Applicable Translations English پښتو عربي

ایمان

٭ہمارا ایمان ہے کہ دین کا دوسرا مرتبہ ایمان ہے، اس سے پہلےحدیث جبرئیل میں یہ بات آپ کو بتا دی گئی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ سےپہلے اسلام کی بابت پوچھا پھر ایمان کی بابت پوچھا جس سے یہ بات معلوم ہو ئی کہ دین کا دوسرا مرتبہ ایمان ہے ، آپ ﷺ نے فر مایا ’’فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ:أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَ أَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي:يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟قُلْتُ: اللهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ‘‘ مجھے ایمان کے بارے میں بتاؤ ، فرمایا :اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پراور یوم آخرت پر ایمان لانا اور اس بات پر بھی ایمان لانا کہ تقدیر اچھی ہے یا بری(ایمان کہلاتا ہے) ، کہا آپ نے سچ کہا(آپ ﷺ نے )فر مایا: مجھے احسان کے بارے میں بتاؤ ، فر مایا آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہو اور اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں تو اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، فر مایا :مجھے قیامت کے بارے میں بتا ؤ : فر مایا سائل سے زیادہ وہ نہیں جانتا ہے جس سے سوال کیا گیا ہے ، فر مایا مجھے اس کی نشانیوں کے بارے میں بتاؤ ، فر مایا لونڈی اپنی مالکن جنے گی، آپ دیکھیں گے ننگے بدن ، ننگے پاؤں والے،کنگال اور بکریاں چرانے والے فقیروں کوعمارتیں بنانے میں فخر محسوس کریں گے ، فر ماتے ہیں کہ پھر وہ چلا گیا تو میں کچھ دیر ٹھہرا پھر (آپﷺ ) نے مجھ سے پوچھا کہ اے عمر ! آپ کو معلوم ہے وہ سائل کون تھا ؟(فر ماتے ہیں کہ)میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ، فر مایا وہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم :۸، سنن أبی داؤد :۴۶۹۵، جامع الترمذی :۲۶۱۰، سنن النسائی :۴۹۹۰، سنن ابن ماجۃ :۶۳)

ایمان کا ایک خصوصی معنی ہے اور دوسرا عمومی ، خصوصی معنی تو گزشتہ روایت میں پیش کرتے ہو ئے نبی کریمﷺ نے فر مایا’’أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ‘‘اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پراور یوم آخرت پر ایمان لانا اور اس بات پر بھی ایمان لانا کہ تقدیر اچھی ہے یا بری(ایمان کہلاتا ہے)۔ اور عمومی معنی یہ ہے’’ھو جامع لکل خیر شامل لأعمال القلوب والجوارح ‘‘ ایمان ہر خیر کا جامع اور قلبی و بدنی اعمال کو شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۲) بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (۲) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۳) جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں(۳) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (۴)} سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے (۴)۔ (الأنفال :۲-۴)

اور اس کی تفسیر نبی کریم ﷺ نے وفد عبد القیس کے سامنے ظاہری شعائر سے کیا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ’’ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ القَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ القَوْمُ؟ - أَوْ مَنِ الوَفْدُ؟ - قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: مَرْحَبًا بِالقَوْمِ، أَوْ بِالوَفْدِ، غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ نَدَامَى، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الحَرَامِ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ، نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا، وَنَدْخُلْ بِهِ الجَنَّةَ، وَسَأَلُوهُ عَنِ الأَشْرِبَةِ: فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ: بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ، قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالمُزَفَّتِ، وَرُبَّمَا قَالَ: المُقَيَّرِ وَقَالَ: احْفَظُوهُنَّ وَ أَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ‘‘عبدالقیس کا وفد جب نبی ﷺکے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ ،آپ نے فرمایا خوش آمدید نہ ذلیل ہونے والے اورنہ شرمندہ ہونے والےقوم یا وفد کو،انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفارمضر کا یہ قبیلہ ہے،اس لئے آپ ہمیں ایسی بات بتا دیجئے کہ جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں اور اس کے ذریعہ ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انہوں نے ان سے پینے کے بارے میں بھی پوچھا،تو آپ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے منع کیا، ان کو حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لاؤ پھر آپ نے پوچھا کہ کیاتم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کوزیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور محمد اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ ( بیت المال میں) دینا اور چارسے انہیںمنع کیا، سبزگھڑے سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو یادکر لو اورجو پیچھے رہ گئے ہیں ، یہاں نہیں آئے ہیں انہیں بھی بتا دو ۔ (صحیح بخاری :۵۳، صحیح مسلم :۱۷، سنن أبی داؤد :۳۶۹۲، جامع الترمذی :۲۶۱۱، سنن النسائی :۵۰۳۱)

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیاہے’’بَابُ أُمُورِ الإِيمَانِ‘‘ ایمان کے کاموں کا بیان، اس کے تحت اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے {لَيْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ المَشْرِقِ وَ المَغْرِبِ، وَلَكِنَّ البِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَالمَلاَئِكَةِ وَ الكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى المَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي القُرْبَى وَاليَتَامَى وَالمَسَاكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ، وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَالمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا، وَالصَّابِرِينَ فِي البَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِينَ البَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ المُتَّقُونَ}ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃکی ادائیگی کرے، جب وعدہکرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ [البقرة: ۱۷۷]

