Applicable Translations English پښتو عربي

ایمان بالقرآن العظیم

ہمارا ایمان ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں قرآن مجیدہی سب سے بڑی ، سب سے کامل اور سب سے بہتر کتاب ہے اور اس کا نزول تمام آسمانی کتابوں میں سب سے آخر میں ہوا ہے ، جبرئیل علیہ السلام اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے دل پر نازل ہو ئے ہیں ، اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ(۱۹۲) اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے (۱۹۲) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ(۱۹۳) اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے (۱۹۳) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ(۱۹۴)} آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہو جائیں (۱۹۴)۔ (الشعراء: ۱۹۲-۱۹۴) اوراللہ تعالی نے اس کتاب کے لئے سب سے بہتر زبان منتخب کیا اور اسے عربی زبان میں نازل کیا {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}یقینا ہم نے اسے عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم لوگ سمجھ سکو ۔ (یوسف : ۲) ابن قتیبہ رحمہ اللہ فر ماتے ہیں ’’وإنما يعرف فضل القرآن من كثر نظره، واتسع علمه، وفهم مذاهب العرب وافتنانها في الأساليب، وما خصّ الله به لغتها دون جميع اللغات، فإنه ليس في جميع الأمم أمّة أوتيت من العارضة، والبيان، و اتساع المجال، ما أوتيته العرب خصّيصى من الله، لما أرهصه في الرسول، وأراده من إقامة الدليل على نبوّته بالكتاب، فجعله علمه، كما جعل علم كل نبي من المرسلين من أشبه الأمور بما في زمانه المبعوث فيه‘‘قرآن کی فضیلت وہی جان پا ئے گا جو اس میں بکثرت غور کرے گا ، جس کا علم وسیع ہوگا ، جو عرب کے مذاہب ، ان کا طرز تکلم اور اس زبان کو سمجھے گا جس کے ساتھ اللہ نے تمام زبانوں کو چھوڑ کر اسے خاص کر دیا ہے ،تمام امتوں میں کسی بھی امت کو یہ خصوصیات جیسے طرز بیان ، وضاحت کرنا اور بے شمار علوم و فنون کی وسعت نہیںدی گئی جو اہل عرب کو دی گئی، جب اسے رسول کو دیا اور اسے ان کی نبوت پر کتاب کو دلیل بنانا چاہا تو اس نے اس کا علم بھی اسی طرح بنا دیا جس طرح اس نے رسولوں میں سے ہر ایک نبی کا علم ان امور کے مشابہ بنایا تھا جو ان کے زمانے میں تھیں اور جس کے ساتھ انہیں مبعوث کیا گیا تھا ۔ ( تأویل مشکل القرآن :۱۷)

قرآن کی سب سے پہلی آیت یہ ہے {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ }پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ ( العلق :۱) عائشہ رضی اللہ عنہا رسول گرامی ﷺ پر سب سے پہلے نازل ہونے والی وحی کے سلسلے میں فر ماتی ہیں کہ’’حَتَّى جَاءَهُ الحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ المَلَكُ فَقَالَ: ‘حتی کہ ان کے پاس حق آیا اس حال میں کہ وہ غار حراء میں تھے تو ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا : اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: پڑھو، تو آپ نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا ، فر ماتے ہیں کہ اس نے مجھےپکڑ ا اور ایسا ڈھانپاکہ میری طاقت جواب دے گئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا ، فر ماتے ہیں کہ اس نے مجھےدوسری مرتبہ پکڑ ا اور ایسا ڈھانپاکہ میری طاقت جواب دے گئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہاپڑھ تو میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا ، فر ماتے ہیں کہ اس نے مجھےتیسری مرتبہ پکڑ ا اور خوب زور سے بھینچاکہ میری طاقت جواب دے گئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: ، {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق} پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} پڑھ اور آپ کا رب کریم ہے ) [العلق: ۲) فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ‘ انہیں کے ساتھ وہ واپس ہو ئے اس حال میں کہ ان کا دل کانپ رہا تھا ۔ (صحیح بخاری : ۳، صحیح مسلم : ۱۶۰، جامع الترمذی : ۳۶۳۲) اور سب سے آخری آیت یہ ہے {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المائدۃ :۳)

