ہمیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہر نبی کو وہی نشانیاں عطا کیا ہے جس پر ایک انسان ایمان لے آئے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الآيَاتِ مَا مِثْلُهُ أُومِنَ، أَوْ آمَنَ، عَلَيْهِ البَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں ہے مگر اسے ایسی نشانیاں دی گئی ہیں کہ جن کے مثل پر ایمان لایا گیا ہے یا اس پرانسان ایمان لاسکتا ہے اور مجھے جو دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے ان سے زیادہ ہوں گے ۔ (صحیح بخاری : ۷۲۷۴، صحیح مسلم : ۱۵۲)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر نبی کوایک نشانی ایسی عطا کیا ہے جو اس کی صداقت پر دلا لت کرے ، چاہے ہم اسے جا نیں یا نہ جا نیں ، ان میں سے چند کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم بھی ہے کہ سابقہ نبیوں کی تائید اللہ تعالی نے بے شمار آیتوں سے کیا ہے لیکن سب کا تذکرہ یہاں نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ}جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وہ دوزخی ہیں ۔ (المائدۃ : ۱۰ ) اور فر مایا {كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ}ی جیسا آل فرعون کا حال ہوا اور ان کا جو ان سے پہلے تھے انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ان کے گناہوں پر پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (آل عمران :۱۱) کبھی کبھی اللہ تعالی واضح نشایوں اور مضبوط دلائل کا تذکرہ کرتا ہے جیسا کہ اللہ کا یہ فر مان ملاحظہ کریں {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ} اور یقیناً ہم نے ہی موسیٰ کو اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تھا ۔ (ھود : ۹۶ ) اور فر مایا {قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا} اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے بسبب ہماری نشانیوں کے ۔ (القصص : ۳۵ ) عکرمہ فر ماتے ہیں ’’ ما كان في القرآن من’’سلطان‘‘ فهو: حجّة‘‘ قرآن میںموجود ہر دلیل حجت ہے۔ ( تفسیر الطبری : ۸؍ ۳۰ ، ۹؍ ۳۳۷ )
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جن دلیلوں اور جن نشانیوں کے ذریعہ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی تا ئید کیا ہے اس کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی سب سے بڑی دلیل ان کا لا یا ہوا پیغام یعنی وحی ہے ، اب وہ وحی یا تو بلا واسطہ ہوا کرتی تھی جیسے خواب ، اسی ضمن میں اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی بابت خبر دی ہے کہ انہوں نےفر مایا {فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ} پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس (ابراہیم علیہ السلام)) نے کہا کہ میرے پیارے بچے ! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ (الصآفات : ۱۰۲) یا پردے کے پیچھے سے رسول ڈائریکٹ اللہ تعالی کا کلام سنتے تھے جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے ۔ (الشوری : ۵۱ ) یاجیسا کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے بات کیا جیسا کہ اللہ تعالی کا فر مان ہے {قَالَ يَامُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}ارشاد ہوا اے موسیٰ ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اس کو لو اور شکر کرو ۔ (الأعراف : ۱۴۴) یا ان سےفرشتہ بات کرتا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ}یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے۔ (الشوری :۵۱)
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی سب سے بڑی دلیل توحید ہے ، اسی توحید کی طرف ہی تمام نبیوں نے عوام الناس کوبلایاہے ،انسانی فطرت بھی توحید کا تقاضا کرتی ہے ،عقلی اعتبارسے بھی توحید ثابت ہے، اس کے علاوہ انبیاء کا لایا ہوا پیغام جیسےعلم نافع ، عمل صالح ، ہدایت ، دین حق اور میزان بھی نبیوں کے صداقت کی سب سے بڑی دلیلیں ہیں ، عبید اللہ بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بتایا اور یہ فر ما تے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے بتایا کہ’’ أَنَّ هِرَقْلَ، قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ، مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ‘‘ہرقل نے ان سے کہا تھا کہ میںنے تم سے پوچھاتھا کہ وہ تمہیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ تو تم نے بتایا تھا کہ وہ تمہیں نماز ، سچائی ، پا ک دامنی ، عہد وفا اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں ، کہا یہی نبی کی صفت ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۶۸۱، صحیح مسلم : ۱۷۷۳، جامع الترمذی : ۲۷۱۷)
اور جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے پاس جب سورئہ مریم کا ابتدا ئی حصہ تلاوت کیا تو اس نے کہا ’’وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا الْكَلَامَ وَالْكَلَامَ الَّذِي جَاءَ مُوسَى لَيَخْرُجَانِ مِنْ مِشْكَاةٍ وَاحِدَةٍ‘‘ اللہ کی قسم یہ کلام اور وہ کلام جو موسی لا ئے تھے وہ دونوں ایک ہی چراغ سے نکلتے ہیں ۔ (مسند أحمد : ۱۸۳۵)
