ہمارا ایمان ہے کہ ارکان ایمان کا چوتھا رکن رسولوں پر ایمان لانا ہے ،
ہماراایمان ہے کہ رسولوں کے دعوت کی بنیادہی اللہ ، اس کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کاجاننا ہے، انہیں توحید کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور انہوں نے لوگوں کواسی بات کی دعوت دیا کہ اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، تمام انسانوں میں انبیاء و رسل کی دعوت سب سے کامل تھی ، ان کی توحید اوران کا ایمان سب سے مکمل تھا ، تمام مخلوق میں اللہ ،اللہ کے واجب و منع کردہ احکام کو سب سے زیادہ جاننے والے یہی تھے ۔
ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو دو عظیم اصول کی طرف بلایا ہے (۱) اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت (۲) ایمان بالیوم الآخر اور ان نعمتوں کی طرف جو اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کے لئے تیار کر رکھا ہے اور اس عذاب کی طرف جو اس نے اپنے دشمنوں کے لئے تیار کر رکھا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ بڑے بڑے اصولوں میں تمام انبیاء کا اتفاق ہے اور انہیں اصولوں کی طرف تمام نبیوں نے بلایا ہے، تمام انبیاء کی دعوت میں ایمان باللہ ، ایمان بالملائکہ ، ایمان بالکتب ، ایمان بالرسل ، ایمان بالیوم الآخر اور ایمان بالقدرخیرہ وشرہ شامل تھا ، تمام نبیوں نےاصل عبادات کی دعوت دیا ہے جیسے نماز ، زکوۃ، روزہ اور حج کی طرف تمام نبیوں نے بلایا، اسی طرح تمام نبیوں نےان کاموں کی طرف بھی بلایاہے جن سے انسانیت کا اخلاق سنورتااور اچھا ہوتا ہے اور ان تمام کاموں سے منع کیا ہےجن سے انسانی کیرکٹر اور اخلاق پر سوالیہ نشان لگ جاتا اور انسان عوام کی نگاہ میں مذموم ہوجاتا ہے، اصول میں تمام انبیاء متفق ہیں لیکن شرعی احکام و تفاصیل میں مختلف ہیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا، ان کی بتائی ہو ئی تمام غیبی باتوں کی تصدیق کرنا ، ان کی طرف سے دیئے گئے احکام پر عمل کرنا اور ان کی طرف سے منع کردہ قول و فعل سے رک جانا ، ان سے محبت کرنا ، ان کی عزت اور ان کی اقتدا کرنا واجب ہے ، اسی طرح اس بات کی گواہی دینا بھی واحب ہے کہ انہوں نے پیغام پہونچا دیا ہے ، امانت کی ادائیگی کردی ہے ، اللہ اور اس کے بندوں کے لئےتمام نبیوں نے خیر خواہی کا کام کیا ہے ، جہاد کی طرح اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے ، لہذا جس امت کی طرف جو رسول بھیجا گیا اس امت پر اپنےاس رسول کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے اور امت محمدیہ کے تمام جن و انس پر اللہ کے رسول ﷺ کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے کیوں آپ ﷺ تمام جن و انس کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ۔
تمام انبیاء و رسل عوام کو تاریکی ، کفر ، شرک اور جہالت سےنکالنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے گرچہ وہ دنیا میں با عزت رہنے والے ہوں ، باد شاہ ہوں ، طاقت ور ہوںاور کارخانے کے مالک ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر وہ غلط راستے پر ہیں تو انہیں صحیح راستے پر لا نا انبیاء کی ذمہ داری تھی ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے انہیں خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کرمبعوث کیاہےتاکہ وہ رسولوں کے بعد اللہ تعالی پر لوگوں کے لئے حجت ہو جا ئیں ۔
ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ، بنا بریں ہمیں جس نبی کا نام معلوم ہے ہم اس نبی پر ضرور ایمان لا ئیں اور جس کا نام نہیں معلوم ہے اس پربھی اجمالا ایمان لانا واجب ہے ۔ گویاتمام انبیاء و رسل پر ایمان لانا تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے ، کسی نے کسی ایک نبی کا انکار کردیاتو گویا اس نے سارے نبیوں کا انکار کیا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی حکمت و مصلحت کے اعتبار سے اپنےرسولوں کو اپنے بندوں میں سے جس کی طرف چاہتا ہے بھیجتا ہے، حکم الہی کا تعاقب کرنے والا کو ئی نہیں ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرنا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ نبوت من جانب اللہ احسان ہے ، اللہ کی رحمت ہے ،اس لئے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نبوت عطا کرتا ہے ، جس پر چاہتا ہے رحمت کا نزول کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ فرشتو ںاور عوام الناس دونوں میں سے رسول منتخب کرتا ہے ۔
انبیاء و رسل میں ہر ایک کا درجہ برابر نہیں ہے ، بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے ، او لو العزم میں سب سے افضل دونوں خلیل یعنی ابراہیم اور محمدﷺ ہیں ، اللہ کے رسول ﷺنے انبیاء کے درمیان تفاضل یعنی کسی کو کسی پر فضیلت دینے سے منع کیا ہے جب یہ فضیلت حمیت ، عصبیت اور تنقیص کے طور پر ہو کیوں کہ اللہ تعالی نے جب ابراہیم اور محمد ﷺ کو خلیل بنایا تو موسی علیہ السلام کو اپنی رسالت اور اپنی بات کے ذریعہ لوگوں پر منتخب کیا اور ہمارے نبی ﷺ کو اللہ سے دوستی کا شرف حاصل ہے، چونکہ اللہ تعالی نے اسراء کی رات پردے کے پیچھے سے اپنے رب سے کلام کیا تھا بنا بریں ہمارے نبی ﷺ کو دوستی کا بھی شرف حاصل ہوا اور اللہ تعالی سے کلام کی بھی توفیق ملی ۔
ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء سب سے افضل انسان ہیں ، ان کے مقام و مرتبہ کوکو ئی نہیں پہونچ سکتا ، نہ کوئی ولی پا سکتا ہے اور نہ کو ئی دوسرا انسان ، اس لئے کسی انسان کو کسی نبی پر فوقیت دینا جا ئز نہیں ہے ، نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے ،نہ اطاعت و اجتہاد سے اسے حاصل کی جا سکتی ہے ، نہ نفس کا تزکیہ کر کےحاصل کی جا سکتی ہے نہ مجاہدہ اورمحنت و مشقت کرکے ، نہ دل کو صاف کر کے اور نہ اپنے آپ کو سنوار کرکے اسے پا یا جا سکتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے صرف مردوںکومنصب رسالت سے سر فراز کیا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ تمام انبیاء و رسل بقیہ انسانوں کی طرح انسان ہیں لیکن اپنے دین ، اپنے اخلا ق اور اپنے عقل میں تمام انسانوں میں سب سے کامل ہیں ،وہ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے لیکن ان کی طرف وحی کی جاتی تھی ، وہ ان تمام کاموں میں معصوم ہیں جس کی وہ بحکم الہی تبلیغ کرتے ہیں ، اگر اللہ کے رسول ﷺ نے کسی ایسےمسئلے میں اجتہاد کیا جس کی بابت وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور آپ سے اس مسئلے میں غلطی ہوگئی تو اللہ تعالی نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کی اصلاح کیا نہ کہ ان کے اس غلط اجتہاد کو باقی رکھا ۔
انبیاء و رسل کو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں تھا جب کہ دنیا و آخرت میں ان کا مقام بہت بلند اور ان کا درجہ بہت اونچا تھا ، انہیں بہتر مقام عطا کیا گیا تھا تو جب وہ خود اپنے ہی نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے تو غیروں کو بدرجہ اولی نفع و نقصان نہیں پہونچا سکتے اور جب وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تھے تو وفات کے بعد تو بدرجہ اولی نفع و نقصان کا اختیار انہیں حاصل نہیں ہوگا ۔
انہیں غیب کی صرف وہی باتیں معلوم تھیں جن سے اللہ تعالی نے انہیں مطلع کیا تھا اور جن کی بابت اللہ تعالی نے انہیں بتایا تھا ،
انبیاء صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اللہ کی عبادت میں خوف و طمع ہوا کرتا تھا ، وہ اسی سے وسیلہ مانگتے اور اسی کا تقرب حاصل کرتے تھے ۔
