ہمارا ایمان ہے کہ ہر انسان کو اس کا نامہ اعمال دیا جا ئے گا ، بعض لوگ اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں لیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ} سو جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا لو میرا نامہ اعمال پڑھو ۔ (الحاقۃ : ۱۹)
اور بعض لوگ اپنا نا مہ اعمال با ئیں ہاتھ میں لیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَالَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ } لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ تو کہے گا کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی ۔ (الحاقۃ: ۲۵) اور بعض لوگ تو اپنا نا مہ اعمال اپنی پیٹھ کے پیچھے سے پکڑیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ} ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا۔ (الإنشقاق : ۱۰ ) اور انہیں کہا جا ئے گا {اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا}لے ! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے، آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔ (الإسراء : ۱۴) ایک اورجگہ فر مایا {وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَاوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا} اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا گنہگار اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہونگے اور کہہ رہے ہونگے ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔ (الکھف : ۴۹)
ہم اس بات پربھی ایمان رکھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالی کے رو برو پیش ہو نا ہے جیسا کہ فر مان الہی ہے {يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ} اس دن تم سب سامنے پیش کئے جاؤ گے تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔ (الحاقۃ : ۱۸) اور فر مایا {وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفًّا لَقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَكُمْ مَوْعِدًا} اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کیے جائیں گے، یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا لیکن تم تو اس خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں گے بھی نہیں۔ (الکھف : ۴۸) اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ ’’مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ، وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلاَ يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ‘‘نہیں ہے تم میں سے کوئی مگر اس کا رب اس سے بات کرے گا ا س حال میں کہ اس کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو وہ اپنے اعمال کے سوا کچھ نہیں دیکھے گا اور وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو وہ اپنے اعمال کے سوا کچھ نہیں دیکھے گااور وہ اپنے سامنے دیکھے گا تووہ اپنے سامنے جہنم کے سوا کچھ نہیںدیکھے گا پس جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو۔ (صحیح بخاری : ۷۵۱۲، صحیح مسلم :۱۰۱۶)
ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ہم سے ہمارے کرتوتوں کا حساب لیا جا ئے گا ، اللہ تعالی اپنے بندوں سے حساب لے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ(۲۵) بیشک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے (۲۵) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ(۲۶)} پھر بیشک ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا (۲۶) ۔ (الغاشیۃ : ۲۵-۲۶) لہذا جو خیر پا ئے وہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے اور جو شر پا ئے وہ اپنے آپ کو ملامت کرے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا، فَلْيَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ، فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ‘‘اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جن کومیں تمہارے لیے شمار کرتارہتا ہو ں، پھر تمہیں ان کا پورا پورابدلہ دوں گا،لہذا جو بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکرادا کرے اور جو اس کے علاوہ پائے وہ اپنے آپ کو ملامت کرے۔ ( صحیح مسلم : ۲۵۷۷)
اور اللہ سریع الحساب ہے یعنی جلدی حساب کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ}آج ہر نفس کو اس کے کرتوت کا بدلہ دیا جا ئے گا ، آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا ، یقینا اللہ جلدی حساب کرنے والا ہے ۔ (غافر : ۱۷)
ہمارا ایمان ہے کہ بعض مومن بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ‘‘میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ( صحیح بخاری : ۵۸۱۱، صحیح مسلم : ۲۱۶، اور الفاظ اسی کتاب کے ہیں )
اور بندوں کے تئیں حساب الہی کے کئی مراتب اور کئی حالتیں ہوں گی ، بعض بندوں کا حساب مشکل ہوگا جب کہ بعض کا آسان جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ (۷) تو (اس وقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا( ۷) فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (۸)} اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا (۸)۔ (الإنشقاق : ۷- ۸)
