Applicable Translations English پښتو عربي

اللہ تعالی کے وجود پر ایمان لانے کا بیان

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی سب سے پہلے ہے ، اس سے پہلے کو ئی چیز نہیںہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ} وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے اور وہی با طن ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (الحدید: ۳) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ‘‘ اللہ تھا اس کے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ (صحیح بخاری : ۷۴۱۸)، (ترمذی:3951) اور ایک دوسری روایت میں بایں الفاظ آیا ہے ’’كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ‘‘اللہ تھا اس کے پہلےاس کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ (صحیح بخاری : ۳۱۹۱)  جب ہم اللہ کا تعارف پیش کرتے ہیںتو کہتے ہیں کہ وہی آسمان اور زمین کا خالق ہے ، وہی آسمان اور زمین کا حقیقی مالک ہے ، وہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا، وہ اس چیز کوجانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے نکلتاہے اور جو آسمان سے نیچے آتا ہے اور جو اس میں چڑھ کرجاتاہے اور جہاں کہیں تم ہوگے وہ تمہارے ساتھ ہوگا اور جو تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے (۴) (۴) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (۵) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لئے ہے اوراللہ ہی کی طرف سارے امور لوٹائے جائیں گے (۵) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۶)} وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر تا ہے اوروہ سینوں کے بھیدوں کو جاننے والاہے(۶)۔ (الحدید: ۴-۶)

اور اللہ تعالی نےیہ واضح کردیا ہے کہ یہ موجودہ کا ئنات ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اکیلا اللہ ہی اس کا ئنات کا موجد اور خالق ہے ، اس کے علاوہ کوئی اس کا خالق نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ} یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ ۔ (لقمان : ۱۱) اسی لئے اللہ تعالی نے ایسی بے شمار نشانیاں ذکرکیا ہے جو اس بات پر دلیل ہیں کہ اس کا ئنات کا موجد اور خالق وہی اللہ ہے جن میں سے چند یہ ہیں : ۔ مثلا مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرنا ، تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کرنا، ہمارے ہی نفس سے ہماری بیویوں کو نکا لنا ، تمام مخلوق کا رنگ اور زبان میں الگ ہونا ، بندوں کا رات میں سونا اور دن میں روزی تلاش کرنا ، خوف اورامید کا سبب بجلی کا ہونا ، آسمان سے پانی نازل کرنا اور بندوں کو پہلے مرحلے میں پیدا کرنا، یہ ساری نشانیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالی ہی اس کا ئنات کا خالق اور موجدہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ (۱۹) [وہی] زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ اور وہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اسی طرح تم [بھی] نکالے جاؤ گے (۱۹) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ (۲۰) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر [چلتے پھرتے] پھیل رہے ہو(۲۰) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں(۲۱) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ (۲۲) اس [کی قدرت] کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف [بھی] ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں (۲۲) وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (۲۳) اور [بھی] اس کی [قدرت کی] نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل [یعنی روزی] کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے۔ جو لوگ [کان لگا کر] سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں(۲۳) وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۲۴) اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ [بھی] ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے، اس میں [بھی] عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں(۲۴) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ (۲۵) اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے (۲۵) وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (۲۶) اور زمین وآسمان کی ہر ہر چیز اس کی ملکیت ہےاور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے(۲۶) وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ(۲۷)} وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے، آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والاحکمت والا ہے(۲۷)۔ (الروم : ۱۹-۲۷)

اللہ تعالی کے خالق ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مخلوق کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا {خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ } اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتاہے تین تین اندھیروں میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔ (الزمر: ۶) گویا پیدائش کی ابتدا ہی اللہ تعالی نے کیا ہے اور سارے حیوان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں پھر اللہ تعالی کے خالق ہو نے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں رحم مادر کے اندرتاریکی میں پیدا کیا ،اللہ ہی کسی نطفے کو انسانی شکل دے سکتا ہے ، اس کے علاوہ کو ئی اور نہیں دے سکتا ہے ۔

گزشتہ آیتوں میں اللہ تعالی کے وجود پر جوبڑی بڑی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اس نے آسمان، زمین اور ان کے درمیان اور ان کے او پر کی تمام چیزیںبھی پیدا کیا ۔

