ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نےانہیں عزت دیا ، انہیں بیشتر اور مختلف اعمال کا مکلف بنایا ، ان میں سب سے اشرف اور با عزت بات یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان قاصد ہیں کیوں کہ یہ وحی پہونچا تے ہیں اور ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ انبیاء و رسول کی طرف وحی پہونچانے کی ذمہ داری اسی کے حوالے کی گئی ہے ، جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ}کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں ۔ ( النحل :۱۰۲) اور فر مایا {وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۹۲) یاور بیشک و شبہ یہ [قرآن] رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے(۱۹۲) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (۱۹۳) اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے(۱۹۳) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۱۹۴) آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہو جائیں(۱۹۴) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (۱۹۵)} صاف عربی زبان میں ہے (۱۹۵)۔ (الشعراء : ۱۹۲-۱۹۵)
کبھی کبھی اللہ تعالی انہیں بطور امتحان غیر انبیاء کی طرف بھی مبعوث کرتا ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے ان تین مریضوں کے قصے میں اس بات کی دلیل موجود ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے ’’ إِنَّ ثَلاَثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى، بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، فَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا، وَجِلْدًا حَسَنًا، فَقَالَ: أَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الإِبِلُ، - أَوْ قَالَ: البَقَرُ، هُوَ شَكَّ فِي ذَلِكَ: إِنَّ الأَبْرَصَ، وَالأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا الإِبِلُ، وَقَالَ الآخَرُ: البَقَرُ -، فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: البَقَرُ، قَالَ: فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا، وَقَالَ: يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا، وَأَتَى الأَعْمَى فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: يَرُدُّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ الغَنَمُ: فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَنَمٍ، ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ، تَقَطَّعَتْ بِيَ الحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلاَ بَلاَغَ اليَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الحَسَنَ، وَالجِلْدَ الحَسَنَ، وَالمَالَ، بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ الحُقُوقَ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ، فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، وَأَتَى الأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، وَأَتَى الأَعْمَى فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلاَ بَلاَغَ اليَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِي، وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لاَ أَجْهَدُكَ اليَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ، فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ، وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ ‘‘ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے،چنانچہ اللہ عزوجل نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا، فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں، بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی، فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ، یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا کہ اللہ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں،بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے،فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گاپھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں،بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیںلیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں، اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ بہت سے حقوق ہیں، فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے، تم ایک فقیر اور قلاش تھے پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دےپھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے، اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں،میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں، اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا، فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔ (صحیح بخاری : ۳۴۶۴، صحیح مسلم :۲۸۶۴)
بعض فرشتے عرش الہی کو اٹھا ئے ہو ئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ} اس کے کناروں پر فرشتے ہونگے اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہونگے ۔ (الحاقۃ : ۱۷)
بعض فرشتے تقدیر لکھتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘ تم سے ہر ایک کی پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے پھر وہ اسی کے مثل خون کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر وہ اسی کے مثل گوشت کا ٹکڑا ہو جاتا ہےپھر اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے تواسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کی روزی ، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ وہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ (صحیح بخاری :۳۲۰۸، صحیح مسلم :۲۶۴۳)
بعض فرشتے رحم مادر ہی میں بچے کی شکل و صورت بنانے پر مامور ہیں ، اس کے جسم میں روح پھونکتے ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ فر ماتے ہیں کہ ’’ إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً، بَعَثَ اللهُ إِلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى؟ فَيَقْضِي رَبُّكَ مَا شَاءَ، وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ أَجَلُهُ، فَيَقُولُ رَبُّكَ مَا شَاءَ، وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ‘‘جب نطفے پر بیالیس رات گزر جاتی ہے تو اللہ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی تصویر کشی کرتا ، اس کا کان ، اس کی آنکھ ، اس کی چمڑی اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے پھر کہتا کہ اے پرور دگار! یہ مذکر ہے یا مؤنث ؟ پھر آپ کا رب جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے اور فرشتہ لکھتا ہےپھر کہتا ہے اے پرور دگار ! اس کی مدت حیات تو آپ کا رب جو چاہتا ہے کہتا ہے اور فرشتہ لکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم :۲۶۴۵)