ہمارا ایمان ہے کہ قول و عمل اور اعتقاد ہی کا نام ایمان ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا ’’الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ - أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ - شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ‘‘ایمان کی ساٹھ یا ستر شاخیں ہیں ، ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنا اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔  ( صحیح بخاری :۹، صحیح مسلم ۳۵ ، اور الفاظ اسی کے ہیں ، سنن أبی داؤد : ۴۶۷۶، جامع الترمذی ۲۶۱۴، سنن النسائی : ۵۰۰۵ ، سنن ابن ماجۃ :۵۷)

٭ہمارا ایمان ہے کہ اہل ایمان کو حسب اعمال ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہےجیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ. فَيُخْرَجُونَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرِ الحَيَا، أَوِ الحَيَاةِ - شَكَّ مَالِكٌ - فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الحِبَّةُ فِي جَانِبِ السَّيْلِ، أَلَمْ تَرَ أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً‘‘ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزح میں داخل ہو جا ئیں گے تو اللہ تعالی کہے گا کہ اسے دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان تھا تو انہیں نکال لیا جا ئے گا اس حال میں کہ وہ سیاہ ہو چکے ہوں گے پھر انہیں زندگی کے نہر میں ڈال دیا جا ئے گا تو وہ اگیں گے جیسے در یا کے کنارے دانے اگتے ہیں ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے؟ (صحیح بخاری :۲۲، صحیح مسلم :۱۸۴)

ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ، مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ. قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الدِّينَ‘‘ میں سو رہا تھا کہ (بحالت خواب ) دیکھاکہ لوگ مجھ پر پیش کئے جا رہے ہیں اور ان پر قمیصیں ہیں ، اس میں سے بعض کی چھاتی تک پہونچتی ہے اور بعض کی اس سے کم اور مجھ پر عمر بن خطاب پیش کئے گئے اس حال میں کہ ان پر ایسی قمیص تھی جسے وہ کھینچ رہے تھے ، لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تاویل کیا ؟ فر مایا :دین۔ (صحیح بخاری:۲۳،صحیح مسلم ۲۳۹۰،جامع الترمذی :۲۲۸۵،سنن النسائی :۵۰۱۱ )

٭ہم یہ مانتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے ، اطاعت و فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور نا فرنی سے گھٹتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى }ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں،یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان ﻻئے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ۔ (الکھف :۱۳) اور فر مایا {وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا } اوراہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے۔ (المدثر :۳۱)

اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ‘‘ لا الہ الا اللہ کہنے والا دوزخ سے نکلے گا اس حال میں کہ اس کے دل میں جو برابر خیر ہوگا،لا الہ الا اللہ کہنے والا دوزخ سے نکلے گا اس حال میں کہ اس کے دل میں گیہو برابر خیر ہوگااورلا الہ الا اللہ کہنے والا دوزخ سے نکلے گااس حال میں کہ اس کے دل میں ذرہ برابر خیر ہوگا۔ (صحیح بخاری :۴۴، صحیح مسلم : ۱۹۳، جامع الترمذی : ۲۵۹۳)

عمر بن عبد العزیز نے عدی بن عدی کو لکھا کہ ’’إِنَّ لِلْإِيمَانِ فَرَائِضَ، وَشَرَائِعَ، وَحُدُودًا، وَسُنَنًا، فَمَنِ اسْتَكْمَلَهَا اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَكْمِلْهَا لَمْ يَسْتَكْمِلِ الإِيمَانَ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَيِّنُهَا لَكُمْ حَتَّى تَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنْ أَمُتْ فَمَا أَنَا عَلَى صُحْبَتِكُمْ بِحَرِيصٍ‘‘ ایمان کے کچھ فرائض ، ضابطے، حدود اور سنتیں ہیں جس نے انہیں مکمل کیا اس نے ایمان مکمل کیا اور جس نے انہیں مکمل نہیں کیا اس نے ایمان مکمل نہیں کیا، اگر میں زندہ رہا تو تمہارے سامنے اس کی وضاحت کر دوںگا تاکہ تم سب اس پر عمل کر سکو اور اگر مر گیا تو (جان لو ) کہ میں تمہاری صحبت پر حریص نہیں ہوں۔ (صحیح بخاری : ۱؍۱۰، مصنف ابن أبی شیبۃ :۳۱۰۸۴، كتاب الإيمان لإبن أبی شیبۃ :۱۳۵، السنۃ لأبی بکر إبن الخلال :۱۱۶۲، ۱۵۵۳، الإبانة الكبرى لابن بطة:۱۱۶۲، شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي:۱۵۷۲)

