ہمارا ایمان ہے کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے ، اسے روح الأمین کے ذریعہ نازل کیا گیاہے ،یہ مسلمانوں کے ضروری و دینی معلومات کا خزانہ ہے ، تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے ، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کیا ہے ، قرآن مجید کے کلام الہی ہو نے پراتنی دلیلیں ہیں کہ تمام کا احاطہ نا ممکن ہے ، چند کا تذکرہ پیش خدمت ہے :۔
خود اللہ تعالی نے ہی اس بات کی شہادت دیا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ من جانب اللہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ}آپ کہیے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔ (الأنعام : ۱۹) اور فر مایا {لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ}لیکن جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے۔ (النساء: ۱۶۶)
اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالی نے بلکہ فرشتوں نے بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ قرآن اللہ ہی نے نازل کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا} جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے ۔ (النساء: ۱۶۶)
اور اس دلیل میں بھی انبیاء کی لا ئی ہوئی شریعتوں کی موافقت ہے اللہ تعالی فرماتا ہے {وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا(۲۳) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا (۲۳) (الإسراء: ۲۳) اللہ تعالی کے اس قول تک: ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا (۳۹)} یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہٴ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے (۳۹) (الإسراء: ۳۹)
اور فر مایا {نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ} جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے اسی اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا ۔ (آل عمران :۳) جن اصولوں پر تاکید کا صیغہ وارد ہوا ہے یہ وہی صیغے ہیں جن کی انبیاء نے تاکید کیا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺکے دور میں پائے جانے والے اہل کتاب نے بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے اور اس کا تذکرہ قرآن مجید ہی میں اللہ تعالی نے کیا ہےجیسا کہ فر مایا {قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ} آپ کہہ دیجئے ! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔ (الأحقاف: ۱۰) صحیحین میں آیا ہے کہ جب نبی ﷺ نے ورقہ رضی اللہ عنہ کو وہ ساری باتیں بتادیا جو آپ ﷺ نے دیکھا تھا تو ورقہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى‘‘یہی وہ ناموس(فرشتہ ) ہے جسے اللہ نے موسی پر نازل کیا تھا۔ (صحیح بخاری : ۳، صحیح مسلم :۱۶۰)
اسی طرح جب جعفررضی اللہ عنہ سے نجاشی نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس رسول ﷺ کی لا ئی ہوئی شریعت میں سے کچھ ہے تو انہوں نے اس پرقرآن کا کچھ حصہ پڑھ دیا پھر نجاشی نے کہا ’’وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا الْكَلَامَ وَالْكَلَامَ الَّذِي جَاءَ مُوسَى لَيَخْرُجَانِ مِنْ مِشْكَاةٍ وَاحِدَةٍ‘‘ اللہ کی قسم یہ وہی کلام ہے جو موسی کے پاس آیا تھا تاکہ وہ دونوں ایک چراغ سے نکل جا ئیں ۔ (مسند إسحاق بن راهويہ: ۱۸۳۵ ، مسند أحمد : ۲۲۴۹۸، صحیح ابن خزیمۃ : ۲۲۶۰، شرح مشکل الآثار : ۵۵۹۸، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم :۱؍۱۱۵، دلائل النبوۃ : ۱۹۴)
جنوں نے بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور یہ اسی کے موافق ہے جسے موسی علیہ السلام لے کر آئے تھے جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (۲۹) اور یاد کرو ! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے (۲۹) قَالُوا يَاقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (۳۰)} کہنے لگے اے ہماری قوم ! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے ۔ (الأحقاف : ۲۹-۳۰) ایک اور مقام پر فر مایا {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (۱) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے(۱) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا (۲) } جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (۲) ۔ (الجن :۱-۲)
