ہمارا ایمان ہے کہ جنوں کو اللہ نے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا {وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ }ا س سے(انسانوں کی تخلیق سے ) پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا ۔ (الحجر :۲۷) اور فرمایا {وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ }ا ور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا ۔ (الرحمن :۱۵) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ‘‘فرشتے نور سے ، پیداکئے گئے ،جن آگ کی لپٹ سےپیدا کئے گئے اور آدم اس چیز سے پیدا کئے گئے ہیں جو تمہارے لئے بیان کی گئی ہےیعنی مٹی سے۔ (صحیح مسلم :۲۹۹۶ )
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہےجیسا کہ فرمایا {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ} میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔(الذاریات : ۵۶) اور جنوں میں صرف ڈرانے والے تھے لیکن رسول کو ئی نہیںتھاجیسا کہ فرمان الہی ہے {وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ}ا ور یاد کرو ! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے ۔ (الأحقاف :۲۹) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’الرُّسُلُ مِنْ بَنِي آدَمَ، وَمِنَ الْجِنِّ نُذُر‘‘ سارے رسول انسانوں ہی میں سے تھے اور جنوں میں صرف ڈرانے والے آئے ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر :۳؍۳۴۰)
رہی بات اللہ تعالی کے اس فرمان کی کہ { يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي}اے جن و انس کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سےرسول نہیں آئے جو تم پر میری آیتیں بیان کرتے ؟(الأنعام :۱۳۰) تو یہاں کل بول کر جز مراد لیا گیا ہے ، یہاں صرف انسان مخاطب ہیں، اس خطاب میں جن شامل نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں { وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا }اور چاند کو ان میں روشن بنایا ۔(نوح :۱۶) اور اس فرمان میں {فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا }تو لوگوں نے اسے جھٹلایا اور اسے ذبح کردیا ۔ (الشمس :۱۴) میں سب کو بو لا گیا ہے جب کہ ان میں کاٹنے والا صرف ایک ہی تھا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ جنو ں کو اللہ تعالی نے انسانوں سے پہلے پیدا کیا ہے اسی لئے اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ } ا س سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا ۔ (الحجر :۲۷) اور شیطانوں کا سردار ابلیس ہے (اللہ اس سے ہم سب کی حفاظت فر ما ئے)اورتمام جن و شیاطین کی طرح اللہ تعالی نے ابلیس کو بھی آگ سے پیدا کیا ہے جیسا کہ ابلیس کی یہ بات نقل کرتے ہوئےاللہ نے ارشاد فرمایا { أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ } میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا۔ (الأعراف :۱۲) اور ابلیس جنوں میں سے تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ } اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا (١) اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ۔ ( الکھف :۵۰)
ابلیس ہی نے آدم و حوا علیہما السلام کودھوکہ دے کر گمراہ کیا یہاں تک کہ اس نےجنت سے نکلوادیا ، چونکہ اس نے ان دونوں کے دل و دماغ میں وسوسہ ڈال کر شجرئہ ممنوعہ کی طرف مائل کردیا اور قسم کھا کر بولا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں، اب وہ دونوں اس کی باتوں میں آگئےاورشجرئہ ممنوعہ کا پھل کھا لئے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَيَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۱۹) (اور ہم نے حکم دیا کہ) اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوںظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ (۱۹) فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (۲۰) پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ(۲۰) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ (۲۱) اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانئے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں (۲۱) فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ (۲۲) سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ (۲۲) قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۲۳)} دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے(۲۳) ۔( الأعراف :۱۹-۲۳)
ہمارا ایمان ہے کہ جب شیطان نے آدم کا سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اس پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوا ،اللہ نے اسے ملعون قرار دیا اور اسے ہمیشگی والی جنت سے بھگا دیا اور جب اس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لئے مہلت طلب کی تو من جانب اللہ اسے مہلت مل گئی، مہلت ملتے ہی اس نے اللہ تعالی کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ میں سوائے مخلص اور نیک بندوں کے تمام انسانوں کو فتنے میں مبتلا کروں گا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کے مکرو فریب اور چال بازی کا تذکرہ کرتے ہو ئے فرمایا {إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ (۷۱) جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں (۷۱) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (۷۲) سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا (۷۲) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۷۳) چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا (۷۳) إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۷۴) مگر ابلیس نے [نہ کیا]، اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے (۷۴) قَالَ يَاإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ (۷۵) [اللہ تعالیٰ نے] فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے (۷۵) قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (۷۶) اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے (۷۶) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (۷۷) ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا (۷۷) وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (۷۸) اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت وپھٹکار ہے (۷۸) قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۷۹) کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے (۷۹) قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (۸۰) [اللہ تعالیٰ نے] فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے (۸۰) إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (۸۱) متعین وقت کے دن تک(۸۱) قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (۸۲) کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا (۸۲) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (۸۳)} بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں(۸۳) ۔( ص: ۷۱- ۸۳) اور شیطان بولاجیسا کہ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فر مایا { قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (۱۶) اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا (۱۶) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (۱۷)} پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا(۱۷) ۔( الأعراف :۱۶-۱۷)
جن بھی شریعت کے مخاطب اور احکام شریعت کے مکلف ہیں کیوں کہ وحی اوررسولوں اور ڈرانے والوں کی باتیں سننے اور سمجھنے کی طاقت و قوت انہیں بھی حاصل ہے ، اسی لئےانہوں نے قرآن سن کر جو کہا تھا اسے اللہ تعالی نے بایں الفاظ بیان کیا {وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (۲۹) اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب [نبی کے] پاس پہنچ گئے تو [ایک دوسرے سے] کہنے لگے خاموش ہو جاؤ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے(۲۹) قَالُوا يَاقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَ إِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (۳۰)} کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ [علیہ السلام] کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے(۳۰) ۔ ( الأحقاف :۲۹-۳۰)
ہم انسانوں کی طرح جنوں میں بھی کچھ اچھے تو کچھ برے ہیں ، کچھ نیک ہیں تو کچھ بد ہیں ، ان میں کابھی ایمان لانے والا جنت میں اور کفر کرنے والا جہنم میں جا ئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا} اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں۔ (الجن :۱۱) ایک اور مقام پرفر مایا {وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا (۱۴) ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بےانصاف ہیں پس جو فرمانبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا (۱۴) وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا (۱۵)} اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے(۱۵) ۔ (الجن :۱۴-۱۵)
فرشتے بھی روز قیامت فاجرو فاسق اور سرکش انسان کو سر زنش کریں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ} اے جنات اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھےجو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے ؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے ۔ (الأنعام : ۱۳۰) اوردوسرے مقام پر یہ بھی فرمایا {قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ} ( اللہ تعالیٰ)کہے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔ (الأعراف : ۳۸)
اور اللہ تعالی نے یہ واضح کردیا ہے کہ ان کے جہنم میں جانے کا سبب ہدایت کا نہ سننا اور اسے نہ قبول کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں {وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا } اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔ (الأعراف : ۱۷۹ ) گویا جنوں کے پاس بھی سمجھنے کے لئے دل ،دیکھنے کے لئے آنکھ اورسننے کے لئے کان ہی نہیںبلکہ انہیں زور دار آواز بھی عطا کی گئی ہے جس کے ذریعہ مخلوق میں یہ وحشت پیدا کرتے اور ڈراتےہیں جیسا اس کی وضاحت کرتے ہو ئےکہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ أَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ} ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالے ۔ (الإسراء :۶۴)
اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے بندو ںکو نصیحت کردیا ہے تاکہ شیطان انہیں دھوکہ نہ دے سکے جیسا کہ اس نے ان کے ماں باپ یعنی آدم و حوا کو دھوکہ دیا تھا شیطانی شکنجے سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا {يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ}ا ے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کردیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ (الأعراف :۲۷)
اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ بندگان الہیہ کو گمراہ کرنے ، انہیں بگاڑنےاورراہ راست سے بھٹکانے میںشیطان اپنے لاؤلشکر سمیت لگا ہوا ہےلیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کر پا ئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ }ا ور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔ ( الأنعام :۱۱۲) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ البَارِحَةَ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا - لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلاَةَ، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ، قَالَ رَوْحٌ: فَرَدَّهُ خَاسِئًا‘‘ گذشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا(یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی)تاکہ وہ میری نماز میں خلل ڈالے لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی ” اے میرے رب! مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو ۔ روح فرماتے ہیں کہ آپ نے اسے ذلیل کر کےبھگا دیا۔ (صحیح بخاری :۴۶۱، صحیح مسلم :۵۴۱) اورا بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ ،قَالُوا: وَإِيَّاكَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: وَإِيَّايَ، إِلَّا أَنَّ اللهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ‘‘تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اس کا ساتھی یعنی جن مقرر کردیا گیا ہے ، لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ بھی ؟ آپ نے فر مایا : ہاںمیرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کردی تو وہ میرا فرماں بردار ہوگیا ہے ، وہ مجھے صرف خیر ہی کا حکم دیتا ہے۔ (صحیح مسلم :۲۸۱۴)
سبرہ بن ابو فاکہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ’’إِنَّ الشَّيْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ، فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: تُسْلِمُ وَتَذَرُ دِينَكَ وَدِينَ آبَائِكَ وَآبَاءِ أَبِيكَ، فَعَصَاهُ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: تُهَاجِرُ وَتَدَعُ أَرْضَكَ وَسَمَاءَكَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي الطِّوَلِ، فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْجِهَادِ، فَقَالَ: تُجَاهِدُ فَهُوَ جَهْدُ النَّفْسِ وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَيُقْسَمُ الْمَالُ، فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَ مَنْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّتُهُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ‘‘ شیطان انسان (کو گمراہ کرنے کے لیے) اس کے سارےراستوں پر بیٹھا، وہ اس کے لیے اسلام کے راستے پر بیٹھا او رکہا ہے: کیا تو اسلام لا کر اپنے اور اپنے آباءو اجداد کے دین کو چھوڑ دے گا؟ لیکن انسان ا س کی نافرمانی کرکے مسلمان ہوجاتا ہے،پھر وہ اس کے لئے ہجرت کے راستے پر بیٹھتا ہےاور کہتا ہے کہ کیا تو ہجرت کرکے اپنی زمین اور آسمان چھوڑ دے گا؟جب کہ مہاجر کی مثال رسی میں گھوڑے کی طرح ہے لیکن وہ اس کی نافرمانی کرکے ہجرت کرلیتا ہے، پھر وہ اس کے لئے جہاد کے راستے پر آکر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تو جہاد کرے گا؟ یہ تو جان ومال کی مشقت ہےاور تو لڑائی کرے گاتو تو مارا جائے گااورتیری عورت کا نکاح کردیا جا ئے گا،تیرا مال تقسیم کردیا جائے گا لیکن وہ اس کی نافرمانی کرکےجہاد کرتا ہے، پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص یہ سب کچھ کرے تو اللہ عزوجل پر لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل فرمائے اور اگر کوئی قتل کر دیا جائے تو اللہ عزوجل پر لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل فرمائے اور اگر وہ غرق ہوجائے تو بھی اللہ پر لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل فرمائےیا اسے اس کا چوپایہ گرادے تو بھی اللہ پر لازم ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے۔ (سنن النسائی : ۳۱۳۴، السنن الکبری للنسائی :۴۳۲۷، مصنف ابن أبی شیبۃ :۱۹۶۷۵، مسند أحمد :۱۵۹۵۸، صحیح ابن حبان :۴۵۹۳)
اب یہیں سے اندازہ لگاؤ کہ شیطان نےجب انبیاء کو نہیں چھوڑا تو ان کے علاوہ کو تو بدرجہ أو لی نہیں چھو ڑے گا، جب اس کے شرور و فتن سے انبیاء تک نہیں بچے تو ہم کہاں سے بچیں گے ، ابو علاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عثمان بن ابو العاص نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا ’’ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي يَلْبِسُهَا عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اے اللہ کے رسول ! شیطان میرے ، میری نماز اور میری قرأت کے در میان حائل ہو کر اسے مجھ پر خلط ملط کردیتا ہے تو اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا : ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خَنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا، قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَهُ اللهُ عَنِّي‘‘وہ شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے ، جب تمہیں اس کا احسا س ہو تو اس سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور اپنے با ئیں جانب تین بار تھو کو ، فر ماتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو اسے اللہ نے مجھ سے دور کردیا ۔ (صحیح مسلم :۲۲۰۳)
صحیح بخاری میںاللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ‘‘شیطان انسانی رگوں میں دوڑتا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۷۱۷۱ ، ۲۰۳۸) امام ابن بطہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإبانة الكبرى‘‘میںایک باب اسی مفہوم پر قائم کیا ہے ’’بَابُ الْإِيمَانِ بِأَنَّ الشَّيْطَانَ مَخْلُوقٌ مُسَلَّطٌ عَلَى بَنِي آدَمَ يَجْرِي مِنْهُمْ مَجْرَى الدَّمِ إِلَّا مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ مِنْهُ وَمَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ فَهُوَ مِنَ الْفِرَقِ الْهَالِكَةِ‘‘ یعنی باب ہے اس بیان میں کہ شیطان مخلوق ہے ، بنی آدم پر مسلط ہے ، ان کےخون کے رگوں میں دوڑ رہا ہے، اس سے صرف وہی بچے گا جسے اللہ بچا لے اور جس نے اس کا انکار کیا وہ ہلاک ہونے والے فرقوں میں سے ہے ۔ (الإبانة الكبرى لإبن بطۃ :۴؍۶۱)
اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ابن آدم پر فرشتے بھی آتے ہیں اور شیطان بھی لیکن ہمارے رسول ﷺ نے شیطانی اثرات سے بچنے کا راستہ ہمیں بتا دیا ہے، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالحَقِّ، وَأَمَّا لَمَّةُ المَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالحَقِّ، فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ الأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، ثُمَّ قَرَأَ {الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالفَحْشَاءِ} [البقرة: ۲۶۸] الآيَةَ‘‘ ابن آدم پر شیطان کا بھی اثر ہوتا ہے اور فرشتوں کابھی اثر ہوتا ہے ، رہی بات شیطانی اثرات کی تو وہ برائی اورتکذیب حق کا وعدہ کرنا ہے اور رہی بات فرشتوں کے وسوسے کی تو وہ خیر اور حق کے تصدیق کا وعدہ کرتے ہیں لہذا جو اسے پا ئے وہ جان لے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور وہ اللہ کی حمد بیان کرے اور جو دوسرا پا ئےوہ شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کرے ۔پھر انہوں نے پڑھا {الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالفَحْشَاءِ} شیطان تم سے فقر کا وعدہ کرتا ہے اور وہ تمہیں فحش کا حکم دیتا ہے۔ [البقرة: ۲۶۸] (جامع الترمذی :۲۹۸۸، الزھد لإبن المبارک :۱۴۳۵، الزھد لأحمد : ۸۵۴، الزھد لأبی داؤد : ۱۶۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے مومن بندے جب تک استغفار کرتے رہیںگے تب تک شیطانی مکرو فریب اور چال بازیوں سےاللہ ان کی حفاظت کرتا رہے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ: وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ مَا دَامَتْ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ، قَالَ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي‘‘شیطان بولا کہ اے میرےرب ! تیرے عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی ، رب نے کہا میرے عزت و جلال کی قسم میں انہیں تب تک معاف کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے ۔ (مسند أحمد :۱۱۲۳۷، المنتخب من مسند عبد بن حميد:۹۳۲، مسند أبی یعلی :۱۲۷۳، ۱۳۹۹، المعجم الأوسط: ۸۷۸۸، الدعا للطبرانی : ۱۷۷۹)
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ شیطان انسا ن اور دیگر تمام مخلوق کا روپ دھار سکتا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَذَكَرَ الحَدِيثَ -، فَقَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مجھے اللہ کے رسول ﷺ رمضان میں زکوۃ کی حفاظت پر مامور کیا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اناج بھرنے لگالیکن میں اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے اللہ کے رسول کے پاس لے چلوں گا پھر انہوں نے آخر تک حدیث بیان کی -تو اس نے کہا کہ جب آپ بستر پر جا ئیں تو آیۃ الکرسی پڑ ھ لیں، اللہ کی طرف سے آپ کے لئے ایک محافظ آپ کے پاس مقرر ہو جا ئے گا اور صبح تک شیطان آپ کے قریب نہیں آ ئے گا(ساری باتیں سن کر ) نبی ﷺ نے فر مایا: صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ‘‘ کہ اس نے آپ سےسچ کہا ہے لیکن وہ جھوٹا ہے کیوں کہ وہ شیطان تھا ۔ (صحیح بخاری :۳۲۷۵، ۵۰۱۰، اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استاد عثمان بن ہیثم سے دو جگہوں پر معلقا روایت کیا ہے )
چونکہ دور جاہلیت میںجہالت و نا دانی کی وجہ سے لوگ جن و شیاطین کے سرداروںسے پناہ مانگتے تھےاور اس عمل نے انہیں مزید خوف میں مبتلا کردیا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بایں الفاظ اجا گر کیا ہے {وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا } بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ (الجن :۶)
ہم اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ بت پرست جنوںہی کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے ان بت پرستوں کے معبودوں کی حقیقت بیان کرتے ہو ئے فرمایا {وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ (۴۰) اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کرکے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے (۴۰) قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ (۴۱)} وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں کے اکثر کا ان ہی پر ایمان تھا ۔ (سبأ :۴۰-۴۱)
ہمیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ شیطان انسان سے اسی طرح کفریہ کام لےکراس سے برأت کا اظہار کرلیتا ہے، اسے تنہا اور اکیلا چھوڑ دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ} شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب وہ کفر کر چکا تو کہنے لگا میں تو تجھ سے بری ہوں، میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ (الحشر :۱۶) اسی طرح شیطان انہیںجادو کے ذریعہ دھوکہ میں مبتلا کرتا ہے اور سیکھنے کی بھی تلقین کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ}لیکن شیطانو ں نے کفر کیا اس حال میں کہ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔ ( البقرۃ :۱۰۲)
اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آخرت میں شیطان اپنے تمام ساتھیوں سے برأت کا اظہار کرلے گا ، انہیں بروز قیامت تنہا چھوڑ دے گا بلکہ وہ اس وقت انہیں اپنی اس اتباع پر ملامت بھی کرے گا ، اللہ تعالی نے شیطان کے بارے میں خبر دیاہےکہ وہ جہنم کی دہکتی ہو ئی آگ میںکھڑا ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہے گا { وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ}جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا شیطان کہے گا کہ اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے ان کے خلاف کیا میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو ،نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ (ابراھیم :۲۲)