‘یقینا لوگوں نے اس کی رؤیت کے انکار اور اس کی ربوبیت کے ابطال کا ارادہ کیا کیوں کہ لوگ جب رؤیت کا اقرار کریں گے تو ربوبیت کا بھی اقرار کرنا پڑے گا کیوں کہ اللہ تعالی اسی شخص کو ثواب عطا کرے گا جو غائبانہ طور پر ایمان کے ساتھ اسے آنکھوں سے دیکھنے کی تصدیق کرے گا ۔ ( الإبانۃ الکبری لإبن بطۃ : ۷؍ ۲)
اور ولید بن مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’سَأَلْتُ الْأَوْزَاعِيَّ، وَمَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَاللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي، فِيهَا الرُّؤْيَةُ وَغَيْرِ ذَلِكَ فَقَالُوا: أَمْضِهَا بِلَا كَيْفٍ‘‘ میں نے اوزاعی ، مالک بن انس ، سفیان ثوری اور سیث بن سعد سے ان احادیث کی بابت پوچھا جن میںرؤیت وغیرہ کا تذکرہ آیا ہے تو انہوں نے فرمایا بلا کسی کیفیت کے اسے تسلیم کر لو ۔ ( الصفات للدار قطنی : ص: ۷۵)
ہم مانتے ہیں کہ اللہ کا چہرہ ہے لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اس کا چہرہ اسی طرح ہے جو اس کے جلال اور عظمت کو مناسب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اس کا منہ (اور ذات) اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور تم اس کی طرف لو ٹائے جاؤ گے۔ (القصص : ۸۸) اور فرمایا {وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ} صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ۔ (الرحمن : ۲۷) ایک اور جگہ فرمایا { وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ} اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں۔ (الرعد : ۲۲) ایک اور مقام پر فرمایا {إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى} بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے ۔ (اللیل : ۲۰) اور فرمایا { يُرِيدُونَ وَجْهَهُ}خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں ۔ (الأنعام : ۵۲) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ، آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ القَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُواإِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الكِبْرِ، عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ‘‘ چاندی کے دو باغ ہیں ، ان کے برتن اور اس میںجو چیزیں ہیں وہ سب چاندی کی ہیں اور سونے کے دو باغ ہیں ، ان کے برتن اور اس میںجو چیزیں ہیں وہ سب سونے کی ہیں اور جنت عدن میں لوگوں اور ان کے اپنے رب کے دیدار کے درمیان کبریائی کی چادر کےعلاوہ کو ئی اور چیز حائل نہیںہوگی جو اس کےچہرے پرہوگی ۔ ( صحیح بخاری : ۴۸۷۸، صحیح مسلم : ۱۸۰ ، جامع الترمذی : ۲۵۲۸، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۶)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ - وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ: النَّارُ - لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ‘‘ اللہ عزوجل نہیں سوتا اور نہ ہی سونا اس کے لئے مناسب ہےوہ ترازو کواوپر نیچے کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلےاس کے پاس پیش کیا جاتا ہے، اس کا پردہ نور ہےاور ابو بکر کی روایت میں ہے کہ پردہ اس کا آگ ہے ، اگر وہ اسے کھول دے تو تا حد نگا ہ ساری چیزیںوہ جلا ے گی یعنی اس کی مخلوق کو۔ ( صحیح مسلم : ۱۷۹، سنن ابن ماجۃ : ۱۹۵، ۱۹۶)
اور ابو عثمان الصابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’وكذلك يقولون في جميع الصفات التي نزل بذكرها القرآن، ووردت به الأخبار الصحاح من السمع والبصر والعين والوجه والعلم والقوة والقدرة والعزة والعظمة والإرادة والمشيئة والقول والكلام والرضا والسخط والحب و البغض والفرح والضحك وغيرها من غير تشبيه لشيء من ذلك بصفات المربوبين المخلوقين، بل ينتهون فيها إلى ما قاله الله تعالى و قاله رسوله صلى الله عليه وسلم من غير زيادة عليه، ولا إضافة إليه، ولا تكييف له، ولا تشبيه، ولا تحريف، ولا تبديل، ولا تغيير، ولا إزالة للفظ الخبر عما تعرفه العرب وتضعه عليه بتأويل منكر مستنكر، ويجرونه على الظاهر، ويكلون علمه إلى الله تعالى، ويقرون بأن تأويله لا يعلمه إلا الله، كما أخبر الله عن الراسخين في العلم أنهم يقولونه في قوله تعالى: {وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُوْلُوا الأَلْبَابِ} [آل عمران:۷] اسی طرح لوگ ان تمام صفات کے سلسلے میں کہتے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا اور جن کے سلسلے میں صحیح خبریںواردہوئی ہیںجیسےالسمع(سننا)،البصر(دیکھنا)،العين(دیکھنا)،الوجه(چہرہ)،العلم(جاننا)،القوة(طاقت)،القدرة(قدر ت ) ،العزة(غلبہ)،العظمة(عظمت)،الإرادة(ارادہ)،المشيئة(مشیئت)،القول(بولنا)،الكلام(بات