کتاب و سنت کو لا زم پکڑنے ،اس پر چلنے، اس کی مخالفت نہ کرنے اور اختلاف و انتشار سے بچنےکی بے شمار دلیلیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں، مندرجہ ذیل سطور میں چند دلیلیں ملاحظہ کریں :۔ اللہ تعالی نے فر مایا {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ۔ (الأحزاب :۲۱) اور فر مایا {إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ} بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے (١) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (الأنعام :۱۵۹) ایک اور مقام پر فر مایا {شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ }اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہےاور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔ (الشوری :۱۳)
اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘ اما بعد ! سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد کی ہدایت ہے اور سارے امور میں سب سے بری نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (صحیح مسلم :۸۶۷، سنن النسائی :۱۵۷۸، سنن أبی داؤد :۲۹۵۴، سنن ابن ماجۃ :۴۵)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا’’كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى‘‘ میری امت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا سوائے اس کے جس نے انکار کیا، لوگوں نے کہا :اے اللہ کے رسول !کس نے انکار کیا ؟ فر مایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نا فر مانی کی اس نے انکار کیا ۔ (صحیح بخاری : ۷۲۸۰ )
اور عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ ’’وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا العُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا القُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَ الطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد ایک ایسی بلیغ نصیحت کیا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اوردل دہل گئے تو ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! (لگتا ہے)یہ الوداعی نصیحت ہے لہذا آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟فر مایا میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا ، اپنے آپ کونئے نئے امور سے بچاؤ کیوں کہ وہ گمراہی ہے، تم میں سے جو اس زمانے کوپا ئے اس پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کا پکڑنا لازم ہے ، اسے تم سب ڈاڑھوں سے پکڑ لینا۔ (سنن أبی داؤد: ۴۶۰۷، جامع الترمذی :۲۶۷۶، سنن ابن ماجۃ :۴۲، مسند أحمد : ۱۷۴۱۶، سنن الدارمی :۹۶، اور اسےامام ترمذی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے )
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں’’کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ ‘‘ کے تحت ایک باب قائم کیا ہے ’’باب الإقتداءبسنن رسول اللہ ﷺ ‘‘ اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں کی اقتدا کا بیان ۔ اور اللہ تعالی نے فر مایا { وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}اورہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔(الفرقان :۷۴) فر ماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ’’ أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا‘‘ ہمیں ایسا امام بنادے کہ ہم اپنے سے پہلےوالوں کی اقتداکریں اور ہمارے بعد والے ہماری پیروی کریں ۔ اور ابن عون فر ماتے ہیں ’’ ثَلَاثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلِإِخْوَانِي هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ يَتَعَلَّمُوهَا وَيَسْأَلُوا عَنْهَا وَالْقُرْآنُ أَنْ يَتَفَهَّمُوهُ وَيَسْأَلُوا عَنْهُ وَيَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ‘‘تین چیزیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھا ئیوں کے لئے پسند کرتا ہوں (۱)یہی سنت ہے کہ لوگ اسے سیکھیں اور اس کے بارے میں پوچھیں (۲)قرآن ہے کہ اسے سمجھیں اور اس کے بارے میں پوچھیں (۳)اور لوگوں کو صرف بھلائی کی طرف بلا ئیں ۔ (صحيح البخاري (8/ 139).)