ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اور ستارےبھی اللہ کی مخلوق ہیں اور انہیں بھی اللہ نے کسی عظیم حکمت کے تحت پید کیا ہے ، مندرجہ ذیل سطور میں چند حکمتیں ملاحظہ کریں :۔ ٭سیارچے رہنما ئی کا ذریعہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ}ا ور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں ۔ ( النحل :۱۶) ابو قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’والعلامات: النجوم، وإن الله تبارك وتعالى إنما خلق هذه النجوم لثلاث خصلات: جعلها زينة للسماء، وجعلها يهتدي بها، وجعلها رجوما للشياطين. فمن تعاطى فيها غير ذلك، فقد رأيه وأخطأ حظه و أضاع نصيبه وتكلَّف ما لا علم له به‘‘ ستاروں کی تخلیق کے اسباب: اللہ تبارک و تعالی نے تین کاموں کے لئےستاروں کوپیدا کیا (۱)انہیں آسمان کی زینت بنایا (۲) اور انہیں رہنما ئی کا ذریعہ بنایا(۳)اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا، اب ان کے علاوہ اگر کو ئی اور سبب کو ئی بتاتا ہے تو اس کی رائے مفقود ہوگی ، اس کی بات غلط تسلیم کی جا ئے گی اور اس کا حصہ برباد ہو جا ئے گا کیوں کہ اس نے اپنے آپ کو ایسی بات کا مکلف بنایا ہے جس کا اس کے پاس علم نہیں ہے ۔ (تفسیر الطبری :۱۷؍ ۱۸۵)
اور ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ جَلَسْنَا حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَهُ الْعِشَاءَ قَالَ فَجَلَسْنَا، فَخَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: مَا زِلْتُمْ هَاهُنَا؟قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّيْنَا مَعَكَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ قُلْنَا: نَجْلِسُ حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَكَ الْعِشَاءَ، قَالَ أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ، قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ‘‘ ہم نے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی پھر ہم نے سوچا کہ کاش ہم بیٹھے رہتے تا کہ ہم آپ ﷺکے ساتھ عشاء کی نماز بھی پڑھ لیں ، فرماتے ہیں کہ ہم بیٹھ گئے پھر آپ ہمارے پاس آئے تو کہا کہ ابھی تم سب یہیں ہو ؟ ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول !ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی تو سوچے کہ بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ ہی کے ساتھ ادا کرلیں ،تو آپ نے کہا کہ تم سب نے اچھا کیایا تم سب نے صحیح کیا، فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اکثر آپ اپنا سر آسمان ہی کی طرف اٹھاتے تھے پھر کہا ستارے آسمان کے امین ہیں ،جب ستارے ختم ہو جا ئیںگے تو آسمان کے پاس وہ تمام چیزیں آئیں گی جن کا اس سے وعدہ کیا جاتا ہے اور میں صحابہ کا امین ہوں ، جب میں چلے جا ؤ ں گا تو صحابہ کے پاس تمام چیزیں آئیںگی جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے امین ہیں جب میرے صحابہ چلے جا ئیں گے تو میری امت کے پاس وہ تمام چیزیں آئیںگی جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم :۲۵۳۱)
٭ستارے شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ ہیں: جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ} یقینا ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ہم نے اسے شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا ۔(الملک :۵)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ، وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ: الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ: قَالَ فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا، حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ، وَيُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ وَيَزِيدُونَ‘‘مجھے ایک انصاری صحابی نے بتایا کہ وہ رات کو اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ بیٹھے ہوئےتھےکہ اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹا اور چمکاتو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: تم دورجاہلیت میں