قرآن مجید اللہ کے رسول ﷺ پر نبوی سالوں میںبتدریج نازل ہوا ہے، اس میں کچھ سورتیں مکی ہیںاور کچھ مدنی ہیں اور کل سورتوں کی تعدادایک سو چودہ ہے، سب سے بڑی سورت سورۃ الفاتحہ ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ’’بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ: فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ‘‘ ایک مرتبہ جبرئیل نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھےکہ انہوں نے اپنے اوپر زور کی آواز سنا تو اپنا سر اٹھایا اور کہا یہ آسمان کا دروازہ ہے جسے آج کھولا گیا ہے ، آج سے پہلے کبھی نہیں کھو لا گیا تھا ، اس سے ایک فرشتہ نکلا تو آپ نے کہا یہ فرشتہ جو زمین کی طرف آرہا ہےآج ہی نکلا ہے ،تو اس نے سلام کیا اور کہا دو نوں کی خوشخبری ہو جو تمہیں عطا کی گئی ہیں ، تم سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں تھیں : فاتحۃ الکتاب اور سورۃ البقرۃ کا آخر ، آپ ان میں کا ایک حرف نہیں پڑھیں گے مگر تمہیں (مانگی ہو ئی چیز) عطا کی جا ئے گی۔ (صحیح مسلم :۸۰۶ ، سنن النسا ئی : ۹۱۲) اور سورۃ الاخلاص ثلث قرآن کے برابر ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ، فَقَرَأَ: قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ حَتَّى خَتَمَهَا‘‘ہمارے پاس اللہ کے رسول ﷺ آئے اور کہا میں تم پر ثلث قرآن پڑھتا ہوں تو آپ نے(قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (۱)اللهُ الصَّمَدُ (۲)آخر تک پڑھا ۔ (صحیح مسلم :۸۱۲)

اور سب سے بڑی آیت آیت الکرسی ہے جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَعَكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَعَكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ: قُلْتُ: {اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} [البقرة: ۲۵۵]. قَالَ: فَضَرَبَ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: وَاللهِ لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ‘‘اے ابو منذر !کیا تمہیں معلوم ہے کہ کتاب الہی کی کون سی آیت آپ کے ساتھ سب سے بڑی ہے ؟ فر ماتے ہیں کہ میں نے کہا :اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، فر مایا :اے ابو منذر !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے کتاب کی کون سی آیت آپ کے ساتھ سب سے بڑی ہے ؟فر ماتے ہیں کہ میں نے کہا {اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} [البقرة: ۲۵۵] فر ماتے ہیں کہ انہوں نے میرے سینے میں مارا اور کہا اے ابو منذر! اللہ کی قسم علم تجھے مبارک ہو ۔ (صحیح مسلم :۸۱۰، سنن أبی داؤد :۱۴۶۰)

اور اللہ تعالی نے اس کتاب کو نازل کرکے اپنی تعریف کی، اللہ تعالی فرماتا ہے : {الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا} تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔ [الكهف: 1]. اللہ تعالی نے اس کتاب کی بڑی پذیرا ئی کیا ہے، قرآن مجید میں ایک مقام پر فر مایا {لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں ۔ (الحشر :۲۱) ایک اور مقام پر فر مایا {وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا}اگر (بالفرض) کے کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کردی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے) ، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الرعد :۳۱) اور بتایا کہ یہ تمام مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت کا سبب ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {هَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ}یہ (قرآن) ان لوگوں کے لئے بصیرت کی باتیں اور ہدایت و رحمت ہے،اس قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے ۔ (الجاثیۃ : ۲۰) اس میں روحانی و جسمانی بیماریوں کاعلاج اور نصیحت کا سامان ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین فر ماتا ہے {يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ} اے لوگوں ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔ (یونس :۵۷ ) اور ایک جگہ فر مایا {وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا } یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے، ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔ ( بنی اسرائیل : ۸۲ )

