ہم قضا و قدر پر ایمان لاتے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہر وہ چیز جانتا ہے جو ہو چکی ہے اور جو ہونے والی ہے ، اس نے اپنی مشیئت اور اپنی خلقت کو لکھ دیا ہے اور اسے مقدر کردیا ہے ،
ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ قضا ء وقدر پر ایمان لانا ارکان ایمان کا چھٹواں رکن ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے سے پیدا کیا ہے۔ (القمر : ۴۹) اورایک جگہ فرمایا { وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا} اور اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کئے ہوئے ہیں۔ (الأحزاب : ۳۸) اورایک جگہ فرمایا { وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا} اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا ہے ۔ (الفرقان : ۲) ایک اور مقام پرفر مایا { آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ} رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔ (البقرۃ : ۲۸۵ ) اور ایمان بالقدربھی ایمان باللہ کا ایک حصہ ہے کیوں کہ تقدیر اللہ کے علم ، اس کی تقدیر اور تدبیر میں سے ہے ۔
ایک اورمقام پر فرمایا {هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ} وہی ہے جو جلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے پھر وہ جب کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف کہتا ہے ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے۔ (غافر : ۶۸) ایک اور جگہ فر مایا {وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ} اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں ۔ (الأنعام : ۵۹)
اور حدیث جبرئیل میں جبرئیل علیہ السلام کے اس سوال کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتاؤ کے جواب میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ‘‘ یہ کہ تو اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور تو تقدیر کے اچھی اور بری ہونے پر ایمان لا ئے ، فرمایا : تونے سچ کہا ۔ ( صحیح بخاری : ۵۰، صحیح مسلم : ۸)
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان بالقدر ارکان کا چھٹواں رکن ہے ، حافظ ابو القاسم لالکائی فرماتے ہیں کہ ’’فَإِنْ كَانَ فِي الدُّنْيَا إِجْمَاعٌ بِانْتِشَارٍ مِنْ غَيْرِ إِنْكَارٍ، فَهُوَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَمَنْ خَالَفَ قَوْلَهُ فِيهَا فَهُوَ مُعَانِدٌ مُشَاقِقٌ يَلْحَقَ بِهُ الْوَعِيدُ وَهُوَ دَاخِلٌ تَحْتَ قَوْلِهِ: {وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتْبَعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} [النساء: ۱۱۵]‘‘دنیا میں یہی ایک مسئلہ ہے جس پر بغیر کسی انکار کے تمام لوگوں کا اجماع ہے ، اب جو اس کی مخالفت کرے گا وہ مخالف اور معاند تسلیم کیا جا ئے گا اور وہ اس وعید کے تحت داخل ہوگا جواللہ کے اس فرمان میں ہے ’’جو شخص راہ ہدایت کےواضح ہو جانے کے بعدبھی رسول کی مخالفت اور مومنوں کی راہ کے علاوہ کی اتباع کرےگا ہم اسے ادھر ہی موڑ دیں گے جدھر کو وہ مڑے گا اورہم اسے دوزخ میں ڈال دیں گے، (جو) بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ ( شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۴؍ ۷۲۶)
اور عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ’’ أَنَّ نَفَرًا كَانُوا جُلُوسًا بِبَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ كَذَا وَكَذَا؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ كَذَا وَكَذَا؟ فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ، فَقَالَ:بِهَذَا أُمِرْتُمْ؟ أَوْ بِهَذَا بُعِثْتُمْ؟ أَنْ تَضْرِبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ؟ إِنَّمَا ضَلَّتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ فِي مِثْلِ هَذَا، إِنَّكُمْ لَسْتُمْ مِمَّا هَاهُنَا فِي شَيْءٍ، انْظُرُوا الَّذِي أُمِرْتُمْ بِهِ، فَاعْمَلُوا بِهِ، وَالَّذِي نُهِيتُمْ عَنْهُ، فَانْتَهُوا‘‘کچھ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ نبی ﷺ کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا اللہ نے ایسا ایسا نہیں کہا ہے اور بعض نے کہا کہ کیا اللہ نے ایسا ایسا نہیں کہا ہے اور وہ سب اللہ کے رسول ﷺ نے سن لیا بنا بریں(گھر سے باہر ) نکلے تو ان کی حالت یہ تھی کہ جیسے ان کے چہرے میں انار کا دانہ نچوڑ دیا گیا ہو ، کہا کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے ؟ یایہ کہا کہ کیا تم اسی کے ساتھ بھیجے گئے ہو ؟ کہ اللہ کے کتاب کے بعض حصے کو بعض سے ٹکرا ؤ ، تم سے پہلے کی امتیں اسی طرح کی باتوں میں پڑکر گمراہ ہو گئیں ، تم ان میں سے نہیں ہو جو جو یہاں بیان ہوا ہے ،تم وہی دیکھو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہےاور اسی پر عمل کرو اور جس سے روک دیا گیا ہے اس سے باز آجا ؤ ۔ (سنن ابن ماجۃ : ۸۵، مسند أحمد : ۶۸۴۵، اور الفاظ اسی کتاب کے ہیں ، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۴۰۶ )
عبد الملک ابن جریج عطاء بن أبو رباح سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ أَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَهُوَ يَنْزِعُ فِي زَمْزَمَ وَقَدِ ابْتَلَّتْ أَسَافِلُ ثِيَابِهِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ تُكُلِّمَ فِي الْقَدَرِ، فَقَالَ: أَوَقَدْ فَعَلُوهَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: وَاللَّهِ مَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ إِلَّا فِيهِمْ: {ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ} [القمر: ۴۸] {إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} [القمر: ۴۹] لَا تَعُودُوا مَرْضَاهُمْ وَلَا تُصَلُّوا عَلَى مَوْتَاهُمْ وَلَوْ أَرِيتَنِي وَاحِدًا مِنْهُمْ فَقَأْتُ عَيْنَهُ‘‘میں ابن عباس کے پاس آیا اس حال میں کہ وہ زمزم کے سلسلے میں بحث کر رہے تھے اور ان کے کپڑے کا نچلا حصہ تر ہو چکا تھا ، میں نے ان سے کہا کہ لوگ تقدیر کے معاملے میں بحث کررہے ہیں ، تو انہوں نے کہا کہ کیا واقعی لوگوں نے اسے انجام دیا ہے؟ میں نے کہا ہاں ؟ فرمایا کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے سلسلے میں نازل ہو ئی ہے{إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} [القمر: ۴۹]جہنم کا مزہ چکھو (۴۸) بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے سے پیدا کیا ہے( ۴۹)۔ ( شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۳؍ ۵۹۷)
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سےکہا ’’يَا بُنَيَّ، إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي ‘‘ اے میرے بیٹے! تو اصل ایمان کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتایہاں تک کہ تو یہ نہ جان لے کہ جو تجھےملا ہے وہ ایسا نہیں کہ وہ تجھے نہیں ملتا اور جو تجھے نہیں ملا ہے ایسا نہیں ہےکہ وہ تجھےمل جاتا، میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہو ئےسنا ہےکہ سب سے پہلے اللہ نے جو پیدا کیاوہ قلم ہے، اس نے اس سے کہا: لکھ، تو اس (قلم )نے کہا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ (اللہ نے )کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ، اے میرے بیٹے! میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہو ئےسنا ہےکہ جو اس کے علاوہ پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۷۰۰، السنۃ لإبن أبی عاصم : ۱؍ ۵۱ )
