قضا ء و قدر پر ہمارا ایمان ہے اور ہمیںپورا یقین ہے کہ قضا و قدرپر ایمان لانا ارکان ایمان کا چھٹواں رکن ہے ، ایمان بالقدر ایمان باللہ کی ایک شاخ ہے کیوں کہ تقدیر اللہ کے علم ، اس کے تقدیر ، اس کی تدبیر ، اس کی مشیئت اور اس کی خلقت میں سے ہے ۔
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان بالقدر ارکان ایمان کا ایک حصہ ہے ۔
ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ایمان بالقضا و القدر اس بات کو متضمن ہے کہ ہم ایمان لا ئیں کہ اللہ کا علم تمام چیزوں کو شامل اور محیط ہے ،علمی اعتبار سے اللہ تعالی نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، اس کا علم تمام بڑے اور چھوٹے امور کا احاطہ کئے ہوئے ہے ، خواہ وہ چیز موجود ہویا بعد میں وجود میں آنے والی ہو یا وہ سرے سے وجود ہی میں نہ آئے ساری چیزیں لوح محفوظ میں منضبط اور اس میں لکھی ہو ئیں ہیں ، اس کی تعداد ، اس کا مبلغ ، اس کے وجود میں آنے کا وقت اور اس کے فنا ہو نے کی حالت ساری چیزیں اس میں لکھی ہو ئی ہیں ۔
اللہ تعالی وہ ساری چیزیں جانتا ہے جو ہو چکی ہیں اور جو ہو ںگی اور اگر ہو ںگی تو کیسے ہو ںگی ؟ یہ سب اللہ جانتا ہے ، اللہ تعالی نے مخلوق کی تقدیر آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پچاس سال پہلے ہی لکھ دیا ہے اور اس کا عرش پانی پر ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر وہ کام لکھ دیا ہے جو ہو چکا ہےیا جو ہونے ولا ہے اور وہ کتاب میں محفوظ ہے ۔
اوراس بات پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے لکھتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے ، اسی کے پاس أم الکتاب ہے ۔
ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ کوئی بھی کام اللہ کی قضا و قدر ہی سے ہوتی ہے ، اللہ کی قضا ء و قدر کے بغیرکوئی بھی امر انجام پذیر نہیں ہوتا ، اللہ تعالی نے جو مقدر کردیا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہے گا ، اسے واقع ہونے سے کو ئی نہیں روک سکتا ہے ، اللہ نے جسے نہیں لکھا ہے اسے کو ئی مخلوق انجام نہیں دے سکتی اور جو لکھ دیا ہے اسے کو ئی ہٹا نہیں سکتا ، جو بندے کو نہیں پہونچی اسے کو ئی پہونچا نہیں سکتا اورجو پہونچ گئی ہے اسے کو ئی ہٹا نہیں سکتا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جونہیں چاہتا ہے وہ نہیں ہوتاہے ،اس کی مشیئت مکمل ہے اور اس کی قدرت نافذ ہونے والی ہے ، اس کی بادشاہت میں وہی ہوگا جو وہ چاہے گا ، ہمارا ایمان ہے کہ بندے کی مشیئت حقیقت پر مبنی ہے لیکن وہ بھی مشیئت الہی کے تابع ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے شرمندہ کردیتا ہے ، اللہ تعالی سے اس کے فعل کی بابت کوئی نہیں سوال کرسکتا ہے ہاں لوگ اپنے اپنے کرتوتوں کی بابت سوال کئے جا ئیں گے ، ہر اطاعت گزارشخص اللہ تعالی کی توفیق ہی سے اطاعت کرتا ہے یعنی اگر اللہ کی توفیق شامل حال نہ ہو تو کوئی بھی شخص اطاعت نہیں کرسکتا ، ہر نا فر مان اسی وقت نا فرمانی کرتا ہے جب اسے اللہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ہے ،نیک وہ ہے جس کی نیکی سبقت کرجا ئے اور بدبخت وہ ہے جس کی بد بختی سبقت کر جا ئے اور بندوں کے تمام اچھے برے کام سب اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہیں ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ اطاعت اور اطاعت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ، ہمارا ایمان ہے کہ اللہ فسق اور فاسق دونوں کو نا پسند کرتا ہے ، اللہ جب کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اپنی محبت ، اطاعت اور ہر اس کام کی توفیق دیتا ہے جس سے وہ راضی ہوتا ہے اور جس کے ساتھ اس کے علاوہ کا ارادہ کرتا ہے اس پر حجت تمام کردیتا ہے پھر اسے بغیر ظلم کئے عذاب سے دو چار کرتا ہے ،
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی فحاشی کا حکم نہیں دیتا ہے اور نہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند کرتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے ، اللہ بندوں کا بھی خالق ہےاور ان کے افعال کابھی خالق ہے ، اس کی خلقت میں بھی کو ئی شریک نہیں ہے جیسا کہ اس کی ملکیت میں کوئی شریک نہیں ہے ، اللہ تعالی نے مخلوق پر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہی اکیلا خالق ہے اور جو خلقت میں منفرد ہو اس کی خلقت میں کسی کے لئے بطور شریک دعوی کرنا جا ئز نہیں ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ شریعت ، امر اور خلق کے درمیان کو ئی تعارض نہیں ہے ، اللہ تعالی ہی کے لئے خلق ہے ، اسی کے لئے امر ہے ، وہ جو اور جیسا چاہتا ہے کرتا ہے ، وہ اپنے افعال کے بارے میں نہیں پوچھا جا ئے گا ، وہی حکم دیتا ہے اور اس کے حکم یا فیصلے پرکو ئی رد یا اس کا تعاقب نہیں کر سکتا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کی تقدیر آسمان اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی ، اپنے رسولوں اورنبیوں کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے