ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جب اس دنیا کا خاتمہ کرنا چاہے گا تو فرشتے کو حکم دے گا ، حکم پاتے ہی فرشتہ صور میں پھونک مارے گا جس سے آسمان و زمین کے درمیان کی تمام چیزیں بے ہوش ہو جا ئیں گی سوائے اس کے جسے اللہ چاہےگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ } اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بےہوش ہو کر گرپڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ (الزمر : ۶۸ ) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا، قَالَ: وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ، قَالَ: فَيَصْعَقُ، وَيَصْعَقُ النَّاسُ........‘‘ پھر صور میں پھونکا جائے گالیکن اسے کوئی نہ سن سکے گا مگروہ ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھالے گا ، فر ماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسے (صور کی آواز کو ) وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کی اصلاح کر رہا ہوگا، فرماتے ہیں کہ وہ بے ہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۴۰ ) اور "رفع لیتا" کا معنی یہ ہے کہ اس نے اپنی گردن ٹیڑھی کر لی۔ [النہایۃ فی غریب الحدیث، 3/33]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس قیامت آجائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں ( خرید وفروخت کے لئے ) پھیلائے ہوئے ہوں گے ۔ ابھی خرید وفروخت بھی نہیں ہوچکی ہوگی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہوگا ( کہ قیامت قائم ہوجائے گی ) اور قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آرہا ہوگا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرارہا ہوگا اورا س کا پانی بھی نہ پی پائے گا ۔ قیامت اس حال میں قائم ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھا نے بھی نہ پائے ہوگا۔
تو اللہ تعالی اپنی ان مخلوقات میں سے جن پر فنا اور ہلاکت لکھ دی گئی ہے جسے چاہے گا ہلاک کر دے گا، یہاں تک کہ صرف اللہ رب العالمین کی ذات باقی بچے گی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : {كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ} زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ {وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ} صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔ [سورة الرحمن: 26، 27] اور فرمایا: {وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارنا، بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اس کا منہ (اور ذات)، اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور تم اس کی طرف لو ٹائے جاؤ گے۔ [سورة القصص: 88] اور فرمایا: {يَوْمَ هُم بَارِزُونَ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ} جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟، فقط اللہ واحد و قہار کی۔ [سورة غافر: 16]
پھر اللہ تعالی دوبارہ صور میں پھونک مارنے کا حکم دے گا لیکن اس کے پہلے اللہ تعالی بارش نازل کرے گا جس سے تمام مخلوق کا جسم (پودوں کی طرح ) اگ آئے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ثُمَّ يُرْسِلُ اللهُ - أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللهُ - مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ - نُعْمَانُ الشَّاكُّ - فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ‘‘ پھر اللہ ایسی بارش نازل کرے گا جو بوندوں کی طرح ہو گا اس سے لوگوں کے جسم اگ آئیں گے پھراس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ ( صحیح مسلم : ۲۹۴۰ )
پھر اللہ تعالی فرشتے کو حکم دے گا تو وہ صور میں دوسری بار پھونک مارے گا، جیسا کہ اللہ تعلی فرماتا ہے: {ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ} پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔ [سورة الزمر: 68]
دونوں نفخوں کے درمیان کی مقدار کیا ہوگی ؟ اس سلسلے میںابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ ،قَالُوا: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا، قَالَ: أَبَيْتُ وَيَبْلَى كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الإِنْسَانِ، إِلَّا عَجْبَ ذَنَبِهِ، فِيهِ يُرَكَّبُ الخَلْقُ‘‘ دونوں پھونکوں (صوروں) کے درمیان چالیس (کا فاصلہ ) ہے، سب نے کہا: اے ابوہریرہ !چالیس دن ؟ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ میں نے انکار کردیا ،پھر سب نے کہا: چالیس سال؟ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ میں نےپھر انکار کردیا پھر سب نے کہا : چالیس مہینہ؟(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ میں نے پھر انکار کردیا اور انسان کی ہر چیز فنا ہو جائے گی، سوائےاس کی پونچھ کے جڑ کے(یعنی سوائے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے )کہ اس میں مخلوق جوڑی جائے گی۔ (صحیح بخاری : ۴۸۱۴، صحیح مسلم : ۲۹۵۵)
