ارکان ایمان کا چوتھا رکن رسولوں پر ایمان لانا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ مَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ}رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے۔ (البقرۃ : ۲۸۵) اور فر مایا {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ} ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو ۔ ( البقرۃ : ۱۷۷) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فر ماتے ہیں کہ’’كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولُ اللهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: اللہ کے رسولﷺ ایک دن لوگوں کے پاس تشریف رکھتے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا ،یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ‘‘ کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر ، اس کی ملاقات پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ۔ (صحیح بخاری : ۴۷۷۷، صحیح مسلم :۹)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کے أسماء و صفات اور اس کے افعال کی جانکاری ہی انبیاء علیہم السلام کے دعوت کی بنیادتھی ، تمام نبیوں کو اللہ تعالی نے توحید کے ساتھ بھیجا اور سارے نبیوں نے اللہ وحدہ کی عبادت کرنےکی دعوت دیا اور اللہ کے علاوہ تمام کی عبادت سے منع کیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ} تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ ( الأنبیاء : ۲۵ ) ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا {اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ }تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں سو کیا تم نہیں ڈرتے ۔ (الأعراف : ۶۵) سارے انبیاء ایمان اور توحیدمیں مکمل تھے ،خالق ، مخلوق اور ان پر عائد ہونے والے تمام واجبات اور ممنوعات کی جانکاری سب سے زیادہ انہیں کو حاصل تھی ۔
ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو دوعظیم اصل کی طرف بلایا اور وہ دونوں یہ ہیں (۱) اللہ وحدہ کی عبادت(۲) اور یوم آخرت اور اپنے اولیاء کے لئے اللہ تعالی کی تیار کردہ نعمتوں اور دشمنوں کے لئے عذاب پر ایمان لاناجیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے { لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ }ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔ (الأعراف : ۵۹ ) اور فر مایا {وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ } اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو میں تمہیں آسودا حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے۔ (ھود :۸۴) اور فر مایا {وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ } اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں ۔ ( الأحقاف :۲۱)
ہمارا ایمان ہے کہ دعوتی میدان میں تمام انبیاء بڑے بڑے اصولوں میںمتفق ہیں ، تمام نبیوں نےایما ن باللہ ، ایمان بالملائکہ ، ایمان بالرسل ، ایمان بالکتب ، ایمان بالیوم الآخر اور ایمان بالقدر خیرہ و شرہ کی دعوت دیا ہے ، تمام نبیوں نے اہم اہم عبادات جیسے نماز ، زکوۃ ، روزہ اورحج اور اخلاق محمودہ کی طرف بلایا اور مذموم اخلاق سے منع کیاجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ }اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں ۔ (الشوری : ۱۳) گویاتمام انبیاء اصل میں متفق ہیں لیکن شرعی احکام و تفاصیل میں مختلف ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا}ہ اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی ۔ (المائدۃ : ۴۸)
ہمارا ایمان ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ، تمام کی طرف سے دی گئی غیبی خبروں ںکی تصدیق کرنا ، ان کی طرف سے دیئے گئے احکام کی بجا آوری اور منع کردہ کام سے اجتناب کرنا ، ان سے محبت کرنا ، ان کی توقیر کرنا ، ان کی اقتدا کرنا واجب ہے، ان کے لئےاس بات کی گواہی دینابھی واجب ہے کہ انہو ںنے پیغام پہونچا دیا ہے ، امانت کی ادائیگی کردی ہے ، اللہ اور اس کے بندوں کے لئے خیر خواہی کا فریضہ انجام دیا اور اللہ کی راہ میں حقیقی جہاد کیا ہے ، ہر امت پر اس رسول کی شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے جو اس کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور امت محمدیہ کے ہر جن و انس پر اللہ کے رسول ﷺ کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے کیوں کہ وہ تمام جن و انس کی طرف بھیجے گئے تھے ۔
