ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اپنی الوہیت میں یکتا اور اکیلا ہے ، اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس کا کو ئی شریک نہیں ، وہی حق ہے ، اس کے علاوہ جسے لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہے ، یہ بہت بڑا امر ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے کتابیں نا زل کیا ، رسولوں کو مبعوث کیا ، جنت اور جہنم کوپیدا کیا ،جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے اور فطرت اور عقل سلیم بھی اس پر دلالت کرتی اور گواہی دیتی ہے ، ہمیں پورا یقین ہے کہ تمام انبیاء کے دعوت کی بنیاد یہی توحید ہوا کرتی تھی ، یعنی سارے نبیوں نے اپنی قوم کو اللہ کے عبادت کی طرف بلایا اور اس کے علاوہ کی عبادت سے ر وکا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ} تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ ( الأنبیاء : ۲۵) اور فر مایا {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ (النحل :۳۶) ایک جگہ اور فر مایا {وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ} اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو ! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟۔ (الزخرف : ۴۵) ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، نوح علیہ السلام سے لے کر محمد عربی ﷺ تک سارے نبیوں نے یہی دعوت دیا ، نوح علیہ السلام کی بابت اللہ تعالی نے خبر دیتے ہوئے فرمایا {يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ } اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ (الأعراف : ۵۹) اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بابت بتایا کہ انہوں نے بھی یہی فرمایا {قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ ڰ وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ} کہہ دیجئے ! کہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں اور بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت نہیں ۔ (ص: ۶۵) ایک اور جگہ فرمایا {ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ} یہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے تم اس کی عبادت کرو ۔ (الأنعام : ۱۰۲)
اسی امرعظیم کے لئے اللہ تعالی نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ } میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لئے۔ (الذاریات : ۵۶) ’’ يَعْبُدُوْنِ‘‘کا معنی ہے ’’یوحدون ‘‘ جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ نےفرمایا ’’مَا خَلَقْتُ أَهْلَ السَّعَادَةِ مِنْ أَهْلِ الْفَرِيقَيْنِ إِلَّا ليوحدون ‘‘میں نےدو نوںفریقوں میں سےسعادت مندوں کو اسی لئے پیدا کیا ہےتاکہ وہ میری وحدانیت کا اقرار کریں ۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري: ۸؍ ۶۰۰ )
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ’’لَمَّا بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى نَحْوِ أَهْلِ اليَمَنِ قَالَ لَهُ: إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى‘‘جب نبی ﷺنے معاذ بن جبل کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو،اس لیے سب سے پہلے انہیں اس کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں۔ ( صحیح بخاری : ۷۳۷۲) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر بایں انداز باب باندھا ہے ’’بَابُ مَا جَاءَ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ إِلَى تَوْحِيدِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى‘‘باب ہے نبی ﷺ کا اپنی امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے توحید کی طرف دعوت دینے کے بیان میں۔
اور یہ بات یاد رہے کہ حقیقت میں عبادت وہی ہے جوخالص اللہ رب العالمین کے لئے ہو اور جو نبی اکرم ﷺ کی سنت کے موافق ہو اور اللہ کے علاوہ ہر معبود کی عبادت باطل ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ} یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔ (الحج : ۶۲) اور لا الہ الا اللہ کا معنی ہے اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور اسی پر سابقہ آیتیں دلالت کرتی ہیں ۔
اللہ واحد پر ایمان لانا، اس کی عبادت کرنا اوراس کے علاوہ کسی اورکی عبادت نہ کرنا ہی ’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ کا معنی ہے ، یہ ایسا عظیم کلمہ ہے جس میں اللہ کے علاوہ ہر معبود کے عبادت کی نفی کی گئی ہے اور اللہ کے علاوہ ہر معبود سے حقیقی الوہیت کا انکار کیا گیا ہے ، حقیقی الوہیت کا اثبات صرف اللہ رب العالمین کے لئے کیا گیا ہے ، عبادت صحیحہ صرف اللہ واحدکے لئے ہوگی ، یہ کلمہ قرآن مجید میں کئی بار اور کئی مقام پر آیا ہے اور نفی و اثبات پر مشتمل اس معنی کی بے شمار آیتیں قرآن مجید میں آئی ہیں جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ} یم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ (النحل :۳۶) ایک اور جگہ فرمایا {وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا} اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کرو ۔ (النساء: ۳۶)
