ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی سب سے پہلے ہے ، اس کے پہلے کو ئی چیز نہیں اور اللہ ہی سب سے آخر ہے ، اس کے بعد کو ئی چیز نہیں ، جب ہم اللہ کا تعارف پیش کرتے ہیںتو کہتے ہیں کہ وہی آسمان اور زمین کا خالق ہے ، وہی آسمان اور زمین کا حقیقی مالک ہے ، وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، یہ موجودہ کائنات اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا ئنات کا موجد اور خالق وہی اکیلا اللہ ہے ، اس کے علاوہ کو ئی اور اس کا خالق نہیں ہے ۔
اسی لئے وہ نشانیاںبھی ذکر کر دی گئیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کا ئنات کا موجد اور خالق وہی اللہ ہے اور دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے اور اللہ تعالی نےہم پر اسی چیز کے ذریعہ حجت قائم کیا ہے جو ہم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں ۔
ہمارا ان تمام چیزوں پر ایمان ہے جن پر انبیاءو رسل کاایمان تھا اور اللہ سبحانہ و تعالی کے وجود پر دلالت کرنے والی تمام دلیلوں پر ہمارا یقین ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کوبھی بے کار پیدا نہیں کیا اور اس کی تخلیق اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عمدہ تخلیق ہے ۔
اس کے علاوہ اللہ تعالی کے وجود اور اس کی ربوبیت پر دلالت کرنے والی اور بھی بہت سے بے شمار دلائل و شواہدقرآن مجید میں موجود ہیں اور یہ ساری دلیلیں عقلی ہیں اور اہم ہیں ،اگر کوئی ان کی طرح یا ان سے ملتی جلتی کوئی اور دلیل لانا چاہے تو نہیں لا سکتا اور یہ ساری چیزیں مخلوق کے موافق ہیں اورسب بطوردلیل کافی ہیں ، گرچہ کافراس کاانکار کریں اورباطل پرست انہیںنا پسند کریں ، در اصل کافروں کے پاس سوائے انکار کے کوئی اوردلیل ہی نہیں ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اپنی ربوبیت میں اللہ ایک ہے ، وہی اکیلا خالق ہے ، اسی نے تخلیق کی ابتدا کیا اور اس کی تخلیق میں اس کاکو ئی شریک نہیں ہے ، اللہ تعالی اپنے حکم سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور اسی کے ساتھ حسب منشا اسباب پیدا کرتا ہے ، اس کے علاوہ تمام چیزیں مخلوق ہیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا رب ، خالق اور مدبرہے ، وہی اس کا خالق اور مالک ہے ، وہی اس میں تصرف کرنے والا ہے ، اس کے حکم اور اس کی تدبیر میں یا اس کے علاوہ کی تدبیر میں کسی کی ملکیت نہیں ہے سوا ئے اس کے جسے اللہ اس پر مقدر کردے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ وہی حقیقی مالک ہے ، اس کے علاوہ سب مملوک ہیں ، اس کے علاوہ ہر بادشاہ کی ملکیت باطل ہے یا مؤقت اور زائل ہونے والی ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اکیلا اللہ ہی زندہ کرنے اور مارنے والا ہے ، اسی نے موت و حیات کو پیدا کیا ، اور وہی لوگوں کو موت سے دوچار کرتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ وہی رزاق اور ذو القوۃ المتین ہے ، اس کے علاوہ کو ئی روزی رساں نہیں ہے اور نہ اس کے علاوہ کو ئی کفایت کرنے والا ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے علمی اعتبار سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہے ، چھوٹی ہو یا بڑی ہر چیز کا جاننے والا ہے ، وہی غیب اور شہادت کا جاننے والا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ وہ عزت اور حکم کے اعتبار سے ہر چیز پر غالب ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جل شانہ ہی کے لئے پیدا کرنا