ہمارا ایمان ہے کہ بروز قیامت جہنم کے پیٹھ پرایک پل رکھا جا ئے گا، اس پر قدم نہیں رکیں گے ،بہت باریک ہوگا ، اس پر پاؤں کا ثابت رہنا مشکل ہوگا اورہر بندے کو اسی پل پر سے گزرنا ہوگا لیکن وہی گزرپا ئے گا جس کا عمل سب سے بہتر ہوگا، اس پر سے تمام بندے اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے گزرسکیں گے ، اس میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گےجو ان کے اعمال کےمطابق انہیں کھینچ لیں گے، اس پل سے سب سے پہلے ہمارے نبی محمد ﷺ ہی گزر یں گے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّمْسَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ القَمَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَدْعُوهُمْ فَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘‘ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے، پھر اللہ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائےتو کچھ لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے، کچھ چاند کے پیچھے ہو جا ئیںاور کچھ طاغوت کے ساتھ ہو لیں گےاور یہ امت باقی رہ جائے گی اس حال میں کہ اس میں منافقین بھی ہوں گےتواللہ ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: میں تمہارا رب ہوںتو وہ کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے، جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے، پھر اللہ ان کے پاس (ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوںتووہ کہیں گے کہ(ہاں بیشک) تو ہمارا رب ہے، پھر (اللہ) انہیںبلائے گااور پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھ دیا جائے گاتو میںہی اپنی امت کے ساتھ اس (پل ) پرسے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا، اس روز سوا ئے رسولوںکے کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اوررسولوں کا کلام بھی اس دن صرف یہی ہوگا: اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! ۔ (صحیح بخاری : ۸۰۶، صحیح مسلم : ۱۸۲، سنن أبی داؤد: ۴۷۳۰ ، جامع الترمذی : ۲۵۵۴، سنن ابن ماجۃ : ۱۷۸)
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ثُمَّ يُؤْتَى بِالْجَسْرِ فَيُجْعَلُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الجَسْرُ؟ قَالَ: مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ، عَلَيْهِ خَطَاطِيفُ وَكَلاَلِيبُ، وَحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لَهَا شَوْكَةٌ عُقَيْفَاءُ، تَكُونُ بِنَجْدٍ، يُقَالُ لَهَا: السَّعْدَانُ، المُؤْمِنُ عَلَيْهَا كَالطَّرْفِ وَ كَالْبَرْقِ وَكَالرِّيحِ، وَكَأَجَاوِيدِ الخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَنَاجٍ مَخْدُوشٌ، وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى يَمُرَّ آخِرُهُمْ يُسْحَبُ سَحْبًا‘‘ پھر اسے پل(صراط ) پر لایا جائے گااور وہ جہنم کے بیچوں بیچ رکھا ہوگا ، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! پل کیا چیز ہے؟ فرمایا وہ ایک پھسل کر گرنے کا مقام ہے اس پر لٹکتے ہوئےآنکڑے ہوں گے، مضبوط اور چوڑے کانٹے ہوں گے، ان کے سر خمدار کانٹوں کی طرح ہیں جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں، اسے سعدان کہا جاتا ہے، مومن اس پر پلک مارنے کی طرح، بجلی کی طرح، ہوا کی طرح اور تیز رفتار گھوڑے اور سواری کی طرح گزر جائیں گے، ان میں بعض تو صحیح سالم نجات پانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس اور جل کر بچ نکلنے والے ہوں گے یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا ۔ (صحیح بخاری : ۷۴۳۹)
اور آپ ﷺ نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ’’ وَفِي حَافَتَيِ الصِّرَاطِ كَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنِ اُمِرَتْ بِهِ، فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ، وَ مَكْدُوسٌ فِي النَّارِ‘‘ اور پل صراط کے دونوں طرف لٹکتے ہوئےآنکڑے ہوں گے جس کو حکم ہو گا اس کو پکڑ لیں گے پھر بعض آدمی چھل چھلا کر نجات پا جائے گا اور بعض آدمی الٹ پلٹ کر جہنم میں گر پڑے گا۔ (صحیح مسلم : ۱۹۵)
اور ابو الزبیر فرماتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبد اللہ کو سنا اس حال میں کہ وہ ورود کے بارے میں پوچھ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فر مایا ’’نَجِيءُ نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كَذَا وَكَذَا، انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ؟ قَالَ: فَتُدْعَى الْأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا، وَمَا كَانَتْ تَعْبُدُ، الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: مَنْ تَنْظُرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْظُرُ رَبَّنَا، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ، فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ وَ يَتَّبِعُونَهُ، وَيُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مُنَافِقًا، أَوْ مُؤْمِنًا نُورًا، ثُمَّ يَتَّبِعُونَهُ وَعَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ وَحَسَكٌ، تَأْخُذُ مَنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِينَ، ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ‘‘ ہم قیامت کے دن اس اس طرح سے آئیں گے دیکھ یعنی وہ سب آدمیوں کے اوپر، فرماتے ہیں کہ پھر امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ بلائی جائیں گی، پہلی امت پھر دوسری امت پھر اس کے بعد ہمارارب آئے گا اور کہے گا: تم کس کو دیکھ رہے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں، وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تجھ کو دیکھیں گے پھروہ ان کے سامنے ہنستا ہوا ظاہر ہوگا (آپ ﷺ فر ماتے ہیں کہ ) وہ ان کے ساتھ چلے گا اور سب اس کے پیچھے پیچھے جا ئیں گے اور ہر ایک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مؤمن ایک نور دیا جا ئے گا پھرلوگ اس کے پیچھے پیچھے جا ئیں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے،وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا، پھر منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مؤمن نجات پائیں گے ۔ (صحیح مسلم : ۱۹۱)
جب تمام مومنوں کو پل صراط سے چھٹکارا مل جائے گا تو جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر سب روک لئے جا ئیں گے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’يَخْلُصُ المُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا‘‘مومنین جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائے گا اور پھر ان میں سے بعض کو بعض کے ظلم کا بدلہ دیا جا ئے گا جو دنیا میں ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے اور جب کانٹ چھانٹ کر لی جائے گی اور صفائی ہو جائے گی تب انہیں جنت میں داخل کرنے کی اجازت دی جا ئے گی، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا۔ (صحیح بخاری : ۶۵۳۵)