یہ دین الہی کی مضبوط بنیاد اور رکن رکین ہے یعنی اللہ کے لئے الوہیت کو ثابت کرنا اور اس کے علاوہ کی عبادت کا انکار کرنا ہی دین کا محور و مرکز اور دعوت انبیاء کی اساس ہے، اس کا معنی یہ ہے مخلوق کے تمام اعمال کو اکیلے اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ، قرآن مجید کی کوئی سورت آپ اس امر سے تاسیسایا تاکیدا خالی نہیں پا ئیں گے اور اللہ تعالی نے ساری مخلوق پر بے شمار دلیلوں اور ان گنت شواہد کے ذریعہ حجت قائم کیا ہے ، ان کا شمار کرنا نا ممکن ہے اور اس امر کی سب سے بڑی دلیل اللہ تعالی کا اس انداز میں گواہی دینا ہے {قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ۭ قُلِ اللّٰهُ ڐ شَهِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ۭ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰي ۭ قُلْ لَّآ اَشْهَدُ ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ} آپ کہیے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔ (الأنعام : ۱۹)
اللہ تعالی نے بھی گواہی دیاہے اور اللہ کی مخلوق میں سب سے اہم لوگ یعنی فرشتے اور اہل علم نےبھی گواہی دیا ہے اور یہ گواہی سب سے اہم چیز یعنی اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت پر مشتمل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ} اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (آل عمران : ۱۸) اور فرشتوں و اہل علم نےاللہ کے تئیں اسی چیز کی گواہی دیا ہےجس چیز کی گواہی اللہ تعالی نےخود اپنے لئے گواہی دیا ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا}اور اللہ بطور گواہ کافی ہے ۔ (النساء: ۷۹)
اللہ تعالی نے اپنی تمام مخلوق پر یہ حجت تمام کردیا ہے کہ اللہ ہی اس کا ئنات کی تمام چیزوں کا خالق ہے بلکہ ہر کو نی آیت کو اس بات پر دلیل بنایا ہے کہ وہی الوہیت اور عبادت کا حق دار ہے اور اسی لئے قرآن مجید میں اس سلسلے میں بکثرت سوالات آئے ہیں اوراس بات کے اقرار کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ وہی خالق ، وہی رازق ، وہی زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہے پھر ان کی تردید کی گئی ہے جو اللہ کی عبادت نہیں کرتےیا اللہ کی عبادت تو کرتے ہیں لیکن اس کی عبادت میں کسی اورکو شریک کر لیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ(۶۱) اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں (۶۱) اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ(۶۲) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والاہے (۶۲) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ(۶۳)} اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے۔ آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، بلکہ ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (۶۳) ۔ (العنکبوت : ۶۱-۶۳) اور فر مایا {وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ(۹) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا [اللہ] نے ہی پیدا کیا ہے(۹) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ(۱۰) وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش [بچھونا] بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے کردیے تاکہ تم راہ پالیا کرو (۱۰) وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ تُخْرَجُونَ(۱۱) اسی نے آسمان سے ایک اندازے کے مطابق پانی نازل فرمایا، پس ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح تم نکالے جاؤ گے (۱۱) وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ(۱۲)} جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لیے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جانور [پیدا کیے] جن پر تم سوار ہوتے ہو(۱۲) ۔ (الزخرف : ۹-۱۲)
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر یہ حجت بھی تمام کردیا ہے کہ بندے کا اپنے او پر اللہ تعالی کی تمام نعمتوں کا اقرار کر لینے ہی سے اس پر نعمتوں کے پیدا کرنے والے کی عبادت واجب ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ(۳۱) آپ کہیے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے(۳۱) فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ(۳۲)} وہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے اور حق کے بعد نہیں ہےمگر گمراہی، پھرتم کہاں پھیرے جارہے ہو؟ (۳۲)۔ (یونس : ۳۱- ۳۲)