اور انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’وَكَّلَ اللَّهُ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ، أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ، أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهَا، قَالَ: أَيْ رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ، فَمَا الأَجَلُ، فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ ‘‘ اللہ رحم مادرپر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے تو وہ کہتا ہے اے رب ! نطفہ ہے ، اے رب ! خون کا لوتھڑا ہے ، اے رب ! گوشت کا ٹکڑا ہے پھر جب اللہ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے اے رب ۱ مذکر یا مؤنث ، نیک یا بد ، اس کی روزی کیا ہے ، اس کی مدت حیات کیا ہے پھر اسی حساب سے اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ لیا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری :۶۵۹۵، صحیح مسلم : ۲۶۴۶)
بعض فرشتے بندگان الہیہ کی روح قبض کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فرماتاکہ {حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ} یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ (الأنعام :۶۱) اور ایک دوسری جگہ فر مایا { فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ} ت پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سروں پر ماریں گے ۔ (محمد :۲۷ )
فرشتے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں روح کے پھونکنے پر مکلف ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَ رِزْقَهُ، وَ أَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ‘‘تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے پھر وہ اسی کے مثل خون کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر وہ اسی کے مثل گوشت کا ٹکڑاہو جاتا ہےپھر اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے تواسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کی روزی ، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ وہ بد ہے یا نیک، لکھ لےپھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۲۰۸ ، صحیح مسلم :۲۶۴۳) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ}پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ (الزمر :۶۸ )
فرشتے مومنوں کے ساتھ مل کر کافروں سے جہاد کرتے اور انہیں میدان کار زار اور زندگی میں آنے والی پریشانیوں میں ثابت قدم رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ } اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوںسو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو ۔ (الأنفال :۱۲) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالحَقِّ، وَأَمَّا لَمَّةُ المَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالحَقِّ،فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ الأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، ثُمَّ قَرَأَ {الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالفَحْشَاءِ} [البقرة: ۲۶۸] الآيَةَ‘‘ انسان پر شیطان کا بھی وسوسہ ہوتا ہے اور فرشتو کا بھی وسوسہ ہوتا ہے ، رہی بات شیطانی وسوسے کی تو وہ برا ئی کا وعدہ اور حق کی تکذیب کرتا ہے اور رہی بات فرشتوں کے وسوسے کی تو وہ اچھا ئی کا وعدہ اورحق کی تصدیق کرتا ہے ، بنا بریں جو اسے پا ئے وہ اللہ کی تعریف کرے اور دوسرا پا ئے تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کرے پھر یہ آیت پڑھا {الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالفَحْشَاءِ} شیطان تم سے فقر کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں بے حیا ئی کا حکم دیتا ہے۔[البقرة: ۲۶۸] الآيَةَ (جامع الترمذی :۲۹۸۸)
فرشتے مومنوں کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ}عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (غافر : ۷)
فرشتے ایام خاصہ جیسے یوم جمعہ، یوم عرفہ ، شب قدر اور فجر اور عصر کی نمازوں میں مومنوں کے ساتھ عبادتوں میں حاضر ہوتے ہیں، ان کی صحیح باتیں نوٹ کرتے ہیں ، ان کے کرتوت کی بابت اللہ تعالی کو بتاتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ خبیر اور علیم ہے ، اسے مخبر کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتے ہیں {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ۔ (الإسراء: ۷۸) اور فر مایا {تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ} اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں ۔ (القدر : ۴ )
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ، وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ‘‘ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں اکٹھا ہوتے ہیں، پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ (صحیح بخاری : ۵۵۵، صحیح مسلم :۶۳۲)
اور ایک اور روایت میں بایں الفاظ آیا ہے ’’إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ، قَالَ: فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا‘‘ یقینا اللہ کے لئے فرشتے راستوں میں طواف کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ اہل ذکر کو تلاش کرتے ہیں ، جب وہ اللہ کا ذکر کرنے والی قوم کو پا جاتے ہیں تو کہتے ہیں آؤ اپنے حاجت کی طرف ، (آپ ﷺ ) فر ماتے ہیں کہ پھر وہ انہیں اپنے پروں سے آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری : ۶۴۰۸ ، ۲۶۸۹)
مخصوص ایام جیسے یوم الجمعہ ، یوم عرفہ اور شب قدر میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہےجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَضَرَتِ المَلاَئِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ‘‘جب امام نکلتا ہے تو فرشتے حاضر ہو کر بغور ذکر ( خطبہ ) سنتے ہیں ۔ (صحیح بخاری : ۸۸۱، صحیح مسلم : ۸۵۰ ، سنن أبی داؤد : ۳۵۱ ، جامع الترمذی : ۴۹۹، سنن النسائی : ۱۳۸۸)
