اللہ تعالی نے فر مایا {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ} اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔ (الأنعام : ۱۱۲) ایک اور مقام پر فر مایا {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا } اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن گناہگاروں کو بنادیا ہے اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا کافی ہے۔ (الفرقان : ۳۱)
جس طرح حکمت الہیہ کا تقاضا ہے کہ اپنے فضل سے وہ جسے چاہے ہدایت دے اور اپنے عدل سےجسے چاہے گمراہ کردے اسی طرح یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر نبی کا ایک دشمن ہواور انبیاء و رسل کے بے شمار دشمن اس دنیا میں نمودار ہوئے اورسارے دشمنوں کی باتیں جھوٹی اور غلط تھیں، سب باطل پرتھے اورسب کی باتیں یکساں و برابر تھیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ}آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں سے بھی کہا گیا ہے یقیناً آپ کا رب معافی والا اور دردناک عذاب والا ہے ۔ (فصلت : ۴۳) ہر امت میں سرداروں کی باتیںیکساں و برابر تھیں، کبھی وہ آپ ﷺ کو جادو گر کہتے تو کبھی کاہن کہتے اور کبھی جھوٹا بھی کہا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نےفرعون کی اس بات کا ذکر قرآن میں کیا ہے جو اس نے موسی علیہ السلام کو کہا تھا،فر مایا {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (۲۳) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا (۲۳) إِلَى فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ (۲۴)} فرعون ہامان اور قارون کی طرف تو انہوں نے کہا [یہ تو] جادوگر اور جھوٹا ہے۔ (غافر : ۲۳-۲۴) جس طرح لوگوں نے آپ ﷺ کو ذلیل کرنے اور انہیں حیران و پریشان کرنے کے لئے الگ الگ نام دیا اسی طرح کبھی کبھی آپ ﷺ کی لا ئی ہو ئی نشانیوں کا بھی انکار کیا جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے { قَالُوا يَاهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ} انہوں نے کہا اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں ۔ (ھود : ۵۳) یہ دشمنان رسل کبھی کبھی کہتےکہ یہ اللہ تعالی پر افترا پردازی کرتا ہےتو ان کے اس خبیث اور بے تکی بات کا اللہ تعالی نےبایں الفاظ جواب دیا {وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرًى وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ }ج اور جب ان کے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا شخص ہے جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روک دینا چاہتا ہے (اس کے سوا کوئی بات نہیں) ، اور کہتے ہیں یہ تو گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور حق ان کے پاس آچکا ہے پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ۔ (سبأ: ۴۳)
اسی طرح یہ دشمنان اسلام کبھی کبھی آپ ﷺ کو پاگل اور مجنو بھی کہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالُوا يَاأَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ}انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے ۔ (الحجر : ۶) ان کی اس بات کا تذکرہ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر ان الفاظ میں کیا ہے {قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ } فرعون نے کہا (لوگو ! ) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔ (الشعراء: ۲۷) ہر گز نہیں اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سمجھ دار تھے اور آپ ﷺ کا دل سب سے زیادہ پاک و صاف تھا ۔
اور کبھی کبھی وہ لوگ آپ ﷺ کی دعوت کے مقابلے اپنے کرتوت اور عقیدے پر کبرو غرور کرتے، جب آپ ﷺ انہیں اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی طرف بلاتے تو وہ اپنے معبودوں کے سامنے جھکنے اور ان کا سجدے کرنے کو ترجیح دیتے ، ان کے اس عقیدے پر اللہ تعالی نے گفتگو کرتے ہو ئے فرمایا {قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ}انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جس کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ۔ (الأعراف : ۷۰ ) اور فر مایا {أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ}کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے ۔ (ص: ۵)
اسی طرح کبھی کبھی وہ آپ ﷺ کو ان کی دعوت کا جواب دیتے تھے کیوں کہ وہ بھی انہیں کی طرح ایک انسان تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا}اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں ۔ (ھود : ۲۷) اور فرمایا {لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ}ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو۔ (الأنبیاء : ۳ )