ہمارا اس بات پربھی ایمان ہےکہ جومحمد ﷺ نے بروز قیامت آسمان اور زمین کے احوال و کوائف کے سلسلے میںہمیں بتایا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں فرمایا ’’جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّا نَجِدُ: أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الخَلاَئِقِ عَلَى إِصْبَعٍ، فَيَقُولُ أَنَا المَلِكُ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الحَبْرِ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ، وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ}(الزمر: ۶۷)‘‘ علماء یہود میں سے ایک شخص اللہ کے رسول ﷺکے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم( تورات میں) پاتے ہیں کہ اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ، پس نبی ﷺ ہنس پڑے حتی کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہو گئے یہودی عالم کے بات کی تصدیق میں ، پھر اللہ کے رسول ﷺنےپڑھا {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ، وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ}(الزمر: ۶۷) اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں ۔ (الزمر: ۶۷) (صحیح بخاری : ۴۸۱۱، صحیح مسلم : ۲۷۸۶، جامع الترمذی : ۳۲۳۸)
ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ لوگ اپنے اپنے قبروں سے اٹھا ئے جا ئیں گے پھر جب دوبارہ صور میں پھونکا جا ئے گا تو اللہ تعالی تمام مردوں کو زندہ کر دے گا اور لوگ اپنے رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ(۱۵) اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو (۱۵) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ(۱۶)} پھر قیامت کے دن بلا شبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے(۱۶) ۔ (المؤنون : ۱۵-۱۶) ایک اورجگہ فرمایا {وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ(۵۱) تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف [تیز تیز] چلنے لگیں گے (۵۱) قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُونَ(۵۲) کہیں گے ہائے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا، یہی ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا(۵۲) إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ(۵۳)} یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے(۵۳)۔ (یس: ۵۱-۵۳)
اور فرمایا {وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ(۲۳) ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی (بالآخر) وارث ہیں(۲۳) وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ (۲۴) اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں(۲۴) وَ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ(۲۵)} آپ کا رب سب لوگوں کو جمع کرے گا یقیناً وہ بڑی حکمتوں والا بڑے علم والاہے(۲۵)۔ (الحجر : ۲۳-۲۵)
اور فرمایا {وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا(۴۹) انہوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور [ مٹی ہو کر] ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم ازسرنو پیدا کر کے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے (۴۹) قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا(۵۰) جواب دیجئے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا (۵۰) أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُو رِ كُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا(۵۱) یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو، پھر وہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ آپ جواب دے دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ [ساعت] قریب ہی آن لگی ہو(۵۱) يَوْمَ يَدْعُو كُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا(۵۲)} جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور گمان کرو گے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے(۵۲) ۔ (الإسراء: ۴۹-۵۲) اور فرمایا {وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (۹۷) اللہ جس کی رہنمائی کرے تو وہ ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے، ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منھ حشر کریں گے، دراں حالیکہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے(۹۷) ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (۹۸) یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟(۹۸) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَا رَيْبَ فِيهِ} کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے، اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک شبہ سے یکسر خالی ہے۔ (الإسراء : ۹۷-۹۹) اور فرمایا {فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا}جہاں جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تم سب کو سمیٹ اور لپیٹ کر لے آئیں گے ۔ (الإسراء : ۱۰۴) ان کے علاوہ دوبارہ زندہ کئے جانے کے سلسلے میں بے شمار آیات ہیں جن کا استیعاب یہاں نا ممکن ہے اس لئے چند ہی پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔
قبر سے سب سے پہلے نبی محترم ﷺ نکلیں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘میں قیامت کے دن ابن آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میں ہی قبر سے نکلوں گا اور میںسب سے پہلا شافع ہو ںگا اور سب سے پہلے میری ہی سفارش قبول کی جا ئے گی۔ (صحیح مسلم : ۲۲۷۸)
اور سب سے پہلے نبی ﷺ ہی کو ہوش آئے گا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ، فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللهُ‘‘ تم سب مجھے موسی پر ترجیح نہ دوجب لوگ بے ہوش ہو جا ئیں گے تو میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آنے والا ہوں گا تو اچانک موسی عرش کا کنارہ پکڑے ہو ںگے ، اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ان بے ہوش ہونے والوں میں سے ہوں گےاورمجھ سے پہلے انہیں ہوش آچکا ہو گا یا وہ ان میں سے ہوں گے جنہیں اللہ نے مستثنی کر رکھا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۴۱۱، صحیح مسلم : ۲۳۷۳)
اور بروز قیامت سب سے پہلے اللہ کے نبی ابراہیم خلیل الرحمن کپڑا پہنیں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ القِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ‘‘ اوربروزقیامت سب سے پہلے جسے کپڑا پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم ہیں۔ (صحیح بخاری : ۳۳۴۹ ، صحیح مسلم : ۲۸۶۰ ، جامع الترمذی : ۲۴۲۳، سنن النسا ئی : ۲۰۸۲)
بروز قیامت تمام لوگ ننگے اور غیر مختون اٹھا ئے جا ئیں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ‘‘ بروز قیامت لوگوں کو ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھایا جا ئے گا ۔ (صحیح بخاری : ۶۵۲۷، صحیح مسلم : ۲۸۵۹، سنن النسا ئی : ۲۰۸۳، سنن ابن ماجۃ : ۴۲۷۶)
ہمارا ایمان ہے کہ وہ زمین جس پر بندو ںکو جمع کیا جا ئے گا وہ اس زمین کے علاوہ ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَ السَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ }جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے ۔ (إبراھیم : ۴۸ )
میدان محشر سفید ہوگا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ، كَقُرْصَةِ نَقِيٍّ‘‘ قیامت کے دن لوگوں کو سفید و سرخ آمیز زمین پر جمع کیا جا ئے گا جیسے باریک آٹے کی بنا ئی ہو ئی صاف روٹی ۔ (صحیح بخاری : ۶۵۲۱، صحیح مسلم : ۲۷۹۰ )
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’تَكُونُ الأَرْضُ يَوْمَ القِيَامَةِ خُبْزَةً وَاحِدَةً، يَتَكَفَّؤُهَا الجَبَّارُ بِيَدِهِ كَمَا يَكْفَأُ أَحَدُكُمْ خُبْزَتَهُ فِي السَّفَرِ‘‘ قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جسے جبار اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں کا ایک شخص اپنی روٹی سفر کے دوران الٹتا پلٹتا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۶۵۲۰ ، صحیح مسلم : ۲۷۹۲)
ارور اس سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں کہ تبدیلی کے وقت لوگ کہاں ہوں گے: فعن ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أنَّ حَبْرًا مِنْ أَحْبَارِالْيَهُودِ جَاءَ إلى رسول يسأله وفيه: «...فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: هُمْ فِي الظُّلْمَةِ دُونَ الْجِسْرِ». اور ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کا ایک عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد سوالات کئے، جن میں سے ایک سوال یہ تھا: کہ اس دن لوگ کہاں ہوں گے جس دن زمین و آسمان دوسری زمین و آسمان سے بدل دیئے جائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس وقت جسر کے پاس تاریکی میں ہوں گے۔ [صحیح مسلم (315)]