ہماراایمان ہے کہ انبیاء ان تمام تکالیف اور مرض میں مبتلا ہوتے تھے جن میں ایک انسان ہوتا ہے ، انہیں بھی غمی لا حق ہوتی تھی اور موت سے وہ بھی دوچار ہوتے تھے ، ان کے پاس بھی بیوی بچے تھے ، یہ بھی کھانا کھاتے اور بازار جاتے تھے ، ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب عیسی علیہ السلام کو ان کی قوم نے انہیں قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیاہے ۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ انبیاء پوری مخلوق کے خیر خواہ تھے ، انہوں نےمن جانب اللہ امانت کی ادائیگی کردی ہے اور اپنے رب کا پیغام سب کو بتادیاہے ، اگران امت میں سے کسی نے ان کی دعوت کا انکار کیایا قوم کےکسی بڑے شخص نےان کی دعوت سے اعراض کیا تو انہیں اس کا کوئی نقصان نہیں پہونچے گا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نےانبیاء و رسل کو وہی نشانیاں عطا کیا جو انسانی عقل کے موافق ہیں اور جن پر ایک انسان ایمان لا سکتا ہے ،
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر نبی کو کوئی نہ کو ئی ایسی نشانی عطا کیا تھاجو اس کی صداقت پر دلیل تھی، ہم اسے جانیں یا نہ جا نیں اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالی نے ہر نبی کو کوئی نہ کو ئی ایسی نشانی عطا کیا ہےجو ان کی صداقت و امانت کی دلیل ہے ، ان میں سے چند کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کردیا ہے ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت ساری آیتو ںمیں اللہ تعالی نے گزشتہ تمام انبیاء کی تائید کیا ہے یہ اور بات ہے کہ ان کا تذکرہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے نہیں کیا ہے ، گاہے بگاہے اللہ تعالی نے واضح نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے اور کبھی کبھار صرف دلیلوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے ،
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جن آیات و دلائل میں اللہ تعالی نے انبیاء کا ذکر کیاہے اس کی تعداد بہت زیادہ ہے ، ان کے صداقت کی سب سے بڑی دلیل ان کی دعوت یعنی توحید اور ان کا لا یا ہواپیغا م ہے جیسے علم نافع ، عمل صالح، ہدایت ، دین حق ، اور میزان ہے ، فطرت نے بھی اس کا اقرار کیا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی صحیح سالم عقلوں نے بھی دیا ہےاوراللہ تعالی بھی اس بات پر گواہ ہے کہ تمام انبیاء حق پر تھے اور ان کا لایا ہواپیغام بھی بر حق تھا ۔ ان کی تمام بڑی نشانیوں میں سے ایک ان پر من جانب اللہ نازل ہونے والی وحی ہے اور سب سے بڑی وحی قرآن مجید ہے اور یہی نبی آخر الزماں ﷺ کی سب سے بڑی نشانی ہے، اس وحی کے مثل کو ئی انسان لا ہی نہیں سکتا کیوں کہ یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے ، اس میں غیبی خبریں ہیں ، اس میں ہدایت ، نور ، رحمت اور حکمت کا سامان ہے اوراس
کی واضح دلائل اور نشانیوں میں سے وہ عقلی دلیلیں بھی جن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے تو کافر ہکا بکا و باطل پست ہو جاتا ہے ۔
ان کی تمام بڑی بڑی نشانیوں میں سے ان غیبی خبروں کا بتانا بھی ہے جو اللہ تعالی نے انہیں بتا یا تھا اور دوسروں کو بتانے کی اجازت دیا تھا، ان نشانیوں میں سے ایک گزشتہ نبیوں اور ان کے پیرو کاروں کو دشمنان اسلام کے چنگل سے نجات دلانا اور مغرور اشخاص کو ہلاک کرنا بھی ہے ، گزشتہ اقوام کے ساتھ جو بھی اللہ تعالی نے کیا وہ سب بعد کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے ، اللہ کی سنت گزر چکی ہے ، اسی طرح ان تمام نشانیوں میں سےایک ان کا بہترین عادات و اطوار، بہترین اخلاق ، افعال اور سیرت کا حامل ہونا ، ان کی باتوں کا سچ ہونا اورجھوٹ سے پاک ہونا ہے ۔ اسی طرح ان کی ایک بڑی نشانی انبیاء کو دی گئی نشانیاں ، ان کے لائے ہوئے علوم ، ہدایت اور دین حق کو تواتر کے ساتھ نقل کرنا ہے یہ ان نشانیوں میں سے ہیں کہ جن پر جھوٹ بولنا محال ہے ۔ اسی طرح ان کی تمام بڑی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رسالت پر اجرت نہیں طلب کرتے تھے ، انہیں بادشاہت کی خواہش نہیں تھی، انبیاء کی نبوت پر جاہل ہی قدح کرے گا ، جس نے انبیاء کی لا ئی چیزوں جیسے دین ، علم ، ہدایت میں غور نہیں کیا ہوگایا متکبر ہی ان کی نبوت کا انکارکرےگا جودشمنی سے سر شار ہوگا ۔
ان کے نبوت کی تمام بڑی دلیلوں میں سے ایک حسی دلیلوں کا ہونا بھی ہے جسے تمام آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور عقلیں انہیں قبول کر رہی ہیں جیسے نوح علیہ السلام کی قوم کا غرق ہونا ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی ،ابراہیم علیہ السلام کا آگ سے بچنا ، ہود علیہ السلام کا اپنی قوم سے یہ چیلنج کرنا کہ تم سب مل کر چال چلو ،اور موسی علیہ السلام کی نشانیاں جیسے لا ٹھی ، ٹڈی ، جوں ، مینڈھک ، خون ، طوفان اور فرعون اور اس کی قوم کا غرق ہو نا،اور داؤد علیہ السلام کی نشانیاں جیسے پہاڑوں کا تسبیح پڑھنا اور لو ہے کا نرم کرنا اور سلیمان علیہ السلام کی نشانیاں جیسے ہواؤں اور جنوں کا ان کے لئے مسخر کرنا ، پرندوں کی بو لی سے انہیں آشنا کرنا اور عیسی مسیح علیہ السلام کی نشانیاں جیسے گونگوں، بہروں اور اندھوں کو شفا عطا کرنا ، مردو ںکو زندہ کرنا ، اسی طرح عیسی علیہ السلام مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونکتے تو وہ باذن اللہ پرندہ ہو جاتا تھا ، اور ہمارے نبی ﷺ کی نشانیاں تو بے شمار ہیں ، آپ کی نشانیوں کا شمار کرنا بڑا مشکل ہے جیسے چاند کا پھٹنا ، اسراء و معراج ، اناج کا زیادہ ہو جانا ، چوپا ئے کا بات کرنا ، کنکری کا تسبیح پڑھنا ، تنےکا رونا اور اللہ کا آپ ﷺکے دشمنوں کے خلاف مدد کرنا ۔
انبیاء کی نشانیوں میں سےایک نشانی حق کی طرف بلا نے والے نبی کی حالت بھی ہے کیوں کہ لوگ سچے اور جھوٹے داعی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں وغیرہ ۔
قرآن مجید اور حضرت محمد ﷺ کی سنت کے علاوہ تمام نشانیاں معدوم ہو گئیں ، یہی دو نشانیاں باقی ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے ان کے حفاظت کی ذمہ داری لیا ہے ، ان میں ا للہ کے رسول ﷺ کی صداقت اور آپ کی سچی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی تا ئید اس چیز سے کرتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے جیسے کو نی و شرعی آیات اوردلا ئل و براہین ، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کردیتا ہے لیکن دشمنوں کے دلوں پر کسی بھی آیت یا دلیل کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کی دشمنی و کبرو غرور میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اگر چاہے تو تمام لوگ ہدایت پا جا ئیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء کی تمام دلیلیں اور ان کی لا ئی ہوئی نشانیاں جن کے ذریعہ اللہ تعالی نے ان کی مدد کیا ان تمام کا کسی بھی نبوت کے دعویدار ، جا دوگر اور جھوٹے کے لئے لانا نا ممکن ہے کیوں کہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ وہ صحیح دلیلوں کے ذریعہ کسی باطل پرست کی مدد اور سچی دلیلوں کے ذریعہ وہ کسی جھوٹے شخص کی تصدیق نہیں کرے گا کیوں کہ اللہ تعالی اپنی شریعت اوراپنے امور میں حکیم ہے اور اللہ تعالی کی حکمت اور اس کی سنت جاریہ اس سے منع کرتی ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ ہی اللہ کے رسول ہیں ، وہی خاتم الأنبیاء والمرسلین ہیں ، وہی ابن آدم کے سردار ہیں ، وہی اللہ رب العالمین کے خلیل ہیں ،
