ایمان بالآخرت میں اس کی نشانیوں پر ایمان لانا بھی شامل ہے کیوں کہ یہی نشانیاںہی قرب قیامت پر دلا لت کرتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا} تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں۔ (محمد : ۱۸ ) اور یہ ساری نشانیاں ان امور غیبیہ میں سے ہیں جن پر ہمیں ایمان لانے کا حکم ہے۔
قیامت کی بعض نشانیاں ظاہر ہو ئیں اور ختم ہو گئیںاور اس طرح کی بے شمار نشانیاں ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، أَوْ: كَهَاتَيْنِ وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى‘‘ میں اور قیامت اس سے اس کی طرح یا ان دونوں کی طرح بھیجے گئے ہیںاور(بطور تفہیم ) انہو ں نے شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملایا ۔ (صحیح بخاری : ۵۳۰۱، صحیح مسلم : ۲۹۵۰ ) اوریہ بھی فر مایا ’’اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ: مَوْتِي، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ المَقْدِسِ، ثُمَّ مُوْتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ المَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا‘‘قیامت سے پہلے چھ (نشانیاں ) شمار کر لو میری موت ،پھر فتح بیت المقدس، پھر ایک وبا جو تمہارے درمیان بکریوں کی طرح پھیلے گی پھر مال کی کثرت حتی کہ ایک آدمی سو دینار دیا جائے گا تو وہ ناراض ہو جا ئے گا ۔ (صحیح بخاری : ۳۱۷۶، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۴۲) اور یہ فرمان بھی اسی گزشتہ بات پر دلالت کرتا ہے ’’لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ، وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبٌ مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَحَتَّى يُقْبَضَ العِلْمُ وَ تَكْثُرَ الزَّلاَزِلُ، وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، وَتَظْهَرَ الفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الهَرْجُ: وَهُوَ القَتْلُ، وَحَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ المَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ المَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ، وَحَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ: لاَ أَرَبَ لِي بِهِ، وَحَتَّى يَتَطَاوَلَ النَّاسُ فِي البُنْيَانِ‘‘قیامت قائم نہیں ہو گی تا آنکہ دو عظیم جماعتیں لڑائی نہ کر لیں ، ان کے درمیان عظیم لڑائی ہوگی ، ان دونوں کا دعوی ایک ہوگا حتی کہ تقریبا تیس جھوٹے دجال بھیجے جا ئیں گے اور سب گمان کریں گے کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور حتی کہ علم قبض کر لیا جا ئے گا اور زلزلے زیادہ ہو جا ئیں گے اور زمانہ قریب ہو گا اور فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہوگی اور وہ قتل ہے حتی کہ تمہارے پاس مال زیادہ ہو جا ئے گا اور رب المال فکر کرے گا کہ اس کا صدقہ کون لے گا تو جس پر وہ اسے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی کو ئی ضرورت نہیں ہے اور حتی کہ عمارت کے سلسلے میں لوگ فخر کریں گے ۔ ( صحیح بخاری : ۷۱۲۱، صحیح مسلم : ۱۵۷ ، جامع الترمذی : ۲۲۱۸ )
اور بعض نشانیاں ظاہرتوہو ئیں لیکن ختم نہیں ہو ئی ںہیں بلکہ ابھی تک جاری ہیں ، یکے بعد دیگرے گاہے بگاہے ظاہر ہوا کرتی ہیں، انہیں میں سے امت کا فتنوں میں مبتلا ہونا بھی شامل ہے ( صحیحین میں فتنوں کے سلسلے میں بے شمار احادیث وارد ہو ئی ہیں لیکن ان میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ سارے فتنے قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں ، اسی لئے ہم نے یہاں سنن کی صرف دو روایتوں کا ذکرکیا ہے کیوں کہ ان میں اس بات کی صراحت موجود ہے )۔ اور یہ بھی بہت زیادہ ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَإِنْ دُخِلَ - يَعْنِي - عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ، فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ‘‘قیامت سے پہلے کچھ فتنے تاریک رات کی طرح نمودار ہوں گے ، اس میں آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اورکفر کی حالت میں شام کرے گااور ایمان کی حالت میں شام کرے گااور کفر کی حالت میں صبح کرے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، لہذاتم ایسے فتنے کے وقت میںاپنی اپنی کمانیں توڑ و، ان کے تانت کاٹو اور اپنی تلواریں پتھروں پرمارو ،پھر اگر تم میں سے کسی پر (کوئی ) داخل ہوجا ئے تو اسے چاہئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے کے مانند ہو جائے۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۲۵۹ ، جامع الترمذی : ۲۲۰۴، سنن ابن ماجۃ : ۳۹۶۱، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۰۹۷۸، مسند أحمد : ۱۹۶۶۲، مسند الروياني: ۵۸۵)
ایک اور جگہ فرمایا ’’تَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ أَقْوَامٌ دِينَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا‘‘ قیامت سے پہلے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح کچھ فتنے نمودار ہو ںگے ، اس میں آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایمان کی حالت میں شام کرے گا اور کفر کی حالت میں صبح کرے گا ۔ (جامع الترمذی : ۲۱۹۷، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۱۰۵۳، كتاب الإيمان لإبن أبی شیبۃ : ۶۴، صفة النفاق وذم المنافقين للفریابی: ۹۷)
ایک اور روایت میں آپ ﷺنے فر مایا ’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ‘‘ قیا مت قائم نہیں ہو گی تا آنکہ تقریبا تیس جھوٹے دجال نہ بھیج دیئے جا ئیں اور ہر ایک کایہی دعوی ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۶۰۹، صحیح مسلم : ۱۵۷)
