وسیلہ : ہر وہ کام جس کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جا ئے جس سے اللہ راضی ہو خواہ وہ واجب ہو یا مستحب وسیلہ کہلاتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نےاپنے بندوں کو دعا کا حکم دیا ہےاور ان سے قبولیت کا وعدہ بھی کیا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے ۔ (غافر : ۶۰) اور فر مایا {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ } جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔ (البقرۃ : ۱۸۶)
ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی کا وسیلہ اس کے اسما ئے حسنی اور صفات علیا کے ذریعہ پکڑاجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ۔ (الأعراف : ۱۸۰) اور ایک جگہ فرمایا {قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا} کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے ۔ (الإسراء : ۱۱۰)
اسی لئے انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اکثر اسما ئے حسنی کےوسیلہ ہی سے دعائیں کرتے تھے جیسا کہ آدم اور حوا علیہما السلام نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہو ئے دعا کیا {قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ (الأعراف : ۲۳) اور ابراہیم علیہ السلام نےیہ دعا کیا تھا {رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} اے میرے پالنے والے ! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم : ۴۰) موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کو بایں انداز پکارا { رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ} موسٰی (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب ! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (الأعراف : ۱۵۱)
اسی طرح ایمان باللہ سے بھی وسیلہ پکڑا جاسکتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ} اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ۔ (آل عمران: ۵۳)
عمل صالح کے ذریعہ بھی وسیلہ پکڑا جاسکتا ہے جیسا کہ ان تین لوگوں کے قصے میں اس کی وضاحت موجود ہے جن پر غار کا دروازہ بند ہوگیا تھا جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ’’نْطَلَقَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَتَّى أَوَوْا المَبِيتَ إِلَى غَارٍ، فَدَخَلُوهُ فَانْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنَ الجَبَلِ، فَسَدَّتْ عَلَيْهِمُ الغَارَ، فَقَالُوا: إِنَّهُ لاَ يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَكُنْتُ لاَ أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا، وَلاَ مَالًا فَنَأَى بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا، فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا، فَحَلَبْتُ لَهُمَا غَبُوقَهُمَا، فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا، فَلَبِثْتُ وَالقَدَحُ عَلَى يَدَيَّ، أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الفَجْرُ، فَاسْتَيْقَظَا، فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ، فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لاَ يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ، كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَأَرَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا، فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ بِهَا سَنَةٌ مِنَ السِّنِينَ، فَجَاءَتْنِي، فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ عَلَى أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا، فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ: لاَ أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفُضَّ الخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَتَحَرَّجْتُ مِنَ الوُقُوعِ عَلَيْهَا، فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لاَ يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ مِنْهَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ الثَّالِثُ: اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أُجَرَاءَ، فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِي لَهُ وَذَهَبَ، فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الأَمْوَالُ، فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ أَدِّ إِلَيَّ أَجْرِي، فَقُلْتُ لَهُ: كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ مِنَ الإِبِلِ وَالبَقَرِ وَالغَنَمِ وَالرَّقِيقِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ لاَ تَسْتَهْزِئُ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لاَ أَسْتَهْزِئُ بِكَ، فَأَخَذَهُ كُلَّهُ، فَاسْتَاقَهُ، فَلَمْ يَتْرُكْ مِنْهُ شَيْئًا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ، فَخَرَجُوا يَمْشُونَ‘‘ پہلی امت کے تین لوگ چلے حتی کہ رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک غار میں پناہ لیااور اس میں اندر داخل ہو گئے، اچانک پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا،سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیںہے ، سوائے اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کے ذریعہ اللہ سے دعا کرو،تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو، ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہو گئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ (میرے ماں باپ) سو چکے تھے، پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا، جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے،مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا، دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی، اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے، اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا، مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی، جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہالیکن اس نے نہ مانا، اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے، چنانچہ وہ راضی ہو گئی، اب میں اس پر قابو پا چکا تھا لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو، یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آ گیا اور وہاں سے چلا آیا، حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا، اے