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پرقرآن مجید کی بہت ساری ایسی آیتوں کو بھی حجت بنایا ہےجوتوحید ربوبیت پر دلالت کرنے کے ساتھ عبادت الہی یعنی توحید الوہیت کوبھی مستلزم ہیں، اس کائنات کی تمام بڑی بڑی نشانیوں کا خالق بھی وہی اکیلاہےتوجب اس کے علا وہ کوئی اور خالق نہیں ہے تو اس کے علاوہ کوئی اور عبادت کے لائق بھی نہیں ہے ، اسی لئے مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ تعالی نے سر بمہر کلام کرتے ہو ئے فر مایا {أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ(۶۰) بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگا دیئے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہر گز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں [سیدھی راہ سے](۶۰) أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ(۶۱)أَ کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں(۶۱) مَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ(۶۲) بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو (۶۲) أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ(۶۳)} کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالاتر ہے(۶۳)۔ (النمل : ۶۰ -۶۳)
اللہ تعالی نے سورۃ الروم میں توحید ربوبیت پر دلا لت کرنے والی بڑی بڑی مخلوقات کا ذکر کیا ہے لیکن وہ نشانیاں جہاں توحید ربوبیت پر دلیل ہیں وہیں وہ توحید الوہیت کو بھی مستلزم ہیں جیسا کہ فر مایا {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ(۲۰) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر [چلتے پھرتے] پھیل رہے ہو(۲۰) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ(۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (۲۱) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ(۲۲) اس [کی قدرت] کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف [بھی] ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں(۲۲) وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ(۲۳) اور [بھی] اس کی [قدرت کی] نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل [یعنی روزی] کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے، جو لوگ [کان لگا کر] سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (۲۳) وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(۲۴) اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ [بھی] ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے، اس میں [بھی] عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں (۲۴) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ(۲۵) اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے ( ۲۵) وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ(۲۶) وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(۲۷) اور زمین وآسمان کی ہر ہر چیز اس کی ملکیت ہےاور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے(۲۶) وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے، آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والا حکمت والاہے ( ۲۷) ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(۲۸) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا، ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کر دیتے ہیں(۲۸) بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَنْ يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ(۲۹)} بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ﻇالم تو بغیر علم کے خواہش پرستی کر رہے ہیں، اسے کون راہ دکھائے جسے اللہ تعالیٰ راہ سے ہٹا دے، ان کا ایک بھی مددگار نہیں (۲۹)۔ (الروم : ۱۹-۲۹) دیکھئے ہر آیت کی ابتدا {وَمِنْ آيَاتِهِ}سے ہوئی ہےیعنی یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہر ربوبیت پر دلالت کرنے والی کونی دلیل جس کا تذکرہ مذکورہ آیات میں آ یا ہےوہ توحید الوہیت کو بھی مستلزم ہے پھر اس کےفورا بعد اللہ تعالی نے ان کے لئے مثال بیان کیاہے جو کسی مخلوق کو اس کے برابر مانتے تھے یا مانتے ہیں ۔ امام طبری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میںاس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ ’’ أكان أحدكم مشاركا مملوكه في فراشه وزوجته؟! فكذلكم الله لا يرضى أن يعدل به أحد من خلقه‘‘ کیا تم میں سے کسی کا غلام اس کے بستر اور اس کی بیوی میں شریک ہوتا ہے ؟ تو پھر اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے برابر کرنےسے وہ کیسے راضی ہوگا ؟( الطبری : ۲۰؍ ۹۵) اور یہی بات قتادہ رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے ، اس کے بعد اللہ تعالی نے اس بات پر آکر ختم کیاہے کہ فطرت سلیمہ بھی اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسی اکیلے کی عبادت کی جا ئے جیسا کہ فرمایا {فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ} پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (الروم : ۳۰)