تمام انبیاء عوام الناس کو تاریکی ، کفر اور جہالت سے نکالنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے گر چہ وہ دنیا میں با عزت ہوں ، بادشاہ ہوں ، طاقت ور اور بکثرت کھیتی کرنے والے یا بڑے بڑے کا رخانوں کے مالک رہے ہوںجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ } (یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انھیں اللہ کے احسانات یاد دلا بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر شکر کرنے والے کے لئے ۔ (ابراھیم : ۵) اور فر مایا { أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ (۱۲۸) کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشا یادگار (عمارت) بنا رہے ہو (۱۲۸) وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ (۱۲۹) اور بڑی صنعت والے [مضبوط محل تعمیر] کر رہے ہو، گویا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو گے (۱۲۹) وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ (۱۳۰)} اور جب کسی پر ہاتھ، ڈالتے ہو تو سختی اور ﻇلم سے پکڑتے ہو(۱۳۰) ۔ (الشعراء : ۱۲۸-۱۳۰) اور فر مایا {أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَ عَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ } کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا وہ ان سے بہت زیادہ توانا اور طاقتور تھے اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم کرتا لیکن (دراصل) وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ (الروم : ۹)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے انہیں بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ وہ رسولوں کے بعد اللہ کے لئے لوگوں کے خلاف حجت ہو جا ئیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا} ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے ۔ (النساء : ۱۶۵ )
ہماراایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ} ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ (النحل : ۳۶ ) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي‘‘ انبیاء بنی اسرائیل کی سیاسی رہنمائی کرتے تھے، جب کوئی نبی ہلاک ہوجاتا تواس کےپیچھے ایک نبی آجاتا اورمیرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ (صحیح بخاری : ۳۴۵۵، صحیح مسلم : ۱۸۴۲، سنن ابن ماجۃ : ۲۸۷۱) بلکہ اللہ تعالی نے ہمیں خبر دیا ہے کہ اس نے بیک وقت ایک ہی بستی میں تین انبیاء کرام کو مبعوث کیا جیسا کہ فر مایا {إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ } جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں ۔ (یس : ۱۴)
ان میں سے ہمیںجن کا نام معلوم ہے ان پر ایمان لانا واجب ہے اور جن کا نام نہیں معلوم ہے ان پر بھی اجمالا ایمان لانا واجب ہے گویا تمام انبیا ء و رسل پر ایمان لانا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا } اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت کے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ ( النساء :۱۶۴ ) اور فر مایا {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ} رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ ۔ (البقرۃ : ۲۸۵) اور فر مایا {قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ }آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) پر اور دوسرے (انبیاء علیہما السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے ان سب پر ایمان لائے ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں ۔ ( آل عمران : ۸۴ )
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت جس بات کا تقاضا کرتی ہے اسی حساب سے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر ما یا {وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا}اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔ (الفرقان :۵۱) اور فر مایا {ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّمَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ} پھر ہم نے لگاتار رسول بھیجے جب جب جس امت کے پاس اس کا رسول آیا اس نے جھٹلایا، پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیا اور انھیں افسانہ بنادیا، ان لوگوں کو دوری ہے جو ایمان قبول نہیں کرتے۔ (المؤمنون: ۴۴) اس کا تعاقب کو ئی نہیں کر سکتا ، وہ جو چاہے کرسکتا ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ } اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں، اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں ۔ (القصص : ۶۸)
اگرکسی نے ایک نبی کا انکار کیا تو گویا اس نے سارے نبیوں کا انکار کیا جیسا کہ اللہ رب العالمین کافر مان ہے {كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ} نوح کی قوم نے سارے رسولوں کو جھٹلایا ۔ (الشعراء: ۱۰۵) اسی طرح اللہ کا یہ فر مان بھی ملاحظہ کریں {كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ}ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو وعید آ پہونچا ۔ (ق: ۱۴)