امت محمدیہ کا بھیجا ہوا درود فرشتے نبی ﷺتک پہونچاتے ہیںجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ‘‘ مجھ پر درود بھیجو کیوں کہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھ تک پہونچ جا ئے گا ۔ ( سنن أبی داؤد : ۲۰۴۲، مسند أحمد ۸۸۰۴ ، معجم الأوسط للطبرانی : ۸۰۳۰، شعب الإيمان للبیہقی : ۳۸۶۵)
اور ایک اور مقام پر فر مایا ’’إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ‘‘یقینا اللہ کے لئےفرشتے زمین میں سیاحت کرتے ہیں اورمیری امت کا سلام مجھ تک پہونچاتے ہیں ۔ ( سنن النسائی : ۱۲۸۲، مصنف عبد الرزاق : ۳۱۱۶ ، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۸۷۰۵، مسند إبن أبی شیبۃ : ۲۶۹ ، مسند أحمد ۳۶۶۶)
فرشتے ابن آدم کی حفاظت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرماتے ہیں { لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ ( الرعد : ۱۱) علی بن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’فالمعقبات ‘‘ ھی من أمر اللہ وھی الملائکۃ ‘‘ رہی بات ’’ المعقبات ‘‘ کی تو یہ اللہ تعالی کا امر ہے اور یہ فرشتے ہیں ۔ (تفسیر الطبری : ۱۳؍ ۴۶۳ ، تفسیر ابن أبی حاتم :۱۲۱۹۸)
نیکی بدی کا لکھنا بھی فرشتوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتے ہیں {كِرَامًا كَاتِبِيْنَ}لکھنے والے مقرر ہیں۔ (الإنفطار : ۱۱) اور فر مایا {إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (۱۷) جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے (۱۷) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (۱۸)} (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے (۱۸)۔ (ق: ۱۷-۱۸) اور فر مایا {وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً }وہ تمہارے پاس محافظ بھیتجا ہے۔ ( الأنعام :۶۱) اور فر مایا { أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ }کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن سکتے (یقیناً ہم برابر سن رہے ہیں) بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔ (الزخرف : ۸۰ ) اور ایک مقام پر اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَقُولُ اللَّهُ: إِذَا أَرَادَ عَبْدِي أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً، فَلاَ تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ حَتَّى يَعْمَلَهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا بِمِثْلِهَا، وَإِنْ تَرَكَهَا مِنْ أَجْلِي فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً فَلَمْ يَعْمَلْهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ‘‘ اللہ کہتا ہے کہ جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے نہ لکھو جب تک کہ وہ اسے کر نہ لے ، اگر وہ اسے انجام دے دیتا ہے تو اسی کے مثل اسے لکھ لو اور اگر اسے میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تو اسے اس کے حق میں ایک نیکی لکھ لو اور جب نیکی کا ارادہ کرلے تو گرچہ اسے انجام نہ دے لیکن اس کے حق میں اسے ایک نیکی لکھ لواور اگر اسے وہ انجام دے دیتا ہے تو اس کا دس سے سات سو گنا تک اس کے حق میں اسے لکھو۔ (صحیح بخاری : ۷۵۰۱، صحیح مسلم : ۱۲۸ ، جامع الترمذی : ۳۰۷۳) اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے ’’قَالَتِ الْملَائِكَةُ: رَبِّ، ذَاكَ عَبْدُكَ يُرِيدُ أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً، وَهُوَ أَبْصَرُ بِهِ، فَقَالَ: ارْقُبُوهُ فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِمِثْلِهَا، وَإِنْ تَرَكَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، إِنَّمَا تَرَكَهَا مِنْ جَرَّايَ‘‘ فرشتے کہتے ہیں کہ اے میرے رب ! تیرا بندہ گناہ کرنا چاہتا ہے اور اسے میں دیکھ رہا ہوں تو اللہ کہتا ہے اس کا انتظار کرو ، اگر وہ کر جا ئے تو اسے اسی کے مثل لکھ لو اور اگر وہ اسے چھوڑ دے تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ لو کیو ںکہ اس نے میرے خوف سے اسے ترک کیا ہے ۔ (صحیح مسلم :۱۲۹)
فرشتے دجال سے مدینہ منورہ کی حفاظت کررہے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’عَلَى أَنْقَابِ المَدِينَةِ مَلاَئِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَ لاَ الدَّجَّالُ‘‘ مدینہ کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں (انہیں کی وجہ سے )طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکے گا ۔ (صحیح بخاری :۱۸۸۰ ، صحیح مسلم :۱۳۷۹)
فرشتے قبر میں میت سے سوال کرتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس انسان کی حالت پر گفتگو فر مایا جسےقبر میں دفن کیا جاتا ہے ’’وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور کہتے ہیںکہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ، وہ دونوں کہتے ہیں کہ تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ کون تھا جو تمہارے درمیان بھیجا گیا تھاوہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ تھے ۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۷۵۳، سنن النسائی : ۲۰۰۱، سنن ابن ماجۃ : ۱۵۴۸ ، مسند الطیالسی : ۷۸۹ ، مصنف ابن عبد الرزاق : ۶۷۳۷ ، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۱۲۱۸۵)
فرشتے جنت کے داروغہ ہیں جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتفْتِحُ ، فَيَقُولُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ: بِكَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ‘‘ میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا چوکیدار پوچھے گا: تم کون ہو؟ تومیں کہوں گا: محمد،تووہ کہے گا: آپ ہی کے واسطے مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولنا ۔ ( صحیح مسلم : ۱۹۷) اور جہنم کے بھی پہرے دار ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَنَادَوْا يَامَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ } اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے وہ کہے گا کہ تمہیں تو (ہمیشہ) رہنا ہے ۔ ( الزخرف : ۷۷) ایک اورمقام پر فر مایا {عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (۳۰) اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں (۳۰) وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً } ہم نے دوزخ کے دروغے صرف فرشتے رکھے ہیں ۔ (المدثر : ۳۰- ۳۱) اور صحیح سند سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا‘‘ جہنم کو اس دن لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کے ستر ہزار لگام ہو ںگے اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔ ( صحیح مسلم :۲۸۴۲، جامع الترمذی : ۲۵۷۳) (تفسیر القرطبی :۱۹؍۸۰)