کرنا)،الرضا(خوش ہونا)، السخط(ناراض ہونا ) ، الحب( محبت کرنا)، البغض(بغض رکھنا)، الفرح (خوش ہونا)،الضحك (ہنسنا) اور اس کے علاوہ ان تمام صفات کے سلسلے میں لوگ کسی مخلوق سے تشبیہ دیئے بغیرکہتے ہیں بلکہ اس کی اس انتہا تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نےکہا ہے ، اس میں وہ نہ زیادہ کرتے ہیں، نہ اضافہ کرتے ہیں ، نہ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں ، نہ اس سے کسی چیز کو تشبیہ دیتے ہیں ، نہ اس میں تحریف کرتے ہیں ،نہ اس میںتغیر و تبدل کرتے ہیں ، نہ کسی لفظ کو اہل عرب کے استعمال سے ہٹ کر استعمال کرتے ہیں اور نہ اس کی منکر یا غلط تاویل کرتے ہیں ، اسے اس کے ظاہری مفہوم پر استعمال کرتے ہیں اور اس کا علم اللہ تعالی کے حوالے کرتے ہیں ، وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے مضبوط علم والوں کے بارے میں بتایا کہ وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے سلسلے میں کہتے ہیں: {وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُوْلُوا الأَلْبَابِ} اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔ [آل عمران/7] ( عقیدۃ السف أصحاب الحدیث لأبی عثمان الصابونی : ص: ۱۶-۱۷)
اسی طرح اللہ کی ایک صفت الید( ہاتھ) ہے، ہم اس کے لئے ہاتھ اسی طرح مانتے ہیں جو اس کے جلال و کمال کو مناسب ہے ،اس سلسلے میں قرآن اور احادیث میں کئی اعتبار سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں ،کبھی یہ کہا گیا کہ اللہ کے لئےدو ہاتھ ہے تو کبھی یہ کہا گیا کہ وہ مٹھی بنالیتا ہےاور کبھی کھول دیتا ہے ،قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کراسی میں آسمان اور زمین کولے لے گا اور اسی سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کے پاس انگلیاں بھی ہیں ، قرآن و سنت میں ہاتھ کے حوالے سے جتنی دلیلیں آئی ہیں سب میں حقیقی ہاتھ کی طرف اشارہ ہے لیکن اس کا ہاتھ اسی کے جلال کے اعتبار سے ہوگا ، نہ ہم اس کی تاویل کر سکتے ہیں، نہ اسے ہم کسی کے مشابہ قرار دے سکتےہیں اورنہ اس پر دلالت کرنے والی آیتوں اور حدیثوں میں تحریف کر سکتے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ} (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس ! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے ؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔ (ص: ۷۵) اور فرمایا {إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ} جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ (الفتح : ۱۰) اور فرمایا {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔ (الزمر : ۶۷)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ عِنْدَ رَبِّهِمَا، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، قَالَ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ‘‘آدم اور موسی علیہما السلام نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا تو آدم موسی پر غالب آگئے ، موسی نے کہا تو وہی آدم ہے جس نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور تیرے اندر اس نے اپنی روح پھونکا ۔ ( صحیح بخاری :۳۴۰۹، صحیح مسلم : ۲۶۵۲، اور الفاظ اسی کے ہیں ) ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے ’’احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الجَنَّةِ، قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ‘‘ آدم اور موسی نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا تو انہیں موسی نے کہا : اے آدم ! تو ہمارا باپ ہے (لیکن ) تونے ہمیں گھاٹے میں ڈال دیا اور تونے ہمیں جنت سے نکلوا دیاتو آدم نے ان سے کہا کہ اے موسی !تجھے اللہ نے اپنے کلام کے لئے چن لیا اور تورات تمہارے واسطے اپنے ہاتھ سے لکھی ۔ ( صحیح بخاری :۶۶۱۴، صحیح مسلم : ۱۵)
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ، الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا‘‘انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے اور وہ رحمان عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اپنے حکم ،اپنے اہل و عیال اور جس کے وہ ذمہ دار بنا ئے گئے ہیں اس میں انصاف کرتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم : ۱۸۲۷، سنن النسا ئی : ۵۳۷۹)
اور ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا‘‘اللہ عزوجل رات میں اپنا ہاتھ پسارتا ہے تاکہ دن کا گنہ گار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ پسارتا ہے تاکہ رات کا گنہ گار توبہ کرلے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جا ئے ۔ ( صحیح مسلم : ۲۷۵۹)
