ہمارا ایمان ہے کہ شریعت ، امر اور خلق کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ،خلق اور امر دونوں اللہ ہی کے لئے ہیں ،وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس کے افعال کے بارے میں اس سےکچھ نہیں پوچھا جا ئے گا ، وہ حکم دیتا ہے اور اس کے دیئے گئےحکم کونہ کوئی ٹال سکتاہے اور نہ اس پر کو ئی تعاقب کر سکتا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا { اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَ ّالشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ } بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا، وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ (الأعراف : ۵۴)
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آسمان اور زمین کو پیدا کرنے سےپچاس سال پہلے تمام مخلوق کی تقدیر کو لکھ دیا ہے اور اپنی اور اپنے انبیاء و رسل کی اطاعت کا حکم دیا اور نا فرمانی سے منع کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (۱۰۷) اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے (۱۰۷) قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (۱۰۸) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے، اس لیے جو شخص راہ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہ راست پر آئے گا اور جو شخص بے راہ رہے گا تو اس کا بے راہ ہونا اسی پر پڑے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا(۱۰۸) وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (۱۰۹)} اور آپ اس کی اتباع کرتے رہیے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے(۱۰۹) ۔ (یونس : ۱۰۷-۱۰۹) مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے تقدیر کی خبر اپنی وحی اور امر کے اتباع کا حکم دونوںکا ایک ساتھ ذکر کیا ہے ، ایک دوسرے مقام پر فرمایا {اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (۱۰۶) ٓپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ﻻئق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (۱۰۶) وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (۱۰۷)}ااور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کا نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان پر مختار ہیں!(۱۰۷)۔ (الأنعام : ۱۰۶-۱۰۷) گویا ہدایت کی اتباع واجب ہے ، وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے گمراہ کردیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتاہے {وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (۱۱۸) اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا،وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے (۱۱۸) إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (۱۱۹) بجز ان کے جن پرآپ کا رب رحم فرمائے، انہیں تو اسی لئے پیدا کیا ہے اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا(۱۱۹) وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَ ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۱۲۰) رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لئے بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کے پاس اس سورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت ووعظ ہے مومنوں کے لئے (۱۲۰) وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ (۱۲۱) ایمان نہ ﻻنے والوں سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے طور پر عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل میں مشغول ہیں(۱۲۱) وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (۱۲۲) اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں (۱۲۲) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۲۳) } زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے، پس تجھے اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں (۱۲۳)۔ (ھود : ۱۱۸-۱۲۳ ) ان آیات میں اللہ تعالی نے اپنی عام مشیئت اور مخالفین کے لئے دھمکیوں کا ذکر کیا ہے اور اپنے مومن بندوں کو اپنی عبادت اور اس پر توکل کا حکم دیا ہے ،
ایمان بالقدر اور عمل بالشرع کے درمیان جمع کرنا ممکن در ممکن ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا {لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا} اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ (البقرۃ : ۲۸۶) اللہ نے ایک اور مقام پر فرمایا {وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا}ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ۔ (المؤمنون : ۶۲)