معمر ، سفیان ثوری ، مالک بن انس ،ابن جریج اور سفیان بن عیینہ فر ماتے ہیں ’’الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ‘‘ ایمان قول و عمل کا نام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا رہتاہے ۔ (الإبانۃ الکبری لإبن بطۃ:۲؍۸۰۶، الشریعۃ للآجری :۲؍۶۰۶)

حافظ ابو بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی فر ماتے ہیں ’’وأن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص، ولا ينفع قول إلا بعمل، ولا عمل وقول إلا بنية، ولا قول وعمل بنية إلا بسنة‘‘ ایمان قول و عمل کا نام ہے اور گھٹتا بڑھتا ہے بلا عمل کو ئی قول نفع بخش نہیں ہوگا اور کو ئی بھی قول و عمل بغیر نیت کے نفع بخش نہیں ہوگا اور کو ئی بھی قول و عمل اور نیت بغیرسنت کے نفع بخش نہیں ہوگا ۔ (أصول السنۃ للحمیدی:ص:۳۷)

اور خلال فر ماتے ہیںکہ مجھے عبد الملک المیمون نے بتایا اور وہ فر ماتے ہیں کہ مجھے ساٹھ سال سے زیادہ پہلے یہ بات کہا تھا ’’الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، وَإِنَّ الَّذِي يَصُومُ وَيُصَلِّي وَيَفْعَلُ الصَّالِحَاتِ أَكْثَرُ إِيمَانًا مِنَ الَّذِي يَسْرِقُ وَيَزْنِي‘‘ ایمان قول و عمل کا نام ہے ، جو روزہ رکھتا ہے ، نماز پڑھتا ہے اور نیکیاں کرتا ہے اس کا ایمان اس کے بالمقابل زیادہ ہوگا جو چوری اور زنا کرے گا ۔ ( السنۃ لأبی بکر إبن الخلال :۱۰۳۹)

اور ابن أبی حاتم فر ماتے ہیں ’’سألت أبي وأبا زرعة عن مذاهب أهل السنة في أصول الدين، وما أدركا عليه العلماء في جميع الأمصار، و ما يعتقدان من ذلك؟فقالا: أدركنا العلماء في جميع الأنصار حجازاً وعراقاً وشاماً ويمناً فكان من مذهبهم: الإيمان قول وعمل، يزيد و ينقص‘‘میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے اصول دین میں اہل السنہ کے مذاہب کے بارے میں سوال کیااور یہ بھی پوچھا جس پر ان دونوں نے دیگر ممالک میں علماء کو پایا ہے اور اس سلسلےمیں ان دونوں کا جو عقیدہ ہے ؟ تو دونوں نے کہا کہ ہم نے تمام ممالک میں مثلا حجاز ، عراق ،شام اور یمن میں جن علماء کو پایا ان کا مذہب تھا ایمان قول وعمل کا نام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ (شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ و الجماعۃ:۱؍۱۹۸، عقیدۃ السلف -مقدمۃ أبی زید القیروانی لکتابہ الرسالۃ:ص:۲۹)

امام لالکائی فر ماتے ہیں کہ ’’الإيمان قول وعمل‘‘ ایمان قول وعمل کا نام ہے ۔ اور یہی بات کئی فقہاء نے کہا ہے جیسے مالک بن انس ، عبد العزیز بن أبو سلمہ الماجشون ، لیث بن سعد ، اوزاعی ، سعید بن عبد العزیز ، ابن جریج ، سفیان بن عیینہ ، فضیل بن عیاض ، نافع بن عمر الجمحی ، محمد بن مسلم الطائفی ، محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان ، المثنی بن الصباح ، الشافعی ، عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی ، ابو ابراہیم المزنی، سفیان ثوری ، شریک ، ابو بکر بن عیاش ، وکیع ، حماد بن سلمہ ، حماد بن زید ، یحیی بن سعید القطان ، عبد اللہ بن المبارک ، ابو اسحاق الفزاری ، النضر بن محمد المروزی ، النضر بن شمیل ، أحمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابو ثور اور ابو عبید۔ (شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ للإمام اللکائی:۴؍۹۱۳)

ابو عبد اللہ ابن أبی زمنین نے اپنی کتاب ’’أصول السنۃ ‘‘ میں لکھا ہے ’’باب فِي أَنَّ اَلْإِيمَانَ قَوْلٌ وَعَمَلٌ:وَمِنْ قَوْلِ أَهْلِ اَلسُّنَّةِ أَنَّ اَلْإِيمَانَ إِخْلَاصٌ لِلَّهِ بِالْقُلُوبِ وَشَهَادَةٌ بِالْأَلْسِنَةِ وَعَمَلٌ بِالْجَوَارِحِ، عَلَى نِيَّةٍ حَسَنَةٍ وَإِصَابَةِ اَلسُّنَّةِ‘‘ باب ہے اس سلسلے میں کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے اور اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ دلوں کو اللہ کے لئے خالص کرنے ، زبان سے گواہی دینے اور سنت صحیحہ اور نیت حسنہ کے مطابق جسمانی اعضاء سے عمل کرنے کا نام ایمان ہے۔ (أصول السنۃ :ص:۲۰۷)