کبرو غرور اور عناد کی بنیاد پر کبھی کبھی یہ دشمنان اسلام ان نبیوں سے ایسے امور کا مطالبہ کر لیا کرتے تھے جو کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہوتے،کبھی انہوں نے نبی ﷺ سے زمین سے ایک چشمہ نکالنے کا مطالبہ کیا تو کبھی کہا کہ تمہارے لئے ایک باغ ہو جا ئےاور اس میں نہریں جاری ہوں ،کبھی کہا کہ ہم پر آسمان سے موسلا دھار بارش ہو تو کبھی یہ مطالبہ کیا کہ اللہ اور فرشتوں کو ہمارے پاس لے آؤ، کبھی یہ مطالبہ کیا کہ نبی ﷺ کے لئے سونے کا ایک گھر تیار ہو جا ئے یا آپ خود آسمان پر چڑھ جا ئیں یا ان پر کو ئی کتاب نازل ہو جا ئے ، ان تمام کا تذکرہ کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (۹۰) انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان ﻻنے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں (۹۰) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (۹۱) یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس کے درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں (۹۱) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (۹۲) یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے ﻻکھڑا کریں (۹۲) أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (۹۳) یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے کا گھر ہوجائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم تو آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت تک ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار ﻻئیں جسے ہم خود پڑھ لیں، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں (۹۳) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا (۹۴) لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟ (۹۴) قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا (۹۵) } آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے(۹۵)۔ (الإسراء : ۹۰- ۹۵ )
اسی طرح کبھی یہ دشمنان اسلام نبی ﷺ سے کہتے کہ آپ جس عذاب کا وعدہ ہم سے کررہے ہیں اسے لا کر دکھا ؤ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ} انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جس کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ۔ (الأعراف : ۷۰ ) اور فر مایا {فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا يَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ} پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح ! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں ۔ (الأعراف : ۷۷)
اسی طرح کبھی کبھار یہ دشمنان رسول ﷺ پر گمراہ اور پاگل ہونے کا الزام لگاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نےفرمایا {قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ } ان کی قوم میں جو بڑے لوگ کافر تھے انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں۔ (الأعراف : ۶۶)
یہ دشمنان رسول کبھی کبھی اپنے ساتھیوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہو ئے کہتے تھے کہ یہ قرآن نہ سنو بلکہ جب اس کا بیان ہو یا کہیں اسے پڑھا جا ئے تو شور مچاؤ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ} اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بےہودہ گوئی کرو کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ ۔ (فصلت : ۲۶)
اور کبھی کبھی وہ آپ ﷺ کو ان کےسامنے ہی جھوٹا کہتےتھے جیسا کہ اللہ تعالی نےفرمایا {وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ} اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں ۔ (الأعراف : ۶۶) اور الزام لگاتے تھے کہ انہیں ایک انسان سکھاتا ہے ، ان پر من جانب اللہ کوئی وحی نہیں آتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ} ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے ۔ (النحل : ۱۰۳)
یہ کفار صرف اس بنا پر رسول ﷺ سے اعراض کرتے ہیں کہ ان کے پیرو کار ضعیف ہیں جیسا کہ قوم نوح کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا {فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ} اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔ ۔ (ھود : ۲۷) ہرقل نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ ’’وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ‘‘ اور میں نے آپ سے پوچھا کہ لوگوں کے سرداران اس کی اتباع کرتے ہیں یا ان میں کے کمزور تو آپ نے جواب دیا کہ ان میں کے کمزور لوگ ہی ان کی اتباع کرتے ہیں اور وہی رسولوں کے پیرو کار ہیں ۔ ( صحیح بخاری : ۲۹۴۱، صحیح مسلم : ۱۷۷۳)
