ہم گواہی دیتے ہیں کہ ایمان بالقدر ایمان بعلم اللہ کو شامل ہے جو تمام چیزوں کو شامل ہے اور تمام کا احاطہ کئے ہو ئے ہے ، وہ آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کوجانتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ} کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے،یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے ۔ (الحج : ۷۰) علمی اعتبار سے اللہ نے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا } اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔ (الطلاق : ۱۲)
اللہ کا علم تمام بڑے اور چھوٹے امور کو محیط ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ} اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں ۔ (الأنعام : ۵۹) امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’قول: ولا شيء أيضًا مما هو موجود، أو ممّا سيوجد ولم يوجد بعد،إلا وهو مثبت في اللوح المحفوظ، مكتوبٌ ذلك فيه، ومرسوم عددُه ومبلغه، والوقت الذي يوجد فيه، والحالُ التي يفنى فيها.ويعني بقوله:(مبين) أنه يبين عن صحة ما هو فيه، بوجود ما رُسم فيه على ما رُسم‘‘ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو موجود ہے یا جو موجود ہوگا اور وہ ابھی تک موجود نہیں ہے مگر وہ لوح محفوظ میں محفوظ ہے ،اس میں لکھا ہواہے، اس کی تعداد اور مقدار کا فر مان اور جس وقت میں یہ پایا جاتا ہے اور جس حالت میں یہ فنا ہوگا (مبين)کہتے ہو ئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میںجو کچھ پیش کیا گیا ہےاس کی موجودگی سے ،وہ ایسے ہی پا ئی گئی ہے جیسے ازل میں پا ئی گئی ہے ۔ (تفسیر الطبری : ۱۱؍۴۰۳)
اور فرمایا {يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ (۲) جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے جو آسمان سے اترے اور جو چڑھ کر اس میں جائے وہ سب سے باخبر ہے۔ اور وہ مہربان نہایت بخشش والا ہے (۲) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (۳) } کفار کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجیئے! کہ مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے کہ وہ یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی چیز کھلی کتاب میں موجود ہے(۳) ۔ (سبأ : ۲-۳)
اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ إِنِّي عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ قَوْمٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: اقْبَلُوا البُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ، قَالُوا: بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا، فَدَخَلَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ اليَمَنِ، فَقَالَ: اقْبَلُوا البُشْرَى يَا أَهْلَ اليَمَنِ، إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ، قَالُوا: قَبِلْنَا، جِئْنَاكَ لِنَتَفَقَّهَ فِي الدِّينِ، وَلِنَسْأَلَكَ عَنْ أَوَّلِ هَذَا الأَمْرِ مَا كَانَ، قَالَ: كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، وَ كَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ، ثُمَّ أَتَانِي رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا عِمْرَانُ أَدْرِكْ نَاقَتَكَ فَقَدْ ذَهَبَتْ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُهَا، فَإِذَا السَّرَابُ يَنْقَطِعُ دُونَهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّهَا قَدْ ذَهَبَتْ وَلَمْ أَقُمْ‘‘میں نبی ﷺکے پاس تھا کہ ان کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے فرمایا: اے بنو تمیم! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے اس پر کہا کہ آپ نے ہمیں بشارت دے دی، اب ہمیں( بخشش) بھی دیجئے،( پھر) آپ کے پاس یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے فرمایا اے اہل یمن! بشارت قبول کروکیوں کہ بنو تمیم نے اسے قبول نہیںکیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے قبول کر لیا، ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ آپ سے اس امر کے متعلق پوچھیںجو ہو چکا ہے،فرمایا کہ اللہ تھا اور اس کے پہلےکوئی چیز نہیں تھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمان و زمین کوپیدا کیا اور ذکرمیں ہر چیز لکھ دیا (عمران بیان کرتے ہیں کہ) پھر میرے پاس ایک اور آدمی آیا اور کہا اےعمران! اپنی اونٹنی کو پکڑووہ بھاگ گئی ہے، چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکلاتو( میں نے دیکھا کہ ایک ریت کا چٹیل میدان اس کے راستے کاٹ رہا ہے اور اللہ کی قسم میں چاہتا تھا کہ وہ چلی ہی گئی ہوتی اور میں( آپ ﷺ کی مجلس میں سے) نہ کھڑا ہوا ہوتا۔ (صحیح بخاری : ۷۴۱۸)
جو ہو چکاہے اور جو ہوگا اور اگر ہوگا تو کیسے ہوگا یہ سب اللہ جانتا ہے ، اللہ تعالی نے منافقوں کی بابت بتایاہے کہ اگر وہ مومنوں کے ساتھ نکلتے بھی توفساد ہی میں وہ اضا فہ کرتے لیکن وہ ان کے ساتھ بعد میں بھی نہیں نکلے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ} اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (التوبۃ : ۴۷)