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی تمام کتابوں میں یہ کتاب عظیم سب سےکامل و شامل ہےکیوں کہ یہ کتاب دلا ئل و براہین اور ان مثالوں پر مشتمل ہے جن کے ذریعہ مخلوق پر تا قیامت حجت قائم ہو گی جیساکہ اللہ تعالی فر ماتا ہے { يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا} اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دی ہے ۔ (النساء: ۱۷۴) اور ایک دوسری آیت میں فر مایا {وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا }یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتادیں گے ۔ (الفرقان :۳۳) ایک اور جگہ فر مایا { وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا }ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے ہر طرح سے مثالیں بیان کردی ہیں، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے۔ (الإسراء: ۸۹) ایک اور جگہ فر مایا {وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا } ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طرح بیان فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں لیکن اس سے انھیں تو نفرت ہی بڑھتی ہے۔ (الإسراء: ۴۱) مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فر ماتے ہیںکہ’’(وَلَقَدْ صَرَّفْنا) لهؤلاء المشركين المفترين على الله (فِي هَذَا القُرآن) العِبَر والآيات والحجج، وضربنا لهم فيه الأمثال، وحذّرناهم فيه وأنذرناهم (لِيَذَّكَّرُوا) يقول: ليتذكروا تلك الحجج عليهم، فيعقلوا خطأ ما هم عليه مقيمون، ويعتبروا بالعبر، فيتعظوا بها، وينيبوا من جهالتهم، فما يعتبرون بها، ولا يتذكرون بما يرد عليهم من الآيات والنُّذُر‘‘ ہم نے اللہ پر افترا ء پردازی کرنے والے مشرکوں کے لئے اس قرآن میں عبرت ، آیات اور دلائل کا انبار لگا دیا اور ان کے لئے ہم نے اس میں مثالیں بیان کیا اور ہم نے انہیں اس میں ڈرایا اور چوکنا کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں یعنی یہ کہا جا رہا ہے کہ تاکہ وہ اپنے خلاف پا ئی جانے والی دلیلوں سے نصیحت پکڑیں اور اپنے اندر پا ئی جانے والی کمیوں ، کوتاہیوں کو سمجھیں ، قابل عبرت باتوں سے نصیحت حاصل کریں اور جہالت سے رو گردانی کریں ورنہ اپنے خلاف پا ئی جانے والی آیات اور ڈرانے والی باتوں سے وہ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے ہیں ۔ (تفسیر الطبری :۱۷؍۴۵۳)

اس کتاب میں ہر وہ چیز ہے جو اس سے پہلی تمام کتابوں میں تھیں بلکہ اس میں مزید باتیں موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ (الأنعام :۱۱۵) اور کتاب میں ہر وہ چیز موجودہے جو مخلوق کی ضرورت ہے جیسے اصل ایمان ، شریعت ، دلائل ،حکم و مصالح ،وعظ و نصیحت اورگزشتہ اقوام کی خبریں ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل نے فر مایا {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ}یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے ۔ (الإسراء: ۹) اور ایک اور مقام پر فر مایا {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ} ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بیخبروں میں تھے ۔ (یوسف :۳) اور یہ کتاب فصاحت و بلاغت سے پر ہے جیسا کہ رب العزت نے فر مایا {اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ}اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے۔ (الزمر:۲۳) اور نبی کریم ﷺ نے فر مایا ’’بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ‘‘ مجھے جامع بات کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری :۲۹۷۷، صحیح مسلم :۵۲۳، جامع الترمذی :۱۵۵۳، سنن النسائی : ۳۰۸۷)