اسے کیا کہتے تھے جب اس طرح مارا جاتا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیںلیکن ہم یوں کہتے: آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہواہے یا مرا ہےتواللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اس پرکسی کے مرنے یا پیدا ہونے کی وجہ سے نہیں مارا جاتالیکن ہمارا وہ رب جو با برکت ہے اور جس کا نام بلند و برتر ہے جب کسی کام کا فیصلہ کرتاہے تو عرش کے اٹھانے والے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں پھر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے پاکی بیان کرتے ہیں یہاں تک وہ تسبیح دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں وہ بات بتاتے ہیںجو اس نے کہا ہے، اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر اس دنیا کے آسمان والوں تک آتی ہے تو جن چپکے چپکے سنتے ہیں(ان سے وہ خبر جن اڑا لیتے ہیں) اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں،(سنتے وقت ) فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان ستاروں سے مارتے ہیں (تو یہ ستارے ان کے لئےکوڑے ہیں) پھر جو خبر وہ ان کے پاس لاتے ہیںوہ صحیح ہوتی ہیںلیکن وہ اس میں جھوٹ ملاکر زیادہ کردیتے ہیں ۔ (صحیح مسلم :۲۲۲۹)
نبی ﷺ کی آمد سے پہلے جن و شیاطین آسمان کی باتیں چپکے چپکےسنتے تھے لیکن نبی ﷺ کے آنے کے بعد انہیں روک دیا گیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا}اور یقینا اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے، اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے ۔(الجن :۹) ایک اور مقام پر فرمایا {إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ(۶) ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا (۶) وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ(۷) اور حفاظت کی سرکش شیطان سے (۷) لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَ يُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ(۸) عالم بالا کے فرشتوں [کی باتوں] کو سننے کے لئے وہ کان بھی نہیں لگا سکتےبلکہ ہر طرف سے وہ مارے جاتے ہیں (۸) دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ(۹) بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے (۹) إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ(۱۰)} مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو [فوراً ہی] اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے (۱۰) ۔(الصافات : ۶-۱۰)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’كَانَ الجِنُّ يَصْعَدُونَ إِلَى السَّمَاءِ يَسْتَمِعُونَ الوَحْيَ، فَإِذَا سَمِعُوا الكَلِمَةَ زَادُوا فِيهَا تِسْعًا، فَأَمَّا الكَلِمَةُ فَتَكُونُ حَقًّا، وَأَمَّا مَا زَادُوهُ فَيَكُونُ بَاطِلًا، فَلَمَّا بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنِعُوا مَقَاعِدَهُمْ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِإِبْلِيسَ، وَ لَمْ تَكُنِ النُّجُومُ يُرْمَى بِهَا قَبْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُمْ إِبْلِيسُ: مَا هَذَا إِلَّا مِنْ أَمْرٍ قَدْ حَدَثَ فِي الأَرْضِ، فَبَعَثَ جُنُودَهُ فَوَجَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا يُصَلِّي بَيْنَ جَبَلَيْنِ أُرَاهُ قَالَ: بِمَكَّةَ، فَلَقُوهُ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدَثُ الَّذِي حَدَثَ فِي الْأَرْضِ ‘‘ جن آسمان کی طرف چڑھ کر وحی سنتے تھے، اگر وہ ایک بات سنتے تو اس میں نو کا اضافہ کردیتے،رہی بات اس کلمے کی جو وہ سنتے تھے تو وہ حق ہوتا تھا لیکن جو بات وہ اس کے ساتھ ملاتے تھے وہ باطل ہوتی تھی لیکن جب اللہ کے رسولﷺ مبعوث کئے گئے تو انہیں ان کی نشستوں سے روک دیا گیا تو انہوں نے اس کا تذکرہ ابلیس سے کیا: اس سے پہلے انہیںستاروں کے ذریعہ نہیں مارا جاتا تھا، ابلیس نے ان سےکہا:زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے، اس نے( پتا لگانے کے لیے) اپنے لشکر بھیجا، انہیں اللہ کے رسول ﷺ دو پہاڑوں کے درمیان کھڑے نماز پڑھتے ہوئے ملے، راوی فرماتے ہیں کہ میرے خیال سے یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا ہے تو یہ افراد ابلیس سے ملے اور واقعہ کی تفصیل سے آگاہ کیا تو اس نے کہا یہی وہ واقعہ ہے جو زمین میں رونما ہواہے۔ (جامع الترمذی : ۳۳۲۴، مسند أحمد :۲۴۸۲، سنن النسائی الکبری :۱۱۵۶۲، مسند أبی یعلی :۲۵۰۲)