اور اللہ تعالی نے جہنمیوں کے سلسلے میں کہا ہے {وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۲۷) بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ(۲۸)}اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہو جائیں(۲۷) بلکہ جس چیز کو اس کے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں (۲۸)۔ (الأنعام : ۲۷-۲۸) یعنی اگر انہیں اس دنیا میں واپس بھیج دیا جا ئے تو وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ آئیں گے ، بعد میں بھی وہ دوزح سے اعراض نہیں کریں گے ۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا {وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے ! مجھے میرے رب کی قسم ! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ۔ (سبأ : ۳)
ہمارا ایمان ہے کہ ہر ہونے والی بات کتاب محفوظ میں لکھی ہو ئی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ} اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔ (یونس : ۶۱) ایک اور مقام پر اللہ نے فرمایا {أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ }کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے ۔ (الحج : ۷۰) ایک اور جگہ فرمایا {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ } نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے یہ کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے ۔ (الحدید:۲۲)
عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہو ئے سنا ہے ’’كَتَبَ اللهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ‘‘ اللہ نے مخلوق کی تقدیر کو آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پچاس سال پہلے لکھ دیا ہے اور فرمایا کہ اس کا عرش پانی پر ہے ۔ ( صحیح مسلم : ۲۶۵۳، جامع الترمذی : ۲۱۵۶)
ایک اور جگہ فر مایا ’’إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ القَلَمَ، فَقَالَ: اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ القَدَرَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الأَبَدِ‘‘ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا تو فرمایا: لکھ، تو اس نے کہا: کیا لکھوں؟ (اللہ نے) فرمایا: وہ تقدیر لکھ جو ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے۔ (جامع الترمذی : ۲۱۵۵ )
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’ ’لَمَّا قَضَى اللَّهُ الخَلْقَ، كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ: غَلَبَتْ، أَوْ قَالَ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ العَرْشِ‘‘ اللہ جب ساری مخلوق پیدا کر چکا تو اس نے اپنے پاس ایک کتاب لکھ کر رکھ لیا( اس میں یوں ہے) میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے یا میرے غصے سے آگے بڑھ چکی ہےاور وہ اس کے پاس عرش کے اوپر ہے ۔ (صحیح بخاری : ۷۵۵۳، صحیح مسلم : ۲۷۵۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جو چاہے لکھے اور جو چاہے مٹادے اور جو چاہےثابت کر دے ، اسی کے پاس ام الکتاب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ۔ (الرعد: ۳۹)
ہمارا ایمان ہے کہ کوئی بھی کام اللہ کے قضاء و قدر ہی سے رونما ہوتا ہے ، کوئی بھی امر اللہ تعالی کے فیصلے ہی پر انجام پاتا ہے ، اللہ نے جسے مقدر کردیا ہے وہ لا محالہ ہونے والا ہے ، اسےواقع ہونے سے کوئی دفع نہیں سکتا ہے ، اللہ تعالی نے تقدیر میں جو نہیں لکھا ہے اسے کوئی بھی شخص انجام نہیں دے سکتا اورجو لکھ دیا ہے اسے کوئی ٹال نہیں کر سکتا ، بندے کو جو چیز نہ ملے تویہ سمجھو کہ وہ اسے نہیں ملنے والی تھی اور جو مل جا ئےتویہ سمجھو کہ وہ اسے ملنے والی تھی ، یہ نہ سمجھو کہ وہ اسے نہیں ملتی ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ‘‘(سواری پر)میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے پیچھے تھا، تو (آپ نے) فرمایا: اے بچے! بیشک میں تجھے چند کلمات سکھلا رہا ہوں تو اللہ کو یاد کروہ تجھے یادکرےگا، تو اللہ کو یاد کر تو اسے اپنے سامنے پا ئے گا، جب تو مانگ تو اللہ سے مانگ،جب تو مدد طلب کر تو اللہ سے مدد طلب کر اور جان لو کہ اگر ساری امت جمع ہو جا ئے اس بات پر کہ وہ تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو وہ تمہیںکچھ نفع نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہےاور اگر ساری امت جمع ہو جا ئے اس بات پر کہ وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تمہیںکچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تمہارے اوپر لکھ دیا ہےقلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔ ( جامع الترمذی : ۲۵۱۶)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا اور جو نہیں چاہے گا وہ نہیں ہوگا ، اسی کی چاہت پر ساری چیزیں موقوف ہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے {وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں ۔ (القصص: ۶۸) اور فر مایا {وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ۔ (التکویر : ۲۹) اور اسی کی قدرت نافذ ہونے والی ہے {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا (۴۴)} اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرا دے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ بڑے علم والا، بڑی قدرت والا ہے۔ (فاطر : ۴۴) اور فر مایا {وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ} اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔ (الأنعام : ۱۱۲)
