ہمارا ایمان ہے کہ جنت اور جہنم دونوں دار الجزاء ہیں ،قرآن و سنت میں دونوں کی صفات ،ان دونوںمیں داخل ہونے والوں کا مسکن اور ٹھکانہ ، ان دونوں میں داخل ہونے والے اور داخل ہونے والوں کا لباس کیساہوگا ؟ان سب کا تذکرہ وارد ہوا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ بر وقت جنت اور جہنم دونو ں مخلوق ہیں اور آدم علیہ السلام ہمیشگی والی جنت میں تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَيَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ} اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ (الأعراف : ۱۹) اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ’’احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الجَنَّةِ، قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ثَلاَثًا‘‘آدم اور موسیٰ نے جھگڑا کیاتو موسیٰ نے ان (آدم علیہ السلام )سے کہا:اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں (لیکن )آپ ہی نے ہمیں خسارے میں ڈالا اورآپ ہی نے ہمیں جنت سے نکلوایا،تو ان (موسیٰ علیہ السلام )سے آدم نے کہا اے موسیٰ !آپ کو اللہ نے ہم کلامی کے لیے منتخب کیا اور اس نے اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے( تورات) لکھا، کیا آپ مجھے ایک ایسے امر پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے مقدر کر دیا تھا؟ تو آدم( بحث میں) موسیٰ پر غالب آگئے،تو آدم( بحث میں) موسیٰ پر غالب آگئے،(آپ ﷺ نے یہ جملہ تین بار کہا۔ (صحیح بخاری : ۶۶۱۴، صحیح مسلم : ۲۶۵۲)
جنت ہی بہترین اورہمیشگی والا مقام ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ} انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے۔ (آل عمران : ۱۳۶) اسی لئے اللہ تعالی نے جنت کی ان تمام نعمتوں کی ترغیب دیتے ہو ئے فرمایا {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ } کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے۔ (السجدۃ : ۱۷)
اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت کی سب سے عظیم نعمت دیدار الہی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ} اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے۔ إ{ِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے [القيامة: 22، 23] اور فرمایا: {كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ} ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے ۔ [المطففين: 15] صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عز وجل " ’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، ( اس وقت) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ وہ جواب دیں گے:کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ۔ ‘‘ [صحیح مسلم (181)]
اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’سَأَلَ مُوسَى رَبَّهُ، مَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، قَالَ: هُوَ رَجُلٌ يَجِيءُ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، كَيْفَ وَقَدْ نَزَلَ النَّاسُ مَنَازِلَهُمْ، وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مِثْلُ مُلْكِ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ : رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: لَكَ ذَلِكَ، وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ، فَقَالَ فِي الْخَامِسَةِ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ، وَلَذَّتْ عَيْنُكَ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: رَبِّ، فَأَعْلَاهُمْ مَنْزِلَةً؟ قَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُ غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي، وَ خَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ، قَالَ: وَمِصْدَاقُهُ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ} [السجدة: ۱۷] الْآيَةَ‘‘موسیٰ نے اپنے رب سے پوچھا: سب سے کم درجہ والا جنتی کون ہے؟( اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: وہ شخص ہے جو آئے گا سب جنتیوں کے جنت میں داخل کئے جانے کے بعد، اس سے کہا جائے گا،جنت میں جا، وہ کہے گا: اےمیرے رب ! کیسے ؟ اس حال میں کہ لوگ اپنے اپنے مقام پر جا چکے اور اپنی اپنی جگہیں بنالئے ہیں، اس سے کہا جائے گاکہ کیا تو راضی ہے اس بات پر کہ تیرے لئے دنیوی بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے مثل ہو جا ئے ؟ وہ کہے گا : اےمیرے رب ! میں راضی ہوں، وہ کہے گا تیرے لئے اسی طرح ہے اور اتنا ہی اور، اور اتنا ہی اور، اور اتنا ہی اور، اور اتنا ہی اور، پس وہ پانچویں بار میں وہ کہے گا : اے میرے رب!میں راضی ہوں،تو وہ( اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: یہ تیرے لئے ہے اور اسی کے مثل دس حصےاور تیرے لئے وہ چیز بھی ہے جو تیرا نفس چاہے ،جو تیری آنکھ چاہے، وہ کہے گا: اے میرےرب !میں راضی ہو گیا! پھر( موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: سب سے بڑا درجے والا جنتی کون ہے؟ (اللہ نے) فرمایا: وہ تووہ لوگ ہیں جن کو میں نے خود چنا اور جن کی کرامت کا پودا میں نے اپنے ہاتھ سے لگایا اور اس پر مہر کر دی، لہذااسے نہ توکسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی انسان کے دل پر گزرا ، فر مایا اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں اس طرح آیا ہے {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ } اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سےاس کے لئے کیا پوشیدہ رکھا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۱۸۹)