اسی طرح کبھی کبھی وہ رسولوں کا مذاق اڑاتے اور ان کے ساتھ مسخراپن کیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ} کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟ (التوبۃ : ۶۵) اسی طرح اللہ تعالی نے اس آیت میں بھی فرمایا {وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ} وہ (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرے وہ ان کا مذاق اڑاتے وہ کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو۔ (ھود : ۳۸) بسا اوقات وہ رسولوں کو دھوکہ دیتے تو بسا اوقات مداہنت کی کوشش کرتے اور ان کی طرف لپکتے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ}وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑجائیں۔ (القلم : ۹) ایک اور جگہ فرمایا {وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا}اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے۔ (الإسراء : ۷۴)
اور کبھی کبھی وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ ڈھٹا ئی کرتے ، ان پر دست درازی کرتے جیسا کہ اللہ تعالی نے موسی اور فرعون کے قصے کے بیان میں فر مایا { أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ}بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بےتوقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔ (الزخرف : ۵۲ )
اور ابو سفیان نے شام میں نبی محترم ﷺ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ‘‘جب ہم نکلے تومیں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ گیا ہےکہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ ( صحیح بخاری : ۴۵۵۳، صحیح مسلم : ۱۷۷۳، جامع الترمذی : ۲۷۱۷)
اسی طرح کبھی کبھی سرداران قوم اپنے ہی نبی کو اپنی سر زمین سے نکال دینے کی دھمکی دیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے قوم شعیب کے سلسلے میں فرمایا {قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَاشُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ} ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب ! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں ؟۔ (الأعراف : ۸۸)
اور فر مایا {وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا }ککافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ ۔ (ابراھیم : ۱۳) قوم لوط نے لوط اور ان پر ایمان لانے والوںسےکہا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ} ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں ۔ (الأعراف : ۸۲) کفار قریش نےہمارے نبی محمدﷺ ، ان کے جاں نثار صحابہ اور بنی ہاشم کو تین سال تک شعب أبی طالب میں محصور کر رکھا اور پھر انہیں اس شہرسے نکال دیا
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فر ماتے ہیں ’’ لَمَّا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةَ حُنَيْنٍ، قَالَ: رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: مَا أَرَادَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ: جب نبی ﷺ حنین (کے مال غنیمت) کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے (جو منافق تھا) کہا کہ اس تقسیم میں انہوں نےاللہ کی خوشنودی کا خیال نہیں رکھا، تومیں نے نبی ﷺ کے پاس آکر انہیں اس کی اطلاع دی توان کا چہرہ بدل گیا پھرکہا کہ : رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ‘‘ اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے، انہیں اس سے زیادہ دکھ پہنچایا گیالیکن انہوں نے صبر کیا ۔ (صحیح بخاری : ۴۳۳۵، صحیح مسلم : ۱۰۶۲، جامع الترمذی : ۳۸۹۶ )
اور ابراہیم علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے انہیں جلانے کے لئے آگ میں ڈال دیاتو اللہ نے انہیں بچا لیا جیسا کہ فر مان الہی ہے {فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ} ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس مار ڈالو یا اسے جلا دو آخر اللہ نے انھیں آگ سے بچا لیا ۔ (العنکبوت : ۲۴) اسی طرح اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے اس کارنامے کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے نبیوں کے ساتھ کیا ہے ، فرمایا {أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ}لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی تو تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا ۔ (البقرۃ: ۸۷)
یہ تھی رسولوں کے ساتھ کبرو غرور اور بغص و عناد رکھنے والوں کی حالت اور یہی حالت بعد کے ادوار میں دیگر مصلحین کے ساتھ بھی سرداروں نے کیا ۔
اور اللہ کی یہ سنت چلتی آرہی ہے کہ وہ اپنے انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کی مدد کرے، اللہ تعالی فرماتا ہے: بے شک ہم اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جس دن کہ گواہ کھڑے ہوں گے۔ [غافر/51] اور فرمایا: پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدے سچے کئے انھیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کردیا ۔ [الأنبياء: 9].