ہمارا ایمان ہےکہ نبوت اللہ تعالی کااحسان اور اس کی رحمت ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ، اللہ فرشتو ں اور بندوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ} فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔ (الحج :۷۵ ) اور فر مایا { اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ}اس موقع کو تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے ۔ (الأنعام : ۱۲۴) تو نبوت کسبی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بندہ اسے بہت زیادہ اطاعت و بندگی سے حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی تزکیہ نفس ، مجاہدہ، تطہیر قلب اور معاملات کی پاکیزگی سے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ تمام انبیاء و رسل میں سے بعض کوبعض پر فضیلت حاصل ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ}یہ رسول ہیں ،جن میں سے بعض کو بعض پرہم نے فضیلت دی ہے ، انہیں میںسے بعض سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کا درجہ بلند کیاہے اور ہم نے عیسی بن مریم کو واضح نشانیاں عطا کیا،روح القدس سے ان کی تائید کی۔ ( البقرۃ :۲۵۳) سب سے افضل اولو العزم انبیاء تھے اور ان تمام کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے {وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا} (اور یاد کرو اس وقع کو )جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، اور ہم نے ان سے (پکا اور) پختہ عہد لیا ۔ (الأحزاب : ۷ ) اور اس آیت میں بھی اشارہ کیا ہے {فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ }پس (اے پیغمبر ! ) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا ۔ (الأحقاف : ۳۵) اور ان اولو العز م نبیوں میں سب سے افضل دو نوں خلیل تھے (۱) ابراہیم علیہ السلام (۲) محمد ﷺ جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے جو اپنے کو اللہ کے تابع کردے وہ بھی نیکو کار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنایا ہے ۔ (النساء: ۱۲۵ ) اور جندب رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں نےآپ کو وفات سے پانچ (دن ) پہلے یہ کہتے ہو ئے سنا ’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللهِ أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللهِ تَعَالَى قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘ میں بیزار ہوں اللہ کی طرف اس بات سے کہ تم میں سے میرا کو ئی دوست ہو اس لئے اللہ نے مجھے دوست بنایا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنایا تھا۔ (صحیح مسلم :۵۳۲ )
اور ہم اس بات پر گواہ ہیں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ رسولوں میں سب سے افضل تھے جیساکہ آپ ﷺ کا فر مان ہے ’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘ میں بروز قیامت ابن آدم کا سردار ہوں گا ۔ (صحیح مسلم :۲۲۷۸ )
اور جہاں بات ہے نبی ﷺ کے کسی نبی کوکسی نبی پر فضیلت دینے سے منع کرنے کی تو یہ ممانعت بطریق عصبیت ، تنقیص اور حمیت ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فر ماتے ہیں کہ’’اسْتَبَّ رَجُلاَنِ رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ، قَالَ المُسْلِمُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا عَلَى العَالَمِينَ، فَقَالَ اليَهُودِيُّ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى العَالَمِينَ، فَرَفَعَ المُسْلِمُ يَدَهُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَطَمَ وَجْهَ اليَهُودِيِّ، فَذَهَبَ اليَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، وَأَمْرِ المُسْلِمِ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُسْلِمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جن میں کا ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی، مسلمان نے کہا، اس ذات کی قسم! جس نے محمدکو تمام جہان والوں پر منتخب کیا اور یہودی نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام دنیا والوں پر منتخب کیا،تو مسلمان اسی وقت اپنا ہاتھ اٹھا یا اور یہودی کے چہرے میں ماراتو یہودی نبی ﷺکے پاس گیااور اپنا اور مسلمان کاواقعہ بیان کیا تو نبی ﷺ نے مسلمان کو بلایا اور اس سے واقعہ کے متعلق پوچھا تو اس نےانہیں تفصیل بتا دی، تونبی ﷺ نے فرمایا: لاَ تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ العَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ، فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ‘‘ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو، لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دیئے جائیں گے،میں بھی ان کے ساتھ بے ہوش ہو جاؤں گا پھرمجھے ہی سب سے پہلے ہوش آئے گا تو موسیٰ علیہ السلام عرش کا کنارہ پکڑے ہوئے ہوں گے ، مجھے یہ نہیں معلوم کہ موسیٰ بھی بیہوش ہونے والوں میں سےہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آ جائے گا یاان میں سے ہوں گے جنہیں اللہ نے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ (صحیح بخاری : ۲۴۱۱، صحیح مسلم: ۲۳۷۳، سنن أبی داؤد ، ۴۶۷۱، جامع الترمذی : ۳۲۴۵ ، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۷۴) اور لفظ میں ہے ’’ فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: تو اللہ کے رسول ﷺ غصہ ہو گئے حتی کہ غصہ ان کے چہرے میں جان لیا گیا پھر کہا: "لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللهِ‘‘ اللہ کے نبیوں کے در میان فضیلت نہ دو (یعنی بعض کو بعض سے بہتر قرار نہ دو )۔ (صحیح مسلم :۲۳۷۳)
اگر اللہ تعالی نے ابراہیم اور محمد علیہما الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایاتو موسی علیہ السلام کو اپنی رسالت اور گفتگو کے لئے لوگوں پر منتخب بھی کیا اور نبی محترم محمد ﷺ کو دوستی کا سب سے بڑا مرتبہ حاصل ہوا ، آپ ﷺ نے اسراء کی رات پردے کے پیچھے سے اپنے رب سے کلام کیا ، اللہ تعالی نے فر مایا {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى}پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔ (النجم : ۱۰ ) گویا نبی کریم ﷺ دوستی اور تکلیم دونوں سے سرفراز ہو ئے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء سب سے افضل انسان تھے ، ان کا مقام و مرتبہ بڑا اونچا تھا ، اتنا اونچا کہ اس تک کوئی شخص نہیں پہونچ سکتا خواہ وہ ولی ہوں یا کو ئی اور اس لئے کسی انسان کو کسی نبی پر فائق سمجھنا جائز نہیں ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَكُونَ خَيْرًا مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى‘‘کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے ۔ (صحیح بخاری : ۴۸۰۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے بہت سارے رسول مبعوث کیا جیسا کہ فر مایا {وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ} تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے ۔ (الأنبیاء : ۷)
اور ہم جانتے ہیں کہ انبیاء اور رسل علیہم السلام چنیدہ مخلوق ہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے: {اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلاَئِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِير} اللہ تعالی فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو چن لیتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ [الحج: 75] ہمیں معلوم ہے کہ دیگر انسانوں کی طرح تمام انبیاء بھی انسان تھے لیکن ان کادین ،ان کی عقل اوران کے اخلاق میں انسا نو ں کے مقابلےزیادہ کامل تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ}آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں [ہاں] میری جانب وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف :۱۱۰) گویا انبیاء بقیہ انسانوں کی طرح انسان تھے بس فرق یہی تھا کہ ان کی طرف وحی کی جاتی تھی ، وہ احکام الہی کی تبلیغ میں معصوم تھے کیوں کہ انہوں نے وہی بتایا ہے جس کی انہیں وحی کی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نےاپنے نبی اور اپنے خلیل محمد ﷺ کی بابت فر مایا {وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (۳) اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (۳) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (۴) وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (۴) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى (۵) } اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے (۵) ۔ ( النجم : ۳-۵)
اگر کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہوا کہ جس سلسلے میں وحی کا نزول نہیں ہواتھا تو آپ نے اجتہاد کیا ، اگر اجتہاد میں غلطی ہو گئی تو اللہ تعالی نےوحی نازل کرکے آپ ﷺ کی اصلاح کیا لیکن اس غلط اجتہاد پر قائم نہیں رکھا جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے { مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ} نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہئیں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے ۔ (الأنفال : ۶۷) اور فر مایا {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ }اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ [کیا] آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔ (التحریم :۱)
غور کیجئے کہ نبیوں کا مقام و مرتبہ کافی بلند اور ان کا درجہ کافی اونچا ہے ، انہیں دنیا و آخرت میں مقام محمود عطا کیا گیا ہے لیکن وہ بھی کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں ہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین فر ماتا ہے {قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَ لَا يَسْتَقْدِمُونَ} آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو، ہر امت کے لئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ اگے سرک سکتے ہیں ۔ ( یونس :۴۹ )