اور اس کتاب کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے ، اللہ کے رسول ﷺ امی تھے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے آپ ﷺ پراس عظیم ، کامل اور فصیح و بلیغ کتاب کا نزول کیا جیسا کہ فر مان باری تعالی ہے {وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ} اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے ۔ (العنکبوت :۴۸) اور دوسری جگہ فر مایا {فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ ۔ (الأعراف: ۱۵۸)

ہمارا ایمان ہے کے قرآن کے الفاظ و معانی بالکل ظاہر و باہر ہیں ،یہی کتاب ہے جس کے تئیں اللہ تعالی نے تمام جن و انس کوچیلنج دیا تھا کہ اس طرح کی کتاب یا اس کے مثل دس سورت یا ایک ہی سورت کو ئی لا کر دکھائے لیکن کو ئی نہیں لا سکاجیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا} کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔ (الإسراء: ۸۸) اور فر مایا {أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ } کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔ (ھود:۱۳) اور فر مایا { وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو ۔ (البقرۃ: ۲۳)

ہمارا ایمان ہے کہ اس کتاب کے حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے ، اسے مخلوق کے حوالے نہیں کیا ہے جیسا کہ فر مان با ری تعالی ہے { إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (الحجر: ۹) اور فر مایا {لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ } جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے ۔ (فصلت :۴۲) عمومی احکام کی حیثیت سے اللہ تعالی نے اسے پوری طرح سے محکم بنایاجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ} الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے ۔ (ھود :۱) جیسا کہ کسی اور وجہ سے اسے پورا متشابہ بنایاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ}اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے ۔ (الزمر:۲۳) اور ویسے اس میں محکم اور متشابہ دونوںطرح کی آیتیں موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ} وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ (آل عمران : ۷) پتہ چلا کہ اہل ضلالت صرف متشابہ آیتوں کی اتباع کرتے ہیں لیکن اہل ایمان محکم اور متشابہ سب پر ایمان لاتے ہیں ،

اللہ تعالی نےاسے تمام سابقہ کتابوں پر حاکم اور نگراںبنایا ہے جیسا کہ رب العزت نے فر مایا {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ } اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ (المائدۃ :۴۸) یہ کتاب ہمیں گزشتہ اقوام کی خبریں بتاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَ هُمْ يَمْكُرُونَ} یہ غیب کی خبروں میں سے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے ۔ (یوسف :۱۰۲) ان کے علاوہ اس طرح کی کئی دلیلیں قرآن میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآن مجیدنے ہمیں اہل کتاب کے اختلاف سے آگاہ کیاجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ}یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں ۔ (النمل :۷۶)

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا ’’أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ كَلَامُ اللَّهِ فَلَا أَعْرِفَنَّ مَا عَطَفْتُمُوهُ عَلَى أَهْوَائِكُمْ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ قَدْ خَضَعَتْ لَهُ رِقَابُ النَّاسِ، فَدَخَلُوهُ طَوْعًا وَكَرْهًا، وَقَدْ وُضِعَتْ لَكُمُ السُّنَنُ، وَلَمْ يُتْرَكْ لِأَحَدٍ مَقَالًا إِلَّا أَنْ يَكْفُرَ عَبْدٌ عَمْدًا عَيْنًا، فَاتَّبِعُوا وَلَا تَبْتَدِعُوا، فَقَدْ كُفِيتُمْ، اعْمَلُوا بِمُحْكَمِهِ، وَآمِنُوا بِمُتَشَابِهِهِ‘‘لوگو ! یہ قرآن اللہ کا کلام ہے ، میں اسے نہیں جانتا ہوں جسے تم اپنی خواہشات پر فوقیت دے رہے ہو ، یقینا اسلام کے لئے لوگوں کی گر دنیں جھک چکی ہیں اورلوگ اس میں طوعا و کرہا داخل ہو چکے ہیںاور یقینا تمہارے لئے سنتیں وضع کی جا چکی ہیں ، کسی کے لئے کو ئی بات نہیں چھوڑی گئی ہے مگر یہ کہ وہ جان بوجھ کرواضح طور پر کفر کرے ، اتباع کرو ، ابتداع یعنی بدعت ایجادنہ کرو تم سب کافی کر دیئے گئے ، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر ایمان لا ؤ ۔ (الزہد لإحمد بن حنبل : ۱۹۱، سنن الدارمی :۳۳۹۸، السنۃ لعبد اللہ بن أحمد : ۱۱۷، الشریعۃ للآجری : ۱۵۵، الإنابۃ لإبن بطۃ : ۲۳)

اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فر مایا ’’الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ فَلَا تَصْرِفُوهُ عَلَى آرَائِكُمْ‘‘ قرآن اللہ کا کلام ہے ، لہذا تم سب اسے اپنی آراء پر نہ پرکھو ۔ ( الشریعۃ للآجری : ۱۵۶)

اور فرو ہ بن نوفل الأشجعی فر ماتے ہیں ’’كَانَ خَبَّابُ بْنُ الْأَرَتِّ لِي جَارًا , فَقَالَ لِي يَوْمًا: يَا هَنَاهْ، تَقَرَّبْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَا اسْتَطَعْتَ، وَاعْلَمْ أَنَّكَ لَسْتَ تَتَقَرَّبُ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ كَلَامِهِ‘‘خباب بن ارت میرے پڑوسی تھے انہوں نے مجھے ایک دن کہا اے بھلے انسان !تو حسب استطاعت اللہ کا تقرب حاصل کر اور جان لے کہ تقرب حاصل کرنے والی چیزوں میں اس کے نزدیک اس کے کلام سے محبوب کو ئی چیز نہیں ہے ۔ (فضائل القرآن للقاسم بن سلام :۷۷، مصنف ابن أبی شیبۃ :۳۰۷۲۲، الزہد لأحمد بن حنبل :۱۹۲، الرد علی الجہمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی : ۱۶۰، السنۃ لعبد اللہ بن أحمد :۱۱۱)

ہمارا ایمان ہے کہ یہ قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللہ کانازل کردہ کلام ہے اور یہ سینو ں میں محفوظ ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے { بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ }یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں ۔ (العنکبوت :۴۹) چاہے وہ مصاحف میں لکھا ہوا ہو یا مساجد وعبادت گاہوں میں اس کی تلاوت کی جاتی ہو ،اسے اللہ کا کلام ہی تسلیم کرنا پڑے گا کیوں کہ قرآن کے کلام الہی ہو نے سے کسی بھی صورت میںانکار نہیں کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے { إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ} یقیناجو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی ۔ (فاطر : ۲۹) اور فر مایا {إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (۷۷) بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے(۷۷) فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (۷۸) جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے (۷۸) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۷۹) جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں (۷۹) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۸۰)} یہ رب العالمین کی طرف سےاترا ہوا ہے (۸۰)۔ (الواقعۃ : ۷۷-۸۰)

قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور کلام الہی اس کی تمام صفات میں سے ایک صفت ہےاور اللہ کی کوئی بھی صفت مخلوق نہیں ہو سکتی کیوں کہ اگر یہ مخلوق ہوتی تو مخلوق کے سارے قوانین اس پر لا گو ہوتے جیسے فنا اور زائل ہو نا ، بدلنا وغیرہ جیسا کہ رب ذو الجلال نے فر مایا { أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا } کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بھی کچھ اختلاف پاتے ۔ (النساء :۸۲) ایک اور مقام پر فر مایا {وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ} اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے یہ اس لئے کہ یہ لوگ بےعلم ہیں۔ (التوبۃ: ۶)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ، وَيَقُولُ: إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ ‘‘ نبی ﷺ حسن اور حسین کے لئے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارے باپ اسی کے ذریعہ اسماعیل اور اسحاق کے لئےپناہ طلب کیا کرتے تھے ’’أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ ‘‘ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر ملامت کرنے والی نظر سے۔ (صحیح بخاری : ۳۳۷۱، سنن أبی داؤد :۴۷ ۳۷ ، اور فر مایا کہ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے ، جامع الترمذی : ۲۰۶۰، سنن ابن ماجۃ : ۳۵۲۵)