ایک اورصحیح حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، وَبِيَدِهِ المِيزَانُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ ‘‘ کیا تم نے دیکھاکہ جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے ہاتھ میں میزان ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ ( صحیح بخاری : ۴۶۸۴، صحیح مسلم : ۹۹۳، جامع الترمذی : ۳۰۴۵، سنن ابن ماجۃ : ۱۹۷)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ يَا آدَمُ، اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ المَلَائِكَةِ، إِلَى مَلَإٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ، فَقُلْ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، قَالُوا: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ، بَيْنَهُمْ، فَقَالَ اللَّهُ لَهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، قَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ ثُمَّ بَسَطَهَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ‘‘جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونکا تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے الحمد للهکہنا چاہاتو اللہ کی اجازت سے الحمد للهکہا،پھر ان سے ان کے رب نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے، اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت کے پاس جاؤ اور ان سے السلام علیکم کہو( انہوں نے جا کر السلام علیکم کہا) تو انہوں نے جواب دیا، وعلیک السلام و رحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹ آئے، تو(اللہ نے) فرمایا: یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں سلام ہے، پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسند کر لو، انہوں نے کہا: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور میرے رب کے دونوں ہاتھ داہنے اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور ان کی ذریت تھی۔ ( جامع الترمذی : ۳۳۶۸، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۵۹۶، مسند البزار : ۸۱۹۴، السنن الکبری للنسا ئی : ۹۹۷۷)
ایک اور جگہ فرمایا ’’إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ‘‘ یقینا تمام بنی آدم کا دل رحمن کی تمام انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہے ، وہ اسے جیسا چاہتا ہے پھیرتا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۴)
اور عبد اللہ بن امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب السنۃ میں امام وکیع رحمہ اللہ کے حوالے سے فرمایا ’’نُسَلِّمُ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ كَمَا جَاءَتْ وَلَا نَقُولُ كَيْفَ كَذَا وَلَا لِمَ كَذَا، يَعْنِي مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ: ان احادیث کوہم اسی طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح یہ آئی ہیں لیکن ایساکیسے؟ یا ایسا کیوں؟ ہم نہیں کہتے ہیں جیسے عبد اللہ بن مسعود کی حدیث ہے: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْمِلُ السَّمَاوَاتِ عَلَى أُصْبُعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى أُصْبُعٍ، کہ اللہ عزوجل (بروز قیامت ) تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھا لےگا ، پہاڑ کو ایک انگلی پر ، اسی طرح یہ حدیث بھی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ‘‘ تمام انسانوں کے دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ [مسلم/2654] اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات اس سلسلے میں وارد ہو ئی ہیں ۔ (السنۃ لعبد اللہ بن أحمد: ۱؍ ۲۶۷)
امام شریک رحمہ اللہ سےان لوگوں کے سلسلے میں سوال کیا گیاجنہوں نے صفات الہیہ پر دلالت کرنے والی بعض احادیث کا انکار کردیا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا ’’ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ هُمُ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْقُرْآنِ وَبِأَنَّ الصَّلَوَاتِ خَمْسٌ وَبِحَجِّ الْبَيْتِ وَبِصَوْمِ رَمَضَانَ فَمَا نَعْرِفُ اللَّهَ إِلَّا بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ‘‘ جولوگ یہ حدیثیں لائے ہیںوہی لوگ یہ قرآن بھی لا ئےہیں ،پانچوں نمازیں، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزوں کی بابت ہمیں انہیں احادیث سے پتہ چلا ہے ۔ (السنۃ لعبد اللہ بن أحمد: ۱؍ ۲۷۳)