سوچو کہ جب وہ اپنے ہی نفس کے مالک نہیں ہیں تو غیروں کے نفع و نقصان کا مالک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور اپنے خلیل علیہ السلام سے کہا {لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ۔ ( آل عمران : ۱۲۸) اور مسیح علیہ السلام کے سلسلے میں فر مایا {قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا }آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کردینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو ؟ ۔ (المائدۃ : ۱۷)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے چچا اور اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا ’’ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا - اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ المُطَّلِبِ لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لاَ أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘اے قریش کی جماعت ! -یا اسی طرح کا کو ئی کلمہ کہا -اپنے آپ کو خرید لو میں تمہیں اللہ سے کچھ بے نیاز نہیں کر سکتا ، اے بنی عبد مناف میں تمہیں اللہ سے کچھ بے نیاز نہیں کر سکتا ، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں تمہیں اللہ سے کچھ بے نیاز نہیں کر سکتا اور اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال میں سے تو جو چاہے مانگ لے میں تجھے اللہ سے کچھ بے نیاز نہیں کر سکتا ۔ (صحیح بخاری : ۲۷۵۳، صحیح مسلم : ۲۰۶ ، جامع الترمذی : ۳۱۸۵ ، سنن النسائی : ۳۶۴۶) گویا جب انبیاء اپنی زندگی ہی میں کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں تھےتو وفات کے بعد بدرجہ أولی کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوں گے ۔
ہمارا ایمان ہےکہ انبیاء کو اتنا ہی غیب حاصل تھا جتنا اللہ تعالی نے انہیں بتایا تھا اور جتنے کے سلسلے میں انہیں اجازت دیا تھا ، اللہ تعالی نے فر مایا {قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ } آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں ۔ (الأنعام : ۵۰ ) اور فر مایا {قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَ بَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ}آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ۔ (الأعراف : ۱۸۸) اور فر مایا {عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (۲۶) وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (۲۶) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (۲۷)} سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے(۲۷) ۔ (الجن : ۲۶-۲۷ )
انبیاء و رسل خوف اور طمع کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ }یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔ ( الأنبیاء : ۹۰ ) اور اسی سے وسیلہ طلب کرتے اور اسی کا تقرب حاصل کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا } جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔ ( الإسراء : ۵۷ )
نبیوں اور رسولوں کو وہ تمام چیزیں لا حق ہوتی تھی جو ایک انسان کو لا حق ہوتی ہیں جیسے مصیبت ، بیماری اور موت جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ}یقینا آپ بھی مرنے والے ہیں اوروہ لوگ بھی مرنے والے ہیں ۔ (الزمر: ۳۰ ) اور اللہ تعالی نے ایوب علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتے ہو ئے فر مایا کہ انہیں بھی تکلیف پہونچی تھی جیسا کہ فر مایا { وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}اور ایوب نے جب اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہونچی ہےاور تو ارحم الراحمین ہے ۔ (الأنبیاء : ۸۳ ) ان کے پاس بھی بیوی بچے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً}ہ ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ۔ (الرعد : ۳۸ ) وہ بھی کھاتے پیتے اور بازار جاتے تھےجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ} ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ (الفرقان : ۲۰ ) اور انہیں بھی رنج ہوتا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نےیعقوب علیہ السلام کے بارے میں فر مایا {وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَاأَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ} پھر ان سے منہ پھیرلیا اور کہا ہائے یوسف ! ان کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوچکی تھیں اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے ۔ (یوسف : ۸۴) صحیحین میں اللہ کے رسول ﷺ کے نواسے کی وفات کے بارے میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا ’’فَلَمَّا قَعَدَ رُفِعَ إِلَيْهِ، فَأَقْعَدَهُ فِي حَجْرِهِ، وَنَفْسُ الصَّبِيِّ جُئِّثَتْ، فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: جب وہ بیٹھے تو اسے ان کی طرف رفع کر دیا گیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا اس حال میں کہ بچے کا نفس پھڑ پھڑا رہا تھا تو اللہ کے رسول ﷺ کی آنکھیں بہہ پڑیں ، تو سعد نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ فر مایا: هَذِهِ رَحْمَةٌ يَضَعُهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ‘‘ یہ رحمت ہے جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہےاور اللہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر رحم کرتا ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۶۶۵۵، صحیح مسلم : ۹۲۳، سنن أبی داؤد : ۳۱۲۵، سنن النسائی : ۱۸۶۸، سنن ابن ماجۃ : ۱۵۸۸) ( جئث یہ فزع، کے معنی میں ہے، اور اس سے اسم مفعول مجئوث آتا ہے، یعنی: گھبرایا ہوا۔ . فتح الباري (722/8)، والنهاية في غريب الحديث (1/ 232)
ہمیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء تمام مخلوق کے خیر خواہ تھے ، انہوں نے امانت کی ادائیگی کر دی ہے ، اپنے رب کا پیغام پہونچا دیا ہے ، اب اگر چندلوگوں نے ان کی بات تسلیم نہیں کیا یا ان کی دعوت قبول نہیں کیاتو انہیں اس کا کو ئی نقصان نہیں ہوگا ، اسی طرح سرداروں کے کبرو غرور سے بھی انہیں کو ئی تکلیف نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَ النَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ‘‘ مجھ پر کئی امتیں پیش کی گئیں تو میں نبی ﷺ اور ان کے ساتھ ایک جماعت کو دیکھا اور دیگر نبیوں کو دیکھا جن کے ساتھ ایک آدمی اور دو آدمی تھے اور ایسے نبی بھی دیکھا جن کے ساتھ کو ئی نہیں تھا ۔ (صحیح بخاری : ۵۷۰۵ ، صحیح مسلم : ۲۲۰ ، جامع الترمذی : ۲۴۴۶)
ہمارا ایمان ہے کہ جب عیسی علیہ السلام کی قوم نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ فر مان الہی ہے {فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (۵۲) مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کا کفر محسوس کر لیا تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والاکون کون ہے؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں(۵۲) رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (۵۳) اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان ﻻئے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے (۵۳) وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (۵۴)} اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے (۵۴) ۔ (آل عمران : ۵۲ -۵۴ ) اور فر مایا {وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ } اور یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) قیام کی نشانی ہے ،پس تم (قیامت) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔ (الزخرف : ۶۱) ابن عباس رضی اللہ عنہ ، مجاہد اورقتادہ رحمہما اللہ کے نزدیک اس سے مراد نزول عیسی بن مریم علیہ السلام ہے ۔ ( تفسیر الطبری : ۲۰ ؍ ۶۳۱- ۶۳۳)
اور اللہ تعالی نے فر مایا {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا } اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہونگے۔ (النساء : ۱۵۹ ) ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ{ قَبْلَ مَوْتِهِ} کا معنی ہے عیسی بن مریم کی موت سے پہلے ۔ (تفسیر الطبری : ۹؍ ۳۸۰ )
ہمارا ایمان ہے کہ وہ آخری وقت میں انصاف ور حاکم کی حیثیت سے نازل ہو ںگے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےقریب ہے کہ تمہارے درمیان ابن مریم حاکم اور انصاف ور کی حیثیت سے نازل ہوں تو وہ صلیب توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ ختم کر دیں گے، مال اتنا زیادہ ہو جا ئے گا کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ (صحیح بخاری : ۲۲۲۲، صحیح مسلم : ۱۵۵، سنن أبی داؤد : ۴۳۲۴، جامع الترمذی : ۲۲۳۳، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۷۸)
عیسی علیہ السلام کے نزول کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ........‘‘ اسی دوران اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے یعنی دو جوڑے میں، اور ثوب مہرود ایسے کپڑے کو کہتے ہیں جو پہلے ورس سے رنگا گیا ہو پھر زعفران سے۔ [ النہایۃ فی غریب الحدیث 5/258] اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے،جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی ۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۳۷ ، سنن أبی داؤد : ۴۳۲۱، جامع الترمذی : ۲۲۴۰ ، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۷۵)