اور حکم دینا ہے ، اس کے علاوہ کو ئی رب نہیں ہے ، اس کے علاوہ شریعت سازی کا حق دارکوئی نہیں ہے ، وہی شریعت سازی کرتا ہے ، فرائض سے روشنا س کراتا ہے ، دین کی وضاحت کرتا ہے ، وہی اللہ ساری مخلوق کا خالق ہے ، اسی نے ان کے لئے احکام مرتب کیا ہے، وہی ان کا مالک ہے اور وہی اکیلا ان کے حساب و کتاب پر قادر اور مستحق ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی بندوں کا بھی خالق ہے اور بندوںکے افعال کا بھی خالق ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ مومن ہونے کے لئے انسان کا صرف توحید ربوبیت پر ایمان لے آنا کافی نہیں ہے ، توحید ربوبیت صرف جنت میں داخلہ نہیں دلا سکتابلکہ اللہ کے حقیقی معبودہونے پر ایمان لانا ضروری ہے یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جا ئے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جا ئے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اپنی الوہیت میں بھی یکتا اور اکیلا ہے ، اس کے سوا کو ئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس کا کو ئی شریک نہیں ، وہی حق ہے ، اس کے علاوہ جسے لوگ پکارتے ہیں وہ باطل ہے ، یہ بہت بڑا امر ہے اور اسی لئے اللہ تعالی نے کتابیں نا زل کیا ، رسولوں کو مبعوث کیا ، جنت اور جہنم پیدا کیا ، اس پر تمام جمہور علماء کا اتفاق ہے اور فطرت سلیمہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ، عقل سلیمہ نے اسی کی گواہی دیا ہے ، ہمیں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ معلوم ہے کہ تمام انبیاء کے دعوت کی بنیاد یہی توحید ہوا کرتی تھی ، سارے نبیوں نے اپنی امت کو یہی دعوت دیا کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سو ا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔
اور یہ بات یاد رہے کہ وہی عبادت حقیقی عبادت ہوگی جو اللہ رب العالمین کے لئے ہو اور جو نبی اکرم ﷺ کی سنت کے موافق ہو کیوں کہ اللہ کے علاوہ ہر معبود کی عبادت باطل ہے ۔
یعنی تنہا اللہ کے لئے الوہیت کو ثابت کرنا اور اس کے علاوہ کی عبادت کا انکار کرنا ہی دین الہی کی مضبوط بنیاد اور رکن رکین ہے، یہی دین کا محور و مرکز اور دعوت انبیاء کی اساس ہے یعنی مخلوق کے تمام اعمال کا خالق اکیلا اللہ ہے ۔
قرآن مجید میں توحید ربوبیت پر دلالت کرنے والی بہت ساری آیتیںجنہیں اللہ بندوں پر بطور دلیل پیش کرتا ہےوہ اللہ واحدکی عبادت یعنی توحید الوہیت کوبھی مستلزم ہیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ واحد ہی کائنات کی تمام بڑی بڑی نشانیوں کا خالق ہےاورجب اس کے علا وہ کوئی اور خالق نہیں ہے تو اس کے علاوہ کوئی اور عبادت کے لائق بھی نہیں ہے ۔
اللہ تعالی نے توحید الوہیت کے سلسلے میں ساری دلیلیں مختلف انداز میں پیش کیا ہے تاکہ ان پر حجت قائم کیا جا سکے اور ان پر حجت تمام ہو سکے اور اس لئے بھی کہ لوگوں کے لئے اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے ۔
توحید الوہیت کا اقرار اور نبی ﷺکے رسالت کی گواہی پر ہی جان و مال اور عزت کی حفاظت ہے ۔
اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ طاغوت ،شرک اوراہل شرک کا انکار بھی ضروری ہے
اور ایمان کا دل میں ہونا کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے اس کااقرار کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے کیوں عمل بالأرکان کے بغیر ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوگا ، دل میں موجود ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے ۔