اللہ تعالی نے توحید الوہیت کے سلسلے میں ساری دلیلیں مختلف انداز میں پیش کیا ہے تاکہ ان پر حجت قائم کیا جا سکے اور ان پر حجت تمام ہو سکے اور لوگوں کے لئے اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے جیسا کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر قطعی اور خاموش کرنے والی دلیلیں پیش کیا اور اپنی وحدانیت پر دلالت کرنے والے مضبوط شواہد پیش کیا اور کئی مثالیں بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وہ کوئی بھلائی نہیں ﻻتا، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہوسکتے ہیں ؟ (النحل : ۷۶) اس آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وهذا مثل ضربه الله تعالى لنفسه والآلهة التي تُعبد من دونه، فقال تعالى ذكره (وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ) يعني بذلك الصنم أنه لا يسمع شيئا، ولا ينطق، لأنه إما خشب منحوت، وإما نحاس مصنوع لا يقدر على نفع لمن خدمه، ولا دفع ضرّ عنه وهو كَلٌّ على مولاه، يقول: وهو عيال على ابن عمه وحلفائه وأهل ولايته، فكذلك الصنم كَلّ على من يعبده، يحتاج أن يحمله، ويضعه ويخدمه، كالأبكم من الناس الذي لا يقدر على شيء، فهو كَلّ على أوليائه من بني أعمامه وغيرهم (أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لا يَأْتِ بِخَيْرٍ) يقول: حيثما يوجهه لا يأت بخير، لأنه لا يفهم ما يُقال له، ولا يقدر أن يعبر عن نفسه ما يريد، فهو لا يفهم، ولا يُفْهَم عنه، فكذلك الصنم،لا يعقل ما يقال له، فيأتمر لأمر من أمره، ولا ينطق فيأمر وينهي، يقول الله تعالى (هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ)يعني: هل يستوي هذا الأبكم الكلّ على مولاه الذي لا يأتي بخير حيث توجه ومن هو ناطق متكلم يأمر بالحقّ ويدعو إليه وهو الله الواحد القهار، الذي يدعو عباده إلى توحيده وطاعته، يقول: لا يستوي هو تعالى ذكره، والصنم الذي صفته ما وصف‘‘ اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے علاوہ دیگر معبودان باطلہ (جن کی اس کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے )کی مثال بیان کرتے ہو ئے فرمایا {وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ}اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا ۔ یعنی اللہ تعالی کہتا ہے کہ وہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ ہی بو لتے ہیں کیوں کہ وہ لکڑی یا پیتل کےبنے ہو ئے مجسمے ہیں، یہ کسی خدمت گزار کونہ نفع پہونچا سکتے ہیںاور نہ ہی ان پر آئی ہوئی کسی مصیبت کو ٹال سکتے ہیں کیوں کہ وہ خود اپنےآقا پر بوجھ ہیں اوراللہ نے یہ بھی کہا کہ جیسے بچے اپنے چچا کے لڑکے ، اپنے اتحادیوں اور اپنے دوستوں پر بوجھ ہوتےہیں اسی طرح یہ بت بھی اپنے عبادت گزاروں کے لئے بوجھ ہوا کرتے ہیں کیوں کہ یہ اٹھا نے ، رکھنے اور خدمت گزاروںکے محتاج ہوا کرتے ہیں اس گونگے کی طرح جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے سر پرستوں یعنی اپنے کزن وغیر ہ پر بوجھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا (أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لا يَأْتِ بِخَيْرٍ) مالک اسے چاہےجہاں بھیج دے لیکن وہ بھلائی نہیں لا سکتا۔ یعنی جس طرح سر پرست گونگے کوجس طرف چاہے پھیرے لیکن وہ اسے کوئی بھلا ئی نہیں پہونچا سکتا ہے کیوں کہ وہ نہ توکو ئی بات سمجھتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی کر سکتا ہے اسی لئے وہ سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اس کی بات سمجھی جا سکتی ہےاسی طرح یہ بت بھی ہیں ، نہ یہ ہماری کوئی بات سمجھتے ہیں اور نہ ہی کسی حکم کی بجا آوری کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ بول سکتے ہیں کہ کسی کام کا ہمیں حکم دیں یا کسی کام سے روکیں ۔ اس کے بعداللہ تعالی نے فر مایا(هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ) کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہےبرابر ہوسکتے ہیں۔ یعنی کیا یہ گونگا جو اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، جو کو ئی خیرتک نہیںپہونچا سکتا ہے اسے چاہے جہاں لے کے چلے جا ؤلیکن کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے اور وہ جو بولتا ہے، جو صحیح بات کا حکم دیتا اور اسی کی طرف بلاتا ہےوہ اللہ واحد ہے جو قہار اور زبردست ہے ، جو اپنے بندوں کو توحید اور اطاعت کی طرف بلاتا ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اللہ تعالی کہتا ہے کہ اللہ اور مذکورہ بت دونوں برابر نہیں ہو سکتے ہیں ۔ (تفسیر الطبری : ۱۷؍ ۲۶۲)