اور اپنی اور اپنے رسولوں کی معصیت سے منع کیا ہے اور اسی بنا پر اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تقدیر کی تمام خبروں کوجمع کر دیااور اپنے وحی اور امر کی اتباع کا حکم دیا ہے اور یہ حقیقت بھی واضح کردیا ہے کہ ہدایت کی اتباع کرنا واجب ہے ، وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کردیتا ہے ،اسی طرح اللہ تعالی نے اس کتاب میںوہ تمام خبریں جمع کردیا ہے جس میں اس کے عمومی مشیئت کی بات آئی ہے ، جس میں اس نے مخالفین کو دھمکی دیا ہے اور جس میں اس نے اپنے تمام مومن بندو ںکو اپنی عبادت کرنے اور اسی پر بھروسہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی کتاب میںیہ بھی ذکر کیا کہ حتی المقدورتقدیر پر ایمان لا ؤ اور شریعت پر عمل کرو اور یہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی بھی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح خلق ، امر اور شرع کے درمیان کو ئی تعارض نہیں ہے اسی طرح شرع ، امر اور عقل کے درمیان بھی کو ئی تعارض نہیں ہے ، لہذا ہر وہ چیز جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے یا جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے یا جسے اللہ تعالی نے مقدر کر دیاہے یا جس کی بابت خبر دیا ہے وہ تمام چیزیں عقل سے معارض نہیں ہیں بلکہ جو عقل کا تقاضا ہے وہی ان احکام کا بھی تقاضا ہے اور یہی اصل حکمت ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ تمام مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لئےاللہ تعالی نے کتابیں نازل کیااور رسولوں کو بھیجا ، شریعت ، امر اور تقدیر ہر ایک مکمل ہے اور ان میں کا بعض اپنے بعض سے مل کر مکمل ہوتا ہے اور یہی صحیح ہے ۔
جس کتاب کی تعریف کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے احسن الحدیث کہا ہے وہ شریعت اور امر کو شامل ہے ، پس جسے اللہ نے مشروع کردیا یا جسے اللہ نے مقدر کردیا وہی صحیح اور کامل ہے چاہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، چاہےہماری عقل وہاں تک پہونچے یا نہ پہونچے ، ہم اپنی عقل اور اپنی رائےکواللہ تعالی کی شریعت اور اس کی تقدیر پرترجیح نہیں دے سکتے ، نہ تو اچھا کہہ کر اور نہ ہی برا کہہ کر بلکہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالی نے مشروع اورمقدر کردیا ہےوہی کامل اور صحیح ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ شریعت اور تقدیر پورا کا پورا خیر پر مشتمل ہے ، اللہ تعالی صرف شر کو مقدر نہیں کرتالیکن تقدیر کے ضمن میں شر بھی داخل ہوجاتا ہے ، قرآن مجید میں شر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف اس حیثیت سے کی گئی ہے کہ اسی نے اسے پیدا کیا ہے ، ورنہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف نہ کی جا ئے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا ایمان بالقدر کے منافی نہیں ہے بلکہ اسباب کے اپنانے سے ایمان بالقضا والقدر مکمل ہوتا ہے ، اللہ تعالی نے اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہےاور سب سے بڑاسبب دعا ہے ، اس نے ہمیں دعا کا حکم دیا ہے اور قضاء الہی سبقت کر گئی ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی عدل کا حکم دیتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرعا ، تقدیرا ، اور جزاءا وہ فیصلہ کرتا ہے اور اپنے آپ سے ظلم کا انکار کرکے کمال عدل کو ثابت کیا ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ تقدیر کے سبقت کرجانے کی وجہ سے بندوں پر ظلم لازم نہیں آتا کیوں کہ اللہ نے کتابیں نازل کیا اور رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ رسولو ں کے بعد اللہ پر کو ئی حجت نہ رہ جا ئے ، اسی لئے اس نے تقدیر کو مخفی رکھا ، بندوں کو اختیار دیا اور انہیں مشیئت عطا کیا ، لہذا جو ہدایت حاصل کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی ملے گا اور جو گمراہی کے راستے پر چلے گا اس کا وبال اسی پر جا ئے گا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ نا فرمانی کرنےاور اطاعت و فرماں برداری کے ترک کرنے پر تقدیر سے احتجاج کرنا جا ئز نہیں ہے ، مشرکین مکہ جب شرک میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے اپنی اس غلطی میں وقوع کو تقدیرسے جوڑ دیا تو اللہ نے ان کا جھوٹ واضح کیا اور ان کے کرتوت کا انہیں مزہ چکھایا، اگر تقدیر ان کےلئے حجت ہوتی تو اللہ ان کے گناہوں کا مزہ انہیں نہ چکھاتا ۔
ہمارا ایمان ہے کہ بندوں کے لئے توبہ کے بعد گناہوں پر تقدیر کے ذریعہ احتجاج کرنا جا ئز ہے یعنی وہ مصائب پر تقدیر کے ذریعہ احتجاج کر سکتا ہے ۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ مومن جب کوئی معاملہ اللہ کے حوالے کردیتا ہے اور مصیبت کے وقت رجوع کرتا ہے تو اس کے لئے من جانب اللہ تین بھلا ئیاں لکھی جا تی ہیں (۱)وہ اللہ تعالی کی مغفرت کا حق دار ہوجاتا ہے(۲)اس پر رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے(۳)اس کے سامنے ہدایت کے راستے کھل جا تے ہیں ۔