ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو پوری دنیا کا رسول بنا کر بھیجاتھاجیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ ۔ (الأعراف : ۱۵۸) اور فر مایا {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ} ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے ہیں ۔ (سبأ: ۲۸)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِيَاءِ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ‘‘ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطا کی گئی ہیں (۱) ایک مہینے کی مسافت ہی سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے(۲) میرے لیے پوری زمین کو مسجداور پاک بنا دی گئی ہے، میری امت میں سے جسے (جہاں بھی) نماز مل جا ئےوہ (وہیں) نماز پڑھ لے (۳) میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا (۴) نبی خاص کرکے اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں (۵) مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری : ۴۳۸ ، صحیح مسلم : ۵۲۱، سنن النسائی : ۴۳۲)
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالی نے محمد عربی ﷺ کو تمام جن و انس کی طرف مبعوث کیا ہے ، جنوں نے جب قرآن سنا تو اپنی قوم کو ڈرانے کے لئے نکل پڑے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس بات کا تذکرہ بایں الفاظ کیاہے {وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (۲۹) اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب [نبی کے] پاس پہنچ گئے تو [ایک دوسرے سے] کہنے لگے خاموش ہو جاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے (۲۹) قَالُوا يَاقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (۳۰) کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ [علیہ السلام] کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے (۳۰) يَاقَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (۳۱) اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان ﻻؤ، تو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناہ دےگا ( ۳۱) وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۳۲)} اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں کہیں [بھاگ کر اللہ کو] عاجز نہیں کر سکتا، نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مدد گار ہوں گے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں (۳۲) ۔ (الأحقاف : ۲۹-۳۲)
تمام نبیوں سے اللہ تعالی نے یہ وعدہ لیا تھا کہ جب محمد ﷺ کی بعثت ہوگی اور آپ لوگ با حیات ہوں گے تو ان پر ایمان لانا آپ لوگوں کے لئے واجب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ} جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے،فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔ (آل عمران : ۸۱) علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’لم يبعث الله عز وجل نبيًّا، آدمَ فمن بعدَه إلا أخذ عليه العهدَ في محمد: لئن بعث وهو حيّ ليؤمنن به ولينصرَنّه ويأمرُه فيأخذ العهدَ على قومه، فقال: {وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة}(آل عمران : ۸۱) الآية‘‘ اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کے بعد کے ہر نبی سےمحمد کے سلسلے میں یہ عہد لیا ہےکہ ان کی زندگی ہی میں اگروہ بھیجے گئےتووہ ان پر ایمان لائے ، ان کی مدد کرے ( اپنی امت کو بھی ) اسی کی تلقین کرےاور اس کی اپنی قوم سے اس کا عہد لے ۔ (التفسیر للطبری : ۵؍۵۴۰)
اور آپ ﷺ نے فر مایا ’’دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ‘‘ یہ میرے باپ ابراہیم کی دعا ، عیسی کا اپنی قوم کو بشارت دینی اور میری ماں کا دیکھا ہواخواب ہے جس سے نور نکلا تو اس کے لئے شام کے محل روشن ہو گئے ۔ (مسند أحمد : ۱۷۱۶۳، الرد على الجهمية للدارمی : ۲۶۱، السنة لإبن أبی عاصم : ۴۱۸، السنة لعبد اللہ بن أحمد :۸۶۵، صحیح ابن حبان : ۶۴۰۴، مسند الشاميين للطبرانی : ۱۴۵۵) اور ایک روایت میں "میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ثمرہ ہوں" ’’دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ‘‘ کے بجا ئے ’’أَنَا دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ‘‘ ہے ، در اصل اس کے ذریعہ اللہ تعالی ہمیں براہیم علیہ السلام کی دعا بتانا چاہتا ہےاور وہ دعا یہ ہے {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج (١) جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقیناً تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے ۔ (البقرۃ : ۱۲۹ )
ہمارا ایمان ہے کہ اپنی اپنی قوم کو تمام نبیوں نے نبی ﷺ کی بابت بتایا ہے اور تورات و انجیل میں نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کی تمام صفات کا تذکرہ کیاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا} محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ (الفتح: ۲۹) ایک اور مقام پر فر مایا {الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں ۔ (الأعراف : ۱۵۷ ) عیسی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو آپ ﷺ کی بابت خوش خبری سنایا تھا ، عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو جو بات آپ ﷺ کی بابت بتایا تھا اسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بایں الفاظ کوڈ کیا ہے {وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ } اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔ (الصف :۶) بنی اسرائیل انہیں ویسے ہی جانتے تھے جیسے وہ اپنے بچوں کو جانتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔ (البقرۃ : ۱۴۶)
