ہمارا ایمان ہےکہ ہمارےنبی محمد بن عبد اللہ ہی اللہ کے رسول تھے ، وہی خاتم الانبیاء والمرسلین تھے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ }م[لوگو] تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿ﷺ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے۔ (الأحزاب : ۴۰ ) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیںکہ ’’مَثَلِي وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، وَيَعْجَبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ‘‘ میری اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایاتو اسے حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ کر دیاسوائے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ کے،تو لوگ اس کا طواف کرنے اور اس پر تعجب کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ فر مایا کہ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔ (صحیح بخاری : ۳۵۳۵، صحیح مسلم :۲۲۸۶)
وہ بنی آدم کے سردار تھےجیسا کہ آپ ﷺ نے فر مایا ’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘ میں قیامت کے دن بنی آدم کا سردار ہو ں گا اور سب سے پہلے میں ہی قبر سے نکلوں گا اورمیں ہی سب سے پہلا شافع (شفاعت کرنے والا ) اور مشفع (شفاعت کیا گیا ) ہوں گا ۔ (صحیح مسلم :۲۲۷۸، سنن أبی داؤد : ۴۶۷۳) اوروہ اللہ رب العالمین کے خلیل تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا ’’لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي‘‘ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرا بھا ئی اور ساتھی ہے ۔ (صحیح بخاری : ۳۶۵۶)
اورہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ نبی ﷺ کے جیسی نشانیاںکسی اور رسول کو نہیں دی گئی ہیں ، آپ ﷺ کی سب سے بڑی نشانی قرآن مجید ہے جس کی ابتدائی پانچ آیتیں سب سے پہلے نازل ہو ئی ہیں جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں’’ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ العَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ المَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} [العلق: ۲]فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ ‘‘ اللہ کے رسولﷺ پر سب سے پہلی وحی بحالت نیند نیک خواب کی شکل میں آئی،وہ جوخواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح ثابت ہوتا، پھران کے لئے تنہا ئی کو محبوب بنا دیا گیا، وہ غار حرا میں تنہا جا تے اور اپنے اہل کی طرف لوٹنے سے پہلے کئی کئی رات وہاں عبادت کرتے اور اس کے لئے وہ اپنے ہمراہ توشہ لئے جا تے،( توشہ ختم ہونے پر) خدیجہ کے پاس آتے اور اسی طرح توشہ (اپنے ہمراہ پھر ) لے جاتےیہاں تک کہ وہ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ ان کے پاس حق آگیا، فرشتہ ان کے پاس آیا اورکہاپڑھو ، انہوں نے فر مایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، فرماتے ہیں کہ اس(فرشتے ) نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے کہاکہ میں پڑھنا نہیں جانتا، اس (فرشتے )نے مجھ کو خوب زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، اس (فرشتے )نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ{پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے پیدا کیا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے}پس انہیں کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺواپس ہوئے اس حال میں کہ ان کا دل کانپ رہا تھا۔ (صحیح بخاری : ۳، صحیح مسلم :۱۶۰ ) اور اس کے بعد سورۃ المدثر نازل ہو ئی جیسا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو وحی کی بابت گفتگو کرتے ہو ئے سنا کہ ’’ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا المَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُونِي، میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی سے ایک آواز سنی تو اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا یا تو وہی فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، میں اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گرپڑاتو میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ}سے {فَاهْجُرْ}تک نازل کی۔ ابوسلمہ فرماتےہیں کہ ’’الرجز‘‘ بت کے معنی میں ہے، پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ جاری رہا۔ (صحیح بخاری : ۴۹۲۶، صحیح مسلم : ۱۶۱، جامع الترمذی : ۳۳۲۵ )
اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں ’’أَنَّ الحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:حارث بن ہشام نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا تو کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کے پاس وحی کیسےآتی تھی ؟ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا : أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ، کبھی کبھی وہ میرے پاس گھنٹی بجنے کی طرح آتی تھی اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی تھی ، جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا تو ان کی کہی ہو ئی بات میں یاد کر لیتا اور کبھی کبھی فرشتہ میرے پاس کسی آدمی کی شکل میں آتا تو وہ مجھ سے بات کرتا تو اس کی کہی ہوئی بات میں یاد کرلیتا ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الوَحْيُ فِي اليَوْمِ الشَّدِيدِ البَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سخت ٹھنڈک میں ایک دن ان پر وحی نازل ہوتے ہو ئے دیکھا ہے ، جب یہ سلسلہ ختم ہو جاتا تو ان کی پیشانی سے پسینہ بہتا ۔ (صحیح بخاری : ۲، صحیح مسلم : ۲۳۳۳، جامع الترمذی : ۳۶۳۴، سنن النسائی : ۹۳۳)
آپ ﷺ نےمکہ میں تیرہ سال رہ کرلوگوں کو توحید کی طرف بلایااور مدینہ میں دس سال رہ کر شریعت الہیہ کی وضاحت کیا ، دین الہی کی دعوت دیتے اوراس کی راہ میں جہاد کرتے رہےتا آنکہ ترسٹھ سال کی عمر میں اللہ تعالی نے انہیں وفات سے دو چار کیا ۔
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد سب سے بڑی نشانی اسراء و معراج ہے جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}پپاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والاہے۔ (الإسراء : ۱)
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ، وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ، وَدُونَ الْبَغْلِ، يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ، قَالَ: فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ، قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ، وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: َ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ، فَرَحَّبَ بِي، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ، صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمَا، فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنَ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا هُوَ قَدِ اُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} [مريم: ۵۷]، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَحَّبَ، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ ، قَالَ:فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ ، قَالَ:فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ ، قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً ، قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ ‘‘میرے سامنے براق لایا گیا، وہ سفید رنگ کا ایک جانور ہے ، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے خر وہاں رکھتا ہےجہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس آیااور اس جانور کو اس کھمبا سے باندھ دیاجس سے دیگر انبیاء اپنے اپنے جانوروںکو باندھا کرتے تھےپھر میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعتیں نماز ادا کی، فر ماتے ہیں کہ پھر باہر نکلا تو جبرئیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ تومیں نے دودھ پسند کیاتو جبرئیل علیہ السلام نے فر مایا کہ آپ نے فطرت کو پسند کیا ،پھر ہمارے ساتھ آسمان پر چڑھے تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کیلئے کہا:انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرئیل نے کہا: جبرئیل، انہوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد ، کہا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں ، کہا: ہاں بلائے گئے ہیں، پھرہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میںنے آدم کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی، پھر ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہوا ؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے خالہ کے دونوں لڑکوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کودیکھا، ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے خیرکی دعا کی پھر ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہوا ہے؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تومیں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا کہ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ انہیں کو دیا تھا، انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی پھر ہمارے ساتھ چوتھےآسمان پرچڑھے اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا: محمد، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہواہے ؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اورمیرے لئے خیر کی دعا کی، اللہ عزو جل نے فرمایا: ہم نےاس کواونچی جگہ پر اٹھا لیا پھر ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہوا ؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی پھر ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہوا ہے؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے کہا: مرحبا اور میرے لئے خیر کی دعا کی، پھرہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا،کہا گیا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرئیل، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد، کہا گیا کہ کیا ان کو بلانے کاحکم ہوا ہے؟ کہا: ہاں ان کو حکم ہوا ہے، پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنی پیٹھ کا بیت المعمور کی طرف تکیہ لگائے ہوئے تھےاور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں جو پھر کبھی نہیں آتے پھر وہ مجھےسدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے،اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح اور اس کے بیر قلہ کی طرح (قلہ بڑے گھڑے کو کہتے ہیں جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی پھر اللہ نےمیری طرف وحی کی اور ہر رات اور دن میں مجھ پرپچاس نمازیں فرض کیں جب میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا: تمہارے رب نے تمہاری امت پرکیا فرض کیا ؟میں نے کہا: پچاس نمازیں فرض کیا، انہوں نے کہا: پھراپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف کراؤ کیونکہ تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور ان کا امتحان لیا ہے، فر ماتے ہیںکہ میں اپنے رب کی طرف لوٹ گیا اور عرض کیا: اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر ،اللہ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں،میں لوٹ کر موسٰی کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اس نے مجھ سے معاف کر دیا، انہوں نے کہا: تمہاری امت کو اس کی بھی طاقت نہ ہو گی تم پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور تخفیف کراؤ، آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس طرح برابر اللہ تبارک و تعالی اور موسٰی کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ( اللہ جل جلالہ نے) فرمایا: اے محمد! وہ پانچ نمازیں ہیں، ہر دن اور ہر رات میں اور ہر ایک نماز میں دس نماز کا ثواب ہے، تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں اور جونیکی کا ارادہ کرے نیت کرے لیکن اسےنہ کرے توبھی اس کے لئے ایک نیکی لکھی جا ئے گی اور اگر کرے تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جا ئیں گی اور جوبرائی کا ارادہ کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کے لئےکچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی، آپ نے فرمایاکہ پھر میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیااور انہیں خبر دیا تو انہوں نے کہا: پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور کم کراؤ، اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا۔ (صحیح بخاری : ۷۵۱۷ ، صحیح مسلم : ۱۶۲،اس لفظ اسی کے ہیں ، جامع الترمذی : ۳۱۳۱، سنن النسائی : ۴۵۰ ، سنن ابن ماجۃ : ۱۳۹۹)
چاند کا دو ٹکڑے ہو نا بھی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ (القمر : ۱) اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فر مایا ’’انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ، فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ، وَفِرْقَةً دُونَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْهَدُوا ‘‘ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا،(جس کا ) ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے نیچے (چلا گیا )تھاتواللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ گواہ رہنا۔ (صحیح بخاری : ۴۸۶۴، صحیح مسلم : ۲۸۰۰، جامع الترمذی : ۳۲۸۵)
اللہ تعالی نے جہاں آپ ﷺ کو بے شمار معجزات عطا کیا تھا وہیں آپ ﷺکو بے شمار خصوصیات سے سرفراز بھی کیا تھا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَ مَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ ‘‘ مجھ کو چھ باتوں کی وجہ سے اور پیغمبروں پر فضیلت دی گئی ہے (۱) مجھے جوامع الکلم عطا کیا گیا ہے (۲) اور رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے (۳) اور میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیںہیں (۴) اور میرے لئے ساری زمین پاک کرنے والی اور مسجد بنا دی گئی ہے(۵) اور میں تمام مخلوقات کی طرف بھیجا گیاہوں(۶) اور میرے اوپر نبوت ختم کی گئی ہے۔ (صحیح مسلم : ۵۲۳، جامع الترمذی : ۱۵۵۳) ان تمام خصوصیات کا تذکرہ کچھ علماء نے توکسی کتاب میں دوران گفتگو کردیا ہے اور کچھ نے تو اس پر باقاعدہ مستقل کتاب لکھا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت آپ ﷺ پر ایمان لا ئے ، آپ ﷺ کی دی گئی خبروں کی تصدیق کرے اور آپ کی طرف سے دیئے گئے احکام کی پیروی کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا} تاکہ (اے مسلمانو) ، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام۔ (الفتح : ۹ ) اور اللہ تعالی نے ایک اور جگہ فر مایا {فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے ۔ (التغابن : ۸ )
ہمارا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کے بتائے ہو ئے طریقے ہی پر اللہ تعالی کی عبادت کی جا ئے جیسا کہ اللہ تعالی نےفر مایا {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔ (الحشر : ۷ ) اور آپ کی مخالفت سے بچا جا ئے کیوں کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ}سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔ (النور : ۶۳)
آپ ﷺ کی توقیر اور آپ ﷺ سے محبت کرنا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔ (آل عمران : ۳۱)
آپ ﷺ سے محبت کرنا ایمان کی ایک شاخ ہے ، آپ ﷺکی محبت کواللہ تعالی نے اپنی محبت کے ساتھ جوڑا ہے اور اسے وعید سنایا ہے جو کسی محبوب چیزجیسے رشتہ دار ، اموال اور وطن وغیرہ کی محبت کو اللہ کے رسول ﷺ کی محبت پر مقدم کرتاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ}آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ( التوبۃ : ۲۴)