اللہ تعالی کے خالق ہو نے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نےان پربھی توجہ دیا اور اس چیز پر بھی توجہ دیا جسے لوگ اپنے نفس اور اپنی ذریت میں پاتے ہیں ، انہیں ان کے ما ؤں کے پیٹ سے اس حال میں نکا لا کہ وہ کچھ نہیں جا نتے تھے ، اس نے ان کی نگرانی کیا تا آنکہ ان کی خلقت اور بنا وٹ مکمل ہو گئی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ } اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے،اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو ۔ (النحل : ۷۸ ) پھر جس طرح اس نے پیدا کیااور انہیں تیار کیا اسی طرح اس نےاپنی تمام مخلوق کو صحیح باتوں اور صحیح راہ کی رہنما ئی بھی کیا جیسا کہ اللہ تعالی نےفرعون کے بارے میں فرمایا {قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَامُوسَى} اس نے کہا کہ اے موسی !تمہارا رب کون ہے ؟ (طہ : ۴۹) تومن جانب اللہ جواب آیا {قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى}جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔ (طہ : ۵۰)

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہی نے زمین کو بچھایا، اس میں پہاڑوں کو نصب کیا اور اس میں ہر مناسب چیز کو اگایا ، اس میں موجودہ توازن کا صحیح ہونا ہی اس کی دلیل ہے کہ وہی اس کا ئنات کا موجد ہے ، اسی طرح اس نے ایک مخصوص ہیئت میں بارش کا نزول کیاحالانکہ یہ کام نہ کو ئی انسان کرسکتاہے اور نہ ہی اسے جمع کر سکتا ہے اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ئنات کاحقیقی موجود اور خالق وہی اللہ ہے جو اکیلا اور قہار ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَ أَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ (۱۹) اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر [اٹل] پہاڑ ڈال دیئے ہیں، اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک معین مقدار سے اگا دی ہے (۱۹) وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ (۲۰) اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو(۲۰) وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (۲۱) اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں، اور ہم ہر چیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔ (۲۱) وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ (۲۲)} اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں، پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو(۲۲)۔ (الحجر : ۱۹-۲۲ )

ہمارا ان تمام چیزوں پر ایمان ہے جن پر انبیاءو رسل ایمان لا ئے اورانبیاء کی لائی ہوئی تمام دلائل و براہین پر ہمارا یقین ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کے وجود پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے نمرود پر دلیل بنایا کہ اللہ سورج کو مشرق سے لا تاہے ، اب اگر کو ئی اسے مغرب سے لانا چاہے تو نہیں لا سکتا جیسا کہ فر مان الہی ہے {قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ : ۲۵۸)

یا جس طرح خود انہیں ہی ان کی قوم پر دلیل بنایا کہ اللہ تعالی ہی نے انہیں ہدایت دیا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ (۷۸) جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے(۷۸) وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ (۷۹) وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے (۷۹) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ(۸۰) اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے(۸۰) وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ (۸۱)} اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کردے گا۔(۸۱)۔ (الشعراء : ۷۸-۸۱) اور موسی علیہ السلام کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے فرعون کے خلاف یہ کہہ کر احتجاج کیا {قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى}جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔ (طہ : ۵۰) قرآن مجید میں تو یہاں تک بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہر نقص سے پاک بتایا ہے اور ہم سے اپنا تعارف پیش کرتے ہو ئے فر مایا {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (۱) اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر (۱) الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (۲) جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا( ۲) وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (۳)} اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی ( ۳) ۔ (الأعلی : ۱-۳ )

اللہ تعالی کے اس کا ئنات کا خالق و موجدہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسی نے ہرے بھرے باغات اگایا جب کہ انسان ایک درخت بھی نہیں اگا سکتا ، اسی طرح ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے زمین کو قرار گاہ بنایا ، اس میں نہریںبنایا اور مضبوط پہاڑ نصب کیا ، دو دریاؤں کے درمیان فاصلہ بنایا تاکہ دونوں میں اختلاط نہ ہو ، تنہاوہی مجبوروں کی پکار سننے والا ہےخواہ وہ غیر مومن ہی کیوں نہ ہو ، وہی خشکی و تری کی تاریکی میں لوگوں کو رہنما ئی کرنے والا ہے ، وہی بارش کے پہلےخوش خبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ،ہمیں روزی دیتا ہے، اس کے علاوہ روزی دینے والا ، پالنے والا اور پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَ أَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (۶۰) بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگا دیئے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہر گز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں [سیدھی راہ سے](۶۰) أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۶۱) کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں(۶۱) أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (۶۲) بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو(۶۲) أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۶۳) کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالاتر ہے(۶۳) أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۶۴)} کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل ﻻلاؤ (64)۔ (النمل : ۶۰-۶۴)