اللہ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے،چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی لیکن اب بھی اس سے باہر نہیں نکلا جا سکتا تھا، نبیﷺ نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی کہ اے اللہ! میں چند لوگوں سے مزدوری کرایا تھا، پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا، میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اےاللہ کے بندے! مجھے میری مزدوری دیدے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے، اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے، وہ کہنے لگا اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا، ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی، تو اے اللہ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے،چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔ (صحیح بخاری : ۲۲۷۲، صحیح مسلم : ۲۷۴۳)
مختلف عبادتوں کے ذریعہ اللہ کا وسیلہ پکڑا جا سکتا ہے اور سب سے اہم عبادت دعا ہے جیسا کہ اللہ تعالی اپنے انبیاء کے سلسلے میں فر مایا {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ}یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔ (الأنبیاء : ۹۰ ) دعا کےچنداوقات و مقامات یہ ہیں: نماز کے بعد ، ماہ رمضان میں افطار کے وقت ، دوران طواف ، صفا و مروہ پر، مقام عرفہ ومقام مزدلفہ میںاور رمی جمار کے بعد، وغیرہ ۔
وسیلہ طلب کرتے وقت اللہ کے سامنے اپنے احوال و کوائف کا ذکراور اپنی فقیری کا اظہار کیا جا ئے کیوں کہ بندہ اللہ کی رحمت و مدد کا محتاج ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی بابت خبر دیا کہ انہوں نے کہا {رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ } اے پروردگار ! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں ۔ (القصص : ۲۴) اور ایوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی نے فر مایا کہ انہوں نے دعا کیا {أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ }مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ (الأنبیاء : ۸۳)
کسی نیک انسان جومسلمان ہو، نیک ہو، زندہ ہواور حاضرہو تو اس سے بھی وسیلہ پکڑا جاسکتا ہے ، اس سے بھی دعا کے لئے درخواست کیا جا سکتا ہے جیسا کہ یوسف کے بھا ئیوں نے اپنے باپ سے مغفرت طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا ،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا {قَالُوا يَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ} انہوں نے کہا ابا جی آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں۔ (یوسف : ۹۷) ایک اورمقام پر اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا } اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ۔ (النساء : ۶۴) اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور ان سے ان کی خالہ ام حرام بنت ملحان نے روایت کیا ہے فر ماتی ہیں کہ’’نَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَتَبَسَّمُ، فَقُلْتُ: مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ: أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ هَذَا البَحْرَ الأَخْضَرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ، فَفَعَلَ مِثْلَهَا، فَقَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا، فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا فَقَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ‘‘ ایک دن نبی ﷺ میرے قریب سو گئے، پھر بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھےتو میں نے کہا کہ آپ کو کس چیزنے ہنسایا؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے جوتخت پر بیٹھے بادشاہوں کی طرح ہرے دریا پر سوار تھے ،(ام حرا م بن ملحان نے نبی ﷺ سے) فر مایا کہ آپ میرے لیے اللہ سے دعا کر دیجئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے، تو انہوںنے ان کے لیے دعاکردیا، پھر دوبارہ سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس بار بھی کیا تو( ام حرام رضی اللہ عنہا نے) پہلے ہی کی طرح اس باربھی عرض کیا تو انہوں نے( پھر)وہی جواب دیاتو( ام حرام نے) عرض کیا آپ دعا کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو( آپ ﷺنے) فرمایا تو سب سے پہلے لشکر میں سے ہے۔ ( صحیح بخاری : ۲۷۹۹، صحیح مسلم : ۱۹۱۲، سنن أبی داؤد : ۲۴۹۰، سنن النسائی : ۳۱۷۲، سنن ابن ماجۃ : ۲۷۷۶)
جب نبی ﷺ نے ان ستر ہزار لوگوں کی خوبیاں بیان کیا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے تو عکاشہ کھڑے ہو ئے اور کہا ’’ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ‘‘ آپ اللہ سے دعا کردیجئے کہ وہ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے ۔ (صحیح مسلم : ۲۱۸)
اور انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ‘‘عمربن خطاب رضی اللہ عنہ (کے زمانہ میں) جب جب قحط پڑا تو عمر رضی اللہ عنہ نے عباس بن عبدالمطلب کے وسیلے سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ!( پہلے) ہم تیری طرف اپنے نبی کو وسیلہ بنا تے تھے تو، توہمیں سیراب کرتا تھا ،( اب ) ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں لہذا تو ہمیں سیراب کر ، تو وہ سیراب کئے جاتے تھے ۔ (صحیح بخاری : ۱۰۱۰) گویا جب اللہ کے رسول ﷺ وفات پا گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے استسقاء کے مسئلے میں آپ سے اعراض کیا اور عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پکڑاکیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہی وسیلہ مشروع ہے ، اسی لئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کا وسیلہ پکڑا نا کہ بذات خود عباس کا وسیلہ پکڑا کیوں کہ اگربذات خود عباس رضی اللہ عنہ سے وسیلہ پکڑنا مقصود ہوتا تو نبی ﷺ اس کے زیادہ حق دار تھے ۔
غیر مشروع طریقے سےوسیلہ پکڑنا ناجا ئز اور حرام ہے ، دور جاہلیت میں لوگ بتوں اور مورتیو ں کے ذریعہ اللہ کا وسیلہ پکڑتے تھےجب کہ یہ غیر مشروع وسیلہ ہے اسی لئے اسے نا جا ئز اور حرام گردانا گیا جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے قبیح کرتوت پر گفتگو کرتے ہو ئے فر مایا {وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى} اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کارساز بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ (الزمر: ۳)