ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انس و جن کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ فر مایا {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ} ممیں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔ (الذاریات : ۵۶) یعنی انہیں اس بات کا حکم ہے کہ وہ خالص اللہ رب العالمین کی عبادت کریں ۔ جس عبادت کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے وہی حنیفیت اور وہی ملت ابراہیمی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ} آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ (الأنعام : ۱۶۱)
اوراللہ تعالی نے جس عبادت کا حکم دیا ہے اس کی بے شمار قسمیں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک عبادت بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا}اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو ۔ (الجن : ۱۸)
عبادت کی بعض قسمیں : ۱۔دعا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے {وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ } جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔ (المؤمنون : ۱۱۷) ایک اور مقام پر فرمایا {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے ۔ (غافر : ۶۰)
۲۔ توکل جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ ۥ ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ}دروازے پر قدم رکھتے ہی یقیناً تم غالب آجاؤ گے، اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ۔ (المائدۃ : ۲۳) ایک اور جگہ فرمایا {وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ}اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ (الطلاق : ۳)
۳۔ خشیت جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ }تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو ۔ (البقرۃ : ۱۵۰ )
۴۔ خوف جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ}تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو ۔ (آل عمران : ۱۷۵)
۵۔رجاء جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا}جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ (الإسراء : ۵۷) ایک اور جگہ فرمایا {قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا } آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (الکھف : ۱۱۰)
۶۔ استعاذہ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} آپ کہہ دیجئے ! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں۔ (الناس : ۱)
۷۔ ذبح جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا {قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ} آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ (الأنعام : ۱۶۲)
۸۔ استعانت جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ } ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ (الفاتحۃ : ۴)
۹۔ استغاثہ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ } اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔ (الأنفال : ۹)
ہمیں معلوم ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا حکم یہی ہے کہ خالص اللہ تعالی کی عبادت کی جا ئے جیسا کہ فرمان الہی ہے {يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ } اے لوگوں! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ (البقرۃ : ۲۱) اور ہر نبی نے اپنی قوم سے یہی کہاہے {اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ} جیسا کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے رسول کے سلسلے میں فرمایا { لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ} ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔ (الأعراف : ۵۹) اور سب سے آخری نبی کے سلسلے میں فر مایاکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا {وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا}اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ (النساء: ۳۶) اور ایک جگہ فرمایا {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ} ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (النحل : ۳۶)
ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کی قبولیت کا انحصار دو شرطوں پر ہے (۱)عبادت خالص اللہ کے لئے ہو (۲) اور وہ عبادت نبی ﷺ کے طریقے پر ہو ۔ کسی بھی عبادت میں ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک یا دونوں مفقود ہو تو وہ قبول نہیں کی جا ئے گی ،اللہ تعالی فرماتے ہیں {فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا }جتو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (الکھف : ۱۱۰)
ہم جانتے ہیں کہ عبادت کا اصل مقصد اللہ وحدہ لا شریک کی ذات سے وابستہ ہونا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَ إِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ‘‘ یقینا ا عمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے ، جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا پانے یا کسی عورت سے شادی کے لئے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کے لئے ہوگی جس کے لئے اس نےہجرت کی ہے ۔ (صحیح بخاری : ۶۶۸۹، صحیح مسلم : ۱۹۰۷، سنن أبی داؤد: ۲۲۰۱، جامع الترمذی : ۱۶۴۷، سنن النسا ئی : ۷۵، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۲۷)
نبی ﷺ نے شرک کی تمام اقسام سے ڈرایا ہےخواہ شرک اصغر ہوںیا شرک اکبر جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا } یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا ۔ (النساء : ۴۸) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ’’أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ ‘‘ میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوں ، کسی نے کو ئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کو شریک کیامیں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دوں گا ۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۸۵)