ایمان کے سلسلےمیں بندے کا اللہ رب العالمین کے لئے مخلص ہونا ضروری ہےیعنی بندے کو پورا یقین ہو، کسی بھی قسم کاکوئی شبہ نہ ہو ، اس کا ایمان علم ، اخلاص ، قبول ،فرماں برداری ، انقیاد اور قولی و فعلی ہر اعتبار سے سچائی پر مشتمل ہو ، ساتھ ساتھ اس دین سے، اس دین کے قوانین سے، اس دین کے لانے والے اور اس دین کی اتباع کرنے والے سے محبت ہو ۔
جس طرح اللہ تعالی نے ایمان کی حقیقت ، اس کا تقاضا اور اس کے ارکان اور شروط کی وضاحت کردیاہے اسی طرح مشرکین کے شبہے کا ازالہ بھی کردیا ہے اوربتا دیا ہےکہ ان کے پاس ان کے شرکیہ اعمال میں کوئی حجت نہیں ہے کیوں کہ یہ جنہیں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ سب مخلوق ہیں ،وہ کچھ پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں ، وہ آسمان اور زمین میں ذرہ برابر کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں ۔
اللہ تعالی نے واضـح کردیا ہے کہ یہ شرکاء جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے وہ کسی پکارنے والے کی پکار نہیں سن سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے ، بروز قیامت یہ شرکاء ان کے شرک کا انکار اور ان سے برأت کا اظہار کریں گے ۔
اسی طرح اللہ تعالی نےیہ بھی واضـح کردیا ہے کہ یہ شرکاء جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے وہ نفع و نقصان سے دو چارنہیں کر سکتے ہیں تو جب ان معبودان باطلہ کی یہ کیفیت ہے تو وہ اللہ کے علاوہ عبادت کے لا ئق کیسے ہو ئے ؟
اللہ تعالی نے فرشتوں کی عبادت کو باطل قرار دے کر یہ بتا دیا کہ اللہ کے اتنا قریب ہونے کے باوجود فرشتے بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکتے ، توجب فرشتوں کی یہ حالت ہے تو جن کی عبادت اللہ کے علاوہ کی جاتی ہےوہ عبادت کے لا ئق کیسے ہو ں گے ؟
اسی طرح انبیاء و رسل بھی جن کا مقام دنیا و آخرت میں کافی بلند ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو وہ شخص کیسے ہوگا جو ان سے بھی مرتبہ میں کم ہے ؟
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اپنی صفات و کمالات اور اپنی جلالت میں یکتا اور اکیلا ہے ، اللہ تعالی ہی کے لئے اچھے اچھے نام اور بہترین صفات ہیں ، عقل کاملہ اس بات پر شاہد اور فطرت سلیمہ اسے قبول کرتی ہےاور تمام علماء امت کااس بات پر اجماع بھی ہے بلکہ ہر پیغام الہی میں اللہ کے صفات ، أسماء اور اس کے افعال کی جھلک موجود ہے ، اللہ تعالی نے مشرکین کے بنے بنا ئے معبودوں کی عیب جو ئی کرتے ہو ئے فرمایا کہ وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اسی طرح ہے جس طرح اس نےاور اس کے رسول نے بیان کیا ہےبلکہ بندوں کے بیان سے اللہ کی ذات کہیں زیادہ فائق و برتر ہے ، اس کے مثل کو ئی چیز نہیں ہے ، وہ سننے اور دیکھنے والا ہے ، اس لئے ہم اللہ کےلئے وہی ثابت کرتے ہیں جو اس نے اپنے تئیںاور اس کے رسول ﷺ نے اس کے تئیں بیان کیا اور بلا تعطیل ، بلا تمثیل ، بلا تکییف ، اور بلا تحریف ہم ان تمام کا انکار کرتے ہیں جن کا انکار خود اللہ نےاپنے تئیں اور اس کے رسول نےاس کے تئیں کیا ہے ۔