اور حافظ ابن بطہ رحمہ اللہ نے اللہ کے لئے ہاتھ پر دلالت کرنے والی تمام روایات کوبیان کرنے کے بعد فرمایا ’ ’فَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ وَمَا ضَاهَاهَا، وَ مَا جَاءَ فِي مَعْنَاهَا فِي كَمَالِ الدِّينِ، وَتَمَامِ السُّنَّةِ: الْإِيمَانُ بِهَا، وَالْقَبُولُ لَهَا، وَتَلَقِّيهَا بِتَرْكِ الِاعْتِرَاضِ عَلَيْهَا وَاتِّبَاعُ آثَارِ السَّلَفِ فِي رِوَايَتِهَا بِلَا كَيْفٍ وَلَا لِمَ‘‘ان حدیثوںپراور ان کے مشابہ حدیثوں پر اوران حدیثوں پرجو کمال دین اور تمام سنت کے معنی میں آئی ہیں ان تمام پرایمان لانا ، انہیں قبول کرنا ، ان پر اعتراض سے بچنا اوران کی روایات میں کیوں اور کیسا کہے بغیر سلف کی اتباع کرنا واجب ہے ۔ ( الإنابۃ لإبن بطۃ : ۳؍ ۳۱۳)
اللہ تعالی نے جس طرح اپنے آپ کو صفت کمال ، صفت جلال ، صفت جمال ، صفت عزت اور صفت کبریاء سے متصف کیاہے اسی طرح اس نےاپنے آپ کو ان تمام صفات سےمستثنی بتایا ہے جن میں نقائص ہیںکیوں کہ اللہ تعالی کی صفات میں نفی نہیں ہے ، یہی اصل قرآن و سنت میں ہے کیوں کہ صفات کا ثابت ہونا ہی اصل ہے ، قرآن و سنت میں صفات الہیہ کی بے شمار دلیلیں بھری ہو ئی ہیں اور اس کے لئے وہی تمام صفتیں ہیں جو اس کے جلال ، اس کی عظمت اور اس کے کمال کو زیب دیتی ہیں ، اللہ تعالی جب اپنے آپ سے کسی صفت کا انکار کر دے توکمال صفت کو ثابت کرنے کے لئے اس کے برعکس کا انکار کر دیاجا ئے کیوں کہ اگر کو ئی انسان اللہ کی طرف نقائص کو منسوب کرے گا تو اللہ اپنی طرف منسوب کئے ہو ئے نقائص کا انکار کرے گا ۔
اللہ تعالی نے اپنے آپ سے اونگھ اور نیند کا انکار کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے واضح ہے {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ}اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ (البقرۃ : ۲۵۵) اور نسیان کا بھی انکار کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا } اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے ۔ (مریم : ۶۴) اسی طرح اپنے آپ سے تھکان کا بھی انکار کیا ہے کیوں کہ یہودیوں نے (اللہ ان پر لعنت فرما ئے ) اس کی طرف تھکان کا انتساب کیا ہے ، کہا ہے کہ جب تمام مخلوق کو پیدا کرتے کرتے اللہ تعالی تھک گیا تو آرام کرنے لگا حالانکہ اللہ تعالی نے اس بات کی بھی نفی کیا ہے کہ تمام مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس نے آرام کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ } یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کردیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں۔ (ق: ۳۸)
اوراللہ تعالی نےیہ بھی ثابت کردیا ہے کہ تمام مخلوق کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا گیاہے، کسی کو بے کار نہیںپیدا کیا گیاہےگویااس نے اپنے آپ سے فعل عبث کا انکا ر کیا ہےجیسا کہ فر مایا { أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ} کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ (المؤمنون : ۱۱۵) او ر یہ بتا دیا ہے کہ اس کا ہر حکم مبنی بر عدل اور ہر قول انصاف پر مشتمل ہے ، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے ، وہ پورا کا پورا عدل کرتا ہے جیسا کہ فرمایا {وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا} اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔ (الکھف : ۴۹) اور فرمایا {وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ} اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیںکرنے والا ہے ۔ (فصلت : ۴۶)
یہود و نصاری نے اللہ کی طرف بیٹا منسوب کیا اور ہو بہو ویسے ہی کہا جیسے اس سے پہلے کافروں نے کہا تھا تو اللہ تعالی نے اپنے آپ سے بیٹے کا بھی انکار کردیا جیسا کہ فرمایا { مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ}نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ۔ (المؤمنون : ۹۱) اور یہ ثابت کردیا کہ جس کے پاس لڑکے ہو ںگے اس کے پاس بیوی کا ہونا لازم اور ضروری ہے اور اللہ کے پاس نہ بیوی ہے اورنہ بچے ہیںجیسا کہ فرمایا {بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ } وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ (الأنعام : ۱۰۱) اور فر مایا {وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا} اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا۔ (الجن : ۳)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ،بے انتہا اچھے ہیں ، اتنے اچھےکہ اب اس سے بہتر کوئی اور نام ہو ہی نہیں سکتا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى} وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں ۔ (طہ : ۸) چند نام فر مان الہی میں وارد ہیںجیسے {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱) سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (۱) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۲) بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ( ۲) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (۴)} بدلے کے دن (یعنی قیامت کا) مالک ہے(۴) ۔ (الفاتحۃ : ۲-۴) اور اس فرمان میں بھی {هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (۲۲) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں چھپے کھلے کا جاننے والا مہربان اور رحم کرنے والا (۲۲) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۲۳) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں(۲۳) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۲۴) } وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا، اسی کے لئے نہایت اچھے نام ہیں ہر چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے (۲۴)۔ (الحشر : ۲۲-۲۴)
اللہ کا ہر نام مشتق ہے ، کوئی بھی نام جامد نہیں ہےاور ہرصفت اس کے نام سے مشتق ہےجیسے صفت رحمت اس کے نام الرحیم سے ، صفت عزت اس کے نام العزیز سے ، صفت حکمت اس کے نام الحکیم سے اور حیات اس کے نام الحی سے مشتق ہے ، اسی طرح ہر ناموں کا مسئلہ ہے ۔
اس کے ناموں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ’’أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ , أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ‘‘ اے اللہ میں ہر اس نام کے ذریعہ تجھ سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لئے منتخب کیا یا جو تونے اپنی کتاب میں نازل کیا یا جسے تونے اپنی مخلوق میں سے سکھایا یا جو نام تو نے اپنے پاس علم غیب میں چھپا کر رکھا ہے ۔ ( الدعاء للضبی: ۶) اور فرمایا ’’إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ‘‘ اللہ کے لئے سو میں ایک کم یعنی ننانوے نام ہیں، جس نے اسے شمار کر لیا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ( صحیح بخاری : ۲۷۳۶)
اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں الحاد سےمنع کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ ۔ (الأعراف: ۸۰)
اللہ تعالی کے ناموں میں الحاد کی کئی صورتیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :۔ اللہ کے نام پر اپنا نام رکھ لینا جب کہ کسی انسان کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے جیسےالخالق ، الرحمن وغیرہ ۔ بتوں کا ایسا نام رکھ لیناجو للہ کے ناموں سے مشتق ہو جیسے اللات ،جو اللہ سے مشتق ہے ، العزی جو اللہ کے نام العزیز سے مشتق ہے ۔ اللہ تعالی کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت اس کےسارے ناموںکایاان میں سے کسی ایک نام کایا اس کے معانی کا انکار کردینا یا انہیں معطل کردینا بھی ہے ۔
قرآن و احادیث میںاللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی ایک کتاب میں یکجا کرنا نا ممکن ہے لیکن ہم نے تعظیمااس باب میں چند جملوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور یہ ہمیں کفایت کر جا ئے گا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ کوئی بھی مسلم اللہ کی وہی صفت بیان کرے جو اس نے اپنے لئے بیان کیا ہے یا اللہ کو وہی نام دے جو اس نے اپنے لئے متعین کیا ہے اور ان تمام کی نفی کرے جن کی نفی اللہ نے یا اللہ کے رسول ﷺ نے کردیاہے اور ان کے علاوہ سے خاموش رہے ۔
ہم اللہ کے اسماءو صفات پر اس کی اور اس کے رسول کی مراد کے مطابق ایمان لاتے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت کوئی نہیں جان سکتا ، نہ اس کا احاطہ کر سکتا ہے ، نہ کسی کی عقل وہاں تک پہونچ سکتی ہے اور نہ ہم اس کی تاویل کے مکلف ہیں کیوں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیاہے {وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ}اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔ (ص: ۸۶) اسی طرح جنت کی وہ تمام نعمتیں جن کا تذکرہ قرآ ن و احادیث میں آیا ہے اور جو نعمتیں دنیا میں پائی جاتی ہیں دونوں کا نام یکساںہونے کے باوجود دونوں میںاتنا فرق ہے کہ کوئی انسان جنت کی نعمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتالیکن جنت کی تمام نعمتوں پر ہمارا ایمان ہے گو ہم نے نہیں دیکھا یاگرچہ ہم ان کی حقیقت و کیفیت سے نا آشنا ہیں تو جب جنتی نعمتوں کا یہ معاملہ ہے توأسماء و صفات میںمجرد اشتراک سے ایک انسان اللہ کی برابری بدرجہ أولی نہیں کر سکتا ہے ،خالی لفظی اشتراک سےاللہ کے أسماء و صفات کی نفی لا زم نہیں آتی ہے ۔