اسی کی ایک دلیل اللہ کا یہ گواہی دینا بھی ہے کہ تمام رسول حق پر ہیں اور ان کا لایا ہوا پیغام بھی بر حق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا} جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ (النساء : ۱۶۶) اور اللہ تعالی نے فر مایا {وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ } یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں،آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔ (الرعد : ۴۳)
ان کی سب سے بڑی نشانی ان پرمن جانب اللہ نازل ہو نے وا لی وحی ہے اور سب سے بڑی وحی قرآن مجید ہےاور یہی نبی محترم ﷺ کی سب سے بڑی نشانی ہے کیوں کہ اس کے مثل کو ئی لا ہی نہیں سکتا ، یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے، اس میں غیبی خبریں ، ہدایت ، نور ، رحمت اور حکمت ہے ۔
ان کی نشانیوں میں سےوہ واضح اور عقلی دلیلیں بھی ہیںجن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے تو کافر ہکا بکا و باطل پست ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ } کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ، اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (البقرۃ : ۲۵۸) ایک اور جگہ فر مایا {فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ (۷۷) رب العالمین کے علاوہ سب میرے دشمن ہیں ( ۷۷) الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ (۷۸) جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے (۷۸) وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ (۷۹) وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے (۷۹) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (۸۰) اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے (۸۰) وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ (۸۱) اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کردے گا (۸۱) وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (۸۲) اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا(۸۲) ۔ (الشعراء : ۷۷-۸۴) اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کا وہ قول نقل کیا ہے جو انہوں نے فرعون کو کہا تھا {قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى }جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔ (طہ : ۵۰ ) اور اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فر مان بھی ملاحظہ کریں { لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ} اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں ۔ (الأنبیاء: ۲۲) اور یہ بھی فر مایا {مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ} نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک (اور بےنیاز) ہے ۔ (المؤمنون : ۹۱) اس طرح کی توحید ربوبیت اور الوہیت کے باب میں بے شمار دلیلیں ہیں جن میں سے ہم نے بعض کا تذکرہ کیا ہے اور ان میں سب سے بڑی نشانی ان غیبی باتوں کا بتانا ہے جن کے بتانے کی اجازت اللہ نے دے دیا ہے ۔
ان کی تمام ظاہری نشانیوں میں سے سابق انبیاء اور ان کے پیرو کاروں کو دشمنوں کے مکر اور کبرو غرور کرنے والوں سے بچانا اور نجات دلانا اورگزشتہ کارناموں کے ذریعہ تمام مدعو ین کو اللہ کی طرف سے نصیحت کرناہے، اللہ کی سنت گزر چکی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا اسی طرح اللہ تعالی نے جب سورۃ الأنبیاء کے شروع میںحق بات کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ فر مایا {ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَيْنَاهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَ أَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ }پھر ہم نے ان سے کیے ہوئے سب وعدے سچے کیے، انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا۔ (الأنبیاء : ۹ ) اور اس کے آخر میں فر مایا {وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ}ہم زبور میں پند ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے [ہی] ہوں گے ۔ (الأنبیاء: ۱۰۵) اور فرمایا: {كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ (۴۲) انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں پس ہم نے انہیں بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا(۴۲) أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ (۴۳)} (اے قریشیو!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ یا تمہارے لیے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟ ۔ (القمر: ۴۲-۴۳) سورۃ الشعراء میں اللہ تعالی نے جب جب گزشتہ انبیاء کے نجات اور ان کے دشمنوں کی ہلاکت کا ذکر کیا تو اس کے معا بعد حق بات کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا { إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ }یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کےاکثر لوگ ایمان والے نہیں ۔ (الشعراء : ۶۷) اور فر مایا {فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ}اب بھی یہ روگرداں ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب آسمانی) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اورثمودیوں کی کڑک ہوگی ۔ (فصلت :۱۳) اور فر مایا { أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ}کیا انہوں نے زمین پر چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا (برا) ہوا؟ وہ ان سے بہت زیادہ توانا (اور طاقتور) تھے اور انہوں نے (بھی) زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے۔ یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ﻇلم کرتا لیکن (دراصل) وہ خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے۔ (الروم : ۹ )
