ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے رسولوں کو مبعوث کیا ، کتابیں نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے اللہ کے خلاف کو ئی حجت نہ رہ جا ئے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا } ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے ،اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے ۔ (النساء: ۱۶۵) اور اللہ تعالی نے مشرکوں کی بابت بتایا کہ انہوں نے شرک میں گرنے کی حد تک تقدیر سے احتجاج کیا تھا تو اللہ تعالی نے ان کا جھوٹ واضح کیا اور انہیں اس کے کرتوت کا مزہ چکھا دیا ہےجیسا کہ فرمایا {سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۭاِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ} یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرسکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو، تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔ (الأنعام : ۱۴۸) اگر ان کے لئے ان کے شرکیہ اعمال و افعال پر تقدیر حجت ہوتی تو اللہ انہیں عذاب کا مزہ نہیں چکھاتا ۔
اور علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’كُنَّا جُلُوسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الأَرْضِ، وَقَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الجَنَّةِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: أَلاَ نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ. ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى} [الليل: ۵] الآيَةَ ‘‘ہم نبی ﷺکے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ایک لکڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے(اسی دوران ) انہوں نے کہا کہ تم میں سے کوئی نہیں ہے مگر اس کا جہنم یا جنت کا ٹھکانا لکھ دیا گیاہے تو قوم کے ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول ! پھر کیوں نہ ہم اسی پر بھروسہ کر لیں ؟ (نبیﷺ نے )فرمایا : نہیں عمل کرو کیونکہ ہر شخص (کے لئے اس کا عمل ) آسان کر دیا گیا ہے، پھر( آپ ﷺ نےیہ آیت ) پڑھا {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى} رہی بات اس کی جس نے دیا اور تقویٰ اختیار کیا ... الخ۔ ( صحیح بخاری : ۶۶۰۵، صحیح مسلم : ۲۶۴۷، جامع الترمذی : ۲۱۳۶، سنن ابن ماجۃ : ۷۸) اسی لئے نبی ﷺ نے عمل کرنے کا حکم دیا اور تقدیر پر بھروسہ کرنے سے روکا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ توبہ کے بعد گناہوں پر تقدیر کے ذریعہ احتجاج کرنا جا ئز ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا’’احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالاَتِهِ وَبِكَلاَمِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ‘‘موسیٰ اور آدم نے بحث کیا تو موسیٰ نے ان سے کہا کہ تو وہی آدم ہے کہ جسے تیری لغزشوں نے جنت سے نکلوا دیا،تو آدم نے ان سے کہاتو وہی موسیٰ ہے کہ جسے اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے چن لیا تھا پھر بھی تو مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کررہا ہے جو مجھ پر میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیاگیاہے،تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ آدم ، موسیٰ پر غالب آ گئے، رسول اللہ ﷺ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔ (صحیح بخاری : ۳۴۰۹، صحیح مسلم : ۱۵)