ایک اور روایت میں فرمایا ’ ’إِنَّ أَدْنَى مَقْعَدِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ أَنْ يَقُولَ لَهُ: تَمَنَّ فَيَتَمَنَّى، وَيَتَمَنَّى، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَمَنَّيْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ لَهُ : فَإِنَّ لَكَ مَا تَمَنَّيْتَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ‘‘تم میں سے جنت میں سب سے معمولی ٹھکانے والے کو کہا جا ئے گاکہ آرزو کر، وہ آرزو کرے گا تو وہ (اللہ )اس سے پھر کہے گاکہ کیا تو آرزو کر چکا ہے، وہ کہے گا ہاںپھر وہ (اللہ )اس سے کہے گا: تیرے لئے وہ سب ہے جس کی تو نے آرزو کیاہے اور اسی کے مثل اس کے ساتھ اور بھی ہے۔ (صحیح مسلم : ۱۸۲)
ہمیں معلوم ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ، وَابْنُ أَمَتِهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ ‘‘جس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور عیسی اللہ کے بندے اور اس کی بندی کے بیٹے ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم میں ڈال دیااور اس کی روح ہیں ، جنت حق ہے اور جہنم حق ہے ، اسے اللہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے گا داخل کرے گا ۔ ( صحیح بخاری : ۳۴۳۵، صحیح مسلم : ۲۸)
ہمارا ایمان ہے کہ نعمتوں والے گھرمیںبے شمارباغات ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ} اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں ۔ (الرحمن : ۴۶) اور فر مایا { وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ} اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں۔ (الرحمن : ۶۲) اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا، وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا، وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ‘‘چاندی کی دو جنتیں ہوں گی اور ان دونوں کے برتن اوران دونوں کی چیزیں( چاندی کی ہوں گی) اور سونے کی دو جنتیں ہوں گی اور ان دونوں کے برتن اوران دونوں کی چیزیں( سونےکی ہوں گی) اورقوم اور اپنے رب کے دیکھنے کے درمیان کوئی چیزنہیں ہو گی ،سوائے جنت العدن میں اس کے چہرے پر کبریاءکی چادر کے ۔ (صحیح مسلم : ۱۸۰)
اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت کی نعمتیں دائمی ہیں کبھی ختم نہیں ہوں گی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَنْعَمُ لَا يَبْأَسُ، لَا تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلَا يَفْنَى شَبَابُهُ " جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ ناز و نعم میں ہو گا کبھی تنگ حال نہ ہو گا۔ اس کا لباس پرانا ہو گا نہ اس کی جوانی ڈھلے گی۔" [صحیح مسلم (2836)]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: «يُنَادِي مُنَادٍ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْتَئِسُوا أَبَدًا. فَذَلِكَ قَوْلُهُ عز وجل: ایک اعلان کرنے والااعلان کرے گا۔یقیناًتمھارے لیے یہ (انعام بھی) ہے کہ تم ہمیشہ صحت مند رہو گے۔کبھی بیمار نہ پڑوگے،اور یہ بھی تمھارے لیے ہے کہ زندہ رہوگے۔کبھی موت کا شکار نہیں ہو گے۔اور یہ بھی تمھارے لیے ہے کہ جوان رہو گے۔کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔اور یہ بھی تمھارے لیے ہے کہ ہمیشہ ناز و نعم میں رہوگے۔ کبھی زحمت نہ دیکھو گے۔ "یہی اللہ عزوجل کا فرمان(واضح کرتا)ہے : {وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ} "اور انھیں ندادے کرکہاجائے گاکہ یہی تمھاری جنت ہے جس کے تم ان اعمال کی وجہ سے سے جو تم کرتے رہے وارث بنا دیے گئے ہو۔" [الأعراف: 43]
اللہ تعالی نے جہاں ہمیں جنت اور جنت کی تمام خوبیوں سے آگاہ کیا وہیں جہنم اور جہنم میں جانے والے لوگوں کی بابت بھی بتایا نیز ہمیں اس بات سے بھی آگا کیا کہ جہنم میں کتنی طرح کا عذاب ہوگا اور جہنم کی سختی کیسی ہوگی ؟ جیسا کہ فرمایا {إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا} ظالموں کے لئے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کے شعلے انھیں گھیر لیں گے۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی گرم دھار جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ (دوزخ) ہے ۔ (الکھف : ۲۹) اور فرمایا {يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (۲۰) جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی(۲۰) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (۲۱)} اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔(۲۱)۔ (الحج : ۲۰-۲۱) ایک اور آیت میں فرمایا {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا} جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سواء اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔ (النساء : ۵۶ )
اور اللہ تعالی نے یہ بھی بتا دیا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے جیسا کہ فر مایا { إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا} منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے۔ (النساء: ۱۴۵) اور قرآن میں آیا ہے کہ اس کے سات در وا زے ہیں جیسا کہ فر مان الہی ہے {لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ ۭ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ } جس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان کا ایک حصہ بنا ہوا ہے ۔ ( الحجر : ۴۴) یہ ہمیشگی والے عذاب کا گھر ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقًا (۱۶۸) جن لوگوں نے کفر کیا اورظلم کیا، انہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا اور نہ انہیں کوئی راہ دکھائے گا(۱۶۸) إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (۱۶۹)} بجز جہنم کی راہ کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گےاور یہ اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے(۱۶۹)۔ (النساء : ۱۶۸-۱۶۹)