Applicable Translations English پښتو عربي

اسلام کا بیان

٭ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے محمد ﷺ پر یہی دین جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل کیا ہے ،اس کے کل تین مراتب ہیں (۱)اسلام (۲) ایمان (۳) احسان اور ان میں سے ہر ایک کے کئی ارکان ہیں جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَ تَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَ مَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ‘‘ ایک دن ہم اللہ کے رسول ﷺکے پاس بیٹھے ہو ئے تھے کہ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال نہایت کالے تھے، اس پر سفر کی کوئی نشانی ظاہر نہیںہو رہی تھی اور ہم میں سےاسے کو ئی پہچانتا بھی نہیں تھا، وہ نبی ﷺکے پاس آ کربیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے نبی ﷺکے گھٹنوں سے ملا دیا اوراپنی دونوں ہتھیلیاں ان کی دونوںرانوں پر رکھا ، پھر بولا: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتا ئیےتو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:اسلام یہ ہے کہ آپ گواہی دیںکہ اللہ کے سوا کو ئی معبود(برحق ) نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں ، زکوۃ ادا کریں ،ماہ رمضان کے روزے رکھیں اور اگر طاقت ہو تو خانہ کعبہ کا(کم از کم زندگی میں ایک بار) حج کریں، وہ بولا: سچ کہا آپ نے، ہمیں تعجب ہوا کہ و ہی ان سے پوچھتا بھی ہے پھر وہی کہتا بھی ہے کہ آپ نے سچ کہا ،پھربولا: مجھے ایمان کے بارے میں بتاؤ ، فر مایا :اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پراور یوم آخرت پر ایمان لانا اور اس بات پر بھی ایمان لانا کہ تقدیر اچھی ہے یا بری(ایمان کہلاتا ہے) ، کہا آپ نے سچ کہا(آپ ﷺ نے )فر مایا: مجھے احسان کے بارے میں بتاؤ ، فر مایا آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہو اور اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں تو اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، فر مایا ‘ مجھے قیامت کے بارے میں بتا ؤ : فر مایا سائل سے زیادہ وہ نہیں جانتا ہے جس سے سوال کیا گیا ہے ، فر مایا مجھے اس کی نشانیوں کے بارے میں بتاؤ ، فر مایا لونڈی اپنی مالکن جنے گی، آپ دیکھیں گے ننگے بدن ، ننگے پاؤں والے،کنگال اور بکریاں چرانے والے فقیروں کوعمارتیں بنانے میں فخر محسوس کریں گے ، فر ماتے ہیں کہ پھر وہ چلا گیا تو میں کچھ دیر ٹھہرا پھر (آپﷺ ) نے مجھے کہا کہ اے عمر ! آپ کو معلوم ہے کہ وہ سائل کون تھا ؟(فر ماتے ہیں کہ)میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ، فر مایا وہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم :۸، سنن أبی داؤد :۴۶۹۵، جامع الترمذی :۲۶۱۰، سنن النسائی :۴۹۹۰، سنن ابن ماجۃ :۶۳)

اور ارکان اسلام کی وضاحت نبی اکرم ﷺ نے دوسری روایات میں بھی کیا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘‘ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود(برحق) نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں(۲)نماز قائم کرنا(۳)زکوۃ دینا(۴)حج کرنا(۵)رمضان کا روزہ رکھنا ۔ (صحیح بخاری :۸، صحیح مسلم :۱۶، جامع الترمذی :۲۶۰۹، سنن النسائی :۵۰۰۱) طلحہ بن عبید اللہ فر ماتے ہیں کہ’’جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ، يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلاَ يُفْقَهُ مَا يَقُولُ، حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي اليَوْمِ وَاللَّيْلَةِ. فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَصِيَامُ رَمَضَانَ. قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ:لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ. قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لاَ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ. قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلاَ أَنْقُصُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ‘‘ نجد والوں میں ایک شخص سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اوروہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا جووہ کہہ رہا تھا یہاں تک کہ وہ قریب ہوگیا،اچانک اس نے اسلام کے بارے میں پوچھاتواللہ کے رسولﷺ نے فرمایا دن اوررات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اس نے کہاکیا اس کے علاوہ مجھ پر کچھ اور ہے ؟ کہا : نہیں مگر یہ کہ تو نفل پڑھ لے، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا اور رمضان کے روزے رکھنا، اس نے کہااس کے علاوہ مجھ پر کچھ اور ہے ؟ کہا : نہیں مگر تو نفل رکھ لے، فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے اس سے زکوٰۃ کا تذکرہ کیا،وہ کہنے لگا کہ اس کے علاوہ مجھ پر کچھ اور ہے ؟کہا :نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دےدے، راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہو ئے چلا کہ قسم اللہ کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا ۔ (صحیح بخاری :۴۶، صحیح مسلم :۱۱، سنن أبی داؤد :۳۹۱، سنن النسائی :۴۵۸)

اور اللہ تعالی نےفر مایا {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ (البینۃ :۵ ) اور فر مایا { فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ :۵) اور فر مایا { فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ}اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ (التوبۃ :۱۱) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ‘‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں تا آ نکہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کریں ، زکوۃ ادا کریں ، اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے ۔ (صحیح بخاری :۲۵ ،صحیح مسلم :۲۲)

اور ابو موسی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول !کون سا اسلام سب سے افضل ہے؟تو آپ ﷺ نے فر مایا ’’ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ‘‘ جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری :۱۱، صحیح مسلم :۴۲، جامع الترمذی :۲۵۰۴، سنن النسائی : ۴۹۹۹)

ایک دوسری روایت میں یوں فر مایا ’’إِذَا أَسْلَمَ العَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلاَمُهُ، يُكَفِّرُ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ سَيِّئَةٍ كَانَ زَلَفَهَا، وَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ القِصَاصُ: الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّيِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهَا‘‘ جب بندہ اسلام لے آتا ہے اور اس کا اسلام بہتر ہوتا ہے تو اللہ اس سے ہر گناہ جو اس نے پہلے کیا تھا مٹا دیتا ہے ، اس کے بعد بدلہ ہے ایک نیکی کا اسی کے مثل دس سے لے کر سات سو گنا تک اور برا ئی کا اسی کے مثل الا یہ کہ اللہ اسے معاف کردے ۔ (صحیح بخاری :۴۱ ، معلقا ، سنن النسائی :۴۹۹۸)