کفار قریش نے بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے کیوں کہ یہ انسانی کلام کے عین مخالف ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ الْمُغِيرَةِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقُرْآنَ، فَكَأَنَّهُ رَقَّ لَهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ أَبَا جَهْلٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا عَمُّ، إِنَّ قَوْمَكَ يَرَوْنَ أَنْ يَجْمَعُوا لَكَ مَالًا. قَالَ: لَمَ؟ قَالَ: لِيُعْطُوكَهُ فَإِنَّكَ أَتَيْتَ مُحَمَّدًا لِتُعْرِضَ لِمَا قِبَلَهُ قَالَ: قَدْ عَلِمَتْ قُرَيْشٌ أَنِّي مِنْ أَكْثَرِهَا مَالًا. قَالَ: فَقُلْ فِيهِ قَوْلًا يَبْلُغُ قَوْمَكَ أَنَّكَ مُنْكِرٌ لَهُ أَوْ أَنَّكَ كَارِهٌ لَهُ قَالَ: وَمَاذَا أَقُولُ ؟فَوَاللَّهِ مَا فِيكُمْ رَجُلٌ أَعْلَمَ بِالْأَشْعَارِ مِنِّي، وَلَا أَعْلَمَ بِرَجَزٍ وَلَا بِقَصِيدَةٍ مِنِّي وَلَا بِأَشْعَارِ الْجِنِّ وَاللَّهِ مَا يُشْبِهُ الَّذِي يَقُولُ شَيْئًا مِنْ هَذَا وَوَاللَّهِ إِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ حَلَاوَةً، وَإِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً، وَإِنَّهُ لَمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلُهُ، وَإِنَّهُ لَيَعْلُو وَمَا يُعْلَى وَإِنَّهُ لَيَحْطِمُ مَا تَحْتَهُ‘‘ ولید بن مغیرہ نبی ﷺ کے پاس آیاتو آپ نے اس پر قرآن پڑھا سنتے ہی اس پر رقت طاری ہو گئی ، یہ بات جب ابو جہل کو پہونچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا:چچا !آپ کی قوم والے آپ کے لئے مال جمع کرنا چاہتے ہیں ،کہا کیوں ؟کہا تاکہ آپ کو دیں کیوں کہ آپ محمد کے پاس وہ بتانے آئے تھے جو اس کے پہلے ہواتھا ، کہا قریش کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مال والا ہوں ، کہا اس کے سلسلے میں تم ایسی بات کہو جس سے آپ کی قوم کو پتہ چلے کہ آپ ان کا انکار کرنے والے یا انہیں نا پسند کرنے والے ہیں ، کہا میں کیا کہوں ؟ اللہ کی قسم تمہارے ما بین مجھ سے زیادہ اشعار جاننے والا ، مجھ سے زیادہ رجز (اشعار کی ایک قسم ہے )جاننے والا ، مجھ سے زیادہ قصیدے جاننے والا اور مجھ سے زیادہ جنوں کے اشعار جاننے والا کوئی نہیں ہے ، اللہ کی قسم وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے مشابہ ہے ، اللہ کی قسم اس کی بات حلاوت ہوتی اوراس میں دلکشی ہوتی ہے، اس کا اوپری حصہ پھل دار اور اس کا نچلا حصہ بابرکت ہے، وہ غالب ہے مغلوب نہیں ہوتا اور وہ اپنے ماسوا کومغلوب کردیتا ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم :۳۸۷۲)
اورقرآن کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن اسی کے موافق ہےجو اللہ چاہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}ی اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ۔ (الأنعام : ۱۵۳)
اسی طرح قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جو احکام ، معرفت الہی اور آداب وغیرہ قرآن میں ہیں سب فطرت کے عین موافق ہیں جیسا کہ فر مان الہی ہے { فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ } پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔ (الروم : ۳۰ )
قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن میں وہی احکام ہیں جن میں تمام لوگوں کے لئے خیر ہے ، چونکہ اللہ تعالی ہی تمام مخلوق کا خالق ہے اس لئے اللہ تعالی ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جن سے بندوں کے ادیان ، اجسام ، اموال اور رہائش وغیرہ صحیح سالم و محفوظ رہیں گےجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ } کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا پھر وہ باریک بین اور باخبر ہو ۔ (الملک :۱۴) اللہ تعالی نے وہی کام کرنے کا حکم دیا ہے جس میں حد درجہ فائدہ ہے اور اسی کام سے منع کیا او ر روکا ہے جس میں احتیاط کرنے ہی میں اچھا ئی ہے ۔