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے معبودحقیقی اور معبودان باطلہ کی ایک مثال اور بیان کرتے ہو ئے فرمایا (تفسیر الطبری : ۲۱؍ ۲۸۵) اللہ تعالی فرماتا ہے: {ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ}س آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (الزمر : ۲۹)
اس حکم (یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے اور اللہ کے رسول ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کو)اللہ تعالی نے خون اور جان کی حفاظت کے لئے حد بنایا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نےفرمایا {فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ}پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصرہ کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والامہربان ہے۔ (التوبۃ : ۵) اور فر مایا {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ} اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوہ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھا ئی ہیں ۔ (التوبۃ : ۱۱) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ‘‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرو تا آنکہ لوگ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کریں اورزکوۃ ادا کریں، اگر لوگوں نے یہ کر لیا تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون ، اپنا مال اسلام کے حق کے ساتھ بچا لیا اور ان کا حساب اللہ پر ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۲۵، صحیح مسلم : ۲۰، سنن أبی داؤد : ۱۵۵۶، جامع الترمذی : ۲۶۰۷، سنن النسا ئی : ۲۴۴۳)
اور اس ایمان کاصرف دل میں ہونا کافی نہیں ہے بلکہ زبان سےبھی اس کا اقرار ضروری ہے ، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے ’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتی کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیںہے ۔ [(22)بخاری (25)، مسلم] اورایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل نہ کیا جا ئے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۲) بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (۲) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۳) جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۳) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا} سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں۔ (الأنفال : ۲-۴) اور فرمایا {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَ الْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (البقرۃ : ۱۷۷)
اور آپ ﷺنے فرمایا ’’مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ‘‘ تم میں سے جو کوئی منکر دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو وہ اپنے زبان سے بدلےاور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے براجانے ۔ (صحیح مسلم : ۴۹ ، سنن أبی داؤد : ۱۱۴۰ ، جامع الترمذی : ۲۱۷۲، سنن النسا ئی : ۵۰۰۸، سنن ابن ماجۃ : ۱۲۷۵) تو یہ حدیث اس بات دلالت کرتی ہے کہ ایمان دل میں گھٹتا بڑھتا رہتا ہے
اورایمان باللہ کے ساتھ طاغوت کا انکار بھی ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} اس لئے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ ( البقرۃ : ۲۵۶) اور شرک سے برأت کا اظہار بھی ضروری ہے کیوں کہ شرک سے برأت کا اظہار کئے بغیر کوئی بھی مؤحد نہیں ہو سکتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ }اور جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو ۔ ( الزخرف : ۲۶)