ہمیں یقینی طورپر یہ معلوم ہے کہ مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی اللہ ان تمام صفات سے متصف تھا ، وہ اجل سے ابد تک انتہا ئی درجے کے کمال ، جلال اور جمال پر فائز ہے ، وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، اس کے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور نہ اس کے بعد ہی کوئی چیز ہے ، اسماء و صفات میں کمال اور بزرگی کو پہونچنے والا وہی سب سے پہلی اور آخری ذات ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات کا تعلق اس کی ذات سے ہے جیسے حیات(زندگی) ، علم(جاننا)، سمع (سننا ) ، بصر (دیکھنا ) ، ید (ہاتھ ) ، قبضہ (پکڑنا) اور أصابع ( انگلیاں ) اور بعض کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے جیسے غضب (غصہ ) ، رضا (خوشنودی ) اور نزول (اترنا ) ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ فعال لما یرید ہے ، وہ جو چاہے ، جب چاہے ، جیسا چاہے کر سکتا ہے ، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کردے ، اس کے حکم کو کو ئی ٹالنے والا نہیں ، اس کے قضاء اور اس کے حکم پر کو ئی تعاقب نہیں کر سکتا۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی بعض صفات مطلق وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہم انہیں ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں جیسے وہ وارد ہو ئے ہیں جیسے سمع ، حیات اور بصروغیرہ ، اور بعض مقید وارد ہو ئے ہیں اور جو مقید وارد ہو ئے ہیں وہ اسی قید کے ساتھ باقی رہتے ہیں جیسے اللہ تعالی کی ایک صفت یہ ہے کہ جب اس کے دشمن اس کے ساتھ مکر کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ مکر کرتا ہےاور جب اس کے دشمن اسے بھول جاتے ہیں تو وہ بھی انہیں بھلا دیتا ہے ۔
اللہ تعالی کی چند صفات یہ ہیں : علم ، سمع ، حیات ، بصر ، قیومیت اور کلام ، اللہ تعالی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی سے صفت کلام (بات کرنا)سے متصف تھا ، وہ پہلے ہی سے لوگوں سے کلام کرتا تھا اور اللہ تعالی کے کلام کا تعلق اس کی مشیئت سے ہے ، وہ جب چاہتاہے بات کرتا ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالی کی صفت کلام کے حوالے سے کئی اعتبار سے کئی خبریں وارد ہو ئی ہیں اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے ، ان کی سر گوشی کرتا ہے ، ان میں سے جسے چاہتا ہے پکارتا ہے ، بروز قیامت بھی تمام مخلوق سے بات کرےگا ،تمام مخلوق اللہ کی بات سنے گی ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے خود کو اپنی مخلوق سے نور کےحجاب میں چھپا لیا ہے ، اس لئے دنیا میں اسے کو ئی نہیں دیکھ سکتا ، بعض نبیوں نے اس کی بات کو سنا ہے کیوں کہ اس نے ان نبیوں سے پردے کے پیچھے سے بات کیا ہے جیسا کہ موسی علیہ ا لسلام نے بات کیا ۔
اللہ تعالی کی بعض بات بعض کے مقابلے نئی اور بعض بعض سے افضل ہوتی ہے ۔
اللہ کے کلام میں قرآن اور ہر وہ کتاب شامل ہے جو من جانب اللہ رسولوں پر نازل ہو ئی ہیںجیسے صحف ابراہیم ، صحف موسی ، تورات ، انجیل اور زبور ، یہ سب اللہ کا کلام ہیں اور تمام کے ذریعہ اللہ نے بات کیا ہے ، اسے جبرئیل علیہ السلام نے بلا واسطہ اللہ سے سنا اور یہی لے کرجبرئیل علیہ السلام تمام انبیاء ورسل علیہم السلام پر نازل ہو ئےالبتہ دیگر کتابوں کے مقابلے تورات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے تختیوں پر لکھا ہوا نازل کیا ، اللہ کا کلام اور اس کے کلمات مخلوق نہیں ہیں ، کلام الہی کی تخلیق نہیں ہو ئی ہے ، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ خلق اور امر کے درمیان فصل ہے ، ہم اللہ کے شرعی اور کونی کلام کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔
اوراللہ کی بعض صفات یہ ہیں :العزۃ (عزت) ،القہر( قہر) ،الجبروت( جبروت) ، الملکوت( ملکوت) ،الکبریاء(کبریاء)،العظمۃ( عظمت ) ، الإرادۃ( ارادہ) ،ا لمشیئۃ( مشیئت)، القدرۃ (قدرت )اورالرحمۃ( رحمت )۔ رحمت بھی اللہ کی ایک صفت ہے ، اسی لئے اس کی اضافت اللہ کی طرف کی گئی ہےاورچونکہ اللہ موصوف ہے ، گویا یہ اضافۃ الصفۃ إلی الموصوف ہے ۔
