ہمیں معلوم ہے کہ روح اللہ کے حکم سے ہے اور اس روح کی بابت انسان بس وہی جانتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے بتا دیا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا }اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔ (الإسراء :۸۵) اور عبد اللہ فر ماتے ہیں کہ’’بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ، وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، إِذْ مَرَّ اليَهُودُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالَ: مَا رَأْيُكُمْ إِلَيْهِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا: سَلُوهُ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ مَقَامِي فَلَمَّا نَزَلَ الوَحْيُ، قَالَ: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ، قُلْ: الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا} [الإسراء: ۸۵]‘‘میںنبی ﷺ کے ساتھ ایک کھیت میں موجود تھا اور وہ کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگا ئے ہو ئے تھے کہ اچانک کچھ یہودی گزرے تو ان میں سے بعض نے بعض کو کہاکہ ان سے روح کی بابت سوال کرو ،تو اس نے کہا کہ اس کی بابت تمہاری کیا رائے ہے؟ اور ان میں سے بعض نے کہا کہ کہیں وہ تمہارا استقبال ایسی چیز سے نہ کریں جو تمہیں نا پسند ہو(لیکن آپسی گفت و شنید کے بعدپوچھنے ہی پرسب کا اتفاق ہوا )تو لوگوں نے کہا کہ ان سے پوچھو تو لوگوں نے ان سے روح کے بارے میں پوچھا لیکن نبی ﷺ رک گئے اور انہیں کو ئی جواب نہ دیا تو میں سمجھ گیا کہ ان پر وحی نازل کی جا رہی ہے اس لئے میں اپنی جگہ کھڑا رہا ، جب وحی نازل ہو گئی تو فر مایا {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا }لوگ آپ سے روح کی بابت پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔(الإسراء :۸۵) (صحیح بخاری : ۴۷۲۱، صحیح مسلم ۲۷۹۴، جامع الترمذی ۳۱۴۱)
ہمارا ایمان ہے کہ روحیں مخلوق ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ} اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز کا رکھوا لا ہے ۔ (الزمر :۶۲) اور جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپوری طرح سے بنا کران کے اندر اپنی روح پھونک دیا تو فر مایا {فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ}جب میں نے انہیں سنوارکر اپنی روح ان کے اندرپھونک دیا تو سب کے سب ان کے لئے سجدہ میں گر گئے ۔ (الحجر :۲۹) اور جب جنین اپنی ماں کے پیٹ میں چار مہینے کا ہوجاتا ہے تومن جانب اللہ ایک فرشتہ آکر اس میں روح پھونکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود فر ماتے ہیں کہ’’حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَ رِزْقَهُ، وَ أَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ‘‘ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ(وہ صادق و مصدوق ہیں)نے بتایا کہ تم میں سے ایک شخص کی پیدائش اس کے ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک بشکل نطفہ جمع کیا جاتا ہے پھر وہ اسی طرح گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے تو اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے ، اسے کہا جاتا ہے کہ تو اس کا عمل ، اس کی روزی ، اس کی موت اور اس کی نیک بختی یا بد بختی لکھ پھر اس میں روح پھوک دی جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۲۰۸، صحیح مسلم :۲۶۴۳، سنن أبی داؤد:۴۷۰۸، جامع الترمذی: ۲۱۳۷، سنن ابن ماجۃ : ۷۶) سوائے مسیح عیسی بن مریم کے کیوں کہ ان کے حمل کی ابتدا فرشتے کے پھونکنے سے ہو ئی تھی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ }اورجس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کیا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونکا اور ہم نے اسے اور اس کے لڑکے کو تمام جہاں والوں کے لئے نشانی بنا دیا ۔ (الأنبیاء: ۹۱) اور فر مایا {إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ}مسیح عیسیٰ بن مریم تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں جسے مریم کی طرف سے ڈال دیا گیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں ۔ (النساء :۱۷۱)
ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ دوران نیند بھی روح قبض کی جاتی ہے اور پھر اسے لو ٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى}اللہ روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں انکی روحیں سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ (الزمر :۴۲)