گویا دل میں موجودایمان کا مرتبہ کم ترہے اوراس ایمان کے تئیں ضروری ہے کہ بندہ اللہ کے لئے مخلص ہو جیسا کہ فرمان الہی ہے {هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} و ہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (غافر : ۶۵) اور فر مایا {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ}انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر ۔ (البینۃ : ۵) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول سے پوچھا’’ مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ‘‘ بروز قیامت لوگوں میں آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہوگا؟ تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا، اے ابوہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے اس حدیث کے بارے میں مجھ سےکوئی نہیں پوچھے گاکیونکہ میں نےحدیث پر تمہیں زیادہ حریص دیکھا ہے ، بروز قیامت لوگوں میںمیری شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہو گاجس نے سچے دل یا سچے جی سے لا إله إلا الله کہا ہوگا ۔ (صحیح بخاری : ۹۹، ۶۵۷۰)
ایک اور حدیث میں فرمایا ’’فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ‘‘اللہ نے اسے جہنم پر حرام کردیا ہے جس نےلا إله إلا الله کہا اس حال میں کہ اس کے ذریعہ وہ اللہ کی رضا مندی تلاش کر رہا ہو ۔ (صحیح بخاری : ۴۲۵، صحیح مسلم : ۳۳، سنن النسا ئی : ۷۸۸، سنن ابن ماجۃ : ۷۵۴)
اور اس پر پورا یقین ہوکسی طرح کا شک و شبہ نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا} مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں۔ (الحجرات : ۱۵) اور جنتی کافر کے بارے میں فر مایا {وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا} اور نہ میں قیامت کو قائم ہونے والی خیال کرتا ہوں اور اگر (بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میں (اس لوٹنے کی جگہ) اس سے بھی زیادہ بہتر پاؤں گا۔ ۔ (الکھف : ۳۶)
اور اس ایمان کا علم پر مشتمل ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ جب علم ہوگا تو ایمان کی حقیقت ، ایمان کا تقاضا اور ایمان کے مخالف اعمال سے آگاہی ہوگی جیسا کہ رب ذو المنن فرماتا ہے {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ}جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (محمد : ۱۹)
اورعلم اور اخلاص کےساتھ پیغام رسول اور ایمان کے تمام مشتملات کا قبول کرنا بھی ضروری ہے،یہ کلمہ {لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ} اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ بتاتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کی جائے ، کسی نے اس کلمے کا اقرار کر لیا لیکن اللہ کی عبادت نہیں کیا تو وہ انہیں لوگوں کی طرح ہے جن کے سلسلے میں اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ (۳۵) یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے(۳۵) وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ (۳۶) } اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں؟(۳۶)۔ (الصافات : ۳۵-۳۶)
اور اس کی فرماں برداری کی جائے ، اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا جا ئےجیسا کہ رب ذو الجلال نے فرمایا {وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى } اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا ۔ (لقمان : ۲۲)
اور اس کلمےکا اقرار کرنے والا اپنے قول و فعل اور عقیدے میں اتناسچا ہوکہ وہ نبی ﷺ کی دی گئی بشارتیں پالے جیسا کہ نبی کریمﷺ کے مندرجہ ذیل فرمان میں مذکور ہے ’’مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ‘‘ نہیں ہے کوئی جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں مگر اللہ اسےآگ پر حرام کر دیتا ہے۔ (صحیح بخاری : ۱۲۸، صحیح مسلم : ۳۲)
اوروہ اس دین ، ا س شریعت ، اس شریعت کے لانے والے اور اس سے قربت اختیار کرنے والے سے محبت کرنے والا ہو جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ}ل بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ۔ (البقرۃ : ۱۶۵) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘ تم میں کا کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اس کے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جا ؤ ں۔ ( صحیح بخاری : ۱۵، صحیح مسلم : ۴۴، سنن النسا ئی : ۵۰۱۳، سنن ابن ماجۃ : ۶۷) اور فرمایا ’’ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘ تین چیزیں جس کے اندر پائی گئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا(۱) اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ان تمام سے زیادہ محبوب ہو جائیںجو ان کے علاوہ ہیں(۲) وہ کسی انسان سے محض اللہ کے لیے محبت کرے(۳) وہ کفر میں واپسی کو ایسےہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری : ۱۶، صحیح مسلم : ۴۳، جامع الترمذی : ۲۶۲۴، سنن النسا ئی : ۴۹۸۷، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۳۳)
