ہمارا ایمان ہے کہ ایمان بالیوم الآخر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سوائے اللہ کے دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ} ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اس کا چہرہ ( یعنی اس کی ذات) ۔ (القصص: ۸۸) ایک اور مقام پر فرمایا {كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ(۲۶) زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں (۲۶) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (۲۷)} صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی (۲۷) ۔ (الرحمن : ۲۶-۲۷) ملک الموت تمام روحیں قبض کرے گا جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا {قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ} کہہ دیجئے ! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (السجدۃ : ۱۱)
ہم ان تمام امور پر ایمان لاتے ہیں جو موت کے بعد انجام دیئے جا ئیں گے یعنی میت سے سوال ، قبر کا عذاب اور اس کی نعمتیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ} آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔ (غافر : ۴۶) اور فر مایا {سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ }ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے ۔ (التوبۃ : ۱۰۱) اور فر مایا {وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (۵۰) کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو (۵۰) ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ} یہ بسبب ان کاموں کے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے ۔ (الأنفال : ۵۰-۵۱) اور فر مایا {وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ} اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی، اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔ (الأنعام : ۹۳) اور فر مایا {وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ}بیشک ظالموں کے لئے اس کے علاوہ اور عذاب بھی ہیں۔ (الطور : ۴۷)
اور براء بن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے{يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ} [إبراهيم: ۲۷]کے بارے میں فرمایا’’ نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللهُ، وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ ﷺ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ } [إبراهيم: ۲۷] ‘‘یہ (آیت ) عذاب قبر کے بارے میں اتری ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے: تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد ﷺہیں، یہی مراد ہے اللہ کے اس قول سے کہ ثابت قدم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات پر۔ (صحیح بخاری : ۱۳۶۹، صحیح مسلم : ۲۸۷۱، اور مذکورہ الفاظ اسی کے ہیں ، سنن ابن ماجۃ : ۴۷۵۰ ، جامع الترمذی : ۳۱۲۰، سنن النسائی : ۲۰۵۶، ۲۰۵۷، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۶۹)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا انہیں ایسے ہی سکھاتے جیسے قرآن سکھاتے تھے کہتے کہ کہو ’’اللهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ‘‘اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں جہنم کے عذاب سےاورمیں تیری پناہ چاہتا ہوںقبر کے عذاب سے اورمیں تیری پناہ چاہتا ہوں دجال کے فتنہ سےاورمیں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے۔ ( صحیح مسلم : ۵۹۰، سنن أبی داؤد : ۱۵۴۲، جامع الترمذی : ۳۴۹۴، سنن النسائی : ۲۰۶۳، سنن ابن ماجۃ : ۳۸۴۰ )
ایک اور روایت میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْضِ حِيطَانِ المَدِينَةِ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ:يُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، وَإِنَّهُ لَكَبِيرٌ، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَكَانَ الآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا بِكِسْرَتَيْنِ أَوْ ثِنْتَيْنِ، فَجَعَلَ كِسْرَةً فِي قَبْرِ هَذَا، وَكِسْرَةً فِي قَبْرِ هَذَا، فَقَالَ:لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا ‘‘نبیﷺ مدینہ کے کسی باغ سے نکلے تو دو (مردہ) انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھاتو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کوکسی بڑے گناہ کے سلسلے میں عذاب نہیں ہو رہا ہےکہ وہ بہت بڑا ہے، ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا پھر کھجور کی ایک شاخ منگوایا اور اسے دو حصوں میں توڑا اور ایک ٹکڑا اس کی قبر پر اور دوسرا اس کی قبر پر گاڑ دیا، پھر فرمایا شاید ان کی وجہ سے ان دونوں کے عذاب میں اس وقت تک کے لیے کمی کر دی جائے، جب تک یہ دونوں سوکھ نہ جائیں۔ ( صحیح بخاری : ۶۰۵۵، صحیح مسلم : ۲۹۲، سنن أبی داؤد: ۲۰ ، جامع الترمذی : ۷۰ ، سنن النسائی : ۳۱، سنن ابن ماجۃ : ۳۴۷)
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ مجھے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بتایا ’’بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ، إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ، وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ - قَالَ: كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ - فَقَالَ: مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِقَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ‘‘نبیﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر (سوار ) تھے، ہم (بھی ) ان کے ساتھ تھے، اچانک وہ بدکا اور قریب تھا کہ انہیں گرا دے، (مڑکر دیکھا ) تو وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں، فرمایا: کون ان قبر والوں کو جانتا ہے؟ایک شخص بولا: میںجانتا ہوں، فرمایا: یہ لوگ کب مرے؟وہ بولا: شرک (کے زمانہ) میں، فرمایا: یہ امت اپنی اپنی قبروں میںآزمائی جا رہی ہے، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا نہ چھوڑ دوگے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ تمہیں عذاب قبر کی وہ آواز سنا ئے جو میں سن رہا ہوں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: عذاب جہنم سےاللہ کی پناہ مانگو،لوگوں نے کہا: ہم عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں پھرکہا:عذاب قبر سےاللہ کی پناہ مانگو،لوگوں نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: پناہ مانگو اللہ کی چھپے اور کھلے فتنوں سے، لوگوں نے کہا: پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ کی چھپے اور کھلے فتنوں سےپھر کہا ہر ظاہری و باطنی فتنے سے اللہ کی پناہ مانگوتو لوگوں نے کہا کہ ہم ہر ظاہری و باطنی فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ، کہا فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو لوگوں نے کہا کہ ہم فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ (صحیح مسلم : ۲۸۶۷)
اور ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا ‘‘ نبی ﷺباہر تشریف لے گئےاس حال میں کہ سورج غروب ہو چکا تھا تو آپ نے ایک آوازسناتو کہا کہ ایک یہودی کو اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۱۳۷۵، صحیح مسلم : ۲۸۶۹، سنن النسائی : ۲۰۵۹)
اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ:صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ‘‘ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور دونوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا لیکن میں نے ان دونوں کو جھٹلادیا اور ان دونوں کی تصدیق نہ کر سکی تو وہ دونوں چلی گئیں اور نبی ﷺمیرے پاس تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دو بوڑھی عورتیں تھیں اور میں نے آپ سے اس کا ذکر کردیا تو(آپﷺ نے) فرمایا کہ ان دونوں نے سچ کہا، قبر والوں کو ایسا عذاب ہو تا ہےکہ اسے تمام چوپائے سنتے ہیں ، میں نےکسی نماز کے بعد نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (صحیح بخاری : ۶۳۶۶، صحیح مسلم : ۵۸۶، سنن النسائی : ۲۰۶۷)
اور جس طرح کافر، منافق اور مسلمانوں میں سے بعض گنہگاروں کو قبر میں عذاب سے دوچار کیا جائے گا، اسی طرح مومنوں پر قبر میں نعمتوں کی بارش کی جائے گی۔ لہذا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے حدیث بیان کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔ [صحیح بخاری/(1374)، صحیح مسلم(7318)}