مومنوں پرواجب ہے کہ وہ اپنی جان ، اپنے باپ ، اپنے لڑکے اور تمام چیزوں سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کریں جیسا کہ عبد اللہ بن ہشام فر ماتے ہیں’’كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الآنَ يَا عُمَرُ‘‘ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اس حال میں کہ وہ عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھےتو ان کو عمرنے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا ئےمیری اپنی جان کےتو نبیﷺ نے کہا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےحتی کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تو عمر نےکہا: توپھراللہ کی قسم اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تونبیﷺ نے فرمایا کہ اب اے عمر!(یعنی اب تمہارا ایمان پورا ہوا) ۔ ( صحیح بخاری : ۶۶۳۲)
اللہ تعالی نے اپنے ساتھ اپنے نبی ﷺ کا ذکر شہادتین اور اذان میں کیا ، گزشتہ آسمانی کتابوں اور قرآن مجید میں کیا ، أئمہ اسلام نے آپ ﷺ کی سنت ، سیرت ، شمائل ، أخلاق اورغزوات پربے شمار کتابیں تصنیف کیا ، ہم یہاں پر صرف وہی چیز ذکر کررہے ہیں جن کا آپ ﷺ کی شان میں عقیدہ رکھنا واجب ہے ۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ فر ماتے ہیں ’’إذَا كَانَتْ خِصَالُ الْكَمَالِ وَالْجَلَالِ مَا ذَكَرْنَاهُ وَرَأَيْنَا الْوَاحِدَ مِنَّا يَتَشَرَّفُ بِوَاحِدَةٍ مِنْهَا أَوِ اثْنَتَيْنِ إِنِ اتَّفَقَتْ لَهُ فِي كُلِّ عَصْرٍ إِمَّا مِنْ نَسَبٍ أَوْ جَمَالٍ أَوْ قُوَّةٍ أوْ عِلْمِ أَوْ حِلْمٍ أو شجاعةأَوْ سَمَاحَةٍ حَتَّى يَعْظُمَ قَدْرُهُ وَيُضْرَبَ بِاسْمِهِ الْأَمثَالُ وَيَتَقَرَّرَ لَهُ بِالْوَصْفِ بِذَلِكَ فِي الْقُلُوبِ أَثَرَةٌ وَعَظَمَةٌ وَهُوَ مُنْذُ عُصُورٍ خَوَالٍ رِمَمٌ بَوَالٍ فَمَا ظَنُّكَ بِعَظِيمِ قَدْرِ مَنِ اجْتَمَعَتْ فِيهِ كُلُّ هَذِهِ الْخِصَالِ إِلَى مَا لَا يَأَخُذُهُ عَدٌّ وَلَا يُعَبَّرُ عَنْهُ مَقَالٌ وَلَا يُنَالُ بِكَسْبٍ وَلَا حِيلَةٍ إِلَّا بِتَخْصِيصِ الْكَبِيرِ الْمُتَعَالِ مِنْ فَضِيلَةِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ وَالْخُلَّةِ وَالْمَحَبَّةِ وَالاصْطِفَاءِ وَالْإِسْرَاءِ وَالرُّؤْيَةِ جب جمال و کمال کی وہ تمام خصلتیں وہی ہیں جن کو ہم نے ذکر کیا ہے اور ہم نے اپنے میں سے ایک کو دیکھا کہ وہ ایک یا دو خصلتوں کے ساتھ متصف ہے ہر زمانہ میں اگر وہ اس کے موافق ہیں نسب کے اعتبار سے، یا جمال کے اعتبار سےیا قوت کے اعتبار سے یا علم کے اعتبار سے یا حلم کے اعتبار سے یا شجاعت یا سماحت کے اعتبار سے، تاکہ اس کی قدرو منزلت بڑھے، اور اس کے نام کی مثال بیان کی جائے یا وہ ضرب المثل بن جائے، اور اس کے ساتھ وصف بیان کرکے دلوں میں اس کی عظمت و بڑائی ثابت کی جائے، دلوں میں اس کی ترجیحی مقام حاصل ہوجائے حالانکہ وہ گزشتہ زمانے سےہی بوسیدہ ہڈیاں بنی ہوئی ہوں چنانچہ تمہارا کیا خیال ہے اس شخص کے عظیم قدرو نزلت کے متعلق جس کے اندر یہ ساری خصلتیں جمع ہوگئی ہوں جسے نہ احاطہ شمار میں لایا جاسکتا ہےاورنہ اس کی تعبیر کوئی مقالہ ہی کرسکتا ہے، اور نہ کوئی کسب اور نہ ہی کسی حیلہ و تدبیر سے وہاں تک پہونچا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالی ہی کسی کو نبوت و رسالت، خلت و محبت، اصطفاء، إسراء اور رؤیت، (اسراء کی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت باری تعالی میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور صحیح بات یہ ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کی رات اپنے رب کو نہیں دیکھا تھا۔) وَالْقُرْبِ وَالدُّنُوِّ وَالْوَحْيِ وَالشَّفَاعَةِ وَالْوَسِيلَةِ وَالْفَضِيلَةِ وَالدَّرَجَةِ الرَّفِيعَةِ وَالْمَقَامِ الْمَحْمُودِ وَالْبُرَاقِ وَالْمِعْرَاجِ وَالْبَعْثِ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَالصَّلَاةِ بِالْأَنْبِيَاءِ وَالشَّهَادَةِ بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأُمَمِ وَسِيَادَةِ وَلَدِ آدَمَ وَلِوَاءِ الْحَمْدِ وَالْبِشَارَةِ وَالنِّذَارَةِ وَالْمَكَانَةِ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ وَالطَّاعَةِ ثُمَّ وَالْأَمَانَةِ وَالْهِدَايَةِ وَرَحْمةٍ للْعَالَمِينَ وَإعْطَاءِ الرِّضَى والسُّؤْلِ وَالْكَوْثَرِ وَسَمَاعِ الْقَوْلِ وَإِتمَامِ النِّعْمَةِ وَالْعَفْوِ عَمَّا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ وَشَرْحِ الصَّدْرِ وَوَضْعِ الإِصْرِ وَرَفْعِ الذِّكْرِ وَعِزَّةِ النَّصْرِ وَنُزُولِ السَّكِينَةِ وَالتَّأْيِيدِ بِالْمَلَائِكَةِ وإيناء الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ والسَّبْعِ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَتَزْكِيَهِ الْأُمَّةِ والدُّعَاءِ إِلَى اللَّهِ وَصَلَاةِ اللَّهِ تَعَالَى وَالْمَلَائِكَةِ وَالْحُكْمِ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاهُ اللَّهُ وَوَضْع الْإِصْرِ وَالْأَغْلَالِ عَنْهُمْ وَالْقَسَمِ بِاسْمِهِ وَإِجَابَةِ دَعْوَتِهِ وَتَكْلِيمِ الجَمَادَاتِ وَالْعُجْمِ وَإِحْيَاءِ الْمَوْتَى وَإِسْمَاعِ الصُّمِّ وَنَبْعِ الْمَاءِ مِنْ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَتَكْثِيرِ الْقَلِيلِ وَانْشِقَاقِ الْقَمَرِ وَرَدِّ الشَّمْسِ وَقَلْبِ الْأَعْيَانِ وَالنَّصْرِ بِالرُّعْبِ وَالاطِّلَاعِ عَلَى الْغَيْبِ وَظِلِّ الْغَمَامِ وَتَسْبِيحِ الْحَصَى وَإبْرَاءِ الآلامِ وَالعِصْمَةِ مِنَ النَّاسِ إلى مالا بحويه مُحْتَفِلٌ وَلَا يُحِيطُ بعلمه إلا ما نحه ذَلِكَ وَمُفُضِّلُهُ بِهِ لَا إِلَهَ غَيْرُهُ إِلَى مَا أَعَدَّ لَهُ فِي الدَّارِ الآخِرَةِ مِنْ مَنَازِلِ الْكَرَامَةِ وَدَرَجَاتِ الْقُدْسِ وَمَرَاتِبِ السَّعَادَةِ وَالْحُسْنَى وَالزّيادَةِ التي تَقِفُ دُونَهَا الْعُقُولُ وَيَحَارُ دُونَ إدْراكِهَا الْوَهْمُ‘‘ قرب و دنو کے ساتھ خاص کردے، وحی وشفاعت، وسیلہ و فضیلہ، درجہ رفیعہ و مقام محمودکے ساتھ خاص کردے، براق و معراج، کالے گورے کی طرف مبعوث فرما کرکے، نبیوں کے ساتھ نماز ادا کرکے، تمام انبیاء اور امتوں کے مابین شہادت عطا کرکے، اولاد آدم کا سردار بنا کرکے، حمد کا جھنڈا دے کر، بشیر و نذیر بنا کرکے، عرش والے کے نزدیک مکان و منزلت دیکر، طاعت دیکر، امانت و ہدایت دےکر، رحمۃ للعالمین بناکررضاومانگنے والوں کو دینا، کوثر دینا، سماع دینا، آپ پر نعمت کا اتمام ہوا، اگلے پچھلے گناہوں کی معافی، شرح صدر، آپ کا ذکر بلند ہوا، مدد کی گئی، سکون و اطمینان کا طاری ہونا، فرشتوں سے مدد کی گئی، کتاب و حکمت عطا کرنا، سورۃ الفاتحہ دینا، امت کا تزکیہ، اللہ سے دعا، اللہ کی رحمت، فرشتوں کی دعا، لوگوں کے درمیان اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا، لوگوں کے اوپر سے بوجھ اور طوق کو ختم کرنا، اللہ کے نام سے قسم کھانا، دعا قبول کرنا، عجمیوں اور جمادات کا بات کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، گوناگوں کو سنانا، انگلیوں کے درمیان سے چشمہ پھوٹنا، قلیل کو زیادہ کرنا، شق قمر، سورج کو لوٹانا (یہ صحیح نہیں ہے) اصل کو بدل دینا، رعب کے ذریعہ مدد، غیب پر مطلع ہونا (یہ مطلق نہیں) بدلیوں کا سایہ کرنا، کنکریوں کا تسبیح پڑھنا، بیماروں کو شفا دینا، لوگوں سے محفوظ رکھنا،وغیرہ وغیرہ،اور اس کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا ہے مگر وہی جس کو وہ عطا کردے، اور جس کو وہ فضیلت دے، اس کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں، جس قدر اس نے آخرت میں کرامت اور قدس کے مقام اس کیلئے تیار کر رکھا ہے اسی طرح سعادت اور زیادتی کے مراتب بھی تیار کر رکھا ہے، جس کے ورے عقل ٹھہرجاتی ہے اور وہم و گمان حیران و پریشان رہتے ہیں۔ ( الشفا بتعريف حقوق المصطفى: ۱؍ ۵۵-۵۷)