اور عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ القِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ، کوئی نہیں ہے کہ جس کابروز قیامت حساب لیا جا ئے گا مگر وہ ہلاک ہو جا ئے گا ۔ ( صحیح بخاری : 6537 ، صحیح مسلم : ۲۸۷۶) فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ نے نہیں کہا : {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } رہی بات اس کی جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا ۔ {فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } تو اس کا حساب آسان کیا جا ئے گا ۔ [الانشقاق: ۸-۷] تو اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا: إِنَّمَا ذَلِكِ العَرْضُ، یہ فقط پیش کردینا ہے (اس کے اعمال کا) وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الحِسَابَ يَوْمَ القِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ‘‘ اور کو ئی نہیں ہے جس کا قیامت کے دن حساب کے سلسلے میں مناقشہ کیا جا ئے گا مگر وہ عذاب دیا جا ئے گا۔ ( صحیح بخاری : ۶۵ ۳۷) اس دن کسی پر ظلم نہیں کیا جا ئے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ}اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ (البقرۃ : ۲۸۱)
اوربروز قیامت امت محمدیہ میں سب سے پہلے محمد ﷺ کا حساب ہوگاجیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’ نَحْنُ الْآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَ الْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَلَائِقِ‘‘اور ہم دنیا والوں میں سب سے پیچھے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے یعنی تمام مخلوق کے پہلے ان کا فیصلہ ہو گا۔ ( صحیح مسلم : ۸۵۶ )
اور سب سے پہلے خون کے بارے میں محاسبہ کیا جا ئے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاءِ‘‘سب سے پہلے لوگوں کے مابین خون کے سلسلے میں فیصلہ کیا جا ئے گا۔ (صحیح بخاری : ۶۸۶۴، صحیح مسلم : ۱۶۷۸ )
ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اس دن شہداء کو لایا جا ئے گا تو فرشتے بھی گواہی دیں گے اور وہ زمین بھی گواہی دے گی جس پر اس نے عمل کیا ہوگا اور اس کے جسمانی اعضاء بھی گواہی دیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فر مایا {إِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ} یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (غافر : ۵۱) اور فر مایا {وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ} اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی نامہ اعمال حاضر کئے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کردیئے جائیں گے اور وہ ظلم نہ کیے جائیں گے ۔ (الزمر : ۶۹) اور فر مایا {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا}اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی۔ (الزلزلۃ: ۴) اور فر مایا {الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے۔ ۔ (یس: ۶۵)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں اس بات کا بیان آیا ہے کہ بندوں کے جسمانی اعضاء بھی گواہی دیں گے اسی میں ہے کہ ’’الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ: مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ؟ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ: انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَ لَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ وَذَلِكَ الَّذِي يَسْخَطُ اللهُ عَلَيْهِ‘‘ اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں، وہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا، پس اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اوراس کی ران ،اس کےگوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جا ئے گا:بولوتو اس کی ران ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل پر بو لیں گی اور یہ اس لئے ہو گا تاکہ وہ اپنے آپ کو کوسے ، اسی کی ذات کی گواہی سے اور یہ شخص منافق ہو گا اور اسی پر اللہ ناراض ہوگا ۔ (صحیح مسلم : ۲۹۶۸ )
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ’’كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟ قَالَ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، يَقُولُ: يَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: يَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِنِّي، قَالَ: فَيَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا، قَالَ: فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ: انْطِقِي، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ، قَالَ فَيَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ ‘‘ ہم اللہ کے رسول ﷺکے پاس تھے، کہ آپ ہنسے اورفرمایا: تم جانتے ہو کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟فر ماتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،فرمایا: (میں ہنستا ہوں ) بندے کے اپنے رب سے گفتگو پر ، وہ کہے گا: اے میرےرب! کیا تو مجھ کو پناہ نہیں دے چکا ہے ظلم سے؟ ( نبی ﷺ ) فرماتے ہیںکہ وہ (اللہ )کہے گا: کیوں نہیں ، ( نبی ﷺ )نے فر مایا کہ وہ کہے گاکہ میں جائز نہیں رکھتا کسی کی گواہی اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کی گواہی کے،(اللہ) کہے گا کہ آج کے دن تجھ پر بطور گواہ تیرا نفس اور کراما کاتبین ہی کافی ہیں، ( نبی ﷺ نے) فرمایا: پھر مہر لگ جائے گی اس کے منہ پر اور اس کے ارکان(ہاتھ پاؤں ) سے کہا جائے گا، تم بولو!( نبی ﷺ ) فرماتے ہیںکہ وہ اس کے سارے اعمال بتا دیں گے پھراس کے اور کلام کے درمیان جدا ئی کر دی جائے گی،( نبی ﷺ ) فرماتے ہیںکہ بندہ( اپنے ہاتھ پاؤں سے )کہے گا: چلو دور ہو جاؤ، میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا۔ (صحیح مسلم : ۲۹۶۹ )