اس کے ثبوت میں أئمۃ الہدی والعلم ابن أبی زمنین فرماتے ہیں کہ ’’فَهَذِهِ صِفَاتُ رَبِّنَا اَلَّتِي وَصَفَ بِهَا نَفْسَهُ فِي كِتَابِهِ، وَوَصَفَهُ بِهَا نَبِيُّهُ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنْهَا تَحْدِيدٌ وَلَا تَشْبِيهٌ وَلَا تَقْدِيرٌ فَسُبْحَانَ مَنْ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ اَلسَّمِيعُ اَلْبَصِيرُ. لَمْ تَرَهُ اَلْعُيُونُ فَتَحُدُّهُ كَيْفَ هُوَ كَيْنُونِيَّتُهُ، لَكِنْ رَأَتْهُ اَلْقُلُوبُ فِي حَقَائِقِ اَلْإِيمَانِ بِهِ‘‘ہمارے رب کی یہی وہ صفات ہیں جسے اس نے اپنی کتاب میں بیان کیاہے اورجسے نبی ﷺ نے بیان کیاہے ، اس میں نہ کوئی تحدید ہے ، نہ تشبیہ ہے اور نہ کوئی تقدیر (اندازہ) ہے ، اس کی ذات پاک ہے جس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے وہی سننے اور دیکھنے والا ہے ، اسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے کہ اس کی کیفیت اور اس کا ڈھانچہ بیان کر سکے لیکن ایمان کی روشنی میں تمام دلوں نے اسے دیکھا ہے ۔ ( أصول السنۃ لإبن أبی زمنین : ص: ۷۴)
اور عبد الرحمن بن قاسم فرماتے ہیں کہ ’’لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَما: ہر کوئی اللہ کی وہی صفت بیان کرے جو اس نے اپنے لئے قرآن میں بیان کیا ہے ، اس کے ہاتھوں اورچہرے کو کسی چیز سے تشبیہ نہ دے بلکہ وہ کہے کہ اس کے پاس دو ہاتھ ہیں اور دونوں اسی طرح ہیں جس طرح اس نے قرآن میںبیان کیا ہے ،اس کے پاس چہرہ ہے اور اسی طرح ہے جس طرح اس نےکتاب میں بیان کیا ہے ، اللہ تبارک و تعالی کے مثل اور اس کے مشابہ کو ئی چیز نہیں ہے ،وہی اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے اپنی صفت بیان کیا ہے ، اس کےدونوں ہاتھ کھلے ہوئےہیں اور اسی طرح کھلے ہو ئے ہیں جس طرح اس نے بیان کیا ہے: {وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ}ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ (الزمر : ۶۷) تو یہ اسی طرح ہیں جس طرح اس نے بیان کیا ہے ۔ (أصول السنۃ : لإبن أبی زمنین : ۷۵)
اور امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وَمَا نطق بِهِ الْقُرْآن والْحَدِيث مثل {وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غلت أَيْديهم} (المائدۃ : ۶۴) وَ مثل قَوْله {وَالسَّمَاوَات مَطْوِيَّات بِيَمِينِهِ}( الزمر : ۶۷) وَمَا أشبه هَذَا من الْقُرْآن والْحَدِيث لَا نزيد فِيهِ وَ لَا نفسره ونقف على مَا وقف عَلَيْهِ الْقُرْآن وَالسّنة‘‘ قرآن و احادیث میں یہ بات آئی ہے جیسے {وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غلت أَيْديهم} اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ (المائدۃ : ۶۴) اور جیسے یہ فرمان {وَالسَّمَاوَات مَطْوِيَّات بِيَمِينِهِ}اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے ۔ ( الزمر : ۶۷) اسی طرح اور بھی بے شمار دلیلیں قرآن و احادیث میں موجود ہیں لیکن ہم اس میں اضافہ نہیں کریں گے ،نہ اس کی تفسیر کریں گے بلکہ ہم اسی پر توقف اختیار کرتے ہیں جس پر قرآن و سنت نے توقف اختیار کیا ہے ۔ ( العلو للعلی العظیم للذہبی : ۱۶۸)
اور امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’نَعْبُدُ اللَّهَ بِصِفَاتِهِ كَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ، قَدْ أَجْمَلَ الصِّفَةَ لِنَفْسِهِ، وَلَا نَتَعَدَّى الْقُرْآنَ وَالْحَدِيثَ، فَنَقُولُ كَمَا قَالَ وَنِصِفُهُ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَلَا نَتَعَدَّى ذَلِكَ، نُؤْمِنُ بِالْقُرْآنِ كُلِّهِ مُحْكَمِهِ وَمُتَشَابِهِهِ، وَلَا نُزِيلُ عَنْهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ صِفَةً مِنْ صِفَاتِهِ شَنَاعَةً شُنِّعَتْ، وَلَا نُزِيلُ مَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ مِنْ كَلَامٍ، وَنُزُولٍ وَخُلُوِّهِ بِعَبْدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَوَضْعِ كَنَفِهِ عَلَيْهِ، هَذَا كُلُّهُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ اللَّهَ يُرَى فِي الْآخِرَةِ، وَالتَّحْدِيدُ فِي هَذَا بِدْعَةٌ، وَالتَّسْلِيمُ لِلَّهِ بِأَمْرِهِ، وَلَمْ يَزَلِ اللَّهُ مُتَكَلِّمًا عَالِمًا، غَفُورًا، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، عَالِمَ الْغُيُوبِ، فَهَذِهِ صِفَاتُ اللَّهِ وَصَفَ بِهَا نَفْسَهُ، لَا تُدْفَعُ، وَلَا تُرَدُّ، وَقَالَ: { لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} [البقرة: ۲۵۵] {لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ} [الحشر: ۲۳]، هَذِهِ صِفَاتُ اللَّهِ وَأَسْمَاؤُهُ‘‘ ہم اللہ کی عبادت اس کی تمام صفات کے ساتھ ویسے ہی کرتےہیںجیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور اس نے اپنی تمام صفات مجمل بیان کیا ہے ، ہم قرآن و احادیث سے آگے نہیں بڑ ھ سکتے ،بس ہم وہی کہتے ہیں جو اس نے کہاہے اور ہم وہی صفت بیان کرتے ہیں جو اس نے بیان کیا ہے ، ، ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ،ہم