ہمارا ایمان ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا ایمان بالقدر کے منافی نہیں ہے بلکہ اسباب کا اختیار کرنا ایمان بالقضا ء والقدر کا تکملہ ہے ، ایمان بالقدر ایمان کو مکمل کرنے والا ہے ، ہمارے رب نے ہمیں روزی تلاش کرنے کا حکم دیا اور اس نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس نے اسے لکھ رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ۭ وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ} وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست و مطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑے ہونا ہے۔ (الملک: ۱۵)
اور فرمایا {فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ} پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو ۔ (الجمعۃ : ۱۰)
اوراللہ تعالی نے یعقوب علیہ السلام کی وہ گفتگو نقل فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا {يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۚ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ}م اے میرے بچو ! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ (یوسف : ۶۷) سائب بن یزید فر ماتے ہیں کہ ’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ أَخَذَ دِرْعَيْنِ، كَأَنَّهُ ظَاهَرَ بَيْنَهُمَا‘‘ نبی ﷺ نےاحد کے دن دو زرہیں لیا گویا وہ ان دونوں کے درمیان ظاہر تھے(یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں کو پہنا)۔ ( سنن ابن ماجۃ : ۲۸۰۶، سنن سعيد بن منصور: ۲۸۵۸، مسند أحمد : ۱۵۷۲۲، السنن الکبری للنسائی : ۸۵۲۹) اور اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا جس طرح موسی علیہ السلام کو سمندر میں لا ٹھی مارنے کا حکم دیا ، مریم علیہا السلام کو کھجور کا تنہ ہلانے کا حکم دیا تاکہ ان پر کھجور گرے ، ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری دلیلیںہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اسباب اپنانے کا حکم دیا ہے ۔
اور سب سے بڑا سبب دعا ہے جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے اس فرمان {قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}کے بارے میں کہا ’’ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ، وقَرَأَ{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ}(غافر : ۶۰)‘‘دعا ہی عبادت ہے اور پڑھا{تمہارا رب فرماتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری (دعائیں) قبول کروں گاجو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں وہ ضرور ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے} ۔ (سنن أبی داؤد: ۱۴۷۹، جامع الترمذی : ۲۹۶۹، سنن ابن ماجۃ : ۳۸۲۸)
ایک سبب دوا اور رقیہ بھی ہے جیسا کہ ابو خرامہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہو ئے فر ماتے ہیں کہ’’سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ‘‘میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول !آپ کا کیا خیال ہے اس رقیہ کے بارے میں جسے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں ، اس دوا کے بارے میں جس سے ہم علاج کرتے ہیں اور اس ڈھال کے بارے میں جس سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں ؟ کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں ؟ فر مایا یہ اللہ کی تقدیر سے ہے ۔ (جامع الترمذی : ۲۰۶۵، سنن ابن ماجۃ : ۳۴۳۷، الجامع في الحديث لابن وهب: ۶۹۹، مسند أحمد : ۱۵۴۷۲، الآحاد والمثاني لإبن أبی عاصم: ۲۶۱۰)