یحیی بن یعمر فرماتے ہیں کہ’’ كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ - أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ - فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ : أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ‘‘سب سے پہلے جس نے تقدیر کے سلسلے میں گفتگو کی بصرے میں وہ معبد جہنی تھاتو میں اور حمید بن عبد الرحمن حج یا عمرہ کے لئے چلے تو ہم نے کہا کہ اگر ہماری کسی صحابی سے ملاقات ہوجاتی ہے تو ہم اس سے اس چیز کی بابت پوچھیں گے جو یہ لوگ تقدیر کے سلسلے میں کہہ رہے ہیں ، تو اتفاق سےہمیں مسجد کے اندر عبد اللہ بن عمر بن خطاب ہمارے سامنے ظاہر ہو گئے تو میں اور میرےساتھی دونوں نے انہیں بیچ میں کر لیا یعنی ہم میں کا ایک ان کے دائیں اور دوسرا با ئیں جانب ہو گیا تو میں سمجھا کہ میرا ساتھی بات میرے حوالے کر دے گا تو میں نے کہا ابو عبد الرحمن ہمارے یہاں ایسے لوگ ظاہر ہو ئے جو قرآن کو پڑھتے اور علم حاصل کرتے تھے اور ان کا پوراحال بیان کیا( اور کہا کہ ) وہ کہتے تھے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اور سب کام ناگہاں ہو گئے ہیں،(عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: جب تو ان سے ملے تو کہہ دےکہ ان سے میں بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس کی قسم عبد اللہ بن عمر کھا رہے ہیں، اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو پھر وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردےلیکن اللہ اسے قبول نہیں کرے گا جب تک تو تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔ (صحیح مسلم : ۸ ، الشريعة للآجری : ۲؍ ۸۵۱)
ابو ہارون الآبلی ( یہ سہل بن عبد اللہ کے ساتھیوں میں سے تھے اور نیک آدمی تھے اور وہ ہمیں جامع مسجد میں قرآن پڑھاتے تھے ) فر ما تے ہیں کہ ’’سُئِلَ سَهْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْقَدَرِ فَقَالَ: الْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ فَرَضٌ، وَالتَّكْذِيبُ بِهِ كُفْرٌ، وَالْكَلَامُ فِيهِ بِدْعَةٌ، وَالسُّكُوتُ عَنْهُ سُنَّةٌ‘‘ سہل بن عبد اللہ سے تقدیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ، اسے جھٹلانا کفر ہے ، اس کے سلسلے میں بات کرنا بدعت اور خاموش رہنا سنت ہے ۔ ( شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۴؍ ۷۸۶)
اور حسن بصری رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ’’جَفَّ الْقَلَمُ، وَقُضِيَ الْقَضَاءُ، وَتَمَّ الْقَدَرُ بِتَحْقِيقِ الْكِتَابِ، وَتَصْدِيقِ الرُّسُلِ، وَسَعَادَةِ مَنْ عَمِلَ وَ اتَّقَى ، وَشَقَاوَةِ مَنْ ظَلَمَ وَاعْتَدَى، وَبِالْوِلَايَةِ مِنَ اللَّهِ لِلْمُؤْمِنِينَ، وَبِالتَّبْرِئَةِ مِنَ اللَّهِ لِلْمُشْرِكِينَ‘‘کتاب کی تحقیق اور رسولوں کی تصدیق کے مطابق قلم سوکھ گیا ، قضا ءپوری کردی گئی اورتقدیر مکمل ہوگئی ، وہ کامیاب ہوگیا جس نے عمل کیا اور تقوی اختیار کیا اور وہ ناکام رہاجس نے ظلم اور حد سے تجاوز کیا ، اللہ سے مومنوں کے لئے دوستی کرکے اور اللہ سے مشرکوں کے تئیں برأت کا اظہار کرکے۔ (الشریعۃ للآجری : ۲؍ ۸۸۱)
ابن بطہ عکبری فرماتے ہیں کہ ’’ثم من بعد ذالک الإیمان بالقدر خیرہ و شرہ ، و حلوہ ومرہ ، وقلیلہ و کثیرہ، و مقدورواقع من اللہ عزوجل علی العباد ، وفی الوقت الذی أراد أن یقع ، لا یتقدم ولا یتأخر، علی ما سبق بذالک علم اللہ ، وأن ما أصاب العبد لم یکن لیخطئہ ، و ما أخطأہ لم یکن لیصیبہ ، وما تقدم لم یکن لیتأخر، وما تأخر لم یکن لیتقدم، ....فالإیمان بہذا حق لازم ، فریضۃ من اللہ عزوجل علی خلقہ ، فمن خالف ذالک ، أو خرج عنہ ، أو طعن فیہ ، ولم یثبت المقادیر للہ عزوجل ، ویضفہا ، ویضف المشیئۃ إلیہ ، فہو أول الزندقۃ ‘‘ پھر اس کے بعدتقدیر کے اچھی یا بری، میٹھایا کڑوا ،اس کے کم یازیادہ ہونے اور اللہ کی طرف سے بندوں پر واقع ہونے پر ایمان لانا ہے، اسی وقت میں جس میں وہ واقع کرنے کا ارادہ کرے اس سے مقدم یا مؤخر نہیں کرتا ہے ، اسی پر اللہ کا علم سبقت کر چکا ہے ،اس لئے جو تجھےملا ہے وہ ایسا نہیں کہ وہ تجھے نہیں ملتا اور جو تجھے نہیں ملا ہے ایسا نہیں ہےکہ وہ تجھےمل جاتا، جو پہلے ہوگیا وہ مؤخر نہیں ہوتا اور جو مؤخر ہوگیا وہ مقدم نہیں ہوتا ، اسی پر ایمان لانا لا زمی حق ہے ، من جانب اللہ تمام مخلوق پر فریضہ ہے ، جو اس کی مخالفت کرے گا یا اس سے نکلے گا یا اس میں طعن کرے گا ، اللہ کے لئے تقدیر کا اثبات نہیں کرے گا ، تقدیر اور اس کی مشیئت کو اس کی طرف منسوب نہیں کرے گا وہی سب سے پہلا زندیق ہوگا ۔ ( الشرح والإبانۃ علی أصول السنۃ والدیانۃ لإبن بطۃ : ص: ۲۱۳-۲۱۶)