ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت اللہ ہی کے لئے ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ}کہہ دیجئے ! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لئے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے ۔ (الزمر : ۴۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے پاس کوئی شفاعت نہیں کر سکتا جیسا کہ رب ذو الجلال کا فرمان ہے {مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ }کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ؟ (البقرۃ : ۲۵۵) شفاعت کا حق اسی کو ملے گا جس کے قول و فعل سے اللہ راضی ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی فر ماتا ہے {وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ } وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو وہ خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں ۔ (الاأنبیاء : ۲۸) ایک اور مقام پر فرمایا {يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا} اس دن سفارش کچھ کام نہ آئیگی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے ۔ (طہ : ۱۰۹)
ہمارا ایمان ہے کہ لوگوں میں شفاعت کے سب سے زیادہ حق دار اہل توحید اور اہل اخلاص ہوں گے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ بروز قیامت آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار لوگوں میں کون ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا ’’لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ‘‘اے ابو ہریرہ !میں سمجھ رہا تھا کہ اس حدیث کے بارے میں مجھ سے تم سے پہلے کو ئی نہیں پوچھے گا کیوں کہ میں نے اس حدیث پر تمہارا حرص دیکھا کہ لوگوں میں قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہوگا جس نے اپنے دل یا اپنے نفس کو خالص کرتے ہو ئے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا ۔ (صحیح بخاری : ۹۹، ۶۵۷۰)
ہمارا ایمان ہے کہ کافروں کو شفاعت نصیب نہیں ہوگی گو ان کے حق میں کو ئی شفاعت کرے جیسا کہ رب العالمین فرماتا ہے {فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ}پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی ۔ (المدثر : ۴۸)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا شفاعت کا حق دے گالیکن اس میں شافع (شفاعت کرنے والے )کے لئے عزت و اکرام اور مشفوع لہ(جس کے لئے شفاعت کیا گیا ہے ) کے لئے رحمت کا خیال کرے گااور ہمیں یہ معلوم ہے کہ بروز قیامت سب سے بڑے شافع ہمارے نبی محمد ﷺ ہو ںگے ، آپ ﷺ کئی بار شفاعت کریں گے اور ان میں سب سے بڑی شفاعت اہل موقف کے سلسلے میں ہوگی تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کیا جا سکے ، اس بات کا ذکر اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کرتے ہو ئے فر مایا {وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔ (الإسراء : ۷۹) اور صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ ’’فَيَشْفَعُ لِيُقْضَى بَيْنَ الخَلْقِ، فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ البَابِ، فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَحْمَدُهُ أَهْلُ الجَمْعِ كُلُّهُمْ‘‘تو وہ شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جا سکے تو وہ چلیں گے حتی کہ دروازے کا حلقہ پکڑ لیں گے تو اس دن اللہ انہیں مقام محمود عطا کرے گا جس کی تمام لوگ تعریف کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری : ۱۴۷۵) اس حدیث میں شفاعت کا تذکرہ فیصلے کے سلسلے میں کیا گیا ہے ، اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ فیصلے کا حق دار وہی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ}کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔ (البقرۃ : ۲۱۰ ) ایک اور مقام پر فرمایا {وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا}اور تیرا رب (خود) آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آجائیں گے)۔ (الفجر: ۲۲) ایک اور مقام پر فرمایا {هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ} کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے ۔ (الأنعام : ۱۵۸)
اس کے بعد جنتیوں کو جنت میں داخل کرنے کے سلسلے میں شفاعت ہوگی اور یہی مقام محمود ہے ، اس پر بے شمار حدیثیں دلالت کرتی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے ’’إِذَا كَانَ يَوْمُ القِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ، وَكَلِمَتُهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِي، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لاَ تَحْضُرُنِي الآنَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ المَحَامِدِ، وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ المَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ - أَوْ خَرْدَلَةٍ - مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ المَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا: لَوْ مَرَرْنَا بِالحَسَنِ وَهُوَ مُتَوَارٍ فِي مَنْزِلِ أَبِي خَلِيفَةَ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لَنَا فَقُلْنَا لَهُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَاكَ مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِي الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: هِيهْ فَحَدَّثْنَاهُ بِالحَدِيثِ، فَانْتَهَى إِلَى هَذَا المَوْضِعِ، فَقَالَ: هِيهْ، فَقُلْنَا لَمْ يَزِدْ لَنَا عَلَى هَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ حَدَّثَنِي وَهُوَ جَمِيعٌ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً فَلاَ أَدْرِي أَنَسِيَ أَمْ كَرِهَ أَنْ تَتَّكِلُوا، قُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ فَحَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الإِنْسَانُ عَجُولًا مَا ذَكَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَكُمْ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ المَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَقُولُ: وَعِزَّتِي وَجَلاَلِي، وَكِبْرِيَائِي وَ عَظَمَتِي لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ‘‘قیامت کا دن جب آئے گا توبعض لوگ بعض کے سلسلے میں ٹھاٹھیں ماررہےہوں گے،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اپنے رب کے پاس ہمارے لئے شفاعت کر دیجئے، وہ کہیں گے کہ میں اس کے لا ئق نہیں ہوں تم ابراہیم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں، لوگ ابراہیم کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم موسیٰ کے پاس جاؤ کہ وہ کلیم اللہ ہیں، لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، تم عیسیٰ کے پاس جاؤ کیوںکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، چنانچہ لوگ عیسیٰ کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم محمد ﷺکے پاس جاؤ، لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں اس کے لا ئق ہوں اور پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تعریفوں کے الفاظ مجھے الہام کرے گا جن کے ذریعہ میں اللہ کی حمد بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں، چنانچہ جب میں یہ تعریفیں بیان کروں گااور اللہ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہوگے وہ سنا جائے گا، جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی، پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، کہا جائے گا کہ جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لو جن کے دل میں جو برابر بھی ایمان ہو، چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا، پھر میں لوٹوں گاتو اس کی تعریف انہیںتعریفی کلمات کے ذریعہ کروں گا پھراللہ کے لیے سجدہ میں گر جاؤں گا تو کہا جائے گااے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ کہو، آپ کی سنی جائے گی، ما نگو آپ کو دیا جا ئے گا اور شفاعت کرو آپ کی شفاعت قبول کی جا ئے گی تومیں کہوں گا: اے میرےرب! میری امت، میری امت، (رب) کہے گا: جاؤ اور جس کے دل میں ایک ذرہ یارائی کے ایک دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے نکال لوتو میں جاؤں گا اورایسا ہی کروں گا،پھر میں لوٹوں گاتو اس کی تعریف انہیںتعریفی کلمات کے ذریعہ کروں گا پھراللہ کے لیے سجدہ میں گر جاؤں گا تو کہا جائے گااے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ کہو، آپ کی سنی جائے گی، ما نگو آپ کو دیا جا ئے گا اور شفاعت کرو آپ کی شفاعت قبول کی جا ئے گی تومیں کہوں گا: اے میرےرب! میری امت، میری امت، (رب) کہے گا: جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے ایک دانے سے بھی کم ایمان ہو اسے نکال لوتو میں جاؤں گا اور نکالوں گا پھر جب ہم انس کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ کاش حسن کے پاس چلتے ، وہ اس وقت ابوخلیفہ کے مکان میں تھے اور ان سے وہ حدیث بیان کرتے جو انس بن مالک نے ہم سے بیان کیا ہے، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی اور ہم نے ان سے کہا: اے ابوسعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک کے یہاں سے آئے ہیں کیوں کہ ہم نے شفاعت کے سلسلے میں اس جیسی حدیث نہیں سناہے جو انہوں نے ہم سےبیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ بیان کروتو ہم نے ان سے حدیث بیان کردیا جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا کہ اور بیان کرو، ہم نے کہا کہ انہوں نے اس سے زیادہ ہم سےنہیں (بیان) کیا توانہوں نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیس سال پہلے بیان کیا تھا، مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھول گئے یا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ بھروسہ نہ کر بیٹھیں، ہم نے کہااے ابوسعید! پھر ہم سے وہ حدیث بیان کیجئے، آپ اس پر ہنس پڑے اور فرمایا: انسان بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے، میں نے اس کا ذکر ہی اس لیے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں، انہوںنے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جیسا کہ تم سے بیان کیا ، فرمایا کہ پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا اور وہی تعریفیں کروں گا اور اس کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا،کہا جا ئے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، جو مانگو کے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو کے قبول کی جائے گی تو میں کہوں گا: اے رب! مجھے ان کے بارے میں بھی اجازت دیجئے جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہےتو وہ کہے گا میری عزت، میرے جلال، میری کبریائی اور میری بڑائی کی قسم! اس میں سے میں انہیں بھی نکالوں گا جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔ (صحیح بخاری : ۷۵۱۰ ، صحیح مسلم : ۱۹۳، سنن ابن ماجۃ : ۴۳۱۲)
اور اسی سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت بھی ملاحظہ کریں ، یہ روایت بھی انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی طرح ہے ، اس کے آخر میں آپ ﷺ نے فر مایاکہ انہیں کہا جا ئے گا ’’اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابُِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى‘‘جا ؤ محمد کے پاس تو وہ سب میرے پاس آئیں گےاور کہیں گے اے محمد ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الأنبیاء ہیں اور اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیا ہے ، (لہذا ) اپنے رب سے آپ ہمارے لئے سفارش کر دیجئے، کیا ہماری حالت آپ نہیں دیکھ رہے ہیں ؟اور کیا آپ وہ نہیں دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پہونچا ہے ؟ (فر ماتے ہیں کہ )تو میں چلوں گا یہاں تک کہ عرش کے نیچےآؤں گااور اپنے رب کے لئے سجدے میںگر جا ؤں گا ، میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ حمد و ثنا کے کلمات مجھ پر الہام کرے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں کھولاپھر کہا جا ئےگاکہ اے محمد! اپنا سر اٹھا، مانگ دیا جائے گا، سفارش کر قبول کی جائے گی تومیںاپناسر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب ! میری امت، میری امت، کہا جا ئے گا، اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن سے حساب کتاب نہ ہو گا جنت کے باب ایمن سے جنت میں داخل کر اور وہ اور لوگوں کے شریک ہیں باقی دروازوں میں جنت کے، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے! جنت کے دروازے کے دونوں بازؤں میں اتنا فاصلہ ہے جیسے مکہ اور ہجر یا جیسے مکہ اور بصرہ کے درمیان ۔ (صحیح بخاری : ۳۳۴۰ ، صحیح مسلم : ۱۹۴، الفاظ اسی کے ہیں )
اور اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَنَا أَوَّلُ شَفِيعٍ فِي الْجَنَّةِ، لَمْ يُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَا صُدِّقْتُ، وَإِنَّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيًّا مَا يُصَدِّقُهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ‘‘ میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا اورانبیاء میں سے کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنا کہ میں کیا گیا اور ایک نبی ایسے بھی تھے کہ ان کی امت کا صرف ایک شخص انہیںتسلیم کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم : ۱۹۶، سنن الدارمی : ۵۲ )
ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فر مایا ’’لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فَاسْتُجِيبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘ ہر نبی کی ایک دعا تھی جس کے ذریعہ انہوں نے مانگا تو وہ قبول کی گئی لیکن میں اپنی دعا کو اپنی امت کے لئے قیامت کے دن شفاعت کے لئے بچا لیا ہوں ۔ (صحیح بخاری : ۶۳۰۵) ایک اورروایت میں آپ ﷺ نے فر مایا ’’لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا، وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الآخِرَةِ‘‘ ہر نبی کی ایک قابل قبول دعا ہوتی ہے جسے وہ کرتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا آخرت میں اپنی امتی کے لئے بچا کر رکھوں ۔ (صحیح بخاری : ۶۳۰۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے جس طرح نبی محترم ﷺ کو شفاعت کا حق دار بنا کر انہیں اکرام سے نواز ا اسی طرح دیگر انبیاء ، فرشتوں اور تمام مومنوں نے بھی آپ کو عزت و احترام عطا کیا ہےجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ فر ماتے ہیں ’’فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ فرشتے شفاعت کریں گے ، نبی شفاعت کریں گے اور تمام مومن شفاعت کریں گے سوا ئے ارحم الراحمین کے کو ئی نہیں بچے گا تو وہ جہنم سے ایک مٹھی بھر ایسی قوم نکا لے گا جس نے کبھی بھی نیکی نہیں کیا ہوگا۔ (صحیح مسلم : ۱۸۳)