اللہ تعالی کی ایک صفت العلو(بلند ہونا) بھی ہےیعنی اللہ تعالی اپنے ہر کام میں ،ہر صفات میں اور اپنی ذات میں بلند و بالا ہے ،مثلا اللہ تعالی قہار ہے تو وہ اپنی اس صفت قہر میں بلند وبالاہے ، اللہ قادر ہے تو وہ اپنی اس صفت قدرت میں بلند وبالاہے، اسی طرح وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی بلند وبالاہے اور یہ تمام صفتیں اللہ تعالی کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، قرآن مجید ،سنت نبوی ﷺ، عقل اور فطرت نے کئی اعتبار سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بلند ہے بلکہ اللہ تعالی کے بلند وبالا ہونے پر دلالت کرنے والی دلیلوں کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں اورپھر ہرقسم کی نا قابل شمار قسمیں ہیں ۔
اللہ تعالی کی ایک صفت الإستواء علی العرش یعنی عرش پر مستوی ہونا بھی ہے اور اس صفت کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سات مقام پر کیا ہے
اسی طرح اللہ تعالی کی ایک صفت المحبۃ یعنی محبت کرنا اور ایک صفت الرضا ءیعنی خوش ہونا اور ایک صفت کراھیتہ لأعداء یعنی دشمنوں کو نا پسند کرنا بھی ہےکیوںکہ انہوں نےاللہ کے رسول ﷺ پر نازل کردہ احکام اورخوشنودئ الہی کو نا پسندکیا ۔
اللہ کی ایک صفت الغضب علی أعدائہ والمقت یعنی دشمنوں پر غصہ اور ناراض ہونا بھی ہے کیوں کہ کافروں سے وہ ناراض ہے ۔
اللہ کی ایک صفت مکرہ بأعداءہ الذی یمکرون بأولیائہ یعنی ان دشمنوں کے ساتھ مکرکرنا ہے جو اس کے اولیاء کے ساتھ مکر کرتے ہیں (یعنی اس کا اپنے ان دشمنوں کے ساتھ چال چلنا ہے جولوگ اس کے اولیاء کے ساتھ چال چلتے ہیںیعنی اللہ ان کی چالبازیوں کا انہیں جواب دیتا ہے) اللہ کی ایک صفت الأسف یعنی افسوس کرنا یعنی اس کاشدید غصہ ہونابھی ہے ۔ اس کی ایک صفت مخادعۃ من یخادعہ یعنی دھوکہ دینے والوں کو دھوکہ دینا بھی ہے، گویا اللہ ان منافقوں کوبھی دھوکہ دیتا ہے جو اسے دھوکہ دیتے ہیں (یعنی ان کی چالبازیوں کا اللہ انہیں بدلہ دیتا ہے)۔ اسی طرح اللہ کی ایک صفت اس شخص کے ساتھ استہزاء کرنا بھی ہے جو اس کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کی تمام صفات میں الضحک (ہنسنا ) العجب (تعجب کرنا ) اور المجئ (آنا ) بھی ہے کیوں کہ بروز قیامت وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے آئے گا ۔
ہم اس کی صفت نزول پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی حقیقی معنوں میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول کی کیفیت اس کے جلال اور عظمت کے اعتبار سے ہوتی ہے ، دیگر مخلوق کی طرح اللہ کا نزول نہیں ہوتا ہے بلکہ ان تمام صفات کے اعتبار سے ہوتا ہےجن پر ہم ایمان لاتے ہیں ، جنہیں ہم جانتے ہیں لیکن اس کی کیفیت سے نا واقف ہیں بلکہ ہم اس پراسی طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح ہمیں صادق و مصدوق رسول نے بتایا ہے ۔
ہم اللہ رب العالمین کی صفت معیت پر ایمان لاتے ہیں اس طرح سے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے ،اللہ تعالی کے اس معیت کی دو قسمیں ہیں (۱) معیت خاصہ ، یہ اللہ کے أولیاء اور رسولوں کے لئے ہوگااور اس کا تقاضا ان کی نصرت و تائید ہے (۲) معیت عامۃ : یہ معیت تمام لوگوں کے ساتھ ہے ، اس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، اس معیت کا تقاضا علم ، احاطہ ، قدرت اور سلطنت ہے ۔