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ القَوْمَ، جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ القَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ فَكَرِهَ مَا قَالَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ قَالَ: أَيْنَ - أُرَاهُ - السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ‘‘ ایک بار نبی ﷺکسی مجلس میں لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، اتنے میں ایک دیہاتی ان کے پاس آیا اور کہا کہ قیامت کب آئے گی؟ لیکن اللہ کے رسول ﷺ اپنی گفتگو میں مصروف رہے، بعض لوگوں (جو مجلس میں تھے) نے کہاکہ آپ ﷺ نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض نے کہا کہ بلکہ آپ نے (اس کی بات) نہیں سنا حتی کہ جب وہ اپنی باتیں پوری کر چکے تو (میری سمجھ کے مطابق )انہوں نے فرمایا کہ وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا؟ اس نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول !میں یہاںموجود ہوں،تو انہوں نے فرمایا کہ جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت قائم کا انتظار کر،اس نے کہا امانت کے ضائع ہونے کا کیا مطلب ہے؟ انہوںنے فرمایا کہ جب معاملہ نا اہلوں کے حوالے کر دیا جا ئے تو قیامت کا انتظار کر۔ (صحیح بخاری : ۵۹)
ایک روایت میں بایں الفاظ آیا ’’إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ وَيَثْبُتَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا ‘‘علامات قیامت میں سے علم کا اٹھا لیا جانا ، جہالت کا ثابت ہونا ، شراب پیا جانا اور زنا کا ظاہر ہونا بھی ہے۔ (صحیح بخاری : ۸۰ ، صحیح مسلم : ۲۶۷۱، جامع الترمذی : ۲۲۰۵، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۴۵)
اور فر مایا ’’إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَأَيَّامًا، يَنْزِلُ فِيهَا الجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا العِلْمُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الهَرْجُ وَالهَرْجُ: القَتْلُ‘‘قیامت سے پہلے ایسے ایام ہو ںگے جس میں جہالت عام ہوگی ، اس میں علم اٹھا لیا جا ئے گا اور اس میں ہرج کی کثرت ہوگی اور ہرج قتل ہے ۔ (صحیح بخاری : ۷۰۶۲، صحیح مسلم : ۲۶۷۲، جامع الترمذی : ۲۲۰۰، سنن ابن ماجۃ : ۳۹۵۹، ۴۰۵۰)
اور بعض نشانیاں اب تک ظاہرہی نہیں ہو ئی ہیں، وہ سب قیامت سے کچھ پہلے یا قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہو ںگی ،انہیں میں سے چند یہ ہیں : ۔ عیسی بن مریم علیہ السلام کا نزول جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا} اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔ (النساء : ۱۵۹) یاجوج و ماجوج کا خروج جیسا کہ فرمان الہی ہے {حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ (الأنبیاء : ۹۶) دابہ کا نکلنا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ} جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا، ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے ۔ ( النمل : ۸۲)
حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: مَا تَذَاكَرُونَ؟قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ - فَذَكَرَ - الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَ آخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ ‘‘نبی ﷺ ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ ہم بات کر رہے تھے اور فرمایا: تم سب کیا باتیں کررہے تھے؟ان سب نےکہا: ہم سب قیامت کا ذکر کررہے تھے، فرمایا:قیامت ہر گز قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس کےپہلے تم سب دس نشانیاں نہ دیکھ لو ، پھرانہوں نے ذکر کیادھوئیں کا ، دجال کا ، زمین کے جانور کا ، آفتاب کے مغرب سے نکلنے کا، عیسٰی ابن مریم علیہ السلام کے اترنے کا ، یاجوج وماجوج( کے نکلنے) کا اور تین (مقامات میں) دھنسنے کا، ایک خسف مشرق میں، دوسرخسف مغرب میں اور تیسرا خسف جزیرہ عرب میں اور ان سب کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف ہاں کے گی ۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۰۱، سنن أبی داؤد : ۴۳۱۱، جامع الترمذی : ۲۱۸۳، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۴۱)
آپ ﷺ نے ایک اور روایت میں فر مایا ’’لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَاكَ حِينَ: {لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام: ۱۵۸]‘‘ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جا ئے ، جب لوگ اسے دیکھیں گے تواس پر وہ ایمان لے آئے گا جس پر وہ ہوگااوریہ اس وقت ہو گا جب اس کا ایمان کسی ایسے شخص کو نفع نہیں دے گا جو پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو ۔ (صحیح بخاری : ۴۶۳۵، صحیح مسلم : ۱۵۷، سنن أبی داؤد : ۴۳۱۲، سنن ابن ماجۃ : ۴۰۶۸)
ایک روایت میں اور فرمایا ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَ يَضَعَ الجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے عنقریب تم میں ابن مریم ایک حاکم اور منصف کی حیثیت سے اتریں گےتو وہ صلیب توڑ یں گے، سوروں کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے، مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ اسے کو ئی قبول نہیں کرے گا ۔ (صحیح بخاری : ۲۲۲۲، صحیح مسلم : ۱۵۵)
اور فر مایا ’’مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَنْذَرَ قَوْمَهُ الأَعْوَرَ الكَذَّابَ، إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ‘‘اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے اپنی قوم کو اندھے اور جھوٹے سے ڈرایا ہے ، یقینا وہ اندھا ہوگا اور تمہارا رب اندھا نہیں ہے ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا ۔ (صحیح بخاری : ۷۴۰۸ ، صحیح مسلم : ۲۹۳۳، سنن أبی داؤد : ۴۳۱۶، جامع الترمذی : ۲۲۴۵)