ان کی نبوت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں ان کی عادتوں ، ان کے اخلاق و افعال اور ان کی سیرت کا بہتر ہونااور جھوٹ سے پرے ہو کر ان کی بات کا سچ ہونا بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کے بارے میں فر مایا {قَالُوا يَاصَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا أَتَنْهَانَا أَنْ نَعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ}انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے، کیا تو ہمیں ان کی عبادتوں سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے۔ (ھود : ۶۲) اور شعیب علیہ السلام کے بارے میں فر مایا {قَالُوا يَاشُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ }انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے ۔ (ھود : ۸۷)
ہرقل نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے نبی محترم ﷺ کے بارے میں پوچھنے کے بعد فر مایا ’’وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ‘‘ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے سے پہلے کیا تم اس پر دروغ گوئی کا الزام لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں، تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ ( صحیح بخاری: ۷ ، صحیح مسلم : ۱۷۷۳)
اسی طرح ان کے نبوت کی ایک دلیل انبیاء کا تواتر کے ساتھ آیات کا نقل کرنا اور ان کا لایا ہوا علم ، ہدایت ، دین حق بھی ہے جس کے جھوٹ پر اتفاق کو محال سمجھنا بھی ہے ۔
اسی طرح ان کی نبوت کی ایک نشانی ان کا اپنی رسالت پر اجرت کا مطالبہ نہ کرنا اور بادشاہت کا طلب گار نہ ہو نا بھی ہے ، چونکہ اللہ تعالی نے اکثرو بیشتر نبیوں کا قول قرآن مجید میں نقل کیا ہے ، ہر ایک نے اپنی قو م سے کہا {يَاقَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلَا تَعْقِلُونَ } اے میری قوم! میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے تو کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ (ھود : ۵۱)
انبیاء کی نبوت میں وہی شخص کمی نکالے گاجو جاہل ہوگا ، جو نبیوں کے لا ئے ہو ئے علم ، دین اورہدایت میں غور و فکر نہیں کرتا ہوگا ،جو غرور و تکبر اور دشمنی میں ڈوبا ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا} انہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ﻇلم اور تکبر کی بنا پر ۔ (النمل : ۱۴ ) اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فر مایا { قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ} ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ (الأنعام : ۳۳)
نبیوں کی کچھ نشانیاں توحسی ہیں یعنی انہیں آنکھیں دیکھتیں اور دل تسلیم کرتا ہے جیسے قوم نوح کا غرقاب ہونا ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور ابراہیم علیہ السلام کی نشانیاں جیسے ان کا آگ سے صحیح سالم بچنا ، ہود علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج دینا کہ وہ سب مل کر چال چلیں ، موسی علیہ السلام کی نشانیاں جیسے لاٹھی ، ٹڈی ، جوں ، مینڈھک ، خون ، طوفان اورفرعون اور ان کی قوم کا ڈوبنا اور داؤد علیہ السلام کی نشانیاں :جیسے پہاڑوں کا تسبیح پڑھنا ، لوہے کا نرم ہونا اور سلیمان علیہ السلام کی نشانیاں جیسے ہوائیں چلانا اور جن کا ان کے لئے مسخر کرنا اور پرندوں کی بو لی سمجھنا اور عیسی علیہ السلام کی نشانیاں جیسے گونگے ، اندھے اوربرص کی بیماری والے شخص کوشفا دے دینا اورمردوں کو زندہ کرنا، اسی طرح عیسی علیہ السلام مٹی کی چڑیا بنا کر اس میںپھونکتے تو حقیقی چڑیا بن جاتی ۔ اور رہی بات ہمارے نبی محمدﷺ کی تو ان کی بے شمار نشانیاں ہیں ، اتنی زیادہ کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہےجیسے چاند کا پھٹنا ، اسراء و معراج ، غلے کا زیادہ ہونا ، چوپا ئے کا بات کرنا ، کنکری کا تسبیح پڑھنا ، دشمنوں کے خلاف اللہ کی نصرت و تائید۔
اسی طرح حق کی طرف بلانے والے نبی کی حالت بھی ایک نشانی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ حق کی طرف بلانے والے سچے اور جھوٹے داعی کے درمیان فر ق کرتے ہیںاور اسی لئے عبد اللہ بن سلام نے کہا تھا ’’ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ‘‘ جب اللہ کے رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسولﷺ آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے اللہ کے رسول ﷺ کا چہرہ دیکھا تو پہچان گیا کہ ان کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے ۔ ( جامع الترمذی : ۲۴۸۵ ، سنن ابن ماجۃ : ۱۳۳۴، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۲۵۸۹۸ ، مسند أحمد : ۲۳۷۸۴، المنتخب من مسند عبد بن حميد: ۴۹۶) اور ان کے علاوہ دیگر آیات۔