ہمارا یہ ایمان ہے کہ ستارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی کسی حادثے میں ان کا کچھ اثر ہوتا ہے کیوں کہ یہ کفریہ و شرکیہ عقیدہ ہے ،اگر کو ئی یہ عقیدہ رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے یا کافر ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’مُطِرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ شَاكِرٌ وَمِنْهُمْ كَافِرٌ، قَالُوا: هَذِهِ رَحْمَةُ اللهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَقَدْ صَدَقَ نَوْءُ كَذَا وَكَذَا ، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ} [الواقعة: ۷۵]، حَتَّى بَلَغَ: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} [الواقعة: ۸۲]‘‘نبی ﷺ کے عہد میں لوگوں پر بارش نازل کی گئی تو نبی ﷺ نے کہا کہ لوگوں میں سے بعض نے شکر گزار ہو کر صبح کی اور بعض نے نا شکری کی حالت میں اور( بعض) لوگو ں نے کہا کہ یہ اللہ کی رحمت ہے اور انہیں میں سے بعض نے کہا کہ فلاں اور فلاںنوء (تارے )سچے نکلے ۔ فرماتے ہیں کہ تب یہ آیت نازل ہو ئی{فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ} میں ستاروں کے گرنے کی جگہوں کی قسم کھاتا ہوں ،سے{وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} تم اسے جھٹلا کر اپنی روزی حاصل کرتے ہو ، تک نازل ہو ئی ۔ (صحیح مسلم :۷۳)
اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا إِيمَانٌ بِالنُّجُومِ، وَتَكْذِيبٌ بِالْقَدَرِ، وَحَيْفُ السُّلْطَانِ‘‘ مجھے اپنی امت پر آخری زمانے میں سب سے زیادہ خوف ستاروں پر ایمان لانے ،تقدیر کے جھٹلانے اور بادشاہوں کے ظلم کا ہے ۔ (منسد الرویانی : ۱۲۴۵، معجم الطبرانی فی الکبیر : ۸۱۱۳)
ستاروں میں غور و فکر کرنا منع ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ‘‘ جس نے علم نجوم حاصل کیا اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کر لیااب اس پر جو زیادہ کرے گا وہ زیادہ ہوگا ۔ (سنن أبی داؤد: ۳۹۰۵ ، سنن ابن ماجۃ :۳۷۲۶، مصنف ابن آبی شیبۃ :۲۶۱۵۹، مسند أحمد : ۲۰۰۰، مسند لعبد ابن حمید :۷۱۴)
ستارو ںکی بابت صرف اتنا علم حاصل کرنا جائز ہے کہ جتنے سے آپ کو خشکی یا تری میں رہنما ئی مل جا ئے کیوں کہ علم نجوم کا زیادہ سیکھنا کہانت کا سبب ہے جیسا کہ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’ ’جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ أَوْصِنِي، فَقَالَ: أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَإِيَّاكَ وَذِكْرَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا سَبَقَ لَهُمْ مِنَ الْفَضْلِ، وَإِيَّاكَ وَعَمَلَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِهِ فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ، فَإِنَّهَا تَدْعُوا إِلَى كَهَانَةٍ، وَإِيَّاكَ وَمُجَالَسَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُهُ وَأَنْ يُزَكَّى عَمَلُهُ وَيُقْبَلَ مِنْهُ فَلْيُصْدِقْ حَدِيثَهُ، وَلْيُؤَدِّ أَمَانَتَهُ وَلْيُسْلِمْ صَدْرَهُ لِلْمُسْلِمِينَ‘‘ایک آدمی عبد اللہ بن عباس کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابو عباس ! مجھے وصیت کیجئے تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ، صحابہ کا (غلط انداز میں ) تذکرہ کرنے سے بچو کیوں کہ ان کےجو فضائل ہیں وہ آپ نہیں جانتے ، خشکی و تری میں رہنما ئی کے علاوہ نجوم کے عمل و دخل سے بچوکیوں کہ وہ کہانت کا سبب ہے ،تقدیر کو جھٹلانے والوں کی ہم نشینی سے بچو ، جو چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو ، اس کے عمل کا تزکیہ کیا جا ئے اور اسے قبول کیا جا ئے وہ سچ بولے ، امانت ادا کردے اور اپنا سینہ مسلمانوں کے لئے صاف رکھے ۔ (الإبانۃ الکبری لإبن بطۃ :۱۹۸۷)