ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور احکام الہی کی بجا آوری کو عبادت کہا جاتا ہے ، اسی کا نام حنیفیت اور ملت ابراہیمی ہے اور اللہ تعالی نے تمام انس و جن کو اسی کا حکم دیا ہے ، عبادت کی بے شمار قسمیں ہیں ، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا جائز نہیں ہے ، عبادت کی چند اقسام یہ ہیں : دعا ء، توکل ، خشیت ، خوف ، رجاء ، استعاذہ ، ذبح ، استعانت اور استغاثہ ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ساری مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہےاور قرآن میں سب سے پہلا حکم یہی وارد ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، ہر نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دیاکہ {اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ} اللہ کی عبادت کرو کیوں کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ (الأعراف : ۶۵)
ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کی قبولیت کا انحصار دو شرطوں پر موقوف ہے (۱)عبادت خالص اللہ ہی کے لئے ہو (۲) اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے طریقے پر ہو ۔
اورعبادت سے مقصود صرف اللہ وحدہ لا شریک کی ذات وابستہ ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے شرک کی تمام اقسام (شرک اصغر وشرک اکبر ) سے ڈرایا ہے ، اگر کوئی نیک عمل کرتا ہے لیکن وہ رسول ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر ہے تو اس کا عمل مردود ہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ عبادت کے تین اصول ہیں : (۱)کمال محبت (۲) کمال رجاء (۳)کمال خوف ۔
انبیاء ورسل کی کامیابی کا اصل سبب یہی ہے کہ انہوں نے عبادت الہی ہی کوپوری طرح سے اپنا مشغلہ بنایا ، اللہ تعالی کی خوب عبادت کی ، بروز قیامت سب سے بڑی چیز جس کی امید تمام مومنوںکو ہوگی وہ اللہ تعالی کی رؤیت ہوگی ،اللہ تعالی کی رؤیت ہی جنتیوں کی سب سے اعلی نعمت ہوگی بلکہ یہ تمام نعمتوں پر ایک اضافی نعمت ہوگی ، جب جنتی جنت میں داخل کر دیئے جا ئیں گےتواللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اپنے دیدار کی اجازت مرحمت فرما کر اہل ایمان کے ساتھ مزید احسان اور عزت افزا ئی کا معاملہ فرما ئے گا،چونکہ صرف اپنے مومن دوستوں کو اللہ تعالی نے اس نعمت کے ساتھ خاص کیا ہے اس لئے تمام مومنوں کو اس بات کا سب سے زیادہ خوف ہوتاہے کہ کہیں ہمیں اس نعمت سے محروم نہ کردیاجائے ، دشمنان الہی اس سے محروم رہیں گے، تمام دشمنوں جیسے مشرکین ، یہود و نصاری ، مجوس اور منافقین سے اللہ تعالی پردہ کرلے گابنا بریں وہ اللہ کا دیدار نہیں کر سکیں گے ۔
وسیلہ : ہر وہ کام جسکے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہو، جس سےاللہ راضی ہو خواہ وہ واجب ہو یا مستحب وسیلہ کہلاتا ہے ،حالانکہ وسیلہ دوسرے معنی میں بھی آیا ہے جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان’’سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ‘‘ میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو ۔(صحیح مسلم :۳۸۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندو ںکو دعا کا حکم دیاہے اور ان سے قبولیت کا وعدہ کیاہے ، ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کے أسما ئے حسنی اور صفات علیاکے ذریعہ اللہ کا وسیلہ طلب کیا جاتا ہے، انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اکثر و بیشتر اسما ئے حسنی وسیلہ سے دعا کرتے تھے ، دعا کے بعض مقامات یہ ہیں: نماز کے بعد دعا کرنا ، ماہ رمضان میں افطار کے وقت دعا کرنا ، دوران طواف دعا کرنا ، صفا و مروہ پر دعا کرنا ، مقام عرفہ و مزدلفہ میں دعا کرنا اور رمی جمار کے بعد دعا کرنا وغیرہ ۔
جس طرح ایمان باللہ کے ذریعہ اللہ کاوسیلہ پکڑا جاتا ہے اسی طرح عمل صالح یعنی تمام عبادتوں کے ذریعہ بھی اللہ کا وسیلہ پکڑا جاتا ہے۔ اوراپنی کمزوریوں، اپنی حالتوں اور اللہ کے سامنے اپنی فقیری کا اظہار کرکےاللہ کا وسیلہ پکڑا جاتا ہے کیوں کہ بندہ اللہ کی رحمت و مدد کا محتاج ہے۔ اورکسی ایسے مسلمان سے بھی وسیلہ پکڑا جاسکتا ہے جو نیک ہو، زندہ ہو اور حاضرہو جیسا کہ یوسف کے بھا ئیوں نے اپنے باپ سے مغفرت طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا ، اسی طرح جب اللہ کے رسول ﷺ وفات پا گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے استسقاء کے مسئلے میں آپ سے اعراض کیا اور عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پکڑاکیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہی وسیلہ مشروع ہے ۔
غیر مشروع طریقے سےوسیلہ پکڑنا ناجا ئز اور حرام ہے ، دور جاہلیت میں لوگ بتوں اور مورتیو ں کے ذریعہ اللہ کا وسیلہ پکڑتے تھےجب کہ یہ غیر مشروع وسیلہ ہے اسی لئے اسے نا جا ئز اور حرام گردانا گیاہے ۔