ایک اورمقام پر فر مایا {وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۳) اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۴)} اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بےشاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں(۴) ۔ (الرعد : ۳-۴) پتہ چلا کہ اللہ ہی نے زمین کو بچھایا، ہر درخت اور پھل کے جوڑے جوڑے بنایا ، وہی دن کورات سے ڈھانپتا ہے ۔ اللہ تعالی کے اس کا ئنات کا موجد ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زمین کے مختلف ٹکڑے مشابہ و غیر مشابہ پھل پیدا کرتے ہیں جب کہ سارے کے سارے ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ، اس کے علاوہ کوئی رب اور کوئی خالق نہیںہے ۔

یہ مضبوط پہاڑ بھی اللہ تعالی کے خالق و موجد ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیوں کہ اتنا مضبوط ہونے کے باوجود ان میں عجیب عجیب مخلوق پیدا ہو رہی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ } اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ ۔ (فاطر : ۲۷)

ان سب سے بڑھ کر تو اللہ تعالی کا یہ بیان کرنا ہی اس کے اس کا ئنات کا خالق اور موجد ہونے کی دلیل ہے کہ اسی نے اس دنیا کو بنایااور اسے سارے انسانوں کے لئے مسخر کیااور انہیں میں سے سمندروں میں کشتیوں کا چلانا بھی ایک دلیل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۱۲) اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا کو تابع بنادیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجالاؤ(۱۲) وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۱۳)} اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے، جو غور کریں یقیناً وہ اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے(۱۳)۔ (الجاثیۃ : ۱۲-۱۳)

اسی طرح چوپایوں کوبطور سواری استعمال کرنا ، کھانا ، پینا ، پہننا اور آسمانوں میں پرندوں کا اڑنا بھی اللہ تعالی کے وجود پر دلیل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۷۹) کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان ﻻنے والے لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں (۷۹) وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ (۸۰) اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنا دی ہے اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی، اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقررہ تک کے لیے فائدہ کی چیزیں بنائیں (۸۰) وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ (۸۱) } اللہ ہی نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں۔ وه اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ(۸۱)۔ (النحل : ۷۹ -۸۱) یہ تمام شواہد اللہ تعالی کے وجود اور اس کی ربوبیت پر دلالت کرتےہیں کیوں کہ یہ سب اللہ ہی کر سکتا ہے؟ اللہ کے علاوہ اسےکو ئی نہیں کر سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کو ئی رب ہے ۔

اس نے ایسی دلیلیں بھی بنایا جو ایک دن میں کئی بار ظاہر ہوتی اور گواہی دیتی ہیں کہ اللہ تعالی موجود ہے اور وہی پالنے والا ہے ، اسی نے صبح کو پھاڑا ،دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللَّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (۹۵) یبیشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے ،وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے اور وہ بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے، اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو (۹۵) فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۹۶)} وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو قادر ہے بڑے علم والا ہے(۹۶) ۔ (الأنعام : ۹۵-۹۶)

جس طرح سورج اور چانددو نشانیاں ہیں اسی طرح رات اور دن بھی دو ایسی نشانیاں ہیںجو اللہ تعالی کے وجود اور اس کے رب ہونے پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً} ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور کردیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے ۔ (الإسراء: ۱۲)

اسی طرح اللہ تعالی نے سمندر بنایا جس کا پانی میٹھا یا کڑوا ہوتا ہے ، ان دونوں سے تازہ گوشت اور زیورنکلتا ہے ، یہ سب اللہ تعالی کے وجود پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ} اور دریا بھی اس نے تمہارے بس میں کردیئے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں ۔ (النحل : ۱۴) ایک اور جگہ فرمایا {وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا} اور وہی ہے جس نے سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی۔ (الفرقان : ۵۳)

اور اللہ تعالی نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ عقل سلیم یہ جانتی ہے کہ اتنی بڑی کا ئنات بغیر خالق کے وجود میں نہیں آسکتی جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ} اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل کا مختار بھی وہی ہے۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں ؟ (المؤمنون : ۸۰) ایک اور جگہ فرمایا {قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (۶۶) فاللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان (۶۶) أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۶۷)} تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟(۶۷)۔ (الأنبیاء : ۶۶-۶۷) اب کیا آپ اللہ تعالی کے وجود اور اس کی ربوبیت پر اس سے بھی بڑی دلیلیں دیکھنا چاہتے ہیں ؟

