ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے کہا کہ وہ اس روئے زمین کواپنی عبادت سے معمور کرنے کے لئے ایک خلیفہ بنا نے والا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ (البقرۃ :۳۰) اوراللہ تعالی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہو ئی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے { إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ} اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا پس وہ ہوگیا ۔ ( آل عمران :۵۹) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ: جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْيَضُ، وَالْأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ ،زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى وَبَيْنَ ذَلِكَ‘‘ اللہ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا ، اسے اس نے زمین کے تمام حصوں سے لیا تھا اسی لئے تمام بنی آدم مٹی ہی کے بقدر آئے ، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ، کوئی سیاہ ، کوئی ان کے درمیان ، کوئی نرم ، کوئی سخت ، کوئی خبیث اور کوئی پاک باز اور یحیی کی روایت میں ’’وَبَيْنَ ذَلِكَ‘‘ اور اس کے درمیان کے لوگ۔ (سنن أبی داؤد: ۴۶۹۳، جامع الترمذی: ۲۹۵۵، تفسیر عبد الرزاق :۴۱، مسند أحمد :۱۹۵۸۲، مسند البزار : ۳۰۲۵، ۳۰۲۶) اللہ تعالی نے اس مٹی کا پہلے گارا بنایا پھر اس کی کئی ادوار میں تخلیق کی جیسا کہ فرمایا {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (۲۶) یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے (۲۶) وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُوم(۲۷) اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا (۲۷) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (۲۸) اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں (۲۸) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (۲۹) تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۳۰)} چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا (۳۰)۔ (الحجر :۲۶-۳۰) اور فرمایا {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ} یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المؤمنون :۱۲) اور فر مایا {فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ} ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے ان کے علاوہ پیدا کیا ہے ؟ ہم نے (انسانوں) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے ؟۔ (الصآفات :۱۱)
آدم علیہ السلام کی تخلیق کے سلسلے میں وارد شدہ آیات ذکر کرنے کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فر ماتے ہیں ’’نقول: هذا بدء خلق آدم، خلقه الله أول بدء من تراب، ثم من طينة حمراء وسوداء وبيضاء، ومن طينة طيبة وسبخة، فكذلك ذريته طيب، وخبيث، أسود وأحمر و أبيض. ثم بلَّ ذلك التراب فصار طينًا، فذلك قوله: من طين، فلما لصق الطين بعضه ببعض، فصار طينًا لازبًا، بمعنى لاصقًا، ثم قال: {مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ} يقول: مثل الطين إذا عصر انسل من بين الأصابع، ثم نتن فصار حمأ مسنونًا، فخلق من الحمأ، فلما جفَّ صار صلصالاً كالفخار، يقول: صار له صلصلة كصلصلة الفخار، له دوي كدوي الفخار.فهذا بيان خلق آدم، وأما قوله: {مِنْ سُلالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ} [السجدة: ۸]فهذا بدء خلق ذريته، من سلالة يعني النطفة إذا انسلت من الرجل، فذلك قوله: {مِنْ مَاءٍ} ، يعني النطفة، {مَهِينٍ} يعني ضعيف‘‘ ہم کہتے ہیں کہ یہ آدم کی سب سے پہلی تخلیق ہے ، سب سے پہلے اللہ نے انہیں مٹی سے پھرسرخ ، کالے، سفید ،عمدہ اورکھارے و نمکین گارے سےبنایا ، اسی لئے ان کی اولاد میں پاک ، خبیث ، کالے ، گورے اور سرخ ہیںپھر وہ مٹی گیلی ہو کر تو گارا ہوگئی، اللہ تعالی کے اس فرمان {من طين}کا یہی معنی ہے ،پھرجب وہ مٹی باہم ایک دوسرے سے چپک گئی تو وہ جمی ہوئی یعنی چپکنے والی مٹی ہوگئی اور اللہ تعالی کے اس فرمان {مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ}کایہی مفہوم ہے۔ اورطین کی مثال بیان فرماتے ہیں کہ نچوڑتے وقت گاراانگلیوں کے درمیان سے گرا پھراس سے بد بو آنے لگی تو وہ سڑی ہوئی مٹی کی طرح ہو گئی اور وہ سڑی مٹی سے بنا ئے گئے پھر جب وہ سوکھ گئی تووہ کھنکھناتی ہوئی مٹی کی طرح مضبوط ہوگئی ۔ اور فرماتے ہیں کہ ٹھیکری مٹی کی طرح ان کے لئے کھنکھناتی مٹی ہے اور اس کے لئے آواز ہے ٹھیکری مٹی کے آواز کی طرح ،یہی آدم علیہ السلام کی خلقت کا بیان ہےاور رہی بات اللہ کے اس فرمان{مِنْ سُلالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ} [السجدة: ۸] کی تو یہ ان کے ذریت کی ابتدائی تخلیق کا بیان ہے، انہیں سلالہ یعنی نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے کیوں کہ وہ آدمی سے ٹپکتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے کہا {مِنْ مَاءٍ}یعنی نطفہ اور {مَهِينٍ}یعنی حقیرو ضعیف ۔ (الرد علی الجہمیۃ والزنادقۃ : ۱۷۹-۱۸۰، ط :دغش العجمی)