اللہ تعالی نےتکلیف کے بقدر ہمیں صبر کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ } ہ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ (البقرۃ : ۱۵۵) ایک اور مقام پر فرمایا {اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ }صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔ (الزمر : ۱۰)
اور اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا ’’إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘ لوگوں میں سب سے سخت آزمائش انبیاء کی ہوگی پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گےپھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے ۔ (مسند إسحاق بن راہویہ : ۲۴۱۳، مسند أحمد : ۲۷۰۷۹ ، المرض والكفارات لإبن أبی الدنیا : ۶، السنن الکبری للنسائی : ۷۴۴۰)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مَا يَزَالُ البَلَاءُ بِالمُؤْمِنِ وَالمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ‘‘ مومن مرد اور مومنہ عورت اپنی جان، اولاد، اور مال کے سلسلے میں آزمائش میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کریں گے اس حال میں کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ (جامع الترمذی : ۲۳۹۹، مصنف ابن أبی شیبۃ : ۱۰۹۱۶، مسند أحمد : ۷۸۵۹، الزہد لہناد بن السری : ۴۰۲)
اور علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الغَرْقَدِ، فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ، وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ العَمَلَ؟ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، قَالَ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى(۵) وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى} [الليل: ۶] الآيَةَ‘‘ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ میں تھےکہ نبی ﷺ ہمارےپاس آگئے(آتے ہی ) وہ بیٹھ گئےاور ہم بھی ان کے اردگرد بیٹھ گئے، ان کے ساتھ ایک چھڑی تھی جسے انہوں نےزمین کی طرف جھکا دیا اور اسی چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر کہاکہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ،کوئی جان ایسی نہیں مگر یہ کہ اس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ لکھ دیاگیا ہو اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہو کہ وہ نیک بخت ہو گی یا بدبخت،تو ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کر لیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ ہم میں سے جو نیک وکاروں میں سے ہوگا وہ نیک وکارں کے عمل کی طرف جا ئے گااورہم میں سے جو بد بختوں میں سے ہوگا وہ بد بختوں والے عمل کی طرف جا ئے گا؟ تو( آپ ﷺ نے) فرمایا کہ رہی بات نیک بختوں کی تو ان کے لئے نیکی کا کام آسان کردیا جا ئے گا اور رہی بات بد بختوں کی توان کے لئے بد بختی کا کام آسان کردیا جا ئے گا پھرپڑھا{فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى} رہی بات اس کی جس نے دیا اور تقوی اختیار کیااور بہترین بات کو سچ مانا ۔ (صحیح بخاری : ۱۳۶۲، صحیح مسلم : ۲۶۴۷، سنن أبی داؤد: ۴۶۹۴، جامع الترمذی : ۳۳۴۴)
اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نےعرض کیا’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُعْرَفُ أَهْلُ الجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ: فَلِمَ يَعْمَلُ العَامِلُونَ؟ قَالَ:كُلٌّ يَعْمَلُ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَوْ: لِمَا يُسِّرَ لَهُ ‘‘اے اللہ کے رسول !کیا اہل جنت جہنمیوں سےمعروف ہوں گے، فرمایا:ہاں ، کہا کہ پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کریں؟ فرمایا کہ ہر شخص وہی عمل کرے گا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جو اس کے لئے آسان کر دیا جا ئے گا۔ ( صحیح بخاری : ۶۵۹۶، صحیح مسلم : ۲۶۴۹، سنن أبی داؤد: ۴۶۰۹)
اور جابرفر ماتے ہیں کہ ’’جَاءَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ بَيِّنْ لَنَا دِينَنَا كَأَنَّا خُلِقْنَا الْآنَ، فِيمَا الْعَمَلُ الْيَوْمَ؟ أَفِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ، وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، أَمْ فِيمَا نَسْتَقْبِلُ؟ قَالَ:لَا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ زُهَيْرٌ: ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو الزُّبَيْرِ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَسَأَلْتُ: مَا قَالَ؟ فَقَالَ: اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ‘‘سراقہ بن مالک بن جعشم آئےاور کہا اے اللہ کے رسول! ہمارا دین ہمارے سامنے بیان کیجئے گویا ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں ،کیااسی کے لئےجو عمل ہم آج کرتے ہیں؟ یا اس کے لیےجس پر قلم سوکھ گئے اور جس پرتقدیریں جاری ہو گئیں ؟یا اس کے لیے جس کا ہم استقبال کرنے والے ہیں؟ کہا: نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے جس پر قلم سوکھ گئےاورجس پر تقدیر یںجاری ہو گئیں، کہا: پھر عمل کیوں؟ زہیر فر ما تے ہیں کہ پھر ابوالزبیر نے کچھ بات کہی جس کو میں نہیں سمجھ سکاتومیں نے پوچھا: انہوں نےکیا کہا؟کہا عمل کرو ہر ایک کے لیے آسان کر دیاگیا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۴۸)