اسماعیل بن ابو أویس نے اہل مدینہ کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے جیسا کہ فر ماتے ہیں: ’’كَانَ مَالِكٌ وَعُلَمَاءُ أَهْلِ بَلَدِنَا يَقُولُونَ: الْقُرْآنُ مِنَ اللَّهِ , وَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ شَيْءٌ مَخْلُوقٌ، وَعُلَمَاءُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي وَقْتِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ , وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ , وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي سَبْرَةَ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ , وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ , وَحَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعُمَرِيُّ الزَّاهِدُ , وَأَبُو ضَمْرَةَ أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ‘‘(امام )مالک اور ہمارے شہر کے دیگرعلماء کہتے تھے کہ قرآن من جانب اللہ ہے اور من جانب اللہ کوئی چیز مخلوق نہیں ہوتی ،مالک بن انس کے وقت میں مدنی علماء میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی ذئب ، عبد العزیز بن أبی سلمہ الماجشون ، ابو بکر بن أبی سبرہ ، ابراہیم بن سعد الزہری ، سعید بن عبد الرحمن الجمحی ، حاتم بن اسماعیل ، عبد اللہ بن عبد العزیز العمری الزاہد ، ابو ضمرہ انس بن ایاض اور محمد بن اسماعیل بن أبی فدیک تھے ۔ [شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ (۲/۳۰۰)]

شعیب بن حرب رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ سے کہا ’’حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ مِنَ السُّنَّةِ يَنْفَعُنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ , فَإِذَا وَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَسَأَلَنِي عَنْهُ. فَقَالَ لِي: مِنْ أَيْنَ أَخَذْتَ هَذَا؟ قُلْتُ: يَا رَبِّ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَ أَخَذَتْهُ عَنْهُ فَأَنْجُو أَنَا وَتُؤَاخَذُ أَنْتَ . فَقَالَ: يَا شُعَيْبُ هَذَا تَوْكِيدٌ وَأَيُّ تَوْكِيدٍ , اكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ غَيْرُ مَخْلُوقٍ , مِنْهُ بَدَأَ وَإِلَيْهِ يَعُودُ‘‘مجھے سنت کی کوئی ایسی بات بتاؤ جس کے ذریعہ اللہ عزوجل مجھے نفع پہونچائے اور جب میں اللہ تبارک وتعالی کےسامنے کھڑا ہوں اور وہ مجھ سے اس کی بابت پوچھے اور کہے کہ تو نے اسے کہاں سے اخذ کیاتو میں کہوںکہ اے میرے رب ! مجھے یہ بات سفیان ثوری نے بتایا تھا ، یہ بات میں انہیں سے اخذ کیا ہوں تاکہ میں نجات پا جا ؤں اور تمہارا مواخذہ ہو، تو انہوں نے کہا اے شعیب ! سب سے مضبوط اور پختہ بات یہ ہے لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے ، اسی سے اس کی ابتدا ہوئی ہے اور اس کی طرف لوٹنا ہے ۔ (شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ: ۱؍۱۷۰)

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فر ماتے ہیںکہ ہمیں ابن عیینہ نے بتایا اور وہ فر ماتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار کو کہتے ہو ئے سنا ’’ أَدْرَكْتُ مَشَايِخَنَا مُنْذُ سَبْعِينَ سَنَةً يَقُولُونَ: الْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ مِنْهُ بَدَأَ وَإِلَيْهِ يَعُودُ‘‘میں اپنے مشائخ کو ستر سال سےیہی کہتے ہوئے پایاکہ قرآن اللہ کا کلام ہےاسی سے اس کی ابتدا ہوئی ہے اور اس کی طرف لوٹنا ہے۔ (صریح السنۃ للطبری : ۱۹)