اور مطرف بن عبد اللہ بن شخیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’لَمْ نُوكَلْ فِي الْقُرْآنِ إِلَى الْقَدَرِ، وَقَدْ أَخْبَرَنَا فِي الْقُرْآنِ أَنَّا إِلَيْهِ نَصِيرُ‘‘ قرآن مجید میں ہمیں تقدیر کے سپرد نہیں کیا گیاہے بلکہ ہمیں قرآن میں اس نے بتایا ہے کہ ہم اس کے مددگار ہیں (یعنی ہم اس کی طرف پلٹنے والے ہیں)۔ (السنۃ لعبد اللہ بن أحمد : ۲؍ ۴۱۲) اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’إِنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُ الْقَدَرِ مِنَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلَا أَدْرِي مَا هُمْ‘‘ اگر اہل تقدیر ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اللہ عزوجل کی آیات میں مشغول ہوتے ہیںتو میں نہیں جانتا کہ وہ کس چیز میں مشغول ہوتے ہیں ۔ (السنۃ لعبد اللہ بن أحمد : ۲؍ ۴۳۲، شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ : ۴؍ ۶۹۶)
ابن وہب وغیرہ فرماتے ہیں کہ ’’سئل مالک عن أهل القدر أيكف عن كلامهم؟ قال نعم. إذا كان عارفاً بما هو عليه. قال ويأمره بالمعروف وينهاه عن المنكر؟ ويخبرهم بخلافهم ولا يواضع القول ولا يصلي عليهم، ولا تشهد جنائزهم ولا أرى أن يناكحوا زاد في رواية غيره، قال الله ولعبد مؤمن خير من مشرك. قال في رواية أشهب ولا يصلى خلفهم ولا يحمل عليهم الحديث وإن وافيتوهم في ثغر فاخرجوهم منه‘‘مالک سے قدریہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کی بات سے کنارہ کشی اختیار کی جا ئے؟ کہا ہاںاگر وہ معلوم ہے جس پر وہ ہیں ، کہاانہیں بھلا ئی کا حکم دیا جا ئے اور برائی سے روکا جا ئے اور انہیں ان کے خلاف عقائد و نظریات سے آگاہ کیا جا ئے، نہ ان سے نرم انداز میں بات کیا جا ئے ، نہ ان پرجنازہ کی نماز ادا کی جا ئے ، نہ ان کے جنازے میں شرکت کی جا ئے اور میں سمجھتا ہوں کہ نہ ان سے نکاح کیا جا ئے۔ اور ایک روایت میںیہ اضافہ کیا ہے کہ اللہ نے فرمایا مومن بندہ مشرک سے بہتر ہے اور اشہب کی ایک روایت میں فرمایا ان کے پیچھے نماز نہ ادا کی جا ئے ، نہ ان سے روایات لی جا ئیں اور انہیں کسی گڑھے میں پا ؤ تو انہیں نکالنے کی کوشش نہ کرو ۔ ( ترتيب المدارك وتقريب المسالك: ۱؍۹۱)
ہمارا ایمان ہے کہ مصائب پر تقدیر کے ذریعہ بندوں کے لئے احتجاج کرنا جا ئز ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ‘‘ مضبوط مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور محبوب ہے ،ان کاموں میں حرص کرجو تجھ کونفع پہونچائیں،اللہ سے مدد مانگ اور ہمت نہ ہار اور تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ایسا ہوتا بلکہ یہ کہہ کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اس نےجو چاہا کیا، اگر مگر شیطان کا راستہ کھولتا ہے ۔ ( صحیح مسلم : ۲۶۶۴، سنن ابن ماجۃ: ۷۹)
اللہ تعالی کا فرمان ہے{الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ} جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرۃ : ۱۵۶) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فر ماتے ہیں’’أَخْبَرَ اللَّهُ أَنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا سَلَّمَ الْأَمْرَ إِلَى اللَّهِ وَرَجَعَ وَاسْتَرْجَعَ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ، كُتِبَ لَهُ ثَلَاثُ خِصَالٍ مِنَ الْخَيْرِ: الصَّلَاةُ مِنَ اللَّهِ، وَالرَّحْمَةُ، وَتَحْقِيقُ سَبِيلِ الْهُدَى. اللہ نے خبر دیا ہے کہ مومن جب معاملہ اللہ کے حوالے کردے اور مصیبت کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے تو اس کے لئے تین بھلا ئیاں لکھی جا تی ہیں (۱)من جانب اللہ مغفرت (۲) رحمت (۳) راہ ہدایت کی تحقیق ، اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مَنِ اسْتَرْجَعَ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ جَبَرَ اللَّهُ مُصِيبَتَهُ، وَأَحْسَنَ عُقْبَاهُ، وَجَعَلَ لَهُ خَلَفًا صَالِحًا يَرْضَاهُ‘‘ کہ جس نے مصیبت کے وقت رجوع کیا اللہ اس کی مصیبت کو دو رکردے گا ، اس کا انجام اچھا کر دے گا اور اس کا ایک ایسا نیک خلیفہ بنا دے گا جو اسے خوش رکھے گا ۔ (تفسیر الطبری : ۲؍۷۰۷، تفسیر ابن أبی حاتم : ۱۴۲۱، المعجم الكبير للطبرانی : ۱۳۰۲۷، شعب الإیمان للبیہقی : ۹۲۴۰ ، تفسیر الطبری : ۳؍ ۲۲۳)