اور سہل بن سعد الساعدی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا ’’إِنَّ العَبْدَ لَيَعْمَلُ، فِيمَا يَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِخَوَاتِيمِهَا‘‘ ایک بندہ لوگوں کی نظر میںجنتیوں والا عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنمیوں میں سے ہوتا ہے، ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں جہنمیوں والا عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار اس کے خاتمہ پر موقوف ہے۔ ( صحیح بخاری : ۶۴۹۳، صحیح مسلم : ۱۱۲)
اور امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’أَحَبَّ الطَّاعَةَ مِنْ عِبَادِهِ وَأَمَرَ بِهَا، فَجَرَتْ مِمَّنْ أَطَاعَهُ بِتَوْفِيقِهِ لَهُمْ، وَنَهَى عَنِ الْمَعَاصِي، وَأَرَادَ كَوْنَهَا مِنْ غَيْرِ مَحَبَّةٍ مِنْهُ لَهَا، وَلَا لِلْأَمْرِ بِهَا، تَعَالَى عَزَّ وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَأْمُرَ بِالْفَحْشَاءِ، أَوْ يُحِبَّهَا وَجَلَّ رَبُّنَا وَعَزَّ مِنْ أَنْ يَجْرِي فِي مُلْكِهِ مَا لَمْ يُرِدْ أَنْ يَجْرِيَ، أَوْ شَيْءٌ لَمْ يَحُطْ بِهِ عِلْمُهُ قَبْلَ كَوْنِهِ، قَدْ عَلِمَ مَا الْخَلْقُ عَامِلُونَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُمْ، وَبَعْدَ أَنْ خَلَقَهُمُ، قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا قَضَاءً وَقَدَرًا قَدْ جَرَى الْقَلَمُ بِأَمْرِهِ تَعَالَى فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ بِمَا يَكُونُ، مِنْ بِرٍّ أَوْ فُجُورٍ، يُثْنِي عَلَى مَنْ عَمِلَ بِطَاعَتِهِ مِنْ عَبِيدِهِ، وَيُضِيفُ الْعَمَلَ إِلَى الْعِبَادِ، وَيَعِدْهُمْ عَلَيْهِ الْجَزَاءَ الْعَظِيمَ، وَلَوْلَا تَوْفِيقُهُ لَهُمْ مَا عَمِلُوا بِمَا اسْتَوْجَبُوا بِهِ مِنْهُ الْجَزَاءُ، {ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ} وَكَذَا ذَمَّ قَوْمًا عَمِلُوا بِمَعْصِيَتِهِ، وَتَوَعَّدَهُمْ عَلَى الْعَمَلِ بِهَا وَأَضَافَ الْعَمَلَ إِلَيْهِمْ بِمَا عَمِلُوا، وَذَلِكَ بِمَقْدُورٍ جَرَى عَلَيْهِمْ، يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ، وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ‘‘وہ اپنے بندوں کی اطاعت کو پسند کرتا ہے اور انہیں اسی کا حکم دیتا ہے تو ان کے لئے وہی جاری ہوگا جو اس کی توفیق سے اس کی اطاعت کرے گا اور اس نے نا فر مانی سے روکا ہے اوروہ نافرمانی تو چاہتا ہے لیکن نافرمانی سےنہ وہ محبت کرتا ہے نہ اس کا حکم دیا ہے ، فحاشی کا حکم دینے یا اس سے محبت کرنے سے اللہ عزوجل پاک ہے ،ہمارا رب تو اس بات سے بھی پاک ہے کہ اس کی بادشاہت میں وہ چیزیں رو نما ہوں جس کا اس نے ارادہ ہی نہ کیا ہو یا ایسی چیز سے بھی پاک ہے جس کے بارے میں اس کے ہونے سے پہلے وہ نہیں جانتا تھا ،وہ پیدا کرنے سے پہلے بھی ساری مخلوق کی بابت جانتا تھا کہ وہ کیا کریں گے اور انہیں پیدا کرنے کے بعد بھی جانتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ، قضا وقدر کے جاننے سے پہلےہی اللہ تعالی کے حکم سےہونے والی تمام چیزوں پرخواہ وہ نیکی ہو یا برائی لوح محفوظ میں قلم جاری ہوگیا ، جو بندہ اس کی اطاعت کرتا ہے اس کی وہ تعریف کرتا ہے اور عمل کو اس کی طرف منسوب کرتا ہے اور اس پر جزائے عظیم کا ان سے وعدہ کرتا ہے ، اگر اس کی توفیق شامل حال نہ ہوتی تو وہ ایسا عمل نہیں کرسکتے جس پر اس کی طرف سے انہیں جزا دیا گیا ہے ( یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے ) اسی طرح اس نے نافرمان قوم کی مذمت کیا ،اس پر انہیں دھمکی دیا اور ان کے کرتوت کو ان کی طرف منسوب کیا ہے ، وہی تقدیر ہے ان پر جاری ہو ئی ہے ، وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ (الشریعۃ : للآجری : ۲؍ ۷۰۲)
ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح خلق ، امر اور شرع کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے اسی طرح شرع ، امر اور عقل کے درمیان بھی کوئی تعارض نہیں ہے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جس کا حکم دیاہے یا جس سےمنع کیا ہے یا جسے تقدیر میں لکھ دیا ہے یا جس کی بابت خبر دیا ہے ان میں سے کوئی بھی چیز عقل سے معارض نہیں ہے بلکہ ان سب کا وہی تقاضا ہے جس کا م کاحکم عقل دیتی ہے اور یہی انتہا ئی درجے کی حکمت ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے {ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا} یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ (الإسراء : ۳۹) اور فرمایا: {حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُر} اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا۔ [القمر: 5] ایک جگہ اور فر مایا {وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ } اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے ۔ (النساء: ۱۱۳) اور اسی کے ذریعہ ساری مخلوق پر حجت قائم ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ}آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی ہی رہی۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا۔ (الأنعام : ۱۴۹) شریعت ، امر اور تقدیر ہی سب سے بہتر چیز یںہیں ، اس سے بہتر کچھ نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ} کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے ۔ (المائدۃ : ۵۰ )
اور ابن دیلمی فر ماتے ہیں کہ’’ أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: لَهُ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ، فَحَدِّثْنِي بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ‘‘میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ اس شبہ کو میرے دل سےختم کردے، فرمایا: اگر اللہ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب سے دو چار کردے تووہ عذاب دینے میں ظالم نہیں ہو گااور اگروہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گایہاں تک کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ اور تم جانتے ہو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں ہےکہ تمہیں پہنچ جاتا اور اگر تم اس کے علاوہ پر مر گئے تو جہنم میں داخل ہو گے،( ابن دیلمی) کہتے ہیں کہ پھر میں عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا،کہتے ہیں کہ پھر میں حذیفہ بن یمان کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کہاکہتے ہیں کہ پھر میں زید بن ثابت کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی سے حدیث بیان کیا۔ ( سنن أبی داؤد : ۴۶۹۹، سنن ابن ماجۃ : ۷۷، مسند أحمد : ۲۱۵۸۹، المنتخب من مسند عبد بن حميد: ۲۴۷، القدر للفریابی مخرجا: ۱۹۰، شرح أصول إعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ : ۴؍ ۲۷۶)
اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے اسے احسن القصص کہا ہے کیوں کہ یہ شرع اور امر دونو ںکو متضمن ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ } اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے ۔ (الزمر : ۲۳) گویا اللہ تعالی نے جسے مشروع یا مقدر کیا ہے وہی پورا اور بہتر ہے ، اب عقلیں اسے جان پا ئیں یا نہ جان پا ئیں ، اسے سمجھ پا ئیں یا نہ سمجھ پا ئیں لیکن ہم اللہ تعالی کی شریعت اور اس کی تقدیر پر اپنی عقل اپنی رائےکو ترجیح نہیں دیتے ، نہ تو اچھا کہہ کر اور نہ ہی برا کہہ کر بلکہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالی نے مشروع مقدر کردیا وہی کامل اورمکمل صحیح ہے ۔
ہم ایمان لاتے ہیں کہ شریعت اور تقدیر پورا کا پورا خیر پر مشتمل ہے ، اللہ تعالی نے صرف شر ہی کو مقدر نہیں کیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ‘‘پورا کا پورا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور شر (کا انتساب ) تیری طرف نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم : ۷۷۱، سنن أبی داؤد: ۷۶۱، جامع الترمذی : ۲۶۶، سنن النسا ئی : ۸۹۷)
شر عمومی تقدیر کے ضمن میں آتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ} یقینا ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا ہے ۔ (القمر : ۴۹ ) اور قرآن مجید میںشر کا انتساب اسے انجام دینے والے کی طرف کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ(۱) ٓپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں(۱) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (۲)} اہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے (۲)۔ (الفلق : ۱-۲)
اور ادب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ برائی کا انتساب اللہ تعالی کی طرف نہ کیا جا ئے جیسا کہ اللہ تعالی نے جنوں کی بابت فرمایا {وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا} ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے ۔ (الجن : ۱۰) اور اپنے خلیل کے بارے میں فر مایا {وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ} اور جب میں بیمار پڑجاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔ (الشعراء : ۸۰) گویا بیماری کو انہوں نے اپنی طرف اور شفا کو اللہ کی طرف منسوب کیا ۔