ان تمام کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے ان تمام کا انکار کردیاہے جنہوں نے تخلیق کی نسبت اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف کیاہےاور ان سے زجرو توبیخ کے انداز میں سوال کیا ہے جیسے کیا انہوں نے عدم سے کسی چیز کو وجود میں لایا ہے ؟ کیا انہوں نے اپنے آپ کو پیدا کر لیاہے ؟ کیا انہوں نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ کیا ان کے پاس اللہ کے خزانے ہیں ؟ یا وہ سب داروغہ ہیں ؟ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (۳۵) کیا یہ بغیر کسی [پیدا کرنے والے] کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟(۳۵) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ (۳۶) کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں(۳۶) أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ (۳۷)} یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا [ان خزانوں کے] یہ داروغہ ہیں(۳۷)۔ (الطور : ۳۵-۳۷) یہ آیتیں ان تمام بڑی بڑی دلیلوں میں سے ہیں جو اللہ تعالی کے وجود پر دلالت کرتی ہیںاوراسی لئے جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ’’ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي المَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ:  میں نے نبی ﷺ کو مغرب میں الطور پڑھتے ہو ئے سنا ، جب وہ اس آیت پر پہونچے: أمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُون *یا کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں۔ أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَ الأَرْضَ بَلْ لاَ يُوقِنُونَ،کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے بلکہ وہ یقین نہیں کرتے۔ أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ المُسَيْطِرُونَ}کیا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں یاوہ لوگ نگراں ہیں۔ تو فرماتے ہیں کہ قریب تھا کہ میرا دل اڑ جا ئے ۔ ( صحیح بخاری :  ۴۸۵۴، صحیح مسلم : ۴۶۳، سنن أبی داؤد : ۸۱۱، سنن النسا ئی : ۹۸۷، سنن ابن ماجۃ : ۸۳۲) جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت اسلام لانے سے پہلے سنا تھا جس سے یہ بات طشت ازبام ہوگئی تھی کہ دنیا کی تمام چیزیں مخلوق ہیں ، مربوب ہیں اور مقہور ہیں اورلوگوں کے بیان کردہ عیوب سے اللہ کی ذات ان تمام عیوب سے پاک ہے۔

اور اللہ تعالی فرماتا ہے: {مَا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلاَ خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا}میں نے تو انھیں نہ اس وقت گواہ بنایا تھا جب آسمان اور زمین پیدا کئے تھے اور نہ اس وقت جب خود انھیں پیدا کیا تھا اور میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا بھی نہیں۔ [الكهف:51] جب انسان کو نہ تو آسمانوں کی پیدائش کا کوئی علم ہے اور نہ اپنی ہی پیدائش کا کوئی علم ہے، تو کیوں وہ اپنے خالق اور موجد کا انکار کرتا ہے؟!

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کو بے کار پیدا نہیں کیا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عمدہ تخلیق ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (۱۶) ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا(۱۶) لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَاعِلِينَ (۱۷) } اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے(۱۷) ۔ (الأنبیاء : ۱۶-۱۷)

اللہ تعالی نے ان عیسائیوںکی بھی تردید کیا ہےجن کا گمان ہےکہ عیسی علیہ السلام معبود اور پیدا کرنے والے ہیں ، اس کا ئنات کے مدبر اور پالنہار ہیں ، اور واضح کردیا ہےکہ آسمان اور زمین میں موجود کوئی بھی چیز اللہ تعالی سے مخفی نہیں ہے ، وہی رحم مادر میں انسان کی تصویر کشی کرتا ہے اور عیسی علیہ السلام بھی انہیں میں سے ہیں جن کو اللہ نے پیدا کیا اور رحم مادر میں ان کی تصویر کشی کیا ہے جیسا کہ فرمایا {اِنَّ اللّٰهَ لَا يَخْفٰى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ(۵) ا یقیناً اللہ تعالیٰ پر زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں (۵) ھُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (۶) } وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے، اس کے سواکوئی معبود برحق نہیں وہ غالب ہے، حکمت والاہے(۶)۔ (آل عمران : ۵-۶) اس کے علاوہ اور بہت ساری دلیلیں قرآن مجیدجیسے سورۃ الأنعام اور سورۃ النحل وغیرہ میں موجود ہیں ، جن کا شمار نا ممکن ہے اور یہ تمام کے تمام اس کی وجودگی اور اس کی ربوبیت پر دلالت کرتے ہیں ۔