اس کے علاوہ اور بہت ساری نشانیاں ہیں لیکن قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے علاوہ انبیاء کی کو ئی نشانی اس دنیا میںباقی نہیں ہے ، صرف یہی دو نشانیاں باقی ہیں کیوں کہ یہ دونوں وحی ہیں جن کے حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ }ہم نے ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (الحجر : ۹ ) آپ ﷺ کی صداقت اور آپ ﷺ کی لا ئی ہو ئی شریعت کی صداقت پر قرآن و احادیث دونوں میں بے شماردلیلیں موجود ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ان شرعی و کو نی دلا ئل سے انبیاء کی مدد کرتا ہے جو اس کی حکمت کا تقاضا ہے ، اسی لئےاللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کردیتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ آیتیں اور نشانیاں دشمنوں کے کبرو غرور اور دشمنی ہی میں اضافہ کرتی ہیں ، اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا } ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طرح بیان فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں لیکن اس سے انھیں تو نفرت ہی بڑھتی ہے ۔ (الإسراء : ۴۱) اور فر مایا {وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا } جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ۔ (المائدۃ: ۶۸) اور فر مایا {وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا } اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہونگے پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا ۔ (فاطر : ۴۲) اور فر مایا {وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ} اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے۔ (الأنعام : ۱۰۹) اور فر مایا {وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا }ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔ (الإسراء : ۵۹)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَجْعَلَ لَهُمُ الصَّفَا ذَهَبًا، وَأَنْ يُنَحِّيَ الْجِبَالَ عَنْهُمْ، فَيَزْرَعُوا، فَقِيلَ لَهُ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَسْتَأْنِيَ بِهِمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ نُؤْتِيَهُمُ الَّذِي سَأَلُوا، فَإِنْ كَفَرُوا أُهْلِكُوا كَمَا أَهْلَكْتُ مَنْ قَبْلَهُمْ، قَالَ: لَا، بَلْ أَسْتَأْنِي بِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَةَ: اہل مکہ نے نبی ﷺسے سوال کیا کہ وہ ان کے لئے صفا کو سونے کا بنا دے اور پہاڑ ان سے دور کردے تاکہ وہ کھیتی کر سکیں تو انہیں کہا گیاکہ اگر آپ چاہیں تو ان کے ساتھ انتظار کریں اور اگر چاہیں تو ہم انہیں ان کی مانگی ہو ئی چیز دے دیں لیکن اگر انہوں نے کفر کیا تو ہلاک کر دیئے جا ئیں گے جیسا کہ میں ان سے پہلے کے لوگوں کوہلاک کیا ہوں ،فر مایانہیں بلکہ میں ان کے ساتھ انتظار کروں گا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کیا: {وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً} (ہمیں نشانیوں کے نازل کرنے سےنہیں روکا مگر اس بات نے کہ پہلے کے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں،ہم نے ﺛثمودیوں کو بطور بصیرت اونٹنی دی ) ۔ (الإسراء: ۵۹ ) (مسند أحمد : ۲۳۳۳، مسند البزار : ۵۰۳۶ ، سنن النسائی الکبری : ۱۱۲۲۶، المستدرك على الصحيحين للحاکم : ۳۴۳۷، دلائل النبوۃ للبیہقی : ۶۰۵)
اور ہم جانتے ہیں کہ اگر اللہ تمام لوگوں کو ہدایت دینا چاہے تو دے سکتا ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ} اگر اللہ چاہتا تم سب کو ایک ہی گروہ بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ۔ ( النحل :۹۳) اور فر مایا {وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ} اور اگر اللہ کو منظور ہو تو ان سب کو جمع کردینا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے ۔ (الأنعام :۳۵ )
ہمارا ایمان ہے کہ انبیاء کی لا ئی ہو ئی دلیلیں اور وہ براہین جن کے ذریعہ اللہ نے ان کی مدد کیا ہے کسی مدعی نبوت ، جادو گر اور جھوٹے شخص کے لئے لانا محال ہے کیوں کہ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ کسی باطل پرست کی مدد صحیح دلیل کے ذریعہ نہیں کرے گا اور سچی دلیل کے ذریعہ کسی جھوٹے کی تصدیق نہیں کرے گا کیوں کہ اللہ اپنی شریعت اور اپنے حکم میں حکیم ہے اور اللہ کی حکمت اور اس کی سنت جاریہ اس سے منع کرتی ہے جیسا کہ اللہ نے فر مایا {وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (۴۴) اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا(۴۴) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (۴۵) تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے (۴۵) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (۴۶)} پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے (۴۶) ۔ (الحاقۃ : ۴۴-۴۶)