قرآن عقل کے موافق ہےیعنی قرآن اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے جس چیز کاتقاضا عقل کرتی ہے، اسی لئے اللہ تعالی نےسورۃ الأنعام میں جب اصول محرمات کا تذکرہ کیا تو اس کا اختتام {لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}پر کیاجیسا کہ فر مایا {قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ} آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (الأنعام : ۱۵۱)
جس طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بندوں سے اکثر مقام پر مامورات و منہیات سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے اور اس میں غور و فکر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح بے شمار مقام پر سمجھ دار اور ہوش مندوں سے خطاب بھی کیا ہے ۔
قرآن کے من جانب اللہ ہونےکی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کی بے شمار دلیلیں بالکل واضح، فصاحت و بلاغت اور قوت سے پر ، اتنا آسان کہ اسے ہر کو ئی سمجھ سکتا ہے ، انسانی کلام ان خصوصیات کا حامل نہیں ہو سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نےفر مایا {هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ} یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ (کچھ نہیں) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ۔ ( لقمان :۱۱) ایک اور مقام پر یوں فر مایا {لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ} اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں ۔ (الأنبیاء :۲۲) جس طرح قرآن کی دلیلیں باطل کا سپورٹ نہیں کر سکتیں اسی طرح کوئی ان دلیلوں کی مخالفت یا تردید نہیں کر سکتا کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}اور اعلان کر دے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا ۔ (الإسراء :۸۱)
قرآن کا کلام الہی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ ہر ایک کے لئے آسان ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ} اور بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے ۔ (القمر :۱۷) حالانکہ کوئی انسان کو ئی ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا کہ وہ سب کے لئے آسان ہو اور وہ کتاب سب کو مخاطب کرے ، یہ خصوصیت صرف اسی قرآن کی ہے ۔
قرآن کا کلام الہی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ تغیر و تبدل سےمحفوظ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ}ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ (الحجر :۹) تا قیامت یہ کتاب باقی رہنے والی ہے اورتا قیامت اس کتاب کا باقی اور تغیر و تبدل سے محفوظ رہنا اس کے کلام الہی ہو نے کی دلیل ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرما تا ہے { أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا } کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بھی کچھ اختلاف پاتے ۔ (النساء : ۸۲ )
قرآن کے بقا ء ، ہمیشگی اور اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں نئے نئے علوم جیسے سائنس و ٹکنالوجی وغیرہ نےبھی قرآن میں پا ئی جانے والی تعلیمات کی مخالفت کسی نے بھی نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک نے قرآن میں موجود علوم و فنون کی موافقت کیا جیسے زمین و آسمان کی تخلیق اور انسان وغیرہ کی تخلیق ۔
قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ سیدھی راہ کی رہنما ئی کرتا ہے ، یہ ہر خیر کو شامل ہے ، یہ کتاب خالق ، مخلوق ، دنیا ، آخرت ، جن ، انس ، اوامر و نواہی ، واجبات اور جنت و جہنم ہر ایک پر گفتگو کرتی ہے ، اس میں ایمان ، عمل اور جزاء ہر ایک کا تذکرہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ}ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔ (الأنعام :۳۸) اور فر مایا {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ}یہ قرآن سیدھی راہ کی رہنما ئی کرتا ہے ۔ (الإسراء :۹)
قرآن مجید میںتمام بیماریوں کا علاج ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ } اے لوگوں ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔ (یونس :۵۷ ) ذرا بتاؤ کہ کیا اسی طرح کسی انسان کے کلام میں تمام بیماریوں کاخواہ وہ روحانی ہو یا جسمانی علاج ہے؟ نہیں یہ صرف قرآن مجید کا خاصہ ہے اور یہی قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ہے ۔