یہ معیت حلول اور اختلاط کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی علو الہی کے منافی ہے کیوں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کامعنی العلم والإحاطۃ (جاننا ، احاطہ کرنا) ہے یعنی اللہ تعالی اپنے علم ، احاطہ اور قدرت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے ۔
ہم اللہ کے لئے اسی چہرے کو مانتے ہیں جو اس کے جلال اور عظمت کو مناسب ہے ، ہم اس کے لئے ہاتھ اسی طرح مانتے ہیں جو اس کے جلال و کمال کو مناسب ہے ، اس سلسلے میں قرآن اور احادیث میں کئی اعتبار سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں ، اللہ کے لئےدو ہاتھ کا ہوناثابت ہے ،اللہ کبھی اس کی مٹھی بنالیتا ہےاور کبھی بچھادیتا ہے ، اللہ تعالی اسی ہاتھ میں آسمان اور زمین کو لے لے گا اور اسی ہاتھ سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کے پاس انگلیاں بھی ہیں ، قرآن و سنت میں ہاتھ کے حوالے سے جتنی دلیلیں آئی ہیں سب میں حقیقی ہاتھ کی طرف اشارہ ہے لیکن اس کا ہاتھ اسی کے جلال کے اعتبار سے ہوگا ، ہم اس پر دلالت کرنے والی آیات و احادیث کی تحریف ، تاویل اور تشبیہ کے مکلف نہیں ہیں یعنی ہم ان آیات و احادیث کی تاویل نہیں کر سکتے ،اس کے ہاتھوں کو کسی کے مشابہ نہیں قرار دے سکتے ، اور اس پر دلالت کرنے والی آیتوں اور حدیثوں میں تحریف نہیں کر سکتے ۔ اس کی تمام صفتوں میں سے ایک انگلیوں کا ہونابھی ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کو دیدار الہی نصیب ہوگا ، قرآن واحادیث میں اس سلسلے میں کئی دلیلیں وارد ہو ئی ہیں ، بے شمار حدیثوں میں اللہ کے رسول ﷺ نے مومنوں کو یہ بشارت سنایا ہے کہ بروز قیامت تمام مومنوں کواللہ کا حقیقی دیدار نصیب ہوگا، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔
اللہ تعالی نے جس طرح اپنے آپ کو صفت کمال ، صفت جلال ، صفت جمال ، صفت عزت اور صفت کبریاء سے متصف بتایاہے اسی طرح اس نےاپنے آپ کو ان تمام صفات سے عاری و خالی بتایا ہے جن میں نقص ہوتا ہے ، قرآن و سنت میں اصل یہی ہے، صفات میں نفی نہیں ہےکیوں کہ اصلاصفات کا ثابت کرنا ہے اور صفات الہیہ کے بیان سے قرآن و سنت بھرے پڑے ہیں اور وہی صفتیں بیان کی گئیں ہیں جو اس کے جلال ، اس کی عظمت اور اس کے کمال کو مناسب ہیں ، اگر وہ اپنے آپ سے کسی صفت کا انکار کر دے تو اس کے برعکس یعنی کمال صفت کو ثابت کرنے کے لئے اس کا انکار کر تاہےکیوں کہ اگر کو ئی انسان اللہ کی طرف نقائص کو منسوب کرے گا تو اللہ اپنی طرف منسوب کی ہو ئی نقص کا انکار کرے گا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ، اور انتہا ئی درجے کےحسن کو اس کے نام پہونچے ہو ئے ہیں یعنی اس سے بہتر کوئی نام نہیں ہے، اللہ کی ہر صفت اس کےنام سے مشتق ہے ، اس کے ناموں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔
اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں الحاد کرنے ، ان کایا ان کے معانی کا انکار کرنے سےیا انہیں معطل کرنے سےڈرایاہے ۔
قرآن و احادیث میںاللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی ایک کتاب میں یکجا کرنا نا ممکن ہے ، ہم اس کے اسماءو صفات پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جو رب العالمین کی مراد ہے ، رسول گرامی ﷺ کی مراد ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت کوئی بھی نہیں جان سکتا ، نہ اس کا احاطہ کر سکتا ہے ، نہ عقل وہاں تک پہونچ سکتی ہے اور نہ ہم اس کی تاویل کر سکتے ہیں ۔