اہل کتاب کے نزدیک نبی ﷺ کے نبوت کی سب سے معروف نشانی آپ ﷺ کے کندھے میں مہر نبوت تھی جیسا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الحَجَلَةِ‘‘ پھر میں ان کے پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوا تو میں ان کے دونوں کندھوں کے در میان کبوتری کے انڈے کے مثل نبوت کی مہر دیکھا۔ ( صحیح بخاری : ۱۹۰ ، صحیح مسلم : ۲۳۴۵، جامع الترمذی : ۳۶۴۳)
اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ ’’وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ‘‘ میں نےکبوتری کے انڈے کے مثل ان کے کندھے کے پاس مہر دیکھا جو ان کے جسم کے مشابہ تھا ۔ (صحیح مسلم : ۲۳۴۴، جامع الترمذی : ۳۶۴۴، سنن النسائی : ۵۱۱۴)
ہمارا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر وہ کتابیں اور خطوط بھی دلالت کررہے ہیں جو آپ ﷺنے بادشاہوں اور سرداروں کے پاس بھیجا ، جس میں آپ ﷺ نے انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور اس کے تصدیق کرنے کی دعوت دی گئی تھی ، ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَنْطَلِقَ إِلَى أَرْضِ النَّجَاشِيِّ - فَذَكَرَ حَدِيثَهُ - قَالَ النَّجَاشِيُّ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَلَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنَ الْمُلْكِ لَأَتَيْتُهُ حَتَّى أَحْمِلَ نَعْلَيْهِ ‘‘ اللہ کے رسول ﷺنے ہمیں نجاشی کی سر زمین میں چلے جانے کا حکم دیاتو نجاشی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ وہی شخص ہیں جن کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی ہے اور اگر میں سلطنت میں نہ پھنسا ہوتا تومیں ان کے پاس آتا یہاں تک کہ میں ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ (سنن أبی داؤد : ۳۲۰۵، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۷۷۹۵، المنتخب من مسند عبد بن حميد: ۵۵۰، الآحاد والمثاني لإبن أبی عاصم : ۳۶۶، مسند الرویانی : ۵۰۲، المستدرك على الصحيحين للحاکم : ۳۲۰۸)
اور اللہ کے رسول ﷺکی بابت جب ہرقل کو پتہ چلا تو اس نے کہا ’’قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ يَكُ مَا قُلْتَ حَقًّا، فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ، لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ‘‘ میںتو یہ سمجھتا تھا کہ وہ نکلنے والا ہوگا لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ تم میں کا (کوئی ) ہوگا اگر تمہاری بات صحیح ہے توعنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کے مقام پر حکومت کرے گا، اگر مجھے ان تک پہنچنے کی توقع ہوتی تو پہنچ کر میںان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا۔ (صحیح بخاری : ۲۹۴۱، سنن أبی داؤد: ۵۱۳۶)
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’جَاءَ العَاقِبُ وَالسَّيِّدُ، صَاحِبَا نَجْرَانَ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلاَعِنَاهُ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لاَ تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلاَعَنَّا لاَ نُفْلِحُ نَحْنُ، وَلاَ عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا، قَالاَ: إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا، وَلاَ تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا. فَقَالَ :لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ، فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الجَرَّاحِ! فَلَمَّا قَامَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ‘‘نجران کے دو سردار عاقب اور سید، اللہ کے رسول ﷺ سے مباہلہ کے ارادےسے آئے تھے، فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم! اگر یہ نبی ہوئے اور ہم نے ان سے مباہلہ کرلیا تو ہم کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں کامیاب ہوں گی، ان دونوں نے کہا کہ جو آپ مانگیں وہ ہم آپ کو دیں گے،آپ ہمارے ساتھ کوئی امانت دار آدمی بھیج دیجئے، ہمارے ساتھ امانت دار ہی بھیجئے گا، آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہو گا بلکہ پورا پورا امانت دار ہو گا، صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول ﷺکے منتظر تھےکہ آپ نے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ بن الجراح! اٹھو، جب وہ کھڑے ہوگئے تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔ (صحیح بخاری : ۴۳۸۰ ، صحیح مسلم : ۲۴۲۰ ، جامع الترمذی : ۳۷۹۶، سنن ابن ماجۃ : ۱۳۵)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺکے لئے پوری زمین سمیٹ دیا تھا تو آپ ﷺ نے وہاں تک دیکھا جہاں تک امت محمدیہ کی بادشاہت پہونچے گی جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا‘‘ اللہ نے میرے لئےزمین کو سمیٹ دیا تو میں اس کا پورب اور پچھم دیکھا اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لئے سمیٹی گئی تھی ۔ (صحیح مسلم : ۲۸۸۹ ، سنن أبی داؤد : ۴۲۵۲، جامع الترمذی : ۲۱۷۶، سنن ابن ماجۃ : ۳۹۵۲)
بے شمار یہودی و عیسائی علماء کا اسلام قبول کرنابھی آپ ﷺ کے رسول ہونے کی ایک دلیل ہے ، ہزاروں اہل کتاب نے اسلام قبول کیا ہے
اوراسی طرح آپ ﷺ کا روم سے غزوہ کرنا اوراس کے بعد اپنے صحابہ کو فارس اور روم سے غزوہ کی تلقین کرنا بھی آپ ﷺکے نبوت و رسالت کی دلیل ہے ۔