ہمیں معلوم کہ آپ ﷺ کی طرح کسی بھی رسول کو نشانی نہیں دی گئی ، آپ ﷺ کی سب سے بڑی نشانی قرآن مجید ہے ، وحی کی ابتدا سب سے پہلےبحالت نیند رؤیت صالحہ سے کی گئی ہے ، آپ ﷺ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی سفیدی کے مانند نمودار ہو جاتا اور سب پہلے سورۃ العلق کی ابتدا ئی آیات نازل ہو ئیں پھر سورۃ المدثر نازل ہو ئی ہے ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے وحی کا نزول ہوتے رہا ،دعوت توحید کے لئے آپ ﷺ مکہ میں تیرہ سال رہے اور شریعت الہیہ کی وضاحت، دعوت دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مدینہ میں دس سال مقیم رہے تاآنکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ترسٹھ سال کی عمر میں وفات سے دو چار کیا ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ قرآن مجید کے بعد آپ ﷺ کی سب سے بڑی نشانی اسراء و معراج ہے، آپ ﷺ کی نشانیوں میں سے چاند کا دو ٹکڑے ہونا بھی ہے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بے شمار خصوصیات سے سرفراز کیا ، ان تمام خصوصیات کوبہت سے علماء نے اپنی تصنیفات میں جگہ دیا ہے اور کچھ علماء نے تو اس پر مستقل کتاب ہی لکھ ڈالا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ جن و انس میں سے ہر ایک کو آپ ﷺ پر ایمان لانا ، آپ ﷺ کی لا ئی خبروں کی تصدیق کرنا ، آپ ﷺ کےحکموں پر عمل کرنا واجب ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اسی سے کریں جو اس نے مشروع کیا ہے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی مخالفت سے منع کیا اور آپ ﷺ کی توقیر ، عزت ، احترام اور محبت کا حکم دیاہےاور یہ کہا ہےکہ ہر انسان کے نزدیک آپ ﷺ کا اس کی جان ، اس کے والد ، اس کے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہونا ضروری ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ کئی مقام پر اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد ﷺ کا ذکر اپنے ساتھ کیا جیسے شہادتین میں ، اذان میں اورآپ ﷺ کا ذکر اس سے پہلے سابقہ کتب الہیہ اور قرآن مجید میں بھی آچکا ہے ، اس کے علاوہ آپ ﷺ کی سنت ، سیرت ، شمائل ، اخلاق اور غزوات پر أئمہ اسلام نے بے شمارکتابیں تصنیف کیا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو پوری مخلوق کے لئے مبعوث کیا ، آپﷺ جن و انس دونوں کے رسول تھے ، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی باتیں سننے کے لئے جنوں کی ایک جماعت آپ ﷺ کی طرف بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرانے والے ہو جا ئیں اور ان پرحجت تمام ہو جا ئے ، اللہ تعالی نے ہر نبی سے وعدہ لیا تھا کہ اگر محمد ﷺ کی بعثت کے وقت کو ئی زندہ رہا تو وہ ان پر ضرور ایمان لا ئے گا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو بشارت دیا ، تورات و انجیل میں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تمام صفات وارد ہیں ، اسی کے ذریعہ خصوصی طور سے عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بشارت دیا ، بنی اسرائیل انہیں اپنے لڑکوں کی طرح جانتے تھے ، اہل کتاب کے نزدیک آپ ﷺ کی معروف نشانی آپ ﷺ کے کندھے پر مہر تھی ۔
ہمارا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے عبادت کی طرف بلانے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے و تصدیق کرنے کے لئے نبی ﷺ نےرؤسا اور ملوک کو خط لکھا ،
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کے لئےپوری زمین سمیٹ دیا تو آپ نے وہ تمام علاقے دیکھا جہاں تک امت محمدیہ کی حکومت پہونچے گی ،
آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نجران کے نصاری نے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھ کر مباہلہ سے گریز کیا اور جزیہ کی ادائیگی قبول کر لی کیوں کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ نبی ہیں ،
آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی کہ یہود و نصاری کے بیشتر علماء بلکہ اہل کتاب کے ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا ، آپ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے روم سے غزوہ کیا اور صحابہ کرام کو اس کے بعد فارس اور روم سے غزوہ کا حکم دیا ،
آپ ﷺ کے رسالت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ نے سراقہ سے وعدہ کیا کہ عنقریب وہ کسری کے کنگن پہنے گا اور اس نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پہنا۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کر دیتا ہے جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا تھاکہ ہر نبی کے دشمن ہوں اور ان تمام دشمنوں کے درمیان باطل پر اتفاق اور ان کی باتوں میں موافقت ہو،اسی لئے ہر امت میں رؤسا کی بات متماثل اور برابر ہوا کرتی تھی ، کبھی وہ سب آپ ﷺ کو جادو گر کہتے تو کبھی کاہن یا جھوٹا سے تعبیر کرتے ،کبھی آپ ﷺ کے پاس آئی ہو ئی آیتوں کا انکار کرتے توکبھی کہتے کہ آپ ﷺ نے اللہ پر بہتان باندھا ہے اورکبھی آپ ﷺ کو پاگل بھی کہتے حالانکہ اللہ کے تمام رسولوں کی عقل بین الناس سب سے کامل تھی ، ان کا دل سب سے زیادہ پاک تھا ، کبھی کبھی آپ ﷺ کی دعوت یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی تمجید کرتے تو کبھی اس کی تردید کرتے کیوں کہ آپ ﷺ ان کی طرح انسان تھے ، گاہے بگاہے کبرو غرور اور عناد کی بنیاد پر وہ نبی ﷺ سے ایسا مطالبہ کرلیتے کہ وہ کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتاتھا ، کہتے کہ محمد ﷺ زمین سے چشمہ نکا ل دیں ، ان کےلئےایک باغ میسر ہو جا ئے ، ان پر موسلا دھار بارش کا نزول ہو ، آپ ﷺ ان کے پاس اللہ اور فرشتوں کو لے آئیں ، نبی ﷺ کے لئے سونے کا ایک گھر ہو جا ئے ، وہ آسمان میں چڑھ جا ئیں ، ان پر کتابوں کا نزول ہو اور کبھی کبھی کہتے کہ نبی ﷺ نے جس چیز کا ان سے وعدہ کیا ہے وہ ان تک لے کر آئیں ، کبھی وہ انہیں اللہ کی راہ سے روکتے اور اپنے اتباع و پیرو کاروں کو کہتے کہ قرآن نہ سنو بلکہ اس میں بے ہودہ گوئی کرو ، کبھی وہ رسول کی تکذیب کرتے تو کبھی آپ ﷺ پرالزام لگاتےکہ وہ ایک انسان ہیں ، انہیں نبی نہیں بلکہ ایک انسان سکھا رہا ہے ، وہ باتیں من جانب اللہ وحی نہیں ہیں بلکہ اس انسان کی باتیں ہیں ۔
کبھی کبھی وہ رسول سے اعراض کرتے تھےکیوں کہ ان کی اتباع کرنے والے کمزور ہوا کرتے تھےتوکبھی وہ رسولوں کا مذاق اڑاتے اور ان کے ساتھ مسخراپن کرتے ، کبھی وہ رسول کودھوکہ دیتے کبھی کبھی وہ ان سے مصالحت کرنا اور ان کی طرف مائل ہو نا چاہتے۔ اور کبھی کبھی دشمن ایسی چیز سے نبی کو موصوف کرتا جس کو وہ جانتا ہے کہ وہ اس میں جھوٹا ہے جیسا کہ فرعون نے موسی علیہ السلام کو کفر سے تعبیر کیا ۔
کبھی رؤسائے قوم نبیوں کو اپنی سر زمین سے نکالنے کی دھمکی دیتے ، کفار قریش نے نبی ﷺ ، ان کے ساتھیوں اور بنی ہاشم کا شعب أبی طالب میں تین سال تک محاصرہ کر رکھا تھا اور نبی ﷺ کو انہیں کے شہر سے انہوں نے نکال دیا ، ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے انہیں آگ میں جلانے کی کوشش کیا تو اللہ تعالی نے انہیں بچا لیا ، بنی اسرائیل نے سارے نبیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے بہت سے نبیوں کو توقتل کر دیا لیکن کچھ بچ گئے ۔
رؤسائے قوم نے نبیوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا اور بعد کے ادوار میں ہر مصلح کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا، ہر ایک کے ساتھ یہ سنت جاری رہی ۔