اورجس طرح اللہ تعالی نے ایمان کی حقیقت ، اس کےتقاضے اور اس کے ارکان و شروط کی وضاحت کردیاہے اسی طرح مشرکین کے شبہے کا ازالہ بھی کردیا ہےاور یہ بھی بتا دیاہے کہ ان کے پاس ان کے شرکیہ اعمال میں کوئی حجت نہیں ہے کیوں کہ یہ جنہیں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ سب مخلوق ہیں ، وہ کوئی بھی چیز پیدا نہیں کرسکتے ہیں ، وہ آسمان اور زمین میں ذرہ برابر کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں جیسا کہ فرمان الہی ہے {أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (۱۹۱) کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں(۱۹۱) وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (۱۹۲) اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود بھی مدد نہیں کرسکتے (۱۹۲) وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَتَّبِعُوكُمْ سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنْتُمْ صَامِتُونَ (۱۹۳) اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو (۱۹۳) إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۹۴) واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو(۱۹۴) أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (۱۹۵) کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو (۱۹۵) إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (۱۹۶) یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے (۱۹۶) وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (۱۹۷) اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کرسکتے ہیں(۱۹۷) وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَسْمَعُوا وَتَرَاهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (۱۹۸) } اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے (۱۹۸)۔ (الأعراف: ۱۹۱- ۱۹۸) ایک اور جگہ فرمایا {قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (۲۲) کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے (۲۲) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (۲۳) } شفاعت [سفارش] بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے (۲۳)۔ (سبأ : ۲۲-۲۳) ان تمام آیتوں نے شرک کے تمام راستوں کو کاٹ دیا ہے۔
اللہ تعالی نے واضـح کردیا ہے کہ یہ مشرکین جنہیں اللہ کے برابر مانتے ہیں اوراللہ کے علاوہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ ان کی پکار تک نہیں سن سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے ، بروز قیامت یہ شرکاء ان کے شرک کا انکار اور ان سے برأت کا اظہار کریں گے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے {إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ} اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (با لفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے شریک اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔ (فاطر : ۱۴)
اسی طرح اللہ تعالی نےیہ بھی واضـح کردیا ہے کہ یہ مشرکین اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ نہ نفع پہونچا سکتے ہیں اور نہ نقصان سے دو چار کر سکتے ہیں تو جب ان کی یہ کیفیت ہے تو یہ عبادت کے لا ئق کیسے ہو ئے ؟فرمان باری تعالی ہے {وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا } ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں۔ ( الفرقان : ۳)
اسی طرح اللہ تعالی نےیہ بھی واضـح کردیا ہے کہ یہ مشرکین اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ ان کے لئے روزی کے مالک نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ } اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انھیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ قدرت رکھتے ہیں ۔ ( النحل : ۷۳) سوچنے والی بات ہے کہ لوگ اس کی عبادت کیسے کررہے ہیں جو نہ نفع پہونچا سکتا ہے ، نہ نقصان سے دو چار کر سکتا ہے ، نہ روزی دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کا مالک ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالی نے بطور دلیل یہ بھی پیش کیا ہے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہونچتی ہے اوروہ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں تودین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہو ئےاسی کی پناہ لیتے ہیں لیکن جب انہیںمن جانب اللہ شفا مل جاتی ہے تو پھر شرکیہ اعمال انجام دینے لگتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ} پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ (العنکبوت : ۶۵)