محکم اور متشابہ سمیت پورے قرآن پر ایمان لاتے ہیں اورکسی کی شناعت و ملامت کی وجہ سے ہم اللہ تعالی کی کو ئی صفت زائل نہیں کریں گے جیسے کلام کرنا، نا زل ہونا ، بروز قیامت اپنے بندے کے ساتھ تنہا ہونا اور اپنے پہلو کا اس پر رکھنا ،یہ تمام باتیں اس بات پر دلا لت کرتی ہیں کہ آخرت میں اللہ دکھا ئی دے گا لیکن اس میں حد بندی بدعت ہے ، بس اللہ کے لئے اس کا حکم تسلیم کر لیا جا ئے ،اللہ تعالی متکلم (بات کرنے والا) ، عالم( جاننے والا ) ، غفور( بخشنے والا ) ، عالم الغیب و الشہادۃ ( غیب اور حاضر کا جاننے والا ) اورعلام الغیوب (غیوب کا جاننے والا )ہے ، یہ سب اللہ کی وہ صفات ہیں جو اس نے بذات خود اپنے لئے بیان کیا ہے ، اس لئے اس کا نہ انکار کیا جا ئے اور نہ اس کا رد کیا جا ئے، فرمایا {لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} اس کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے اور وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ [البقرة: ۲۵۵] اور فر مایا {هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۭ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ} وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں ۔ [الحشر: ۲۳] یہ سب اللہ کے أسماء و صفات ہیں ۔ ( الإبانۃ الکبری لإبن بطۃ : ۷؍ ۳۲۶)
امام اہل السنہ ابو القاسم سے اللہ تعالی کے صفات کے تعلق سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ’’مَذْهَب مَالك وَالثَّوْري وَالْأَوْزَاعِيّ وَالشَّافِعِيّ وَحَمَّاد ابْن سَلمَة وَحَمَّاد بن زيد وَأحمد وَيحيى بن سعيد الْقطَّان وَعبد الرَّحْمَن بن مهْدي وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه أَن صِفَات الله الَّتِي وصف بهَا نَفسه وَوَصفه بهَا رَسُوله من السّمع وَالْبَصَر وَالْوَجْه وَالْيَدَيْنِ وَسَائِر أَوْصَافه إِنَّمَا هِيَ على ظَاهرهَا الْمَعْرُوف الْمَشْهُور من غير كَيفَ يتَوَهَّم فِيهَا وَلَا تَشْبِيه وَلَا تَأْوِيل‘‘ مالک ، ثوری ، اوزاعی ، شافعی ، حماد ابن سلمہ ، حماد بن زید ، احمد ، یحیی بن سعید القطان ، عبد الرحمن بن مہدی اور اسحاق ، بن راہویہ کا مذہب ہے کہ اللہ کی وہی صفات بیان کی جا ئیںجو اس نے اپنے لئے اور جو اس کے رسول نے اس کے لئے بیان کیا ہے جیسے السّمع(سننا) الْبَصَر(دیکھنا ) الْوَجْه (چہرہ) ،الْيَدَيْنِ(ہاتھ ) اور ان کے علاوہ دیگر تمام اوصاف بھی اسی طرح تسلیم کئے جا ئیںاورساری صفات اپنے ظاہری مفہوم پربغیر کسی کیفیت ، بغیر کسی تشبیہ اور تأویل کے تسلیم کئے جا ئیں گے جو سب کے نزدیک معروف و مشہور ہے ۔ ( العلو للعلی للذہبی : ۲؍ ۴۵۹، توضیح المقاصد شرح الکافیۃ الشافیۃ نونیۃ إبن القیم : ۱؍ ۴۶۶)
اور فر مایا ’’وَأَنا أذكر بِتَوْفِيق الله تَعَالَى جمَاعَة من أَئِمَّتنَا من السّلف مِمَّن شرعوا فِي هَذِهِ الْمعَانِي فَمنهمْ أَبُو عبد الله سُفْيَان بن سَعِيد بن مَسْرُوق الثَّوْريّ فَإِنَّهُ قد أظهر اعْتِقَاده، ومذهبه فِي السّنة فِي غير مَوضِع، وَقد أملاه عَلَى شُعَيْب بن حَرْب.وَمِنْهُم أَبُو مُحَمَّد سُفْيَان بن عُيَيْنَةَ الْهِلَالِي فَإِنَّهُ قد أجَاب فِي اعْتِقَاده حِين سُئِلَ عَنهُ كَمَا رَوَاهُ مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ، وَمِنْهُم أَبُو عَمْرو عبد الرَّحْمَن بن عَمْرو الْأَوْزَاعِيّ إِمَام أهل الشَّام فَإِنَّهُ قد أظهر اعْتِقَاده فِي زَمَانه، وَرَوَاهُ ابْن إِسْحَاق الْفَزارِيّ.وَمِنْهُم أَبُو عبد الرَّحْمَن بن عبد الله بن الْمُبَارك إِمَام خُرَاسَان، والفضيل ابْن عِيَاض، ووكيع بن الْجراح، ويوسف بن أَسْبَاط، قد أظهرُوا اعْتِقَادهم، ومذاهبهم بالسنن، وَمِنْهُم شريك بن عبد الله النَّخعِيّ، وَيحيى بن سَعِيد الْقطَّان، وَأَبُو إِسْحَاق الْفَزارِيّ، وَمِنْهُم أَبُو عبد الله مَالك بن أنس الأصبحي الْمَدِينِيّ إِمَام دَار الْهِجْرَة وفقيه الْحَرَمَيْنِ فَإِنَّهُ قد أظهر اعْتِقَاده فِي بَاب الْإِيمَان وَالْقُرْآن، وَمِنْهُم أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن إِدْرِيس الشَّافِعِي المطلبي سيد الْفُقَهَاء فِي زَمَانه، وَمِنْهُم أَبُو عبيد الْقَاسِم بن سَلام، وَالنضْر بن شُمَيْل، وَأَبُو يَعْقُوب يُوسُف بن يَحْيَى الْبُوَيْطِيّ من تلاميذ الشَّافِعِي أظهر اعْتِقَاده حِين ظَهرت المحنة فِي بَاب الْقُرْآن، وَمِنْهُم أَبُو عبد الله أَحْمَد بن حَنْبَل سيد أهل الحَدِيث فِي زَمَانه،.......