اور عبد اللہ بن ابو قتادہ سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَقَالَ: بَعْضُ القَوْمِ: لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلاَةِ، قَالَ بِلاَلٌ: أَنَا أُوقِظُكُمْ، فَاضْطَجَعُوا، وَأَسْنَدَ بِلاَلٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ: يَا بِلاَلُ، أَيْنَ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ: ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک رات چلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول !کاش آپ پڑاؤ ڈال دیتے تھے تو آپ نے فر مایا مجھے خوف ہے کہ تم سب نماز سے سو جا ؤ گے لیکن بلال نے کہا کہ میں تم سب کو جگا دوں گا بنا بریں سب لیٹ گئے اور بلال نے اپنی سواری پر اپنی پیٹھ کو ٹیک دیا اتنے میں ان کی دو نوں آنکھیں ان پر غالب آگئیں تو وہ بھی سو گئے ، اب نبی ﷺاٹھے اس حال میں کہ سورج نکل چکا تھا پوچھا کہ اے بلال! اس کا کیا ہوا جو تم نے کہا تھا ؟ کہا اس کے مثل مجھ پر نیند کبھی نہیں ڈالی گئی، تب آپ نے فرمایا کہ: "إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ‘‘ اللہ تمہاری روحیں جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے تم پر لو ٹا دیتا ہے ۔ ( صحیح بخاری :۵۹۵، سنن أبی داؤد : ۴۳۹، ۴۴۰، سنن النسائی : ۸۴۶)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا ’’إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ فَلْيَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ، فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ: بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ‘‘ جب تم میں کاکوئی اپنے بستر پر پناہ لے تو وہ اپنے ازار کے کنارے سے اپنے بستر کو جھاڑ لے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اس بے خبری میں اس پر کیا ہے پھر کہے ’’بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ‘‘اے میرے رب ! تیرے ہی نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا اور تیرے ہی نام سے میں اسے اٹھا ؤ ںگا ، اگر تونے میری جان کو روک لیا تو تو اس پر رحم فر ما اور اگر تو نے اسے چھوڑ دیا تو تو اس کی اسی طرح حفاظت کر جس طرح تو نے اپنے نیک بندوں کی حفاظت کیا ہے ۔ (صحیح بخاری :۶۳۲۰، صحیح مسلم :۲۷۱۴، سنن أبی داؤد :۵۰۵۰، جامع الترمذی : ۳۴۰۱، سنن ابن ماجۃ : ۳۸۷۴)
اس بات پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ موت کے وقت روح بدن سے جدا ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھر ہماری ہی طرف لو ٹا ئے جا ؤ گے۔ ( العنکبوت :۵۷) گویا مرتے ہی روح بدن سے پوری طرح الگ ہو جاتی ہے اور نگاہ اس کا پیچھا کرتی ہے جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ’’دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ، فَأَغْمَضَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللہ کے رسول ﷺ ابو سلمہ کے پاس آئے اس حال میں کہ ان کی نگاہ پھٹی ہو ئی تھی تو انہوں نے اسے بند کردیا پھر کہا: إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ‘‘ کہ جب روح قبض کر لی جاتی ہے تو نگاہیں اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔ (صحیح مسلم : ۹۲۰ ، سنن أبی داؤد : ۳۱۱۸، سنن ابن ماجۃ : ۱۴۵۴) گویا بدن کی طرح روح کی موت نہیں آتی بلکہ روح کی موت اس کا بدن سے الگ ہو جانا ہے ۔
ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ موت کے وقت فرشتے بدن سے روحیں نکالتے ہیں تو ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے یا ان پر عذاب نازل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا{ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ} اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔(الأنعام :۹۳)
گویا فرشتہ روح نکالتا ہے پھر اس پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے یا اس پر عذاب نازل ہوتا ہے جس طرح جسم پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ براء بن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرَ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ: ہم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک انصاری آدمی کے جنازہ میں نکلے اور قبر تک پہونچ گئے لیکن قبر اب تک تیار نہیں ہو ئی تھی تو اللہ کے رسول ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے پاس بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے ہو ں، ان کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھےکہ اچانک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور دو یاتین مرتبہ کہا کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو پھر کہا: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنَ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الشَّمْسُ، مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، اخْرُجِي إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ. قَالَ: فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَأْخُذُوهَا، فَيَجْعَلُوهَا فِي ذَلِكَ الْكَفَنِ، وَفِي ذَلِكَ الْحَنُوطِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْيَبِ نَفْحَةِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ قَالَ: فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ، يَعْنِي بِهَا، عَلَى مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الطَّيِّبُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانُوا يُسَمُّونَهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يَنْتَهُوا بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ فَيُشَيِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي تَلِيهَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ، وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ، وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ، وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى .قَالَ: فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ‘‘ کہ مومن بندہ جب دنیا سے کٹ کر آخرت کو روانہ ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سفید چہرے والے فرشتے آتے ہیں ، ان کا چہرہ سورج کی طرح ہوتا ہے ، ان کے ساتھ جنتی کفن ہوتا ہے ،جنتی خوشبو ہوتا ہے ، وہ اس کے پاس اس کی نگاہ کی حد تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ السلام آتےہیں حتی کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے پاک نفس !تو اللہ کے مغفرت اورخوشنودی کی طرف نکل ، فر ماتے ہیں کہ وہ آرام سے آہستہ آہستہ ایسے ہی نکلتی جیسے قطرہ مشکیزے سے نکلتا ہےاور وہ اسے لے لیتے ہیں، جب وہ اسے لےجاتے ہیں تو پلک جھپکنے کے برابر ان کے ساتھی اسے لےکر اسی کفن اور اسی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں، اس سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹتی ہے جو پوری زمین پر محسوس کی جاتی ہے، فر ماتے ہیں کہ وہ اسے لے کر (آسمان پر)چڑھتے ہیں ، وہ نہیں گزرتے ہیں کہ فرشتوں کی جماعت سے مگر یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کس کی ہے ؟ یہ کہتے ہیں کہ فلاں ابن فلاں کی ، اس کا وہی پیارا نام لیتے ہیں جس سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھاحتی کہ اسے لے کر یہ سب آسمان دنیا تک پہونچ جاتے ہیں اور اس کے لئے (دروازہ)کھولواتے ہیں تو کھولا جاتا ہے(کھولتے ہی )شروع سے آخر تک ہر آسمان کےمقرب اس کے ساتھ یکساں بر تاؤ کرتے ہیں حتی کہ وہ اسے ساتویں آسمان تک لے کر پہونچ جاتے ہیں تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میرے بندے کے اعمال علییں میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیوں کہ اسی سے میں نے انہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں لو ٹا ئیں گے اور اسی سے دو بارہ نکا لیں گے ، فرماتے ہیں کہ تو ان کی روح ان کے جسم میں لو ٹا دی جاتی ہے۔ (سنن أبی داؤد: ۳۲۱۲، سنن النسائی :۲۰۰۱، سنن ابن ماجہ :۱۵۴۸، مسند أبوداؤد الطیالسی :۷۸۹ ، مصنف عبد الرزاق :۶۳۲۴، ۶۷۳۷، مسند أحمد :۱۸۵۳۴، اور یہ الفاظ اسی کے ہیں ) مذکورہ روایت میں نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ روح نکلتی ہے ، بہتی ہے ، قبض کی جاتی ہے کفنا ئی جاتی ہے ،اسے اوپرلے جایا جاتا ہے پھر اسے واپس کر دیا جا تا ہے اور یہ سب مخلوق کی شان ہے۔
اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ بدن سے الگ ہو نے کے بعد روح یا تو نعمتوں میں قرار پاتی ہے یاتا قیامت عذاب الہی سے دو چار ہوتی ہے جیسا کہ کعب بن مالک فر ماتے ہیں کہ ’’إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘ مومن کی جان جنت کے درختوں میں اڑ تی رہے گی تا آنکہ اللہ عزوجل بروز قیامت اسے اس کے جسم میں بھیج دے۔ (سنن النسائی :۲۰۷۳، جامع الترمذی :۱۶۴۱، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۷۱، تفسیر عبد الرزاق: ۴۸۴، ۲۶۸۱، مسند الحمیدی :۸۹۷، مسند أحمد :۱۵۷۷۶، ۱۵۷۷۷)
اور مسروق فر ماتے ہیں کہ ہم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ}تم یہ نہ سمجھو کہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردیئے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔ [آل عمران: ۱۶۹] تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ‘‘جب ہم نے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں ، ان کے لئے عرش سے لٹکا ہوا قندیل ہے ، وہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی ہیں پھر اسی قندیل کے پاس واپس آجاتی ہیں۔ ( صحیح مسلم :۱۸۸۷، جامع الترمذی: ۳۰۱۱، سنن ابن ماجۃ ۲۸۰۱)