چونکہ مشرکوں کایہ دعوی تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے لئے اولاد بنایا ہے تو اللہ تعالی نےان کے اس باطل نظریہ کی بھی تردیدکیا جس طرح ان کے گزشتہ دعوی یعنی اللہ تعالی کے برابر کسی کو تسلیم کرنے کی تردید کیا جیسا کہ فرمایا { مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ} نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ۔ (المؤمنون : ۹۱) ایک اورمقام پر فرمایا {لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ} اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔ (الأنبیاء : ۲۲) جب یہود و نصاری نے اللہ تعالی کے لئے اولاد ہونے کا گمان کیا تو اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ} یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔ (التوبۃ : ۳۰) اس آیت میں اللہ تعالی نے یہود و نصاری کے اصل عقیدے ہی کی تردید کردیا ہےکہ کھانے پینے والا انسان کیسےمعبود ہوسکتا ہے ؟ کیوں کہ اللہ تعالی نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ ہی اسے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کا ایک انسان محتاج ہوتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے {مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (۷۵) مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے، آپ دیکھیے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں پھر غور کیجیئے کہ کس طرح وہ پھرے جاتے ہیں(۷۵) قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۷۶ } آپ کہہ دیجیئے کہ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے، اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے(۷۶) ۔ ( المائدۃ : ۷۵-۷۶)
اللہ تعالی نے فرشتوں کی عبادت کو باطل قرار دے کر یہ بتا دیا کہ اللہ کے اتنا قریب ہونے کے باوجود فرشتے بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکتےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى} اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے ۔ (النجم : ۲۶) حالانکہ فرشتے اللہ سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (۴۹) ا یقیناً آسمان و زمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے(۴۹) يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۵۰)} اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ (النحل : ۴۹-۵۰) ایک اور مقام پر فرمایا {لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ يَسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُ هُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا} مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور ان مقرب فرشتوں کو اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔ (النساء : ۱۷۲) تو جب اللہ کا مقرب ہونے اور اس سے اتنا خوف کھانے کے باوجود فرشتوں کا یہ حال ہے تودرجے میں ان سے کم تر لوگ عبادت کے لا ئق کیسے ہو سکتے ہیں ؟
اسی طرح انبیاء و رسل کا معاملہ بھی ہے یعنی ان کا مقام اللہ کے نزدیک کافی بلند ہونے کے باوجود وہ اپنے ہی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو وہ شخص کیسے ہوگا جومرتبہ میں ان سے بھی کم ہوگا ؟ یہ انبیاء رغبت اور ڈر سے اللہ کی عبادت کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ}یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔ (الأنبیاء : ۹۰) اور نبی کریم ﷺ کویہ کہنے کا حکم دیا گیاہے {قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ } آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ۔ (الأعراف : ۱۸۸) اور جب غزوئہ احد کےدن ان مشرکین پر اللہ کے رسول ﷺ نے بد دعا کیاجنہوں نے انہیں تکلیف پہونچایا تھا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کیا {لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ (آل عمران : ۱۲۸) اور امام زہری فرماتے ہیں کہ مجھ سےسالم نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فر ماتے ہو ئے سنا’’ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنَ الفَجْرِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ العَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا، بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ} [آل عمران: ۱۲۸] إِلَى قَوْلِهِ {فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} [آل عمران: ۱۲۸]‘‘ جب آپ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سےسمع الله لمن حمده اور ربنا ولك الحمد کہنے کے بعد سر اٹھا کریہ بددعا کیا ’’اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر‘‘ تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کیا {لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ ( صحیح بخاری : ۴۵۵۹، سنن النسا ئی : ۱۰۷۸)