وَكَانَ أَبُو أَحْمَد ابْن أَبِي أُسَامَة الْقرشِي الْهَرَوِيّ من أفاضل من بخراسان من الْعلمَاء وَالْفُقَهَاء أمْلى اعتقادا لَهُ قَالَ: وَيَنْبَغِي لمن من الله بِعلم الْهِدَايَة والكرامة بِالسنةِ مِمَّن بَقِي من الْخلف الْقدْوَة مِمَّن مضى من السّلف، وَأَن مَذْهَبنَا وَمذهب أَئِمَّتنَا من أهل الْأَثر: أَن نقُول إِن الله عَزَّ وَجَلَّ أحد لَا شريك لَهُ، وَلَا ضد لَهُ وَلَا ند وَلَا شَبيه لَهُ، إِلَهًا وَاحِدًا صمدا لم يتَّخذ صَاحِبَة وَلَا ولدا وَلم يُشْرك فِي حكمه أحدا‘‘اللہ کی توفیق سے میں أئمہ سلف کی ایک جماعت کا تذکرہ کر تا ہوںجنہوں نے ان مفاہیم کی وضاحت کیا ہے ، ان میں سے ابو عبد اللہ سفیان بن سعید بن مسروق الثوری بھی ہیں ، انہوں نے اپنا عقیدہ اور اپنا مذہب کئی مقام پر ظاہر کیا ہے اورجنہوں نے اسے شعیب بن حرب پر املا کروایا ہے ، ان میںسے ابو محمد سفیان بن عیینہ الہلالی ہیں ، جس وقت ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے عقیدے کے سلسلے میں ویسے ہی جواب دیا جیسے محمد بن اسحاق الثقفی نے روایت کیا ہےاور انہیں میں سے امام اہل الشام ابو عمر و عبد الرحمن بن عمر و أوزاعی بھی ہیں ، انہوں نے بھی اس زمانے میں اپنا یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے اور جن سےاسے ابن اسحاق الفزاری نے روایت کیا ہے ، ان میں امام خراسان ابو عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مبارک ، فضل بن عیاض ، وکیع بن جراح اور یوسف بن أسباط ہیں ، ان تمام نے اپنا عقیدہ اور سنن پر اپنا یہی عمل ظاہر کیا ہے ،انہیں میں سے شریک بن عبد اللہ نخعی ، یحیی بن سعید القطان اور ابو اسحاق فزاری رحمہ اللہ بھی ہیں اورانہیں میں سےامام دار الہجرہ ، فقیہ حرمین ابو عبد اللہ مالک بن أنس الأصبحی المدینی بھی ہیں ، ایمان اور قرآن کے باب میں انہوں نے بھی یہی عقیدہ بتایا ہے ،انہیں میں سے اپنے زمانے کے سید الفقہاء ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی المطلبی بھی ہیں اورانہیں میں سے ابو عبید القاسم بن سلام ، نضر بن شمیل اور امام شافعی کے شاگرد ابو یعقوب یوسف بن یحیی البویطی بھی ہیں جنہوں نے قرآن کے باب میں اپنا عقیدہ اس وقت بتایا جب انہیں محنت و مشقت سے گزرنا پڑا ،انہیں میں سے اپنے زمانے کے سید أہل الحدیث ابو عبد اللہ أحمد بن حنبل بھی تھے اور خراسان کے ایک فاضل عالم و فقیہ ابو أحمد بن أبی أسامہ القرشی الہروی بھی تھے جنہوں نے اپنا عقیدہ املا کراتے ہو ئے فرمایا پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو اللہ کی طرف سے علم ہدایت اور با وقار سنت کے ساتھ ہے اس کے لئے مناسب ہے کہ گزرے ہو ئے سلف کا سچا جانشین بنے اور ہمارا اور ہمارے أئمہ اہل الأثر کا مذہب ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل ایک ہے ، اس کا کو ئی شریک و ساجھی نہیں ہے ، نہ اس کے برابر کو ئی ہے اور نہ اس کے مشابہ کو ئی ہے ، وہ اکیلا معبود ہے اور وہ بے نیاز ہے ، اس کے پاس نہ بیوی ہے ، نہ لڑکا ہے اور نہ اس کی حکو مت میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ ( الحجۃ فی بیان المحجۃ: ۲؍ ۵۰۸)
اور یہ بھی فرمایا ’’سبيل الأخبار الواردة في الصفات أن يؤمن بها ولا يتعرض لها وتمضي كما أمضاها الأسلاف من غير تمثيل ولا تأويل‘‘ صفات کے سلسلے میں وارد خبروں کا مقصد یہ ہے کہ اس پر ایمان لا یاجائے ، اس پر اعتراض نہ کیا جا ئے اور اسے ویسے ہی استعمال کیا جا ئے جیسے اسلاف نے بغیر تمثیل اوربغیرتأویل کے استعمال کیا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب لقوام السنۃ: ۱؍ ۲۵۳)
اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وعدل القول في هذه الأخبار أن نؤمن بما صح منها بنقل الثقات لها فنؤمن بالرؤية والتجلي وإنه يعجب وينزل إلى السماء الدنيا وأنه على العرش استوى وبالنفس واليدين من غير أن نقول في ذلك بكيفية أو بحد أو أن نقيس على ما جاء ما لم يأت فنرجو أن نكون في ذلك القول والعقد على سبيل النجاة غداً إن شاء الله تعالى‘‘ان خبروں میں انصاف کی بات یہی ہے کہ ہم اسی پر ایمان لا ئیں جو ان میں سے صحیح ہے، جسے قابل اعتماد لوگوں نے نقل کیا ہے ، اس لئے ہم رؤیت اور تجلی پر ایمان لاتے ہیں اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیںکہ وہ تعجب کرتا ہے ، وہ آسمان دنیا پر اترتا ہے ، وہ عرش پر مستوی ہے اور ہم نفس اور دونوں ہاتھ پربھی ایمان لاتے ہیں اس میں بغیرکیفیت اور حد بتائے ہو ئےیا کسی ایسی دلیل پر قیاس کئے ہو ئے جو اس پر مرتب نہ ہوتی ہواورہمیں امید ہے کہ اس قول و عقد میں کل ہم ان شاء اللہ نجات کی راہ پر ہوں گے ۔ (الاختلاف في اللفظ والرد على الجهمية والمشبهة لإبن قتیبۃ : ص: ۵۳)
اور امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’عَلَى الله الْبَيَان وعَلى رَسُول الله الْبَلَاغ، وعلينا التَّسْلِيم‘‘ اللہ پر بیان کرنا اور رسول پر تبلیغ کرنا اور ہم پر تسلیم کرنا ضروری ہے ۔ ( الحجۃ فی بیان المحجۃ: ۲؍ ۵۱۲، شرح السنۃ للبغوی : ۱؍ ۱۷۱)