اس کی بادشاہت میں وہی ہوگا جو وہ چاہے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ} اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (البقرۃ : ۲۵۳)
ہمارا ایمان ہے کہ بندو ںکی مشیئت مبنی بر حقیقت ہے اور یہ مشیئت الہی کے تابع ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا} اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے بیشک اللہ تعالیٰ علم والا با حکمت ہے۔ (الإنسان : ۳۰) ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا { لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ (۲۸) (بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے(۲۸) وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (۲۹)} اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔ (التکویر : ۲۸-۲۹) اور فرمایا {إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا }یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی راہ لے لے۔ (الإنسان : ۲۹) اور ایک جگہ فرمایا {ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا}ییہ دن ہے اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے ۔ (النبأ : ۳۹)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے اپنے عدل سے شرمندہ کردیتا ہے ، اللہ سے اس کے کسی کام کی بابت سوال نہیں ہوگا لیکن اورلوگوں سےسوال کیا جا ئے گا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں {وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے ۔ (الأنعام : ۳۹) اور فر مایا {فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ} سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے ۔ (الأنعام : ۱۲۵) اور ایک جگہ اور فرمایا {وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ } اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتےلیکن میری بات بالکل حق ہوچکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا ۔ (السجدۃ : ۱۳)
اور ابو بکر مروذی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ میں نے ابو عبد اللہ یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کہتے ہو ئے سنا کہ لوگوں نے عبد الرحمن بن مہدی سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ ’’الْخَيْرُ وَالشَّرُّ بِقَدَرٍ‘‘ خیر و شر تقدیر ہی پر منحصر ہے ۔ (الإبانۃ الکبری : ۴؍ ۲۶۱)
اور ابو بکر بن ابو عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ آپ نے سوال کیا ہے کہ سنت کیا ہے؟ سنئے ’’وَالسُّنَّةُ اسْمٌ جَامِعٌ لِمَعَانٍ كَثِيرَةٍ فِي الْأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ. وَمِمَّا اتَّفَقَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنْ نَسَبُوهُ إِلَى السُّنَّةِ الْقَوْلُ بِإِثْبَاتِ الْقَدَرِ، وَأَنَّ الِاسْتِطَاعَةَ مَعَ الْفِعْلِ لِلْفِعْلِ، وَالْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، وَحُلْوِهِ وَمُرِّهِ. وَكُلُّ طَاعَةٍ مَعَ مُطِيعٍ فَبِتَوْفِيقِ اللَّهِ لَهُ، وَكُلُّ مَعْصِيَةٍ مِنْ عَاصٍ فَبِخِذْلَانِ اللَّهِ السَّابِقِ مِنْهُ وَلَهُ، وَالسَّعِيدُ مَنْ سَبَقَتْ لَهُ السَّعَادَةُ، وَالشَّقِيُّ مَنْ سَبَقَتْ لَهُ الشَّقَاوَةُ، وَالْأَشْيَاءُ غَيْرُ خَارِجَةٍ مِنْ مَشِيئَةِ اللَّهِ وَإِرَادَتِهِ، وَأَفْعَالُ الْعِبَادِ مِنَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ فِعْلٌ لَهُمْ خَلْقٌ لِخَالِقِهِمْ‘‘ سنت ایک جامع اسم ہےجواحکام وغیرہ کے سلسلے میں کئی معانی کو شامل ہے، تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ انہوں نے تقدیرکے ثبوت پر آئی ہوئی تمام باتوں کوسنت کی طرف منسوب کیا ہے اورکسی کام کو انجام دینے کے لئے اس کی طاقت کا ہونا بھی ضروری ہے اور تقدیر کے اچھی اور بری ہونے اور اس کے میٹھا اور کڑوا ہونے پر ایمان لاناضروری ہے ، مطیع کی ہراطاعت اللہ کی توفیق پر منحصرہے اور نا فرمان کی ہر نا فرمانی اللہ کی جانب سے اس کی بے توفیقی کی بنا پر ہے، کامیاب وہی ہے جس کی کا میابی سبقت کر گئی اور بدبخت وہ ہے جس کی بد بختی آگے نکل گئی ، کوئی بھی چیز اللہ کی مشیئت اور ارادے سے خالی نہیں ہے ، بندوں کا ہر اچھا و بر ا فعل جو انہوں نے کیا ہے وہ سب اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے ۔ (السنۃ : ۲؍ ۶۴۵)
ہمارا ایمان ہے کہ اطاعت اور اطاعت کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ} لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔ ( الحجرات : ۷ ) اور فر مایا {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا} اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔ (النساء: ۶۹) اور فرمایا {وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ۱۹۵) ایک جگہ اور فرمایا {إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ}اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ (البقرۃ : ۲۲۲) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ العُطَاسَ، وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ‘‘ اللہ چھینکنے کو پسند اور جمائی کو نا پسند کرتا ہے ۔ ( صحیح بخاری : ۶۲۲۳، صحیح مسلم : ۲۹۹۴، سنن أبی داؤد : ۵۰۲۸ ، جامع الترمذی : ۲۷۴۶، سنن ابن ماجۃ : ۹۶۸)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ‘‘ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو پکارتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو ۔ ( صحیح بخاری : ۶۰۴۰ ، صحیح مسلم : ۲۶۳۷ ، جامع الترمذی : ۳۱۶۱)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی فسق اور فسق کرنے والوں کو نا پسند کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} اے ایمان والو ! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہےاور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔ ( الحجرات : ۱۱) اور فرمایا {إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ}یقینا اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیںکرتا ہے ۔ ( البقرۃ : ۱۹۰ ) اور ایک جگہ فرمایا {وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ}اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ہے ۔ (البقرۃ: ۲۰۵)
عثمان البتی فرماتے ہیں کہ’’دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ سِيرِينَ، فَقَالَ لِي: مَا يَقُولُ النَّاسُ فِي الْقَدَرِ؟قَالَ: فَلَمْ أَدْرِ مَا رَدَدْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَرَفَعَ شَيْئًا مِنَ الْأَرْضِ، وَقَالَ: مَا أُرِيدُ عَلَى مَا أَقُولُ مِثْلَ هَذَا، میں ابن سیرین کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ لوگ تقدیر کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، تو انہوں نے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیا جواب دیا ، وہ فرماتے ہیں کہ انہوںنے زمیں سے کچھ اٹھایا اور کہا جو میں چاہتا ہوں اس پر میں اسی طرح کہتا ہوں ، [الشريعة للآجري (2/ 887)]. إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ بعبدٍ خَيْرًا، وفقه لمحابه وَطَاعَتِهِ، وَمَا يَرْضَى بِهِ عَنْهُ، وَمَنْ أَرَادَ بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ، اتَّخَذَ عَلَيْهِ الْحُجَّةَ، ثُمَّ عَذَّبَهُ، غَيْرَ ظَالِمٍ لَهُ‘‘ اللہ جب کسی بندے سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اپنی محبت اور اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور جس کے ذریعہ وہ اس سے راضی ہوتا ہے اور جس کے ساتھ اس کے علاوہ کا ارادہ کرتا ہے اس پر حجت تمام کردیتا ہے پھر اس پر ظلم کئے بغیر اسے عذاب دیتا ہے ۔ (القدر للفریابی: ۲۶۳)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی فحش کاموں کا حکم نہیں دیتا ہے اور نہ اپنے بندوں کے لئے کفر سے راضی ہوتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ} یقینا اللہ فحش کاموں کا حکم نہیں دیتا ہے ۔ (الأعراف : ۲۸) اور فرمایا {وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ}اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔ (الزمر : ۷)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۡ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ } اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (الزمر: ۶۲) اللہ تعالی نے بندوں سمیت ان کے افعال کو بھی پیدا کیاہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ}اور اللہ نے تمہیںبھی اور تمہارے اعمال کو بھی پیدا کیا ۔ (الصآفات : ۹۶) اور اس کی تخلیق میں اسی طرح کوئی شریک نہیں ہے جس طرح اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا} اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا نہ اس کی سلطنت میں کوئی ساتھی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایاہے۔ (الفرقان : ۲)
اور اللہ تعالی نے تمام مخلوق پر یہ حجت تمام کردیا ہے کہ وہی تنہا خالق ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ (۵۷) ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے؟(۵۷) أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ (۵۸) اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو (۵۸) أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ (۵۹)} کیا اس کا [انسان] تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟ (۵۹)۔ (الواقعۃ : ۵۷-۵۹) اگر یہ بعث بعد الممات پر دلیل ہے تو یہی اللہ تعالی کے تنہا خالق ہونے کی بھی دلیل ہے ۔