ہمارا ایمان ہےکہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنے با برکت اور با عزت ہاتھوں سے پیدا کیا اور فرشتوں سے ان کا سجدہ کرایا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (۲۹) تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا (۲۹) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۳۰)} چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا۳۰)۔ (الحجر :۲۹-۳۰) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’يَجْتَمِعُ المُؤْمِنُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو النَّاسِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلاَئِكَتَهُ‘‘ بروز قیامت سارے مومن جمع ہو کر کہیں گے کاش اپنے رب کے حضور ہم کوئی سفارشی بنا لیتےتو وہ آدم کے پاس آکرکہیں گے کہ آپ لوگوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور اپنے فرشتوں کو تمہارا سجدہ کروایا ہے۔ (صحیح بخاری: ۴۴۷۶، صحیح مسلم :۱۹۳، سنن ابن ماجۃ : ۴۳۱۲)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرما یا ’’خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا‘‘ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیاہے اور ان کی لمبا ئی ساٹھ گز ہے ۔ (صحیح بخاری :۶۲۲۷، صحیح مسلم :۲۸۴۱) اور انہیں سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ‘‘ اگر تم میں کا کوئی اپنے بھا ئی سے قتال کرے تو چہرے سے بچے کیوں کہ آدم کو اللہ نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۵۵۹، صحیح مسلم :۲۶۱۲، واللفظ لہ) اور انہیں سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولَنَّ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ، وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهُ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ‘‘جب تم میں کا کوئی مارے تو چہرے سے بچے اور ہرگز یہ نہ کہے کہ اللہ تیرے اور اس کے چہرے کو بگاڑ دے جس کا چہرہ تیرے چہرے کی طرح ہے کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ (مصنف عبد الرزاق :۱۷۹۵۲، مسند الحمیدی : ۱۱۵۳، مسند أحمد ۷۴۲۰ ، الأدب المفرد: ۱۷۳، السنۃ لإبن عاصم :۵۳۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے آدم ہی سے ان کی بیوی حوا کو بھی پیدا کیا ہےتاکہ وہ اس سے سکون حاصل کریں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا} اور اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔ (الأعراف :۱۸۹) اور فرمایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً } اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔ (النساء: ۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے آدم و حواء کو پیدا کرنے کے بعد دونوں کو جنت میں رہائش عطا کیا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے {وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا }اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو ۔ (البقرۃ :۳۵) اور دونوں کو ایک درخت کا پھل کھانے سے روک دیا لیکن شیطان انہیں بہکایا اور دونوں نے اس ممنوعہ شجر کا پھل کھا لیا نتیجے میں اللہ تعالی نے دونوں کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { وَيَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۱۹) اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ﻇالموں میں سے ہوجاؤ گے (۱۹) فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (۲۰) پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ (۲۰) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ (۲۱) اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں (۲۱) فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ (۲۲) سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ (۲۲) قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۲۳) دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے (۲۳) قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (۲۴) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک(۲۴) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (۲۵)} فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے (۲۵)۔ (الأعراف :۱۹-۲۵)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ ( البقرۃ : ۳۰)