وعن عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: «سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ قَوْلِهِ عز وجل: {يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ} فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ: عَلَى الصِّرَاطِ». عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی کے اس قول {يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ} کے بارے میں سوال کیا: کہ تب لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صراط پر۔ [صحیح مسلم (2791)]
اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بہت عظیم دن ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (۴) کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں (۴) لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (۵)} اس عظیم دن کے لئے (۵)۔ ( المطففین : ۴-۵) اور فر مایا {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ }لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو ! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ۔ (الحج : ۱)
اور اس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إلى أن قال: حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ‘‘ کوئی صاحب کنز (یعنی خزانہ والا) ایسا نہیں ہے جو زکوٰۃ نہ دیتا ہو - اسی میں آگے ہے - یہاں تک کہ اللہ فیصلہ نہ کردے اپنے بندوں کا ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے تمہاری زندگی کے حساب سے پھر اس کی راہ نکالی جائے گی جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔ (صحیح بخاری : ۲۳۷۱، صحیح مسلم : ۹۷۸ ، سنن أبی داؤد : ۱۶۵۸، جامع الترمذی : ۱۶۳۶، سنن النسا ئی : ۳۵۶۳، سنن ابن ماجۃ : ۲۷۸۸)
اس دن سورج زمین سے کافی قریب ہوگا جیساکہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’تُدْنَى الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ، حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ- قَالَ سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ: فَوَاللهِ مَا أَدْرِي مَا يَعْنِي بِالْمِيلِ؟ أَمَسَافَةَ الْأَرْضِ، أَمِ الْمِيلَ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ - قَالَ: فَيَكُونُ النَّاسُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى كَعْبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى حَقْوَيْهِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا‘‘قیامت کے دن سورج مخلوق سے قریب کر دیا جائے گا یہاں تک کہ ان سے ایک میل کی مقدار کے برابر پر آ جائے گا ۔سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میل سے کیا مراد وہ لیتے تھے؟کیا یہ زمین کی مسافت ہے یاوہ میل ہے جس سےآنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے۔فر ماتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میںشرابور ہوں گے، کوئی ٹخنوں تک( ڈوبا) ہو گا، کوئی گھٹنوں تک ہوگا، کوئی کمر تک ہوگااور کو ئی ایسا بھی ہوگا جس کو پسینہ کی لگام ہو گی۔ ( صحیح مسلم : ۲۸۶۴، جامع الترمذی : ۲۴۲۱)
تمام مومن اپنی کی ہو ئی نیکیوں کی وجہ سے سورج کی حرارت کی وجہ سے بچ جا ئیں گے اور بعض کو توعرش الہی کا سایہ نصیب ہوگا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ‘‘سات لوگ ہیں جنہیں اللہ اس دن اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سایے کے سوا کو ئی اور سایہ نہ ہوگا ۔ (صحیح بخاری : ۶۶۰، صحیح مسلم : ۱۰۳۱)
اور کچھ لوگوں کو سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران کا سایہ نصیب ہوگا ، یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے حجت کریں گی جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ‘‘قرآن پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے ساتھیوں کا سفارشی بن کر آئے گااور دو کلیاں یعنی سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھو اس لئے کہ وہ بروز قیامت ایسے آئیں گی جیسے وہ دونوں بادل ہیں یا وہ دونوں سائبان ہیں یا وہ دو نوں پر پھیلانے والے پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہیں ، دونوں اپنے ساتھیوں کی طرف سےحجت کرتی ہوئی آئیں گی ، (اس لئے ) سورۃ البقرۃ پڑھو کیوں کہ اس کا لینا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے اور جادوگر اس پر قابو نہیں پا سکتے۔ (صحیح مسلم : ۸۰۴) اور بعض کو ان کےکئے ہو ئے صدقے کا سایہ نصیب ہوگا ’’كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ حَتَّى يُفْصَلَ بَيْنَ النَّاسِ ‘‘ہر شخص اپنے صدقے کے سایے میں ہوا تا آنکہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جا ئے گا۔ (مسند أحمد : ۱۷۳۳۳، مسند أبی یعلی : ۱۷۶۶، صحیح ابن خزیمہ : ۲۴۳۱، صحیح ابن حبان : ۳۳۱۰ ، اور اسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے )