ہمارا ایمان ہے کہ عرش بھی اللہ کی عظیم مخلوق ہےاور جب ذات عظیم نے اس کی صفت عظیم بتلا ئی ہے تو وہ حقیقت میں عظیم ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ}اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔ (النمل :۲۶) اور عرش کی ایک صفت مجید ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ } عرش کریم والا ہے۔ (البروج :۱۵) لیکن اتنا عظیم ہونے کے باوجود وہ مربوب اور مخلوق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ }کہہ دیجئے کہ ساتوں آسمان کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے؟ (المؤمنون :۸۶) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’وَخَلَقَ عَرْشَهُ عَلَى المَاءِ‘‘اور اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا کیا ۔ (جامع الترمذی :۳۱۰۹،سنن ابن ماجۃ :۱۸۲، مسند الطیالسی : ۱۱۸۹، أحمد: ۱۶۱۸۸، ابن أبی عاصم فی السنۃ :۶۲۵) اوراس کے پائے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ العَرْشِ‘‘ لوگ بروز قیامت بے ہوش ہو جا ئیں گے تو میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا، اچانک میں دیکھوں گا کہ موسی عرش کا ایک پایہ پکڑے ہو ئے ہوں گے ۔ (صحیح بخاری :۳۳۹۸، صحیح مسلم :۲۳۷۴، ابو داؤد: ۴۶۶۸)
اور عرش آسمان کے اوپر ہے اور اللہ عرش کے اوپرہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ‘‘اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے اور اپنی انگلیوں سے گنبد کے مثل اس پر اشارہ کرکے کہا کہ وہ چرمراتاہے جیسے سوار کی وجہ سے کجاوہ چرمراتا ہے ۔ (ابو داؤد:۴۷۲۶، عثمان بن أبی سعید الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ :۲۴، ابن أبی عاصم فی السنۃ :۵۸۷، ابن حزیمۃ فی التوحید: ۱۴۷) اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے ’’إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ، وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ‘‘ اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے ۔ (سنن ابی داؤد:۴۷۲۶، عثمان بن أبی سعید الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ :۲۴، ابن أبی عاصم فی السنۃ :۵۸۸، سنن ابن حزیمۃ فی التوحید: ۱۴۷)
ہمارا ایمان ہے کہ عرش کے نیچے ربانی خزانہ ہے جس کی قدرت اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’وَأُعْطِيتُ هَذِهِ الْآيَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، لَمْ يُعْطَهَا نَبِيٌّ قَبْلِي‘‘ مجھے عرش کے نیچے کےخزانوں سے البقرۃ کی یہ آخری آیتیں دی گئی ہیں اور مجھ سے پہلے یہ کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ (صحیح مسلم :۵۲۲، مسند الطیالسی :۴۱۸، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۳۲۳۰۶، مسند أحمد :۲۳۲۵۱، و غیرہم)
اور ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے سات کاموں کا حکم دیا جن میں سے ایک یہ ہے ’ ’وَأَمَرَنِي أَنْ أُكْثِرَ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ‘‘ اس نےمجھے ’’ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ زیادہ سے زیادہ کہنے کا حکم دیا کیوں کہ وہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے ۔ ( مسند البزار :۳۹۶۶، مصنف ابن أبی شیبۃ :۳۵۴۹۱، الزھد لھناد ابن السری :۱۰۱۳، مسند أحمد ۲۱۴۱۵، الزھد لأحمد بن حنبل:۴۰۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ عرش کے نیچے بروز قیامت سجدہ کریں گے تاکہ انہیں شفاعت عظمیٰ نصیب ہو، شفاعت کی طویل حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’ ’فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ العَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ.........‘‘پھر میں چلوں گا تو عرش کے نیچے آکر اللہ عزوجل کے لئے سجدہ میں گر جا ؤں گا پھر اللہ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے کچھ راستے کھول دے گاجو اس نے مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں کھولا ہوگا پھر کہا جا ئے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھا اور مانگ تجھے دیا جا ئے گا، تو سفارش کر تیری سفارش قبول کی جا ئے گی تو میں اپنا سر اٹھا ؤں گا اور کہوں گا : اے رب !میری امت ، اے رب ! میری امت، اے رب! میری امت۔ (صحیح بخاری :۴۷۱۲، صحیح مسلم :۱۹۴، جامع الترمذی : ۲۴۳۴، سنن ابن ماجۃ: ۳۳۰۷)
ہمارا ایمان ہے کہ شہداء کی روحیں عرش کے سایے میں لٹکی ہوئی قندیلوں کا سہارا لئے ہو ئے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’ ’ لَمَّا أُصِيبَ إِخْوَانُكُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللَّهُ أَرْوَاحَهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ، تَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا، وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مِنْ ذَهَبٍ مُعَلَّقَةٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ‘‘ جب تمہارے بھا ئی احد میں شہید کر دیئے گئے تو اللہ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دیا ،جو جنت کی نہروں پر وارد ہوتی ہیں، وہ ان کا پھل کھاتی ہیں اور عرش کے سایے میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں پناہ لیتی ہیں(واپس آتی ہیں) ۔ (سنن : أبی داؤد :۲۵۲۰، الجھاد لإبن المبارک :۶۲، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۱۹۶۷۸ ، مسند أحمد :۲۳۸۸)
ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ ’ ’كَيْفَ نَعْرِفُ رَبَّنَا؟ قَالَ: بِأَنَّهُ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عَلَى الْعَرْشِ، بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ‘‘ ہمیںاپنے رب کا پتہ کیسے چلے گا ؟ فرمایا :وہ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی مخلوق سے الگ عرش پر ہے ۔ (الرد علی الجھمیۃ للدارمی :ص:۴۷، الأسماء والصفات للبیہقی :۲؍۳۳۶، الفتوی الحمویۃ الکبری : ص: ۳۳۳ ، شرح الطحاویۃ -ط دار السلام -ص: ۲۱۹)
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’فَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ عَرْشِهِ، فَوْقَ سَمَوَاتِهِ، بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ بِذَلِكَ لَمْ يَعْرِفْ إِلٰهَهُ الَّذِي يَعْبُدُ، وَعِلْمُهُ مِنْ فَوْقِ الْعَرْشِ بِأَقْصَى خَلْقِهِ وَأَدْنَاهُمْ وَاحِدٌ، لَا يَبْعُدُ عَنْهُ شَيْءٌ {لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ} سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَى عَمَّا يَصِفُهُ الْمُعَطِّلُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا‘‘اللہ تعالی عرش اور آسمانوں کے اوپرہے اور اپنی مخلوق سے الگ ہے ، جو اسے اس طرح سے نہیں جان سکا وہ اس معبود کو نہیں جان پا ئے گا جس کی وہ عبادت کرتا ہے ، اس کا علم عرش کے اوپر سے اس کی دور اور قریب کی مخلوق کے لئے یکساں ہے ، اس سے کو ئی چیز دور نہیں ہے{لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ} آسمان و زمین کی ذرہ بھر چیز بھی اس سے مخفی نہیں ، اس کی ذات ان تمام عیوب سے بہت ہی پاک اور بلندو بالا ہے جواس کی صفات کے منکرین بیان کرتے ہیں ۔ (الرد علی الجھمیۃ للدارمی : ۴۶ )
ہمارا ایمان ہے کہ فرشتے عرش کو اٹھا ئے ہوئے ہیںجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ}عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔ (غافر :۷) ایک اور مقام پر فرمایا {وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ }اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے، اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقۃ :۱۷)
اور کبھی کبھی نبی ﷺ نے ان عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کی بعض خوبیاںبھی بیان کی ہیں جیسا کہ فر مایا ’’أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ‘‘اللہ کے ان فرشتوں کی بابت مجھے گفتگو کاحکم دیا گیا ہے جو عرش کو اٹھائے ہو ئے ہیں ، ان کے کانوںاور کندھوں کے درمیان سات سو سال کا فاصلہ ہے ۔ (سنن أبی داؤد: ۴۷۲۷، الأوسط للطبرانی :۱۷۰۹، العظمة لأبی الشیخ :۴۷۶، الفوائد لإبن شاھین :۱۹)
ہمارا ایمان ہے کہ فرشتے عرش الہی کو گھیرے ہو ئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔ (الزمر :۷۵)
اور عرش کا تذکرہ قرآن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے فر مان میں بھی ہے، فرمایا ’’لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي‘‘ جب اللہ نے ساری مخلوق پیدا کرلی تو اپنی اس کتاب میں جو عرش کے اوپر ہے لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ (صحیح بخاری :۳۱۹۴، صحیح مسلم :۲۷۵۱جامع الترمذی :۳۵۴۳، سنن ابن ماجۃ ۱۸۹، ۴۲۹۰) اور وہ دنوں اعلی مخلوق ہیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ، وَأَعْلَى الجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ‘‘ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیوں کہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے اعلی حصہ ہے ،اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔ (صحیح بخاری ۷۴۲۳)
ہمارا ایمان ہےکہ اللہ عرش پر پوری شان و شوکت اورعظمت کے ساتھ مستوی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ (الأعراف :۵۴) اور دوسری جگہ فر مایا {الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا }جوہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اوران کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دن میں پیدا کردیا ہےپھر عرش پر مستوی ہوا، وہ رحمٰن ہے، آپ اس کے بارے میں کسی خبردار سے پوچھ لیں۔ (الفرقان :۵۹)
چونکہ قرآن کہتا ہے کہ{ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} رحمن عرش پر مستوی ہے۔ (طہ :۵) بنا بریں ربیعہ الرأی سےاللہ کے اسی فرمان کی بابت پوچھا گیا کہ ’ ’كَيْفَ اسْتَوَى؟ قَالَ: الْكَيْفُ مَجْهُولٌ، وَالِاسْتِوَاءُ غَيْرُ مَعْقُولٍ، وَيَجِبُ عَلِيَّ وَ عَلَيْكُمُ الْإِيمَانُ بِذَلِكَ كُلِّهُ‘‘ وہ کیسے مستوی ہے ؟انہوں نے جواب دیا :کیفیت نا معلوم ہے ، استواء سمجھ سے با ہر ہے لیکن مجھ پر اور تم پر ان تمام پر ایمان لانا واجب ہے ۔ (الأسماء و الصفات للبیہقی ۲؍ ۳۰۶ ، شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ ‘۳؍ ۵۸۲)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ !قرآن کہتا ہے {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} رحمن عرش پر مستوی ہے۔ (طہ :۵) تو رحمان عرش پر کیسے مستوی ہے ؟وہ شخص کہتا ہے کہ امام مالک کو جتنی تکلیف اس کی بات سے محسوس ہو ئی اتنی تکلیف کا احساس میں نے ان کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا ، وہ پسینہ پسینہ ہوگئے، سوچ میں پڑ گئے اور ہم ان کے جواب کا انتظار کررہے تھے کہ دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں ، جب امام مالک کی تکلیف دور ہوگئی تو فرمایا ’’الْكَيْفُ غَيْرُ مَعْقُولٍ، وَالِاسْتِوَاءُ مِنْهُ غَيْرُ مَجْهُولٍ، وَالْإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْهُ بِدْعَةٌ، وَإِنِّي لَأَخَافُ أَنْ تَكُونَ ضَالًّا. ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ‘‘ کیفیت نا قابل فہم ہے ، استواء نامعلوم ہے لیکن اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور میرے خیال سے آپ گمراہ ہیں پھر آپ نے اسے نکالنے کاحکم دیا تو اسے نکال دیا گیا ۔ (الرد على الجهميةللدارمی :ص: ۶۶، شرح أصول إعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ :۳؍۴۴۱، حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء :۶ ؍۳۲۵، الإعتقاد للبیہقی : ص: ۱۱۶، شرح السنۃ للبغوی :۱؍۱۷۱، الأسماء والصفات للبیہقی :۲؍۳۰۶)
امام احمد نے استواء کی بابت فرمایا ’’هُوَ الْعُلُوّ والارتفاع وَلم يزل الله تَعَالَى عَالِيا رفيعا قبل أَن يخلق عَرْشه فَهُوَ فَوق كل شَيْء والعالي على كل شَيْء وَإِنَّمَا خص الله الْعَرْش لِمَعْنى فِيهِ مُخَالف لسَائِر الْأَشْيَاء وَالْعرش أفضل الْأَشْيَاء وأرفعها فامتدح الله نَفسه بِأَنَّهُ على الْعَرْش أستوى: أَي عَلَيْهِ علا .....وَحكي عَن عبد الرَّحْمَن بن مهْدي عَن مَالك أَن الله تَعَالَى مستو على عَرْشه الْمجِيد كَمَا أخبر وَأَن علمه فِي كل مَكَان‘‘وہ رفعت و بلندی کے معنی میں ہےیعنی عرش پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی بلند وبرترہے ، اسی لئے وہ ہر چیز کے اوپر ہے اور ہر چیز پر بلند ہے ، اللہ نے عرش کو ایسے معنی کے لئے خاص کیا ہے جس میں تمام چیزوں کی مخالفت ہے اور عرش تمام چیزوں میں سب سے افضل اور سب سے بلند ہے ، اسی لئے اللہ نے اپنا تعارف اسی کے ذریعہ کیا ہےکہ وہ عرش پر مستوی ہے یعنی اسی پروہ بلند ہے ۔ اور عبد الرحمن بن مہدی کے واسطے امام مالک کے حوالے سے بیان کیا جاتاہے کہ اللہ تعالی اپنے عظیم عرش پر اسی طرح مستوی ہے جس طرح اس نے خبر دی ہے اور اس کا علم ہر مقام پر ہے ۔
اور عرش کے تئیںاللہ کی ربوبیت اس بات پر دلیل ہے کہ وہی عبادت کے لا ئق ہے ، اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لا ئق نہیں ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا { لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ }اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔ (الأنبیاء :۲۲) اور فرمایا {قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ } کہہ دیجئے کہ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ (المؤمنون :۸۶) اور فرمایا { قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا}کہہ دیجیے! کہ اگر اس(اللہ) کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وہ اب تک مالک عرش کی جانب راہ ڈھونڈ نکالتے۔ (الإسراء:۴۲)