اور اللہ نے جب انہیں آزمایا تو وہ بھول گئے اور اس کی نا فرمانی کر بیٹھے پھر اللہ نے ان کا انتخاب کیا اور انہیں ہدایت دی {وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا} ہم نے آدم کو پہلے تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا ۔ (طہ :۱۱۵) پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھا اور وہی ان کے توبہ و مغفرت کا سبب بنا جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا { فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۳۷) (حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے (۳۷) قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۳۸)} ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف وغم نہیں (۳۸)۔ (البقرۃ :۳۷-۳۸)
ہمارا ایمان ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی اللہ تعالی نےسب کچھ لکھ دیا تھا جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الجَنَّةِ، قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ثَلاَثًا‘‘ آدم اور موسی نے بحث کیا تو موسی نے کہا کہ اے آدم !آپ ہمارے باپ ہیں اور آپ نے غلطی کرکے ہمیں جنت سے نکلوا دیا تو آدم نے کہا کہ آپ کواللہ نے کلام کے لئے چنا اور آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے خط کھینچا پھرآپ کیوں مجھے ایسے معاملے پر ملامت کررہے ہیں جسے اللہ نے مجھ پر میری پیدائش سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا ہے ؟ تو آدم موسی پر غالب آگئے، آدم موسی پر غالب آگئے ، یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہا ۔ (صحیح بخاری :۶۶۱۴، صحیح مسلم :۲۶۵۲، سنن أبی داؤد: ۴۷۰۱، جامع الترمذی :۲۱۳۴، سنن ابن ماجۃ :۸۰)
ہمارا ایمان ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالی نے اولاد آدم ہی کو پیدا کیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا} لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور بے نقشہ تھا،یہ ہم تم پر ﻇاہر کر دیتے ہیں، اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں ﻻتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دیئے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے۔ (الحج:۵) اور فر مایا {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (۱۲) یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا (۱۲) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (۱۳) پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا(۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (۱۴)} پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیاپھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا، برکتوں والاہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والاہے(۱۴) ۔ (المؤمنون :۱۲-۱۴) اور عبد اللہ بن مسعود فر ماتے ہیں: کہ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ(وہ صادق و مصدوق ہیں)نے بتایا: إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَ رِزْقَهُ، وَ أَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ‘‘ :'تم میں سے ہرآدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتاہے، پھر اتنے ہی دن تک علقہ(یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتاہے، پھر اتنے ہی دن تک مضغہ( یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتاہے ، پھر اللہ تعالی ایک فرشتہ بھیجتا ہے تو اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے ، اسے کہا جاتا ہے کہ تو اس کا عمل ، اس کی روزی ، اس کی موت اور اس کی نیک بختی و بد بختی لکھ پھر اس میں روح پھوک دی جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۲۰۸، صحیح مسلم :۲۶۴۳، سنن أبی داؤد:۴۷۰۸، جامع الترمذی: ۲۱۳۷، سنن ابن ماجۃ : ۷۶)
اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ بچہ کیسے اپنے باپ یا ماں کی شکل اختیار کرتا ہےچونکہ جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول ﷺ کے مدینہ آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ سے چند سوال کرنے کے لیے آئےاور کہا ’’إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ، مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمَا بَالُ الوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ؟، قَالَ: أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا، قَالَ ابْنُ سَلاَمٍ: ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، قَالَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الحُوتِ، وَأَمَّا الوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ المَرْأَةِ نَزَعَ الوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ المَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الوَلَدَ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ‘‘ میں آپ سے تین چیزوں کی بابت پوچھو ںگا (کیوں کہ ) انہیں سوائے نبی کے کوئی نہیں جانتا ہے ، قیامت کی سب سے پہلی شرط کیا ہے ؟ جنتی سب سے پہلے کون سا کھانا کھا ئیں گے ؟ اور اس لڑکے کی کیا حالت ہے جو اپنے باپ یا ماں کی طرف کھینچ جاتا ہے ؟ فرمایا کہ اس کے بارے میں جبرئیل نے مجھے ابھی ابھی بتایا ہے ، عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ فرشتوں میں یہو دیوں کے دشمن ہیں ، فر مایا رہی بات قیامت کی سب سے پہلی نشانی کی تو وہ ایسی آگ ہے جومشرق سے مغرب تک لوگوں کو جمع کرے گی اور جنتی سب سے پہلے مچھلی کے کلیجے کا بڑھا ہوا ٹکڑاکھا ئیں گے اور رہی بات لڑکے کی تو اگر مرد کا پانی عورت کے پانی سے سبقت کر جاتا ہے تو مرد لڑکے کو کھینچ لیتا ہےاور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو عورت لڑکے کو کھینچ لیتی ہے تو (عبد اللہ بن سلام نے) فر مایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (صحیح بخاری :۳۹۳۸)
ہمارا ایمان کہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور سب کی پیدائش مٹی سے ہو ئی ہے اس لئے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ }اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے،یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (الحجرات :۱۳) اورابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ.......‘‘ اللہ عزوجل نے جاہلیت کا عیب اور اس وقت میں آباء و اجداد پر فخرو غرور کو تم سے مٹا دیا ہے ، متقی مومن اور بد بخت فا جر تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سےپیدا کئے گئے ہیں۔ (سنن أبی داؤد :۵۱۱۶، جامع الترمذی :۳۹۵۶، الزهد للمعافى بن عمران الموصلي:۱۴۷، الجامع في الحديث لابن وهب: ۳۰، مسند أحمد :۸۷۳۶)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے اور ان کی زوجہ محترمہ حوا علیہا السلام کو خود انہیںسےپیدا کیا اورسوائے عیسی علیہ السلام کےدنیا کی تمام انسانیت کو حقیر پانی سے پیدا کیا ، عیسی علیہ اسلام کو اللہ تعالی نے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَامَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (۴۵) جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذیعزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے (۴۵) وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ (۴۶) وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا (۴۶) قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۴۷) } کہنے لگیں الٰہی مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا، فرشتے نے کہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا جاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے (۴۷)۔ (آل عمران :۴۵-۴۷)
ہمارا ایمان ہے کہ عیسی علیہ السلام گرچہ عجیب طرح سے پیدا ہوئے ہیں لیکن وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ} وہ ایک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا اور انہیں بنی اسرائیل کے لئے مثال بنادیا ۔ (الزخرف : ۵۹) وہ معبود نہیں تھےبلکہ ہماری طرح ایک انسان تھے اور وہ بھی ہماری طرح کھاتے پیتے تھےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ انْظُرْكَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے آپ دیکھیے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں اور پھر غور کیجئے کہ کس طرح وہ پھرے جاتے ہیں ۔ (المائدۃ :۷۵)
جن لوگوںنے آدم علیہ السلام کو معبود بر حق تسلیم کر لیا ہےاللہ تعالی نے ان کی تردید میں بے شمار دلیلیں نازل کیاہے ، چند دلیلیں ملاحظہ کریں :۔ اللہ تعالی نے فرمایا {مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ } نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے۔ (المؤمنون : ۹۱) اور فر مایا {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کردینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو ؟ آسمانوں اور زمین دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (المائدۃ :۱۷)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو فطرت پر پیدا کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ} پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیںاللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیںیہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (الروم : ۳۰) ابن زید ، مجاہد اور عکرمہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ’’الفطرۃ : الإسلام ‘‘ فطرت سے مراد اسلام ہے ۔ (تفسیر الطبری : ۲۰؍۹۸)