حسن بن ایوب فر ماتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کوفریابی سے بیان کرتے ہو ئے سنا ہے اور وہ فر ماتے ہیں کہ میں نے ثوری یعنی سفیان کو کہتے ہوئے سنا ہے’’مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ؛ فَهُوَ زِنْدِيقٌ‘‘ جس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے وہ زندیق ہے ۔ (شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ: ۲؍۲۷۷)

امام الائمہ محمد بن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر باب باندھا ہے ’’بَابٌ مِنَ الْأَدِلَّةِ الَّتِي تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ كَلَامُ اللَّهِ الْخَالِقِ، وَقَوْلَهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ ‘‘باب ہے ان دلیلوں کے بیان میں جو اس بات پردلیل ہیں کہ قرآن پیدا کرنے والے اللہ کا کلام ہے،اس کا قول مخلوق نہیں ہے۔ (التوحید لإبن خزیمۃ:۱/ ۴۰۴)

ابو سعید دارمی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ’’فَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ بَيَانُ أَنَّ الْقُرْآنَ غَيْرُ مَخْلُوقٍ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ مِنَ التَّفَاوُتِ فِي فَضْلِ مَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ خَلْقِهِ فِي الْفَضْلِ؛ لِأَنَّ فَضْلَ مَا بَيْنَ الْمَخْلُوقِينَ يُسْتَدْرَكُ، وَلَا يُسْتَدْرَكُ فَضْلُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ، وَلَا يُحْصِيهِ أَحَدٌ، وَكَذَلِكَ فَضْلُ كَلَامِهِ عَلَى كَلَامِ الْمَخْلُوقِينَ، وَلَوْ كَانَ كَلَامًا مَخْلُوقًا لَمْ يَكُنْ فَضْلُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَائِرِ الْكَلَامِ كَفَضْلِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَلَا كَعُشْرِ عُشْرِ جُزْءٍ مِنْ أَلْفِ أَلْفِ جُزْءٍ وَلَا قَرِيبًا وَلَا قَرِيبًا، فَافْهَمُوهُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ، فَلَيْسَ كَكَلَامِهِ كَلَامٌ، وَلَنْ يُؤْتَى بِمِثْلِهِ أَبَدًا‘‘ان احادیث میں اس بات کا بیان ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے کیوں کہ اس میں مخلوق کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یعنی دونوں کے فضائل کے مابین ویسے ہی فرق ہے جیسا کہ اللہ اور اللہ کی مخلوق کے مابین فرق ہے کیوں کہ مخلوق کے مابین پا ئے جانے والے فر وق اور فضائل کا استدراک ممکن ہے جب کہ مخلوق کے مقابلے اللہ کی فضیلت کا استدراک نا ممکن ہے ، اسے کو ئی نہیں شمار کر سکتا ہے ، اسی طرح کلام مخلوق پر کلام الہی کی بھی فضیلت ہے، اگرمخلوق کلام ہوتا تو تمام مخلوق اور کلام الہی کے درمیان اس طرح کا کوئی فرق نہ ہوتا جس طرح کہ اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے بلکہ ہزار حصوں کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ اس سے قریب بھی نہیں ہےلہذا اسے سمجھ لو کہ اس کی طرح کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کلام کی طرح کو ئی کلام ہے اوراس کے مثل کبھی نہیں لا یا جا سکتا ۔ (الرد علی الجھمیۃ للدارمی :۱۸۸)

ابو یوسف رحمہ اللہ فر ماتے ہیں ’’أما القرآن فإنہ کلام اللہ تعالی ، ووحیہ و تنزیلہ ، علی ھذا وجدت أبا حنیفۃ والأئمۃ ، ولم یکن عندھم مخلوقا ، ولا خالقا ‘‘رہی بات قرآن کی تو یہ اللہ تعالی کا کلام ، اس کی وحی اور اس کی نازل کردہ کتاب ہے ، اسی پر میں نے ابو حنیفہ اور أئمہ کو پایا ہے ، ان کے نزدیک قرآن نہ خالق ہے اور نہ ہی مخلوق ہے ۔ (الإعتقاد :للنیساپوری :۱۳۵)