اللہ تعالی نے تمام جن و انس کو چیلنج دیا ہے کہ اسی کے مثل یا اس کی دس سورتوں کے مثل یا اس کی ایک سورت کے مثل کو ئی لا کر دکھا ئے جیسا کہ فر مان الہی ہے { أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو ۔ (یونس :۳۸ ) اور واضح کر دیا کہ یہ کتاب شکوک و شبہات سے پاک ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ } اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔ (یونس :۳۷)
قرآن مجید ہمیں گزشتہ اقوام کی حقیقی خبریںبتاتا ہے حالانکہ ان کی خبریں اہل مکہ کے در میان منتشر نہیں تھیںلیکن اللہ تعالی نے ہمیں وہ سب بتایا ہے جیسا کہ فر مایا {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ}ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بیخبروں میں تھے ۔ (یوسف :۳) یہ تمام دلیلیں قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی گواہ ہیں ۔
قرآن مجیدفصاحت و بیان ، غیبی خبروں اور ربانی شریعتوں پر مشتمل ہے ، اسےوہ رسول لا یا جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا اوریہ دلیل ہے اس بات پر کہ یہ کتاب حکیم و حمید کی جانب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ} اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے ۔ (العنکبوت :۴۸ ) اور فر مایا {الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ} جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ (الأعراف : ۱۵۷ )
قرآنی سورتیں مختلف اوقات اور مختلف مقامات میں نازل ہو ئی ہیں لیکن بوقت تلاوت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کا نزول یکبارگی ہوا ہے حالانکہ یہ فطری تقاضا ہے کہ ایک انسان جب مختلف اوقات میں کتابیں تصنیف کرتا ہے تواس کی صلاحیت اوراسلوب میں فرق آجاتا ہے ۔
رسول گرامی ﷺ کو اللہ تعالی نےقرآن کی طرح سنت بھی عطا کیا ہےجیسا کہ آپ ﷺ نے فر مایا ’’أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ‘‘خبر دار مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اسی کے مثل دیا گیا ہے ۔ (سنن أبی داؤد : ۴۶۰۴، جامع الترمذی : ۲۶۶۴، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۴۸۱۶، مسند إبن أبی شیبۃ : ۹۲۷ ، مسند أحمد : ۱۷۱۷۴)
قرآن مجید میں نبی ﷺ کی ان تمام توجیہات پر گفتگو ہے جس کا ہونا یا جس کا کرنا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی ۔ (الأنفال : ۶۸ ) اور فر مایا {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں ؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (التحریم :۱) اور فر مایا {عَبَسَ وَتَوَلَّى (۱) وہ ترش رو ہوا اور منھ موڑ لیا (۱) أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى (۲) [صرف اس لئے] کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا (۲) وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى (۳) تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا(۳) أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى (۴) یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی (۴) أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى (۵) جو بے پرواہی کرتا ہے (۵) فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى (۶) اس کی طرف تو تو پوری توجہ کرتا ہے (۶) وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى (۷)} حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں(۷)۔ (عبس :۱-۷) اور فر مایا {وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (۷۴) اگر ہم آپ کو ﺛابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے (۷۴) إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا (۷۵) } پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا، پھر آپ تو اپنے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار بھی نہ پاتے(۷۵)۔ (الإسراء :۷۴-۷۵ ) اگر یہ قرآن رسول ﷺ کے پاس سے ہوتا تو اپنے ہی خلاف اس میں گفتگو نہ کرتے ، جب اس میں نبی کریم ﷺ کی اس توجیہ کی مثال وارد ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہو گئی کہ یہ ان کے پاس سے نہیں ہے بلکہ یہ کلام الہی ہے اور یہ اللہ کی کتاب ہے ۔