اگر کسی نے خالص اللہ کے لئے عبادت کیا لیکن رسول ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر تو اس کا عمل مردود ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا}یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ۔ (الأحزاب : ۲۱) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ (صحیح مسلم : ۱۷۱۸) اور اللہ تعالی نےفرمایا {فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ }سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔۔ (النور : ۶۳) ایک اور جگہ فرمایا {قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ } کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔ (آل عمران : ۳۱)
ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کے تین اصول ہیں : (۱)کمال محبت (۲) کمال رجاء (۳)کمال خوف ، انبیاء ورسل کی کامیابی کا اصل سبب یہی ہے کہ انہوں نے عبادت الہی کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنالیاتھاجیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے احوال پر گفتگو کرتے ہو ئے فرماتا ہے {اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ } یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے، ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔ (الأنبیاء : ۹۰) اور فر مایا {وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ(۶۰) اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں (۶۰) اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱)} یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ۔ (المؤمنون : ۶۰-۶۱) اور فر مایا {تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ} ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کے خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ (السجدۃ : ۱۶) اور فر مایا {اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ} بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہوسکتے ہیں) ۔ (الزمر : ۹)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالی فرماتا ہے’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً ‘‘میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور میں اس وقت اس کے ساتھ ہو ں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے ،جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ، اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک گز قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک بانہہ قریب آتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ تا ہوں۔ (صحیح بخاری : ۷۴۰۵، صحیح مسلم : ۲۶۷۵، جامع الترمذی : ۳۶۰۳، سنن ابن ماجۃ : ۳۸۲۲)
اور اللہ تعالی نے فرمایا {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ} بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ (البقرۃ : ۱۶۵) اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘ تین خصلتیں جس کے اندرہوں گی وہی ایمان کی مٹھاس پا ئے گا(۱) پہلایہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ان تمام سےزیادہ محبوب ہو جا ئیں جو ان دونوں کے علاوہ ہوں(۲) دوسرا یہ کہ آدمی کسی آدمی سے محض اللہ کے لیے محبت کرے(۳) تیسرایہ کہ وہ کفر میں لوٹنا ایسے ہی نا پسند کرے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتاہے۔ ( صحیح بخاری : ۱۶، صحیح مسلم : ۴۳، جامع الترمذی : ۲۶۲۴، سنن النسا ئی : ۴۹۸۷، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۳۳)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کا کو ئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کے لڑکے سے زیادہ محبوب نہ ہو جا ؤں ۔ ( صحیح بخاری : ۱۴، سنن النسا ئی : ۵۰۱۵) بندہ محبت الہی کی حلاوت اسی وقت پا ئے گا جب وہ اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کرے گا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں {قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ } کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمران : ۳۱)
اور مومنوں کو سب سے بڑی چیز جس کی امید ہے وہ رؤیت الہی ہے ، وہ اللہ تعالی کے چہرے کا دیدار ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ (۲۲) اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے (۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(۲۳)} اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے(۲۳) ۔ (القیامۃ : ۲۲-۲۳)
اور اللہ تعالی کا دیدار ہی اہل جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے بلکہ یہ تمام نعمتوں پر اضافی نعمت ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ} جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (یونس : ۲۶)
صہیب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فر ماتے ہیں ’’إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ ‘‘جب جنتی جنت میں داخل ہو جا ئیں گے تو (اللہ کے رسول ﷺ) فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی کہے گا کہ تم لوگ کچھ اور چاہتے ہو کہ میں زیادہ کرو ؟ تو لوگ کہیں گے کہ کیا تو نےہمارے چہرے سفید نہیں کیا ؟ کیا تونے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا ؟ اور کیا تو ہمیں جہنم سے نجات نہیں دلا یا ؟ (اللہ کے رسول ﷺ ) فرماتے ہیں کہ اتنا سنتے ہی وہ پردہ ہٹا دے گاتو انہیں جتنی چیزیں عطا کی گئی ہوں گی ان میں رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب کچھ نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم : ۱۸۱، جامع الترمذی : ۲۵۵۲، سنن ابن ماجۃ : ۱۸۷)