اور ابن عباس ، ابراہیم نخعی ،سعید بن جبیر ، مجاہد ، عکرمہ ، قتادہ ، ضحاک اور ابن زیدرحمہم اللہ فر ماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان{لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ} میں ’’ لِخَلْقِ اللَّہِ‘‘ کا معنی ہے ’’ لدین اللہ ‘‘یعنی دین الہی میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔ (تفسیر الطبری : ۲۰؍۹۸) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بات باندھا ہے’’بَابُ {لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ} [الروم: ۳۰]: لِدِينِ اللَّهِ خُلُقُ الأَوَّلِينَ: دِينُ الأَوَّلِينَ، وَ الفِطْرَةُ الإِسْلاَمُ‘‘ یعنی باب ہے اس بیان میں کہ {لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ}میں ’’خلق الله‘‘سے اللہ کا دین، {خَلْقُ الأَوَّلِينَ}سے دین الأولین اور ’’الفِطْرَةُ ‘‘ سے اسلام مرادہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ؟ ہر ایک بچہ فطرت پرپیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی ونصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں جیسے چوپایہ ہمیشہ صحیح سالم جانور جنتا ہے کیا تم کسی کو اس میں کان کٹا ہوا دیکھتے ہو۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے {فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ} اللہ کی اس فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (قائم رہوکیوں کہ) اللہ کی خلقت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے [الروم: ۳۰]۔ (صحیح بخاری :۱۳۸۵، صحیح مسلم :۲۶۵۸، سنن أبی داؤد :۴۷۱۴، جامع الترمذی :۲۱۳۸، اور یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں )
عیاض بن حمار المجاشعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نےدوران خطبہ ایک دن فرمایا ’’أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ، مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا، كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ، وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ، وَ حَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا‘‘ آگاہ رہو! میرے رب نے مجھ کو حکم دیا کہ میں تمہیں وہ سکھاؤں جو تم نہیں جانتے ہو ان باتوں میں سے جو اس نے آج کے دن مجھ کو سکھایا ہے، میں جو مال اپنے بندے کو دوں وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو مسلمان بنایا لیکن ان کے پاس شیطان آئے اور انہیں ان کے دین سے بھٹکا دیااور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں وہ حرام کردیا اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک کریں جس پر میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ (صحیح مسلم :۲۸۶۵)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ بعث بعد الممات کے منکرین کی مخالفت کیا اس طرح سے کہ انہیں تخلیق اولی یعنی مٹی سے پیدا کرنے والا واقعہ یاد دلایا جیسا کہ قرآن کہتا ہے {وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ(۷۸) اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی [اصل] پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟ (۷۸) قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ(۷۹)} آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے(۷۹)۔ (یس: ۷۸-۷۹)
اسی طرح اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ اس نے انہیں حقیر پانی سے پیدا کیا ہے پھر وہ کیسے اپنے رب سے تکبر کرتے اور حشر و نشر کا انکار کرتے ہیں، اللہ تعالی نے فرمایا {الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (۷) جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی (۷) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (۸) پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی (۸) ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (۹) جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے [اس پر بھی] تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو (۹) وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ (۱۰) انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ [بات یہ ہے] کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں (۱۰) قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (۱۱) } کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے(۱۱)۔ (السجدۃ : ۷-۱۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی عبادت کا حق دارہے کیوں کہ وہی سب کاخالق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ (البقرۃ :۲۱)
اللہ تعالی نے ہمیں قرآن مجید میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ جب اللہ تعالی نے لوگوں کو کئی طرح سےپیدا کیا ہے تو آخرلوگ اللہ تعالی کی برتری کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا(۱۳) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے؟ (۱۳) وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا (۱۴)} حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے(۱۴)۔ (نوح :۱۳-۱۴)
برزخ اور آخرت کی زندگی میں انسان کے کئی احوال ہوں گے، جس کی تفصیل - ان شاء اللہ - یوم آخرت پر ایمان لانے کے بیان میں آرہی ہے۔