ہمارا ایمان ہے کہ تقدیر لکھنے والے قلم کا بھی خالق اللہ تعالی ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَال: رَبِّ وَ مَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ‘‘ سب سے پہلے اللہ نے قلم پیدا کیا اور اسے کہا کہ لکھ، تو اس نے کہا کہ اے میرے رب ! میں کیا لکھو ں؟کہا کہ قیامت قائم ہونے تک ہر چیز کی تقدیر لکھ ۔ (سنن أبی داؤد: ۴۷۰۰، جامع الترمذی :۲۱۵۵، ۳۳۱۹، مسند الطیالسی :۵۷۸، مسند أحمد : ۲۲۷۰۵، ۲۲۷۰۷، السنۃ لإبن أبی عاصم :۱۱۵)
اور ہمارا ایمان ہے کہ قلم کی تعداد بے شمار ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نےاسراء و معراج کی خبر کے دوران فرمایا ’’ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوَى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الأَقْلاَمِ‘‘پھر مجھے لے جایا گیا حتی کہ میں اس بلندی پر پہونچا جہاں میںقلموں کی آواز سن رہا تھا ۔ (صحیح بخاری :۳۴۹، صحیح مسلم : ۱۶۳ )
اور قرآن میں یہ بات کئی بار آئی ہے کہ فرشتے بندوں کے افعال لکھ رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (۱۰) یقیناً تم پر نگہبان عزت والے(۱۰) كِرَامًا كَاتِبِينَ (۱۱) لکھنے والے مقرر ہیں(۱۱) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (۱۲) جوکچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں (۱۲) ۔ (الإنفطار : ۱۰-۱۲)
ایک اور جگہ فرمایا إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (۱۷) جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے (۱۷) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (۱۸) (انسان) منھ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے(۱۸) ۔ (ق:۱۷-۱۸)
اور فر مایا {وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُمْ مَكْرٌ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ}اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کامزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔ ( یونس :۲۱)
ایک دوسری جگہ فرمایا { أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ }کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے، [یقیناً ہم برابر سن رہے ہیں] بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔ (الزخرف :۸۰)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ وَمَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً‘‘ نہیں ہےتم میں کا کوئی شخص اور نہیں ہےسانس لینے والی کو ئی جان مگریہ کہ اس کا جنت اور جہنم کا ٹھکا نہ اور اس کی بد بختی و نیک بختی لکھی جا چکی ہے ۔ (صحیح بخاری :۴۹۴۸، صحیح مسلم :۲۶۴۷، سنن أبی داؤد:۴۶۹۴، جامع الترمذی :۲۱۳۶، ۳۳۴۴، سنن ابن ماجۃ :۷۸)
اور یہ بھی فرمایا ’’إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلاَمَهُ: فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِمِثْلِهَا ‘‘جب تم میں کا کوئی اپنا اسلام بہتر بنا لیتاہے تو اس کے لئےکی گئی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک لکھا جاتا ہےاور ہر برائی کا بدلہ اسی کے مثل لکھا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری :۴۲، ۷۵۰۱، صحیح مسلم :۱۲۸، ۱۲۹، ۱۳۰، جامع الترمذی :۳۰۷۳)